سیاسی حلقوں میں پی ٹی آئی کے اسلام آباد مارچ میں بشریٰ بی بیکے متحرک کردار نے اس بحث کو جنم دیا ہے کہ کیا یہ ان کی سیاست میں انٹری ہے یا وہ کارکنوں کو متحرک کرنے کے لیے عمران خان کی کمی کو پورا کر رہی ہیں؟
اتوار کی دوپہر پاکستان تحریکِ انصاف کا قافلہ جب صوبائی دارالحکومت پشاور سے روانہ ہوا تو اُس وقت مقامی میڈیا پر یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ خیبرپخونخوا کے وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور اس قافلے کی سربراہی کریں گے جبکہ بشریٰ بی بی بھی اس میں شامل ہوں گی۔
تاہم جوں جوں قافلہ اسلام آباد کی جانب بڑھتا گیا، پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے بشریٰ بی بی کی ایسی ویڈیوز شیئر کی جانے لگیں جن میں وہ پی ٹی آئی کارکنوں کا جذبہ بڑھانے کی کوشش کر رہی تھیں۔
انھوں نے قافلے کی روانگی کہ بعد ایک مقام پر کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’جب تک خان ہمارے پاس نہیں آئیں گے، یہ مارچ ختم نہیں کریں گے۔ میں آخری سانس تک کھڑی رہوں گی اور آپ نے میرا ساتھ دینا ہے۔‘
یوں رفتہ رفتہ ایسا محسوس ہونے لگا کہ عمران خان کی رہائی سمیت دیگر مطالبات کو لیے ہونے والے اس احتجاج کی قیادت بہرحال بشریٰ بی بی ہی کر رہی ہیں۔
تحریک انصاف کے احتجاج پر بی بی سی اُردو کی لائیو کوریج
انھوں نے کارکنوں کو متحرک کرتے ہوئے اپنے ایک اور خطاب میں کہا کہ ’میرے بچو اور میرے بھائیو! آپ لوگوں نے میرا ساتھ دینا ہے، جو نہیں دے گا ، تب بھی میں کھڑی رہوں گی، کیوں کہ یہ صرف میرے میاں (شوہر) کی بات نہیں ہے، یہ اس ملک اور اس ملک کے لیڈر کی بات ہے۔‘
جواب میں کارکنوں نے پرجوش انداز میں نعرہ لگاتے ہوئے بشری بی بی کو یقین دہانی کروائی کہ وہ ان کا ساتھ دیں گے۔
بشری بی بی کا اس احتجاج میں یہی متحرک کردار حکومتی وزرا کے بیانات کا حصہ بھی بنا۔
گذشتہ روز جب یہ واضح ہو گیا کہ تحریک انصاف کا قافلہ اب اپنی منزل کے قریب ہے تو وفاقی وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں دعویٰ کیا کہ ’جو خاتون (اس احتجاج کو) لیڈ کر رہی ہیں انھیں پتا ہے کہ میں قریب پہنچ چکی ہوں اور میں لیڈر بن گئی ہوں، انھیں اپنا سیاسی مستقبل دکھائی دے رہا ہے۔‘
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر: سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
اسی طرح وزیرِ داخلہ محسن نقوی کی جانب سے بھی اس بارے میں ڈی چوک پر پریس کانفرنس کے دوران کہا گیا کہ ’پی ٹی آئی کو سنگجانی میں احتجاج کرنے کی آفر دی گئی تھی اور اس سلسلے میں گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران اڈیالہ جیل میں عمران خان سے دو ملاقاتیں ہوئیں اور وہاں سے اجازت بھی مل گئی تھی لیکن شاید عمران خان سے اوپر بھی کوئی لیڈرشپ آ گئی ہے جس نے یہ ماننے سے انکار کیا ہے تو مجھے نہیں پتا۔۔۔‘
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ بشریٰ بی بی کی سیاست میں باقاعدہ انٹری ہے یا عمران خان کی غیرموجودگی میں اُن کی کمی پورا کرنے کی ایک کوشش؟
’بشریٰ بی بی خلا کو پُر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں‘
عمران خان کی جانب سے 24 نومبر کے احتجاج کی کال دیے جانے اور توشہ خانہ کیس میں ضمانت پر رہائی کے بعد سے بشریٰ بی بی سیاسی منظرنامے پر کسی حد تک متحرک دکھائی دی ہیں۔
اس احتجاج کے پس منظر میں کچھ دن قبل ہی بشریٰ بی بی کا ایک ویڈیو پیغام بھی سامنے آیا تھا جس میں انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ’عمران خان جب ننگے پاؤں مدینہ شریف گئے اور واپس آئے تو جنرل باجوہ کو کالز آنا شروع ہو گئیں کہ یہ تم کیا اُٹھا کر لے آئے ہو۔ ہم تو ملک میں شریعت ختم کرنے لگے ہیں اور تم شریعت کے ٹھیکیداروں کو لے آئے ہو۔ ہمیں یہ نہیں چاہیے۔۔۔‘
اس ویڈیو بیان کے بعد بشریٰ بی بی کو سیاسی و حکومتی حلقوں کی جانب سے کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا اور وزیر اعظم شہباز شریف نے اُن کے اس بیان کو پاکستان اور سعودی عرب کے ’تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش‘ قرار دیا تھا۔
سابق خاتون اول نے اپنے اس خطاب میں مقتدر حلقوں کو مخاطب کر کے عمران خان کی رہائی سے متعلق بھی ایک پیغام دینے کی کوشش کی تھی۔
انھوں نے کہا تھا کہ ’میں اداروں کو بھی یہ بتانا چاہتی ہوں کہ عمران خان طاقت میں آ کر کسی سے بدلہ لینے کی خواہش نہیں رکھتے، جیل میں انھوں نے سیکھا ہے کہ طاقت میں آ کر معافی کا دروازہ کُھلا رکھتے ہیں، جو بھی ان کے حوالے سے یہ کہہ رہا ہے کہ وہ بدلہ لیں گے تو یہ سب جھوٹ ہے۔‘
اگرچہ بشریٰ بی بی ماضی قریب میں واضح کر چکی ہیں کہ اُن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی وہ سیاست میں آنا چاہتی ہیں اور وہ یہ سب کچھ صرف عمران خان کی اہلیہ ہونے کے ناطے ان کا پیغام پہنچانے کے لیے کر رہی ہیں تاہم سیاسی حلقوں میں پی ٹی آئی کے اسلام آباد مارچ میں ان کے متحرک کردار نے اس بحث کو جنم دیا ہے کہ کیا یہ اُن کی سیاست میں باقاعدہ انٹری ہے یا وہ کارکنوں کو متحرک کرنے کے لیے عمران خان کی کمی کو پورا کر رہی ہیں؟
سینئیر صحافی و تجزیہ کار امتیاز گل نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے لیے یہ غیر معمولی حالات ہیں اور اُن کے لیڈر عمران خان ایک سال سے زائد عرصے سے جیل میں بند ہیں ایسے میں علیمہ خان ہو، عظمیٰ خان ہو یا بشریٰ بی بی یہ سب اُن کی کمی کو پورا کرنے کے لیے سیاسی منظر نامے پر سامنے آئیں ہیں۔
امتیاز گل کا کہنا تھا کہ بشریٰ بی بی کے حالیہ بیانات یا پارٹی معاملات میں کردار کو اُن کی سیاست میں انٹری کہنا کچھ قبل از وقت ہے بلکہ اُن کا یہ کردار کارکنوں اور پارٹی کو متحرک رکھنے اور عمران خان کے خلا کو پر کرنے کے لیے ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ جیسے پاکستان میں پیپلز پارٹی کا تصور بھٹو خاندان، مسلم لیگ ن کا تصور شریف خاندان کے بِنا ادھورا ہے ایسے ہی پی ٹی آئی کے لیے عمران خان لازمی ہیں۔
’اب ان کی غیر موجودگی میں بشریٰ بی بی بطور اہلیہ یہ خلا پُر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔‘
مگر کیا یہ سیاسی موروثیت نہیں اور پی ٹی آئی اپنی حریف جماعتوں کو ماضی میں اس بارے میں تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہے؟ اس سوال کے جواب میں امتیاز گل نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پی ٹی آئی کے لیے حالات غیر معمولی ہیں اور جب کوئی پارٹی سربراہ جیل میں قید ہو تو اس کے گھر والوں کو ہی سامنے آنا پڑتا ہے، بشریٰ بی بی بھی اس وقت بالکل ویسے ہی سیاسی منظرنامے پر موجود ہیں جیسے ماضی میں نواز شریف کے جیل جانے کے بعد ان کی اہلیہ کلثوم نواز کچھ وقت کے لیے متحرک ہوئی تھیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ موروثیت یہ نہیں کہ عمران خان کی جگہ اب ان کی بہنیں یا اہلیہ پارٹی معاملات میں متحرک ہیں بلکہ اگر وہ اپنے اہلیہ یا بہنوں کو کوئی عوامی عہدہ دیتے ہیں یا کسی سرکاری عہدے پر تعینات کرتے تو یہ موروثیت ہوتی۔
انھوں نے سوال کیا کہ ’موروثی سیاست وہ ہے جیسے بلاول بھٹو بنا کسی تجربے کے وزیر خارجہ بن گئے تھے یا مریم نواز شریف محض نواز شریف کی بیٹی ہونے کے ناطے وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں۔ یہ عوامی عہدے ہیں جہاں ان لوگوں کو ایک دن کا بھی تجربہ نہیں۔ کیا پیپلز پارٹی میں کوئی ایسا نہیں تھا جو وزیر خارجہ بن سکتا یا مسلم لیگ ن میں کوئی ایسا نہیں جو وزیر اعلیٰ بن سکتا۔‘
’بشریٰ بی بی کی پراسرار رہائی اور مستقبل میں سیاست میں کردار‘
تاہم دوسری جانب صحافی و تجزیہ سلمان غنی اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بشریٰ بی بی اور ان کے خاندان کو جانتے ہوئے وہ سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے اسلام آباد مارچ میں ان کا کردار اس بات کو واضح کرتا ہے کہ وہ ماضی طرح مستقبل میں بھی پارٹی اور ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کریں گی۔
سلمان غنی کا کہنا ہے کہ بشریٰ بی بی ایک پرعزم اور پرجوش شخصیت کی حامل ہیں اور یہ پی ٹی آئی مارچ ان کی سیاست میں انٹری کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ماضی میں بھی وہ پس پردہ رہ کر سیاسی معاملات میں کردار اور فیصلہ سازی کرتی رہی ہیں اور اس کی سب سے بڑی مثال عثمان بزدار کا وزیر اعلیٰ پنجاب بننا تھا۔
سلمان غنی کہتے ہیں کہ عمران خان کے دور اقتدار میں بشریٰ بی بی پر پنجاب میں تمام سیاسی و انتظامی عہدوں پر اپنے مرضی کے بندے لگوانے کا الزام لگتا تھا اور یہ ان کا سیاست میں کردار اور فیصلہ سازی کو ظاہر کرتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگر عمران خان پر قائم مقدمات کا جائزہ لیا جائے تو 190 ملین پاؤنڈ ہو یا توشہ خانہ بشریٰ بی بی ان مقدمات میں فریق ہیں۔
انھوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو ان کی ضمانت پر رہائی بھی پراسرار ہے اور یہ ایک خاص مقصد کے تحت ہے تاکہ وہ عمران خان کی غیر موجودگی میں اپنا سیاسی کردار کھل کر ادا کر سکیں۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ جس طرح سے بشریٰ بی بی نے سعودی عرب سے متعلق بیان دیا یہ جس طرح سے وہ پشاور میں بیٹھ کر پارٹی کارکنوں کو ہدایات دے رہی ہیں اس سے ان کی سیاسی عزائم واضح ہوتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ مستقبل میں پی ٹی آئی کی سیاست اور ملکی سیاست میں ان کا ایک کردار ہو گا۔
موروثیت کے متعلق پی ٹی آئی کے موقف سے حوالے سے بات کرتے ہوئے سلمان غنی کا کہنا تھا کہ اگرچہ عمران خان موروثی سیاست کے خلاف رہے ہیں مگر وہ اپنے فیصلوں پر یو ٹرن لینے کے بھی ماہر ہیں اور لگتا ہے کہ اس بار بھی ایسا ہی ہو گا۔