شامی باغیوں کی ’ناقابل یقین‘ پیش قدمی جس نے بشار الاسد سمیت روس کو بھی مشکل میں ڈال دیا

حیات التحریر الشام نامی باغی گروہوں کے اتحاد نے 27 نومبر کے بعد ترکی کی سرحد سے منسلک ادلب صوبے سے نکل کر چند ہی دن میں شامی فوجیوں کو شکست در شکست سے دوچار کر دیا جسے ایک سینئر بین الاقوامی سفیر نے مجھ سے بات کرتے ہوئے ’ناقابل یقین‘ قرار دیا۔
شام
Getty Images

شام میں پھر سے چھڑ جانے والی جنگ اسی تنازعے کا شاخسانہ ہے جس نے مشرق وسطی کو گزشتہ سال سات اکتوبر کے دن اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد سے گھیر رکھا ہے۔

حماس کے حملے اور اس کے بعد اسرائیل کی جوابی کارروائی نے خطے میں قائم جمود توڑ ڈالا تھا۔ شام میں گزشتہ چند دنوں میں پیش آنے والے واقعات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ مشرق وسطی میں جاری تنازع تھم نہیں رہا، بلکہ شدت اختیار کر رہا ہے۔

2011 کے بعد تقریبا ایک دہائی کی جنگ کے باوجود شام کے حکمران بشار الاسد اپنا اقتدار بچانے میں کامیاب رہے تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے والد سے ورثے میں ملنے والی حکومت کو بچانے کے لیے ملک کو توڑنے کے لیے تیار تھے۔

انھوں نے روس، ایران اور لبنان کی حزب اللہ جیسے طاقتور اتحادیوں پر انحصار کیا جنھوں نے نام نہاد دولت اسلامیہ سمیت امریکی اور مشرق وسطی کے دولت مند ممالک کے حمایت یافتہ گروہوں سے نمٹنے میں شام کی مدد کی۔

لیکن پھر ایران کو اسرائیلی حملوں کا سامنا کرنا پڑا جبکہ حزب اللہ، جو اپنے بہترین جنگجو شام میں لڑائی کے لیے بھیجا کرتی تھی، کو بھی اسرائیلی حملوں کی وجہ سے بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ روس نے گزشتہ چند دنوں میں شام میں باغیوں کے خلاف فضائی حملے کیے ہیں لیکن اس کی عسکری طاقت مکمل طور پر یوکرین سے نبردآزما ہے۔

شام
Getty Images

ایسے میں شام میں جاری جنگ مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی تھی۔ ہاں، یہ ضرور ہوا کہ خطے اور بین الاقوامی تنازعوں کے بیچ شام کی خانہ جنگی شہ سرخیوں میں اپنی جگہ برقرار نہیں رکھ سکی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ صحافیوں کے لیے شام میں جا کر رپورٹنگ کرنا تقریبا ناممکن ہو گیا تھا۔ چند مقامات پر جنگ معطل ہوئی لیکن یہ معاملہ ادھورا رہا۔

بشار الاسد کی حکومت 2011 کی طرح سے مکمل طاقت پھر سے حاصل نہیں کر پائی اگرچہ کہ اس کی جیلیں قیدیوں سے بھر چکی تھیں۔ لیکن چند چند قبل تک شام کے اہم شہر اور مرکزی شاہراہیں بشار الاسد کے کنٹرول میں تھے۔

لیکن حیات التحریر الشام نامی باغی گروہوں کے اتحاد نے 27 نومبر کے بعد ترکی کی سرحد سے منسلک ادلب صوبے سے نکل کر چند ہی دن میں شامی فوجیوں کو شکست در شکست سے دوچار کر دیا جسے ایک سینئر بین الاقوامی سفیر نے مجھ سے بات کرتے ہوئے ’ناقابل یقین‘ قرار دیا۔

اس برق رفتار حملے کے دو دن بعد ہی حلب کے قدیم شہر سے جنگجووں کی تصاویر سامنے آنے لگی تھیں جو 2012 سے 2015 تک شامی فوج کا ’ناقابل تسخیر اڈہ‘ سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت یہ شہر حکومتی فوج اور باغیوں کے درمیان لڑائی کا مرکز تھا۔

حلب پر قبضے اور شامی فوج کی شکست کے بعد ماحول کافی پرسکون دکھائی دیا۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک تصویر میں یونیفارم میں ملبوس مسلح جنگجو ایک فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ میں فرائیڈ چکن کے لیے قطاریں بنا کر انتظار کرتے دکھائی دیے۔

حیات التحریر الشام نامی گروہ نے 2016 میں القاعدہ سے اپنی راہیں جدا کر لی تھیں اور ایسا وقت بھی آیا جب ان دونوں کے بیچ لڑائی بھی ہوئی۔ حیات التحریر الشام کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل سمیت امریکہ، یورپی یونین، ترکی اور برطانیہ نے ’دہشت گرد گروہ‘ قرار دے رکھا ہے۔

شام
Getty Images

اس گروہ کے سربراہ ابو محمد الجولانی عراق اور شام میں طویل تاریخ رکھتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں انھوں نے جہادی نظریے سے ہٹ کر زیادہ بڑے پیمانے پر اپنے گروہ کو حمایت دلوانے کی کوشش کی ہے۔ اب یہ گروہ اپنی زبان اور اعلانات میں اسلامی یا جہادی نظریات کے استعمال سے پرہیز کرتا ہے۔

منا اللامی بی بی سی مانیٹرنگ میں جہادی میڈیا پر مہارت رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حیات التحریر الشام کی کوشش ہے کہ اپنے ماضی سے دوری اختیار کرے اور اپنے حملے کو شامی حکومت کےخلاف مزاحمت کے طور پر پیش کرے۔

واضح رہے کہ شام کے شہری شدت پسندانہ جہادی نظریات کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ 2011 میں حکومت مخالف مظاہروں کے بعد جب جمہور پسند احتجاج کی قیادت جہادی گروہوں کے ہاتھ آ گئی تو بہت سے شامی شہری اس سے دور ہوتے چلے گئے یا انھوں نے مجبورا حکومت کا ساتھ دیا کیوں کہ انھیں دولت اسلامیہ جیسی انتہاپسندانہ سوچ سے خوف آتا تھا۔

شام
Getty Images

حالیہ حملہ، جس کی قیادت حیات التحریر الشام کر رہی ہے، شمالی شام کے سیاسی منظر نامے سے تعلق رکھتا ہے۔ شمال مغرب میں ’شامی ڈیموکریٹک فورسز‘ کا غلبہ ہے جس کی سربراہی کرد کر رہے ہیں اور انھیں امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔ اس علاقے میں 900 امریکی فوجی بھی تعینات ہیں۔

اس تنازع میں ترکی بھی ایک بڑا کھلاڑی ہے جس نے سرحدوں پر اپنے فوجی تعینات کر رکھے ہیں اور چند عسکری گروہوں کی حمایت بھی کرتا ہے۔

شام سے سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق باغیوں نے سرکاری ہیلی کاپٹروں سمیت عسکری سازوسامان کی وافر مقدار پر بھی قبضہ کر لیا ہے اور اب دمشق کے راستے پر اگلے اہم شہر حما کی جانب رخ کر رہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ شام کی حکومت اور اس کے اتحادی فضائی طاقت سے جوابی کارروائی کریں گے۔ باغیوں کے پاس ایئر فورس نہیں ہے۔ تاہم ایسی خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ باغیوں نے ڈرون کی مدد سے شام کے ایک سینئر انٹیلیجنس افسر کو قتل کیا ہے۔

ایسے میں شام کی صورت حال بین الاقوامی سطح پر خطرے کی گھنٹیاں بجا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے سفیر برائے شام، گیئرپیڈیرسن، نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’تازہ پیش رفت شہریوں کے لیے خطرات پیدا کر رہی ہے اور علاقائی اور بین الاقوامی سکیورٹی کے لیے اس کے سنجیدہ اثرات ہو سکتے ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ شام کا تنازع عسکری طاقت سے حل نہیں کیا جا سکتا۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی جانب سے 2015 میں منظور ہونے والی قراردار پر عملدرآمد میں ناکامی ہوئی جس کے تحت امن کا ایک منصوبہ پیش کیا گیا تھا۔ اس کے مطابق یہ طے ہوا تھا کہ شام کے لوگ ہی ملک کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔

اس قرارداد کا مقصد تھا کہ آزادانہ انتخابات اور ایک نیا منشور لایا جائے گا۔ لیکن اس قرارداد پر عمل کرنے سے بشار الاسد اور ان کے خاندان کو اقتدار چھوڑنا پڑتا۔

تاہم اس وقت یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ بشار الاسد کا اقتدار خطرے میں ہے۔ ان کو کافی حمایت حاصل ہے۔ بہت سے شامی شہری ان کی حکومت کو سب سے کم برا آپشن سمجھتے ہیں، کم از کم ان جہادیوں سے بہتر جو باغی قیادت پر حاوی ہو چکے ہیں۔

تاہم اگر دیگر مخالف گروہ بھی ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، جن کی تعداد کافی ہے، تو پھر بشار الاسد کا اقتدار واقعی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.