لالچ ایسی کہ سگی بیٹی کو بھی برباد کردیا۔۔ مشہور آفت ڈرامہ کے زریعے والدین کو کیا پیغام دینا چاہتی تھیں؟ لکھاری صوفیہ خرم کی چند باتیں

image

“مہک کا کردار ایک ایسی عورت کا کردار ہے جس نے محض دولت کی لالچ میں نا صرف اپنی زندگی تباہ و برباد کی بلکہ اپنی بیٹی کو بھی زمانے بھر میں رسوا کردیا“

یہ کہنا ہے آج کل نجی چینل پر آن ایئر مشہور ڈرامہ سیریل “آفت“ کی لکھاری صوفیہ خرم کا۔ صوفیہ خرم نے 2005 میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور بالخصوص خواتین کے مسائل سے جڑے کئی ڈرامے تحریر کیے۔ ڈرامہ سیریل بیٹی میں جہاں صنفی امتیاز کے بارے میں بیداری پیدا کی وہیں ڈرامہ سیریل لوگ کیا کہیں گے میں شادی شدہ اور گھریلو خواتین کو درپیش مسائل پر گفتگو کی۔

صوفیہ خرم کہتی ہںں کہ ڈرامہ آفت کی کہانی ایک ایسی کہانی ہے جس سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ بچوں کی اچھی تربیت ہی انہیں ایک بہتر انسان بناتی ہے۔ بچے تو معصوم ہوتے ہیں، بہتے پانی کی طرح شفاف ہوتے ہیں پھر آپ جو رنگ چاہیں ان میں گھول دیں۔۔آپ انہیں محبت سکھائیں گے تو یہ محبت سیکھیں گے اور اگر نفرت سکھائیں گے تو یہ وریشہ کی طرح ساری زندگی نفرت کی آگ میں جلتے رہیں گے۔

ڈرامے میں اداکارہ صاحبہ ایسی عورت کا کردار ادا کررہیں ہیں جو لالچی فطرت کے زیر اثر اپنا بسا بسایا گھر برباد کر دیتی ہے اور کچھ برسوں بعد خالی ہاتھ سسرال واپس آکر دوبارہ اپنی بیٹی کے زریعے سابق سسرال والوں کو تباہ کرنے کی سازش کرتی ہے۔ اس دوران وہ یہ بھی بھول جاتی ہے کہ دوسروں کو بربار کرنے کے لئے وہ جس کر مہرے کی طرح استعمال کررہی ہے وہ درحقیقت اس کی سگی بیٹی وریشہ ہے جو ہر وقت نفرت کی آگ میں جلتی رہتی ہے۔

واضح رہے کہ ڈرامہ سیریل آفت اس وقت صارفین میں کافی پسند کیا جارہا ہے اور ناظرین کی بڑی تعداد ڈرامے کی آنے والی اقساط اور مہک (صاحبہ) کے انجام کی منتظر ہے۔


About the Author:

Khushbakht is a skilled writer and editor with a passion for crafting compelling narratives that inspire and inform. With a degree in Journalism from Karachi University, she has honed her skills in research, interviewing, and storytelling.

مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.