ہمارے جسم سے آنے والی مہک ہمیشہ ایک سی نہیں ہوتی بلکہ یہ ہماری پوری زندگی کے مختلف ادوار میں بدلتی رہتی ہے۔ اس میں تبدیلیاں نہ صرف ہماری زندگی کی عکاس ہوتی ہیں بلکہ سماجی اور ارتقائی انتخاب کو بھی بیان کرتی ہیں۔
آج آپ کے لیے ایک چھوٹا سا چیلنج ہے۔ کیا آپ اپنے پاس بیٹھے ہوئے کسی شخص کی عمر کا اندازہ محض اپنے سونگھنے کی حس کا استعمال کرتے ہوئے لگا سکتے ہیں؟
اس شخص نے کوئی پرفیوم نہیں لگا رکھا ہوگا مگر اس کے اپنے جسم کی مخصوص مہک ہو گی جس سے آپ کو اس کی عمر کے بارے میں بتانا ہے۔
یہ چیلنج مجھے ٹک ٹاک پر نہیں ملا تاہم مجھے ایک ایسی تحقیق ضرور ملی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم کسی شخص کی اپنی قدرتی بو کی وجہ سے اس کی عمر میں امتیاز کیسے کر سکتے ہیں۔
ہمارے جسم سے آنے والی مہک ہمیشہ ایک سی نہیں ہوتی بلکہ یہ ہماری پوری زندگی کے مختلف ادوار میں بدلتی رہتی ہے اور اس میں رونما ہونے والی تبدیلیاں نہ صرف ہماری حیاتیاتی (بیالوجیکل) زندگی کی عکاس ہوتی ہیں بلکہ سماجی اور ارتقائی انتخاب کو بھی بیان کرتی ہیں۔
والدین کی محبت کو مضبوط کرنے والی بچے کی مہک
بچپن میں ہمارے جسم کی بو عام طور پر پسینے کے غدود کے کم متحرک ہونے اور جلد کی سادہ مائیکرو بایوم کی وجہ سے ہلکی ہوتی ہے۔
اس کے باوجود، والدین اس ’خوشبو‘ کو بخوبی پہچانتے ہیں جو دیگر بچوں کے مقابلے میں ان کے اپنے بچے میں سے آتی ہے۔
یہ بو والدین میں ایک خوشگوار اور مانوس جذباتی لگاؤ پیدا کرتی ہے اور بچے کے ساتھ خوشی اور پیار کے جذبات کو متحرک کر کے والدین میں موجود تناؤ کو کم کرنے میں بھی مدد دیتی ہے۔
تاہم پوسٹ پارٹم ڈپریشن میں جانے والی مائیں بچوں کے اندر سے آنے والی پُراثر مہک کے اثرات سے محروم رہ جاتی ہیں۔
خالصتا عملی ارتقائی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو بچوں سے آنے والی مخصوص بو اتنی موثر ہوتی ہے کہ والدین کو اپنی آنے والی نسل پر سرمایہ کاری پر بھی راغب کرتی ہے۔
بلوغت میں انسانی مہک
جوانی کے آغاز میں انسان کے جسم کی بو میں نمایاں تبدیلیاں ہوتی ہیں۔
یہ تبدیلی جنسی ہارمونز کی پیداوار کی وجہ سے ہوتی ہیں اور جو پسینہ لانے والے ایکرائن گلینڈ (eccrine glands) اور جلد کے اہم غدود سبیکیوس (sebaceous gland) کو متحرک کرتی ہیں۔
پسینہ لانے والے زیادہ تر غدود پانی اور نمکیات کو خارج کرتے ہیں، جبکہ ایپوکرائن غدود (بغل اور زیر ناف موجود بالوں سے وابستہ) پروٹین اور دیگر فیٹ پر مشتمل بخارات کو خارج کرتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک غدود سے ہر انسان کے اندر اپنی انسانی مہک پیدا کرتا ہے۔
ہمارے اندر موجود لیپڈ اور سیبم جیسے مادوں کا غدود کے ذریعے اخراج ہوتا ہے۔ مگر بیکٹیریا سے مل کر ہماری بو ایک ناگوار مہک میں بدل جاتی ہے۔ اور یوں بعض نوجوانوں کا پسینہ ان کے جسم کی اپنی مہک کے ساتھ مل کر بدبو بنا دیتا ہے۔
دیگر غیر مستحکم مالیکیول جو بچوں کے مقابلے میں نوعمروں کے پسینے میں زیادہ مقدار میں خارج ہوتے ہیں اور اوکسیڈائز ہونے پر اینڈروسٹینون (مشک کی طرح تیز پسینے اور پیشاب کی بدبو)، اینڈروسٹینول (صندل کی لکڑی یا کستوری کی طرح) اور سکولین (چکنائی یا قدرے دھاتی) ان میں حاوی ہوتا ہے۔
جسم کی بو سے بچوں کو پہچاننے کی صلاحیت ماؤں اور باپ دونوں میں اس وقت کم ہو جاتی ہے جب ان کی اولاد کا بچپن ختم ہوتا ہے اور وہ مکمل جوانی میں داخل ہو جاتے ہیں۔
پہچان میں مددگار
سیبیسیئس غدود جوانی میں اپنے عروج پر پہنچ جاتے ہیں۔
اگرچہ جوانی کے مقابلے میں درمیانی عمر تک پہنچنے پر ان کی شدت میں کمی آتی ہے تاہم ہر انسان میں اس کے جسم کی مخصوص بدبو اب بھی ہر فرد میں موجود ہوتی ہے اور اس کا انحصار خوراک، تناؤ، ہارمون کی سطح یا جلد کے مائیکرو بایوم جیسے عوامل پر ہوتا ہے۔
لیکن زندگی بھر بدلتی بو کا کیا فائدہ اگر ہم اسے محسوس کرنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں۔
یوں تو غلطی سے مبرا کوئی بھی نہیں تاہم ڈارون اس وقت درست نہیں تھے جب انھوں نے کہا کہ ’اگر انسان کے اندر کوئی مخصوص بو ہے تو بھی یہ اتنی اہم بات نہیں۔‘
درحقیقت انسان کی بو اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں بے حد کارآمد ہے خصوصاً اس وقت جب تاریک یا شور والے ماحول میں یا کسی اور وجہ کے باعث بصارت یا سماعت محدود ہو۔
یہ بو ہمیں ہمیں ماضی کے واقعات کا پتہ لگانے میں بھی مدد دیتی ہے کیونکہ بدبو کے مالیکیول جگہ اور وقت میں برقرار رہتے ہیں۔
لہٰذا کسی کی مخصوص مہک اس کے پہچان جاننے میں بہت مددگار رہتی ہے اور اس سے اپنے جاننے والوں کی عمر، جنس، شخصیت، بیماریوں اور جذبات سے متعلق معلومات مل سکتی ہیں۔
دوسرے جانوروں کی طرح جسم کی بدبو ساتھی کے انتخاب، رشتہ داری کی پہچان یا جنسی تفریق میں مدد کرتی ہے۔
بڑھتی عمر میں جسم کی بو کا کیا ہوتا ہے
عمر بڑھنے کے ساتھ ہماری جلد میں لچک اور کولیجن کی کمی پسینے اور غدود سبیکیوس کی سرگرمی کو کم کرتی جاتی ہے۔
ان کی کمی سے بزرگ لوگوں کو جسم کے درجہ حرارت کو برقرار رکھنے میں مشکل ہوتی ہے۔
جہاں تک سبیکیوس گلینڈ کا تعلق ہے، عمر بڑھنے کے ساتھ نہ صرف اس کی پیداوار کم ہوتی ہے بلکہ اس کی ساخت میں بھی تبدیلی آتی ہے، جس سے اینٹی آکسیڈینٹ مرکبات جیسے وٹامن ای یا سکولین کی مقدار کم ہوتی ہے۔
جلد کے خلیات کی طرف سے اینٹی آکسیڈینٹ کی پیداوار کی کمی سے آکسیڈیشن کے ردعمل میں اضافے کا باعث بنتا ہے، جس سے بوڑھے افراد میں وہ بو پیدا ہوتی ہے، جسے جاپانی کیریشو کہتے ہیں۔
اس طرح 40 سال کی عمر کے بعد جلد میں کچھ فیٹی ایسڈز جیسے کہ اومیگا 7 اور پلمیٹولیئس ایسڈ (palmitoleic acid) کے عمل کا طریقہ تبدیل ہونا شروع ہو جاتا ہے جو جسم کی مہک کو تبدیل کر دیتا ہے۔
ویسے دیکھا جائے تو یہی مرکب پرانی بیئر اور بکواہیٹ میں بھی پایا جاتا ہے اور اسے چکنائی، گھاس کی بو کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔
اگر کچھ لوگوں کے لیے یہ بو ناگوار ہے تو وہیں ہم میں سے اکثر اسے دادا دادی اور والدین کی اچھی یادوں سے جوڑ دیتے ہیں۔
بچپن کی طرح اس وقت ہمارے بزرگوں کی دیکھ بھال کو برقرار رکھنے میں بھی اس سے مدد ملتی ہے۔
جان لیں کہ بڑھاپے کی بو کا حفظان صحت سے اتنا گہرا تعلق نہیں ہے بلکہ نانینول نامی مرکب کی افزائش ہے جسے نہانے یا کپڑے دھونے سے آسانی سے نہیں ہٹایا جاتا۔
جیسے جیسے جلد پختہ ہوتی جاتی ہے، اس کا اینٹی آکسیڈنٹ کی تحفظ کم ہوتا جاتا ہے، جس سے نانینول مرکب کی زیادہ موجودگی پیدا ہوتی ہے۔
لہٰذا اس اثر کو کم سے کم کرنے کے لیے سب سے اچھی چیز وافر مقدار میں پانی پینا، ورزش کرنا، صحت مند غذا کی پیروی کرنا، تناؤ کو کم کرنا اور تمباکو کا استعمال کم کرنا اور شراب ترک کرنا شامل ہے۔
یہ تمام عادات ہماری بدبو کے لیے ذمہ دار آکسیڈیٹیو تناؤ کو کم کرتی ہیں۔