اپنی بیوی کا اجنبیوں سے مبینہ ریپ کروانے والا شوہر: ’میری والدہ اس شخص کی دیکھ بھال کر رہی تھیں جس نے اُن کا ریپ کروایا‘

فرانس کے ایک خاندان میں ایک ایسے جُرم کے حوالے سے تفصیلات سامنے آئی ہیں جن کی وجہ سے فرانس کے لوگوں میں تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی ہے اور اس واقعے کی وجہ سے ایک خانداں تقسیم ہو کر رہ گیا۔
فرانس، جزیل پیلیکوٹ
Reuters
عدالت میں گواہی دیتے ہوئے دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگانا انتہائی مُشکل تھا کہ جزیل پیلیکوٹ پر کتنا ظلم ہوا اور انھیں کس قدر تکالیف کا سامنا کرنا پڑا

ایک خاندان کے اندر جُرم کی ایک ایسی دل دہلا دینے والی داستان کے جس میں 71 سالہ جزیل پیلیکوٹ اپنے ہی شوہر کے ہاتھوں مبینہ استحصال کا شکار رہیں۔

اُن کے شوہر اور ملزم ڈومینیک پر الزام ہے کہ انھوں نے انٹرنیٹ کی مدد سے اجنبیوں کی خدمات حاصل کیں اور انھیں گھر بلا کر تقریباً ایک دہائی تک اپنی اہلیہ کا ریپ کرواتے رہے۔

آوینیو کی عدالت میں داخل ہوتے اور گواہی دیتے ہوئے دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگانا انتہائی مُشکل تھا کہ جزیل پیلیکوٹ پر کتنا ظلم ہوا اور انھیں کس قدر تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔

لیکن جیسا کہ اب معاملات کُھل کر سامنے آئے ہیں اور جزیل پیلیکوٹ کی حمایت میں گھر کے ہی دیگر افراد نے آواز اُٹھائی ہے تو اس بات کا احساس ہونے لگا ہے کہ گھر کے سربراہ کی مجرمانہ سرگرمیوں کی وجہ سے گھر کا کوئی بھی فرد بچ نہیں سکا۔

اس خاندان کو پہنچنے والا نقصان واضح ہے۔ گھر کے ہر فرد نے ہی نومبر 2020 میں سامنے آنے والے حقائق کو تباہ کُن بلکہ ان واقعات کو ’سونامی‘ سے تشبیہ دی، جس کے لپیٹ میں سب آئے اور کوئی نہیں بچا۔

پولیس نے پہلی بار ڈومینیک کی اس وقت تفتیش کی جب ستمبر 2020 میں ایک سکیورٹی گارڈ نے انھیں خفیہ طریقے سے ایک شاپنگ سینٹر میں تین خواتین کے سکرٹ کے نیچے سے مناظر فلماتے ہوئے دیکھا۔

لیکن پولیس کو مکمل سچائی کا پتہ لگانے میں ہفتوں لگ گئے جس نے بالآخر اس خاندان کو ہلا کر رکھ دیا۔

انتباہ: اس رپورٹ میں موجود تفصیلات قارئین کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہیں۔

کئی سال تک وہ اپنی اہلیہ کو مدہوش کر دینے والی دوا دے کر انٹرنیٹ کی مدد سے اجنبیوں کو اس بات پر قائل کرتے رہے کہ وہ ان کا ریپ کرنے کے لیے اُن کے گھر آئیں۔

تفتیش کا دائرہ پھیلا تو پولیس نے ڈومینیک کے کمپیوٹر میں ان کی بیوی کی سینکڑوں ایسی تصاویر اور ویڈیوز دریافت کیں جن میں وہ بظاہر مدہوش دکھائی دے رہی تھیں۔

ڈومینیک نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو بے ہوشی کی دوا دیتے تھے۔ استغاثہ کے مطابق ان پر الزام ہے کہ انھوں نے ریپ میں خود بھی حصہ لیا، ان مناظر کو فلمایا اور ریپ کرنے والے مردوں کو بیہودہ زبان استعمال کرنے کی ترغیب دی تاہم اس عمل میں پیسے کا کوئی لین دین نہیں ہوا۔

ڈومینیک کے ساتھ پچاس دیگر مردوں پر بھی مقدمہ چلایا جا رہا ہے تاہم ان میں سے چند ایک نے ہی ریپ کرنے کا اعتراف کیا۔ 20 سے زائد افراد کی شناخت نہیں ہو سکی اور وہ اب بھی مفرور ہیں۔

جزیل پیلیکوٹ نے اس مقدمے کی تقریباً تمام سماعت میں شرکت کی ہے۔ انھوں نے گُمنام رہنے کی بجائے لوگوں کو یہ جاننے کا موقع دیا ہے کہ وہ یہ دیکھیں کہ انھوں نے اب تک کیا برداشت کیا۔

ویڈیوز میں واضح طور پر یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ جزیل پیلیکوٹ کے ساتھ جو کُچھ بھی ہوتا رہا اُس میں اُن کی رضامندی شامل نہیں تھی۔

پیلیکوٹ کو بستر پر بے سود لیٹے خراٹے لیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جبکہ ان کے شوہر مختلف مردوں کو ہدایات دے رہے ہیں کہ وہ انھیں چھوئیں اور اُن کے ساتھ جو چاہیں، وہ کر سکتے ہیں۔

مصنوعی نیند اُن کے دماغ کو تو کسی حد تک تحفظ فراہم کرتی ہے ہاں مگر اُن کا جسم اس سب کے درمیان ایک بے جان شے بن جاتا ہے۔

انھوں نے گزشتہ ہفتے عدالت میں کہا کہ ’میں اب 72 سال کی ہوں اور مجھے نہیں معلوم کہ میرے پاس کتنا وقت بچا ہے۔‘

’تم جھوٹ بولتے ہوئے مر جاؤ گے‘

ڈومینیک پیلیکوٹ کے جُرم کے اثرات اُن کی سابق اہلیہ تک ہی محدود نہیں رہے۔ انکی بیٹی کیرولین ڈیرین جو اب 45 سال کی ہیں، نے عدالت میں اپنے والد پر برہمی کا اظہار کیا۔

ڈومینیک کے کمپیوٹر میں ’میری برہنہ بیٹی‘ کے عنوان سے بنائی گئی ان تصاویر میں کیرولین نیم برہنہ دکھائی دے رہی ہیں اور وہ واضح طور پر نشے کی حالت میں ہیں۔

پیلیکوٹ نے ان تصاویر کے بارے میں متعدد اور بعض اوقات متضاد وضاحتیں پیش کی ہیں حالانکہ انھوں نے اپنی بیٹی کے ساتھ بدسلوکی کی تردید کی۔

انھوں نے اپنی بیٹی سے التجا کی کہ ’میں نے تمہیں کبھی ہاتھ نہیں لگایا‘ لیکن اس مقدمے کے دوران ان کا دوغلا پن بے نقاب ہو چُکا ہے اور وہ واضح طور پر اپنی بیٹی کی طرف سے یقین کرنے کا حق کھو چکے ہیں۔

دورانِ سماعت کیرولین نے چیختے ہوئے اپنے والد کو مخاطب کیا اور کہا کہ ’تم جھوٹے ہو۔ میں تمہارے جھوٹ سے تنگ آ چُکی ہوں اور تُم جھوٹ بولتے ہوئے ہی مرو گے۔‘

انھوں نے اپنے والد پر الزام لگایا کہ وہ ’اب بھی اُنھیں بے شرمی سے بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔‘

کیرولین ڈیرین نے عدالت کو بتایا کہ انھیں لگتا ہے کہ وہ ایک ایسے گُمنام مقدمے کا حصہ ہیں کہ جس کا کوئی ثبوت اور کوئی ریکارڈ ہی موجود نہیں۔

کیرولین نے اسی مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے ایک خیراتی ادارے کی بنیاد رکھی ہے اور سنہ 2022 میں ایک کتاب شائع کی، جس میں اُن حالات و واقعات کا ذکر ہے جن کا سامنا اُن کے خاندان نے کیا۔

اپنی اس کتاب میں انھوں نے اپنی والدہ کے ساتھ اپنے چند اختلافات کی جانب بھی اشارہ کیا کہ والد پر ریپ کے الزامات سامنے آنے کے بعد بھی اُن کی والدہ جیل میں انھیں گرم کپڑے دینے کے لیے گئیں۔

کیرولین نے لکھا کہ ’میں سوچ بھی نہیں سکتی کہ میری والدہ اب بھی اس شخص کی دیکھ بھال کر رہی تھیں جس نے ایک دہائی تک اُن کا ریپ کروایا۔‘

فرانس، ڈیوڈ اور فلورین
Getty Images
کیرولین کے بھائیوں ڈیوڈ اور فلورین نے عدالت میں اپنے والد پر زور دیا کہ وہ سچ بتائیں

کیرولین کے بھائیوں ڈیوڈ اور فلورین نے بار بار اس درد کا حوالہ دیا جس سے وہ گزر رہی تھیں اور اپنے والد پر زور دیا کہ وہ سچ بتائیں۔

فیملی کے سب سے چھوٹے بیٹے 38 سالہ فلورین نے اپنے بائیں جانب شیشے کے ڈبے میں بیٹھے ڈومینک پیلیکوٹ کا سامنا کیا اور کہا کہ ’اگر آپ کے پاس کوئی شرم اور انسانیت ہے تو آپ کے پاس کھونے کے لیے کچھ بھی نہیں بچا تو کیرولین کو سچ بتائیں۔‘

انھوں نے اپنے ذہن میں موجود اُس بات کا بھی ذکر کیا کہ وہ 1980 کی دہائی میں کسی تعلق کی وجہ سے پیدا ہوئے اور اس شک کا اظہار اُنھوں نے اس وجہ سے کیا کیونکہ اُن کے والد اُن کی بجائے اُن کے دیگر بہن بھائیوں سے پیار کرتے ہیں۔

اپنے ذہن میں موجود سوالات کے جواب کی تلاش میں وہ شاید یہ سوچنے پر بھی مجبور ہو گئے کہ وہ اپنے والد کے جرائم کا ثبوت ہو سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ پیٹرنٹی ٹیسٹ کروائیں گے اور ڈومینک پیلیکوٹ کا بیٹا نہ بننا ایک ’راحت‘ ہوگی۔

’میرا بچپن کہیں کھو گیا‘

پیلیکوٹ بچوں میں سب سے بڑے ڈیوڈ اب 50 سال کے ہیں جو اپنے والد سے حیرت انگیز طور پر مشابہت رکھتے ہیں۔

اس ہفتے موقف اختیار کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ وہ والد بننے کے بعد کیسے ڈومینک پیلیکوٹ کے قریب آئے تھے۔

اس کے بعد اُن کی آواز میں پریشانی اور تکلیف مزید عیاں ہو گئی اور یہ تب ہوا کہ جب انھوں نے اس رات کا ذکر کیا کہ جب انتہائی تکلیف کے عالم میں اُن کی والدہ نے انھیں اُن کے والد کی گرفتاری کے بارے میں بتایا تھا۔

پیلیکوٹ کی فائلوں میں ڈیوڈ کی اہلیہ سیلین کی برہنہ تصاویر بھی ملی ہیں جن میں سے کُچھ اُس وقت کی بھی ہیں کہ جب اُن کی جڑواں بیٹیاں ہونے والی تھیں۔ اُن کی یہ تصاویر ایک خفیہ کیمرے کی مدد سے اُس وقت لی گئیں تھیں جب وہ برہنہ حالت میں باتھ روم میں تھیں۔

جذبات سے بھری آواز میں ڈیوڈ نے اپنی ماں کی حالت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے انھیں کمزور اور گُم سُم ایک ٹرین پلیٹ فارم پر کھڑا دیکھا۔ اُن کی زندگی بس اُن کے کتے اور ایک سوٹ کیس تک محدود ہو کر رہ گئی۔‘

اپنے والدین کی جانب سے ان کی اور ان کے بہن بھائیوں کے لیے دی جانے والی سالگرہ کی پارٹیوں کو یاد کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’میرا بچپن غائب ہو گیا۔ سب مٹ گیا۔‘

ایسا لگتا ہے کہ اس خاندان میں جو صدمہ پھیل رہا ہے اس کا کوئی اختتام نہیں۔ ڈیوڈ کا بیٹا، جو اب 18 سال کا ہو چکا ہے، حیران ہے کہ اصل میں کیا ہوا جب ڈومینک نے اسے بچپن میں ’ڈاکٹر کا کھیل‘ کھیلنے کے لیے کہا۔

فیملی کے وکیل نے بدھ کے روز کہا کہ ان کے چھوٹے بہن بھائیوں کو ایک ایسے خاندان میں اپنی جگہ تلاش کرنی ہوگی جس میں ان کی دادی، ان کی ماں، ان کے بھائی اور ان کی خالہ سبھی اپنے دادا کے مظالم کا شکار ہوئے۔

کیرولین کا جوان بیٹا ابھی بھی اپنے نانا سے متعلق سامنے آنے والے الزامات کی وجہ سے صدمے کی حالت میں ہے، وہ یہ جان کر حیران اور پریشان ہے کہ اُن کے نانا نے اُن کی نانی پر کیسے مظالم ڈھائے۔

وکیل سٹیفن بابونیو نے اپنے اختتامی دلائل میں کہا کہ ’یہ خاندان میں ریپ کی وجہ سے ہونے والے مصائب کی گہرائی کا صرف ایک نمونہ ہے۔‘

اس مقدمے کا فیصلہ 20 دسمبر کو متوقع ہے۔ پیلیکوٹ کو 20 سال قید کی سزا کا سامنا ہے جو فرانس میں ریپ کے جرم میں سب سے زیادہ سزا ہے۔

اور ان کی فیملی کے باقی لوگوں کے لیے یہ صدمہ ہمیشہ اُن کے ساتھ رہے گا کیونکہ ان میں سے کوئی بھی کبھی بھی یقینی طور پر نہیں جان سکے گا کہ انھوں نے کیا کیا اور کیا نہیں کیا۔

عدالت میں فون سے بنائی جانے والی ایک ویڈیو دکھائی گئی کہ جس میں ایک میں ایک لمبا برہنہ شخص ایک تاریک بیڈروم کے درمیان کھڑا ہے۔ ایک اور شخص بستر پر بیٹھا مسکرا رہا ہے اور اس کے بغل میں ایک خاتون بے سود پڑی ہیں۔

ان کے پیچھے بیڈ کے ساتھ دراز پر پڑی ایک تصویر کمرے میں کم روشنی کے باوجود واضح طور پر دیکھائی دے رہی ہے۔

یہ تصویر پیلیکوٹ فیملی نے اُس وقت لی تھی کہ جب وہ ایک خوبصورت اور سورج کی روشنی سے بھرپور ایک روشن دن میں ساحل سمندر پر سیر کر رہے تھے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.