پشاور: گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ میں علی امین گنڈاپور کو سیاست سکھا رہا ہوں۔
گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کل گورنر ہاؤس کی تاریخ میں پہلی آل پارٹیز کانفرنس ہونے جا رہی ہے۔ کرم کے مسئلے پر سیاسی قائدین کا شکر گزار ہوں جو میرے ساتھ گئے۔
انہوں نے کہا کہ میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کو سیاست سکھا رہا ہوں۔ اور امید ہے ہماری اے پی سی کے بعد وزیر اعلیٰ بھی اے پی سی بلائیں گے۔ خیبر پختونخوا میں قتل و غارت ہو رہی ہے اور صوبائی حکومت اسلام آباد پر چڑھائی کرتی ہے۔ لیکن صوبائی حکومت کے پاس ضلع کرم کی عوام کے لیے وقت نہیں۔
فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ وزیر اعلیٰ صوبائی وسائل سے سیاسی کارکنوں کو شہدا اور زخمی پیکج دینے جا رہے ہیں۔ جبکہ ان کے نظریاتی اراکین وزیر اعلیٰ ہاؤس میں چھپے بیٹھے ہیں۔ صوبائی حکومت جامعات کی زمینیں بیچنا چاہتی ہے۔ لیکن میں جب تک گورنر ہوں ایک یونیورسٹی کی زمین فروخت نہیں ہونے دوں گا۔
انہوں نے کہا کہ گورنر راج کے حوالے سے ابھی تک مجھ سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ وزیر اعلیٰ نے اسمبلی میں کھڑے ہو کر کہا بندوقیں خریدوں گا اور وفاق پر حملہ کروں گا۔ اتنے بڑے دعوے کرنے والی پارٹی صرف خیبرپختونخوا سے لوگ لا سکی۔ تو کیا پی ٹی آئی خیبرپختونخوا تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ پنجاب، سندھ اور بلوچستان سے کتنے قافلے آئے؟
یہ بھی پڑھیں: وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کی کار کو حادثہ
گورنر خیبر پختونخوا نے کہا کہ یہ احتجاج میں لوگوں کو پیسے دے کر لاتے ہیں۔ جبکہ اس وقت پی ٹی آئی کی ساری قیادت خیبر پختونخوا میں بیٹھی ہوئی ہے۔ اور یہاں پر اسکائپ پر آ کر بھاشن دیتے ہیں مگر جلوس میں شامل نہیں ہوتے۔ مجھے علی امین گنڈاپور کی فرسٹریشن اور غصے کا احساس ہے۔ جبکہ وزیر اعلیٰ کا غصہ اور پریشانی اس لیے ہے کہ ڈیفیکٹو وزیراعلیٰ آ گئی ہیں۔ جو کام اس نے پنجاب میں کیے وہی کام خیبرپختونخوا میں بھی کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جو کارروائیاں پنجاب میں کی گئیں وہ خیبرپختونخوا میں بھی کی جا رہی ہیں۔ یقینی طور پر ان کی آپس میں لڑائیاں ہو رہی ہیں اور چور چوری کے وقت اکٹھے ہوتے ہیں مگر مال کی تقسیم میں لڑائی ہوتی ہے۔ وزیر اعلیٰ کہتے ہیں بانی پی ٹی آئی کو ساتھ لیے بغیر نہیں جاؤں گا۔ لیکن شاید وزیراعلیٰ نے بشریٰ بی بی کو بانی سمجھ لیا ہے کیوں کہ وہ انہیں لائے۔ حسب عادت لائٹیں بند کر کے بھاگ گئے اور غریب عوام وہاں رہے۔ جبکہ ان کا کبھی احتجاج میں کوئی لیڈر گرفتار نہیں ہوتا صرف کارکنان مار کھاتے ہیں۔