سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی اہلیہ بشرٰی بی بی جیل سے ضمانت پر رہا ہونے کے بعد پہلی مرتبہ منظر عام پر آئیں تو سعودی عرب دورے کے حوالے سے ایک بیان پر تحریک انصاف کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے سعودی عرب سے متعلق ایک بیان پر ان کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں ٹیلی گراف ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
صوبہ پنجاب کے جنوبی شہر ڈیرہ غازی خان کے تھانہ درخواست جمال میں درج کیے گئے اس مقدمے میں درخواست گزار کا الزام ہے کہ بشریٰ بی بی کا بیان ’پاکستان اور سعودی عرب کی خارجہ پالیسی اور اعلیٰ سطحی امور اور باہمی مفاد عامہ کے خلاف ہے۔‘ اسی طرح ان کے خلاف گوجرانوالہ اور لیہ میں بھی مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
جیل سے نو ماہ بعد ضمانت پر رہائی کے بعد بشریٰ بی بی نے ایک ویڈیو پیغام میں دعویٰ کیا تھا کہ ’عمران خان کے خلاف جو ساری قوتیں کھڑی ہو گئیں اس کی وجہ کیا ہے جو آج تک کسی نے آپ کو نہیں بتائی؟ عمران خان جب سب سے پہلے ننگے پاؤں مدینہ شریف گئے اور واپس آئے تو جنرل باجوہ کو کالز آنا شروع ہو گئیں کہ ’یہ تم کیا اُٹھا کر لے آئے ہو۔ ہم تو ملک میں شریعت ختم کرنے لگے ہیں اور تم شریعت کے ٹھیکیداروں کو لے آئے ہو۔ ہمیں یہ نہیں چاہیے‘۔‘
اس معاملے پر تحریک انصاف کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جمعے کو ایک خطاب کے دوران پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف نے اسے ’پاکستان دشمنی‘ قرار دیا اور کہا کہ ’جو ہاتھ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں رُکاوٹ بنے گا اسے توڑ دیں گے۔‘
دوسری طرف عمران خان کے ایکس اکاؤنٹس پر گذشتہ روز یہ وضاحت دی گئی کہ ’بشریٰ بی بی کے بیان کو توڑ مروڑ کر قوم کی توجہ بٹانے کی ناکام کوشش نہ کی جائے۔ انھوں نے سعودی عرب کا نام نہیں لیا- ہماری حکومت کے خلاف تمام سازشوں میں جنرل باجوہ کا ہاتھ تھا۔‘
ادھر پاکستانی میڈیا پر سابق فوجی سربراہ جنرل باجوہ سے منسوب ایک بیان بھی گردش کر رہا ہے جس کے مطابق جنرل ریٹائرڈ باجوہ نے بشریٰ بی بی کے بیان کو غیر ذمہ دارانہ اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔
بشریٰ بی بی کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت نے اتوار کے روز ملک بھر میں احتجاج کی کال دے رکھی ہے۔ بشریٰ بی بی نے اپنے بیان میں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ عمران خان کا پیغام پہنچا رہی ہیں کہ تمام لوگ اتوار کے روز احتجاج کے لیے گھروں سے باہر نکلیں۔
بعض سیاسی ماہرین کے خیال میں بشرٰی بی بی کی جانب سے ایسا بیان اس موقع پر دانستاً سامنے لایا گیا ہے اور اس کی وجہ اتوار کے روز پی ٹی آئی کا احتجاج ہو سکتا ہے۔
’پی ٹی آئی بیانیے کی تلاش میں‘
پاکستانی سیاست میں سعودی عرب کا ذکر کوئی نئی بات نہیں اور اس سے قبل بھی سعودی حکمرانوں کا پاکستان کی سیاست میں کردار رہا ہے۔
جب 1999 میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ پلٹا اور انھیں قانونی مسائل کا سامنا ہوا تو نواز شریف بھی مبینہ ڈیل کے نتیجے میں جلا وطنی کاٹنے سعودی عرب ہی گئے تھے۔
ایسا بھی پہلی بار نہیں ہوا کہ عمران خان کی سیاست کے حوالے سے سعودی عرب کا ذکر سامنے آیا ہو۔
عمران خان کی حکومت اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات اس وقت خراب ہوتے ہوئے نظر آئے جب اس وقت کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کشمیر کے معاملے پر سعودی عرب سے کُھل کر شکوہ کیا۔
انڈیا کی جانب سے جب اس کے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا کا ایک سال مکمل ہوا تو شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ ’آج میں اسی دوست ملک (سعودی عرب) سے کہہ رہا ہوں کہ پاکستان کا مسلمان اور وہ پاکستانی جو آپ کے لیے لڑ مرنے کو تیار ہے آج وہ آپ سے تقاضا کر رہا ہے کہ آپ (کشمیر کے معاملے پر) وہ قائدانہ کردار ادا کریں جو مسلم امہ آپ سے توقع کر رہی ہے۔۔۔ اور اگر نہ کیا تو میں عمران خان سے کہوں گا کہ ’سفیر کشمیر‘ اب مزید انتظار نہیں ہو سکتا۔ ہمیں آگے بڑھنا ہوگا۔ سعودی عرب کے ساتھ یا اس کے بغیر۔‘
تاہم اس بیان کے بعد اس وقت کی حکومت شدید تنقید کی زد میں آئی اور انھیں سعودی عرب کے حوالے سے کئی وضاحتیں جاری کرنی پڑیں۔
اب ایک بار پھر سعودی عرب کے حوالے سے ہی ایک بیان کے سبب سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جماعت ایک بار پھر تنقید کی زد میں ہے۔
صحافی اور تجزیہ کار راشد رحمان کے خیال میں بشرٰی بی بی کے اس وقت اس قسم کے بیان کی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی ’اس وقت بے چینی سے ایسے بیانیے کی تلاش میں ہے جس سے وہ بتا سکے کہ باہر سے مداخلت کی وجہ سے عمران خان کو اقتدار سے نکالا گیا۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس سے پہلے پی ٹی آئی نے امریکہ اور خاص طور پر ڈونلڈ لو کو اس بیانیے کے لیے استعمال کیا کہ بیرونی مداخلت کی وجہ سے ان کی حکومت ختم ہوئی۔
’لیکن اس کے بعد پھر پی ٹی آئی ہی نے امریکہ میں لابنگ کرتے ہوئے عمران خان اور ان کی جماعت کے لیے امریکی کانگریس کے ذریعے ریلیف لینے کی کوششیں بھی کی ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اب اس میں سعودی عرب کو بھی اس بیانیے میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تاہم راشد رحمان سمجھتے ہیں کہ بشرٰی بی بی کے بیان کی صداقت کے حوالے سے شکوک و شبہات ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ وہ جس دورے کا ذکر کر رہی ہیں یہ وہ دورہ تھا جس پر عمران خان اور ان کی اہلیہ نے سعودی شاہی خاندان کی طرف سے کئی تحائف وصول کیے جو بعد میں پاکستان میں ان کے لیے مسائل کی وجہ بھی بنے۔
’اگر سعودیز کو ان کا ننگے پاؤں مدینہ آنا اتنا بُرا لگا ہوتا تو وہ ان کو اتنے مہنگے تحائف سے بالکل نہ نوازتے۔‘
وہ سمجھتے ہیں کہ بعض حلقوں میں یہ تاثر ضرور پایا جاتا ہے کہ سعودی عرب کے حکام عمران خان سے زیادہ خوش نہیں تھے تاہم ’سعودی عرب عمران خان کی حکومت ختم کروانا چاہے گا، یہ ماننا قدرے مشکل ہے۔‘
کیا اس سے پی ٹی آئی یا عمران خان کو سیاسی نقصان ہو سکتا ہے؟
صحافی اور تجزیہ نگار راشد رحمان کے خیال میں سعودی عرب کے حوالے سے اس قسم کے بیان سے پی ٹی آئی کو سیاسی طور پر نقصان ہی ہو سکتا ہے، فائدہ نہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ سعودی عرب کے حوالے سے یہ بات پاکستان میں سب جانتے ہیں کہ اس نے مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ اس میں حالیہ مثالیں موجود ہیں جہاں سعودی عرب نے پاکستان کے زرِ مبادلہ کو متوازن بنانے میں مدد کی اور حال ہی میں پاکستان میں سرمایہ کاری کے معاہدے بھی کیے ہیں۔
وہ سوال کرتے ہیں کہ ’اس موقع پر اس قسم کے بیان سے پی ٹی آئی کو فائدہ کیا ہو سکتا ہے؟ اس میں تو صرف سیاسی طور پر نقصان ہی نظر آتا ہے۔ اس سے عمران خان کے لیے مشکلات بڑھیں گی، کم نہیں ہوں گی۔‘
’اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے پاس کوئی نیا بیانیہ اس کے علاوہ باقی نہیں رہا کہ ان کی حکومت کو بیرونی طاقتوں نے ختم کروایا یا پھر یہ کہ الیکشن میں ان کا مینڈیٹ چوری کیا گیا ہے۔‘
دوسری جانب پی ٹی آئی کے رہنما زلفی بخاری نے بشریٰ بی بی کے بیان کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ بشریٰ بی بی کے الفاظ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش ہے جو ناقابلِ قبول ہے۔‘
’عمران خان، بشریٰ بی بی اور پاکستان کے لوگوں کے سعودی عرب اور اس کی قیادت کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں۔‘
اس حوالے سے لکھتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ واضح ہے کہ ان کا مطلب یہ تھا کہ یہ تعصب جنرل باجوہ اور ان کے حواریوں کی وجہ سے تھا جو عمران خان کے شلوار قمیض پہننے اور بشریٰ بی بی کے پردہ کرنے کے مخالف تھے۔‘
حکومتی وزرا کا سخت ردعمل مگر تحریک انصاف کی وضاحت
پاکستان کے حکومتی وزرا کی جانب سے بشرٰی بی بی کے ویڈیو بیان پر فوری رد عمل سامنے آیا جس میں سعودی عرب کے حوالے سے ان کے دعوؤں اور الزامات کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
جمعے کو ایک خطاب کے دوران پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بشرٰی بی بی کے بیان کو ’پاکستان دشمنی‘ قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جو ہاتھ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں رُکاوٹ بنے گا اسے توڑ دیں گے۔‘
نائب وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا اور ’ہمیں سعودی عرب سے قریبی تعلقات پر فخر ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’سعودی عرب کو سیاسی مفادات کے لیے نشانہ بنانا افسوسناک ہے۔ سیاسی قوتیں اپنے مقاصد کے لیے خارجہ پالیسی پر سمجھوتہ کرنے سے باز رہیں۔‘
دوسری جانب وزیر دفاع خواجہ آصف نے بشریٰ بی بی کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’اب شریعت کارڈ کا بھی استعمال ہو گا۔‘
تاہم پی ٹی آئی کے کچھ رہنما بشرٰی بی بی کے بیان کو ان کا ’انفرادی بیان‘ قرار دے رہے ہیں۔
خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلی کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف کا کہنا ہے بشریٰ بی بی کے بیان کا پارٹی سے تعلق جوڑنا بے بنیاد ہے کیونکہ سابق خاتونِ اول کے پاس کوئی تنظیمی عہدہ نہیں ہے۔
بیرسٹر سیف نے کہا ہے کہ بشریٰ بی بی کے پاس پارٹی کا کوئی تنظیمی عہدہ نہیں ہے نہ ہی پارٹی کی کوئی سیاسی یا تنظیمی ذمہ داری ہے۔
’وہ اگر کوئی بات کرتی ہیں تو یہ وضاحت کریں گی کہ یہ میرا ذاتی بیان ہے یا پارٹی کا بیان ہے۔ پارٹی کا مؤقف تو چیئرمین یا پارٹی کا سیکریٹری جنرل ہی بیان کرے گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’عمران خان کی اہلیہ محترمہ اگر یہ سمجھتی ہیں کہ ایسی بات ہے تو اس میں پارٹی کا کیا ردِ عمل ہو سکتا ہے، یہ ان کا نقطۂ نظر ہے اور اگر اس سے کوئی پارٹی کا تعلق جوڑتا ہے تو بے بنیاد نسبت جوڑی جا رہی ہے۔‘
’اگر پارٹی میں کوئی سمجھتا ہے کہ عمران خان کو سعودی عرب نے سزا دلوائی ہے یا ہٹایا ہے تو اس پر پارٹی نے کچھ نہیں کیا ہے نہ عمران خان نے کوئی ایسی بات کی ہے۔‘
لیکن پاکستانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب کے خلاف بشریٰ بی بی کے بیان پی ٹی آئی کے لیے نقصان کا باعث بنے گا۔
لاہور میں مقیم تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق ’پی ٹی آئی کو وضاحتیں جاری کرنے کے بجائے اس بیان پر معذرت کرنی چاہیے اور اس سے لاتعلقی کا اظہار کرنا چاہیے۔‘
’اس موقع پر بشریٰ بی بی کے خطاب اور سعودی عرب کے حوالے سے بیان نے جماعت کو پریشان کردیا ہے اور پوری جماعت اب ایک دفاعی پوزیشن میں نظر آتی ہے۔‘
لیکن پی ٹی آئی کا ماننا ہے کہ بشریٰ بی بی کے اس بیان کو ان کے مخالفین 24 نومبر کے احتجاج کو ناکام بنانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
زلفی بخاری اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’یہ مایوس کن اور مضحکہ خیز حربہ‘ پاکستان میں 24 تاریخ کو لوگوں کا جذبہ کم نہیں کر پائے گا۔