کنگ کوبرا سے متعلق اکثر یہی کہا جاتا رہا ہے کہ اس نسل کا کوئی اور سانپ نہیں مگر حال ہی میں یہ معلوم ہوا ہے کہ کنگ کوبرا کی ہی نسل کے چار اور سانپ بھی اس دُنیا میں پائے جاتے ہیں۔
کنگ کوبرا جو اپنے مہلک زہر کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہ ہمیشہ سے ہی توجہ کا مرکز رہا ہے مگر یہ بات بھی درست ہے کہ جہاں یہ انسانوں کو اپنے حجم اور خوبصورتی کی وجہ سے اپنی جانب متوجہ کرتا ہے وہیں یہ انھیں خوفزدہ بھی کرتا ہے۔
لیکن اب معروف ہرپیٹولوجسٹ یعنی رینگنے والے جانوروں کے ایک ماہر ڈاکٹر گوری شنکر نے کنگ کوبرا کے بارے میں ایک نیا انکشاف کیا ہے۔ انھیں اس بات علم ہوا ہے کہ دراصل کنگ کوبرا کی چار مختلف اقسام ہیں۔
ڈاکٹر شنکر کی یہ دریافت ایک انتہائی خوفناک تجربے سے شروع ہوئی۔ سنہ 2005 میں انھیں کنگ کوبرا نے کاٹ لیا تھا جس کے نتیجے میں ڈاکٹر شنکر موت کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔
اس خوفناک تجربے نے انھیں کنگ کوبرا کے بارے میں متجسس کر دیا اور انھوں نے سانپوں کی اس خاص قسم کے بارے میں پڑھنا اور جاننا شروع کیا۔
صدیوں پرانا راز
کنگ کوبرا سے متعلق پہلی بار 1836 میں کُچھ حقائق تب سامنے آئے تھے کہ جب ڈنمارک کے ایکمحقق تھیوڈور ایڈورڈ کینٹر نے دنیا کو اس کے بارے میں بتایا تھا۔
تاہم حال ہی میں ہونے والی ایک بڑی دریافت میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کنگ کوبرا کی ایک نہیں بلکہ چار مختلف اقسام اس دُنیا میں پائی جاتی ہیں۔
ڈاکٹر ایس آر گنیش ڈاکٹر گوری شنکر کی قیادت میں تحقیقی ٹیم کے اہم رکن ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’ہم کنگ کوبرا کے بارے میں اب بھی زیادہ نہیں جانتے کیونکہ ہم نے اُن قدرتی مقامات پر زیادہ تحقیق ہی نہیں کی کہ جہاں یہ سانپ رہتے ہیں۔‘
مگر اب اس جدید دور میں اس بات کا علم ہونا کہ کنگ کوبرا سانپ کی چار اقسام اس دُنیا میں موجود ہیں، مستقبل میں ان کے حوالے سے ہونے والی تحقیق کے لیے انتہائی اہم ثابت ہوگی۔
اب بھی یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کنگ کوبرا سے متعلق اب بھی بہت سے راز ایسے ہیں کہ جن پر سے پردہ اٹھنا ابھی باقی ہے۔ یہ دریافت ان کے بارے میں مزید جاننے کی جانب ایک پہلا قدم ثابت ہوگی۔
کنگ کوبرا کی مختلف اقسام
تحقیقی ٹیم نے کئی علاقوں سے 200 سے زیادہ کنگ کوبرا کے جین (DNA) کا مطالعہ کرکے چار مختلف انواع یا نسلیں دریافت کی ہیں۔
اوفیو فیگس کلنگا: انڈیا کے مغربی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔
اوفیو فیگس ہننا: مشرقی پاکستان، شمالی انڈیا اور شمال مشرقی انڈیا کے مختلف علاقوں میں پایا جاتا ہے۔
اوفیو فیگس بنگارس: انڈیا اور چین کے مختلف علاقوں میں رہتے ہیں۔
اوفیو فیگس سالوتانا: انڈو ملائیشیا اور فلپائن میں لوزون جزیرہ نما تک پایا جاتا ہے۔
اینٹی وینم یا زہر کا اثر ختم کرنے کے ماہر ڈاکٹر منوج کہتے ہیں کہ یہ دریافت طویل عرصے سے سانپوں کی اس نسل کے بارے موجود حقائق اور عقائد کو چیلنج کرتی ہے اور کنگ کوبرا کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد بھی دیتی ہے۔
ڈاکٹر منوج فی الحال آئی سی ایم آر کے ساتھ سانپوں کی ایک اور خطرناک قسم رسل وائپر کے زہر سے بچنے کے لیے ایک خاص دوا بنانے پر مسے متعلق ایک تحقیق پر کام کر رہے ہیں۔
انھوں نے بتایا ہے کہ ’یہ دریافت ظاہر کرتی ہے کہ کنگ کوبرا کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ان کا مطالعہ جاری رکھنا ضروری ہے تاکہ اس دلچسپ نوع کے بارے میں مزید معلومات حاصل کی جا سکیں۔‘
نئی اقسام کی دریافت
صدیوں سے ہم بس یہی جانتے تھے کہ کنگ کوبرا بس ایک ہی ہے اور اس کی کوئی اور دوسری قسم نہیں ہے جو کہ بس انڈیا میں ہی پائی جاتی ہے جس کا نام ’اوفیو فیگس ہانا‘ ہے۔
تاہم دس سال کی تحقیق کے بعد ڈاکٹر گوری شنکر اور ان کی ٹیم نے دریافت کیا کہ کنگ کوبرا کی ایک خاص قسم ہے جو صرف مغربی علاقوں میں پائی جاتی ہے۔
’اوفیو فیگس کلنگا‘ نامی یہ نئی نسل صرف مغربی علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ قسم آپ کو دنیا بھر میں کہیں اور نظر نہیں آئے گی۔
اسے دیا جانے والا نام ’کلنگا‘ کرناٹک کے مقامی لوگوں نے کنگ کوبرا کو دیا ہے۔
یہ نام رکھ کر محققین نے مقامی ثقافت کے احترام اور وہاں کے لوگوں کے لیے سانپ کی اہمیت کو ظاہر کیا ہے۔
ڈاکٹر شنکر کہتے ہیں کہ ’اترا کنڑ جیسے علاقوں میں رہنے والے لوگ کنگ کوبرا سے نہیں ڈرتے ہاں مگر وہ ان کا احترام ضرور کرتے ہیں۔‘
’اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کنگ کوبرا دوسرے سانپوں، حتیٰ کے زہریلے سانپوں کو بھی کھا جاتے ہیں۔ کنگ کوبرا ایسا کر کے مقامی لوگوں کو ایک محفوظ ماحول فراہم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔‘
وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اوفیو فیگس کلنگا کی دریافت سے پتہ چلتا ہے کہ ابھی بہت کچھ دریافت کرنا باقی ہے یہاں تک کہ ان علاقوں میں بھی جو ان کی موجودگی کی وجہ سے اہم ہیں۔
اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ سائنسی تحقیق اور فطرت کو بچانے کی کوششوں میں مقامی لوگوں کے خیالات کو غور سے سننا اور سمجھنا کتنا ضروری ہے۔
اسی طرح فلپائن کے جزائر لوزون میں پائے جانے والے کنگ کوبرا کی نسل کا نام ’سالوتانا‘ تھا جسے وہاں کے مقامی لوگ استعمال کرتے ہیں۔
ڈاکٹر شنکر کا کہنا ہے کہ ’اس کے بعد دنیا بھر کے لوگ کنگ کوبرا کے لیے مقامی لوگوں کی جانب سے استعمال کیے جانے والے نام کو پہچان لیں گے جس سے سانپوں کو بچانے کے نئے طریقے تلاش کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔‘
سانپ کے کاٹے سے بچاؤ میں درپیش مُشکلات
انڈیا میں چار انتہائی خطرناک سانپ پائے جاتے ہیں جنھیں ’بگ فور‘ کہا جاتا ہے۔ جن کے نام انڈین کوبرا، انڈین کریٹ، رسل وائپر اور آرا سکیلڈ وائپر ہیں۔
یہ سانپ انڈیا میں سانپوں کے کاٹنے سے ہونے والی زیادہ تر اموات کے ذمہ دار ہیں۔
ڈاکٹر این ایس منوج ایک آئی سی ایم آر سائنسدان ہیں اور یونیورسل سنیک بائٹ ایجوکیشن اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے بانی ہیں۔
ان کے مطابق یہ چار سانپ ملک میں سانپ کے کاٹنے سے ہونے والی تقریباً 90 فیصد اموات کا سبب بنتے ہیں۔
انڈیا میں سانپ کے کاٹنے کے علاج میں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے لیے ادویات مناسب مقدار میں دستیاب نہیں۔
انڈیا میں زیادہ تر مواقع پر چاروں خطرناک سانپوں کے کاٹنے کے علاج کے لیے ایک ہی دوا کا استعمال کیا جاتا ہے۔
لیکن مختلف سانپوں کے لیے کوئی خاص دوا دستیاب نہیں۔ اگر ہم کنگ کوبرا کے کاٹنے کی بات کریں تو صورتحال مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے۔
ڈاکٹر گوری شنکر کا کہنا ہے کہ انڈیا میں کنگ کوبرا کے کاٹنے کے لیے کوئی خاص دوا دستیاب نہیں ہے۔
ان کے پاس موجود ادویات تھائی لینڈ سے آتی ہیں لیکن ان میں سے اکثر زیادہ کام نہیں کرتیں۔
ڈاکٹر شنکر نے کنگ کوبرا کے کاٹنے سے بچنے کے لیے اپنے علاج میں درپیش مُشکلات کے بارے میں بتایا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’خوش قسمتی سے جب کوبرا نے مُجھے کاٹا تو یہ میرے لیے زیادہ خطرناک ثابت نہیں ہوا کیونکہ اس کی وجہ سے میرے اعصابی نظام کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔‘
’لیکن میں نے پھر بھی جسمانی طور پر کمزوری محسوس کی۔ انڈیا اور تھائی لینڈ دونوں سے لی گئی دوائیوں کا میرے جسم پر کوئی اثر نہیں ہوا۔‘
اُن کا کہنا ہے کہ ’چونکہ دوائیں کام نہیں کر رہی تھیں اس لیے ڈاکٹروں نے زہر سے لڑنے کے بجائے علامات کے علاج پر توجہ دی۔ یہ اسی طرح ہے جس طرح ڈاکٹروں نے کورونا کے ابتدائی دنوں میں متاثرین کی علامات کا علاج کیا تھا۔‘
ڈاکٹر شنکر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ہمیں ہر قسم کے سانپ کے کاٹنے کے لیے خصوصی دواؤں کی ضرورت ہے تاکہ بہتر اور بروقت علاج فراہم کیا جا سکے۔‘
اگرچہ کنگ کوبرا کا کاٹنا ’بگ فور‘ سانپوں کی طرح عام نہیں ہے لیکن ڈاکٹر گوری شنکر کا خیال ہے کہ کنگ کوبرا کے کاٹنے کے لیے ایک خاص دوا کا ہونا ضروری ہے۔
اس سے لوگوں میں کنگ کوبرا سے خوف کم ہوگا اور کنگ کوبرا کے تحفظ میں بھی مدد ملے گی۔
مزید یہ کہ دنیا بھر میں کنگ کوبرا کی چار مختلف اقسام کی دریافت سے پتہ چلتا ہے کہ سانپ کا زہر بہت پیچیدہ ہے۔
اس کے علاوہ ہمیں ہر قسم کے سانپ کے کاٹنے کے لیے خصوصی ادویات کی ضرورت ہوتی ہے۔
خصوصی اینٹی وینم کی ضرورت
سانپ کے زہر کے اثرات کو ختم کرنے والی ادویات بنانا بہت پیچیدہ اور مہنگا کام ہے۔
عالمی ادارہ صحت انتہائی زہریلے سانپوں کے کاٹنے کے خطرے کو ختم کرنے کے لیے ادویات تیار کرنے کو ترجیح دیتا رہتا ہے۔
انڈیا میں ’بگ فور‘ سانپوں کے کاٹنے کا خطرہ بہت زیادہ ہے لیکن اس کے مقابلے میں کنگ کوبرا کے کاٹنے سے ہونے والی اموات کی تعداد کم ہے۔
ڈاکٹر منوج اور ڈاکٹر گنیش کے مطابق ’یہی وجہ ہے کہ ایسی ادویات بنانا جو کنگ کوبرا زہر کے اثرات کو ختم کر سکیں ترجیح نہیں رہی۔‘
حال ہی میں کنگ کوبرا کی کئی اقسام کی دریافت اور خاص طور پر ’اوفیو فیگس کلنگا‘ کی دریافت نے ایک خاص قسم کی دوا کی ضرورت کی طرف توجہ دلوائی ہے۔
ڈاکٹر شنکر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اس وقت انڈیا میں دستیاب پولی ویلنٹ اینٹی وینم اور تھائی لینڈ کا مونوولینٹ اینٹی وینم دونوں سانپ کی اس مخصوص نسل کے زہر کو ختم کرنے میں مدد نہیں کریں گے۔
اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے وہ ’اوفیو فیگس کلنگا‘ کے لیے ایک مونوولینٹ اینٹی وینم کی بہتری اور اس پر کام کرنے کے بارے میں بات کرتے ہیں۔
مزید یہ کہ سانپوں کا خوف اور ان کے بارے میں غلط فہمیاں اکثر ان کی ہلاکت کا باعث بنتی ہیں۔
ڈاکٹر شنکر کا خیال ہے کہ کنگ کوبرا کی اقسام کے لیے خاص طور پر کارآمد مونوولینٹ اینٹی وینم بنا کر اس خوف کو ختم کیا جا سکتا ہے اور سانپوں کے تحفظ کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ سمجھ کر کہ ان سانپوں سے اب انھیں کوئی خطرہ نہیں ہے شاید لوگ ان پر ظلم نہ کریں اور ہم ایک ایسے مستقبل کے لیے کام کر سکتے ہیں جہاں انسان اور سانپ دونوں ہی محفوظ رہیں۔‘
تاہم ڈاکٹر منوج اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اسے بنانے کی لاگت اور اسے بنانے کے طریقے کو کس طرح آسان بنایا جائے۔
اس سے کنگ کوبرا کی نئی نسلوں سمیت سانپوں کی مختلف انواع کے لیے مونوویلنٹ اینٹی وینم تیار کرنے میں مدد ملے گی۔
کوبرا اور کنگ کوبرا کے درمیان فرق
کوبرا اور کنگ کوبرا کو اکثر بول چال میں کوبرا کہا جاتا ہے حالانکہ دونوں مختلف نسلوں سے آتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے طرز زندگی، کھانے پینے کی عادات اور برتاؤ میں فرق ہوتا ہے۔
نسل یا انواع
کوبرا نجا انواع سے آتے ہیں جبکہ کنگ کوبرا اوفیو فیگس سے۔
رہتے کہاں ہیں
کوبرا اکثر زرعی علاقوں اور شہری علاقوں کے ساتھ ساتھ انسانی آبادی والے علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ جبکہ کنگ کوبرا زیادہ تر گھنے جنگلات، اونچائی والے علاقوں اور کم آبادی والے علاقوں میں پایا جاتا ہے۔
افزائشِ نسل
کوبرا اپنے انڈوں کی حفاظت کرتا ہے لیکن انھیں گھونسلے میں نہیں رکھتا جبکہ کنگ کوبرا ایک منفرد گھونسلہ بناتا ہے اور اس میں اپنے انڈے دے کر ان کی حفاظت کرتا ہے۔
خوراک
کوبرا خاص طور پر چھوٹے جانور کھاتے ہیں جیسے چوہے، گلہری، پرندے اور مینڈک۔ جبکہ کنگ کوبرا صرف سانپ کھاتے ہیں جن میں سانپوں کی مختلف اقسام شامل ہیں جن میں کوبرا، کریٹس اور دیگر زہریلی نسلیں جیسے وائپر شامل ہیں۔