’تم اور کتنا نیچے گرو گے‘: سارہ شریف قتل کیس کا وہ ڈرامائی لمحہ جس نے مقدمے کا رخ موڑ دیا

13 نومبر کی صبح جب 10 سالہ سارہ شریف کے قتل کے مقدمے کو چار ہفتے ہو چکے تھے تو عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران ایک ایسا لمحہ آیا جو اتنا ڈرامائی تھا کہ جیوری میں بیٹھے افراد کے منھ کھلے کے کھلے رہ گئے اور کمرۂ عدالت میں موجود افراد خوفزدہ ہو گئے۔

13 نومبر کی صبح جب 10 سالہ سارہ شریف کے قتل کے مقدمے کو چار ہفتے ہو چکے تھے تو عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران ایک ایسا لمحہ آیا جو اتنا ڈرامائی تھا کہ جیوری میں بیٹھے افراد کے منھ کھلے کے کھلے رہ گئے اور کمرۂ عدالت میں موجود افراد خوفزدہ ہو گئے۔

مقدمے کے ساتویں روز جب سارہ کے والد عرفان شریف کو کٹہرے میں آئے زیادہ وقت نہیں ہوا تھا اور اچانک کانپتے ہوئے ان کے منھ سے کچھ ایسے الفاظ نکلے جنھوں نے مقدمے کی سمت ہی بدل دی۔

وہ الفاظ یہ تھے: ’اس کی موت میری وجہ سے ہوئی۔‘

اس لمحے تک ان کے والد نے اپنے اوپر لگے تمام الزامات کی تردید کی تھی اور سارہ کی موت کا الزام اس کی سوتیلی ماں پر عائد کیا تھا تاہم اب وہ اچانک اپنی بیٹی کی موت کی پوری ذمہ داری لے رہے تھے۔

یہ آٹھ ہفتے سے چلنے والے قتل کے مقدمے کا اہم ترین لمحہ تھا۔

اس مقدمے کے دوران جیوری میں موجود افراد کے لیے یہاں موجودگی ہی خاصی دل توڑنے والی اور پریشان کن تھی۔

انھوں نے سارہ کی چھوٹی سی زندگی کی پریشان کن تفصیلات سنیں جن میں اذیت، مار پیٹ اور زخم شامل تھے اور اس دوران میاں بیوی کے ایک دوسرے کے خلاف ہونے کے ڈرامائی مناظر کو بھی دیکھا۔

انتباہ: اس تحریر میں تشدد کی ایسی تفصیلات موجود ہیں جو قارئین کے لیے تکلیف کا باعث ہو سکتی ہیں۔

موت سے دو دن قبل سارہ گھر پر رقص کر رہی تھیں

یہ مقدمہ سارہ کی ہلاکت کے ایک سال بعد شروع ہوا۔ گذشتہ برس سارہ اپنے گھر میں بستر پر مردہ حالت میں پائی گئی تھیں، وہ اکیلی تھیں اور ان کا خاندان انھیں ایسے ہی چھوڑ گیا تھا۔

لندن کی اولڈ بیلی عدالت میں ملزمان کے بیٹھنے کے لیے مخصوص جگہ پر عرفان شریف، سارہ کی سوتیلی ماں بینش بتول اور ان کے انکل فیصل ملک موجود تھے۔

اس مخصوص مقام کے گرد شیشہ لگایا گیا تھا اور تینوں ملزمان کے بیچ ایک اہلکار موجود تھا لیکن پھر بھی میرے خیال میں صورتحال کے تناظر میں ان کے درمیان فاصلہ بہت کم تھا۔

سرکاری وکیل بل ایملن جونز نے اس مقدمے کے آغاز پر کہا تھا کہ ’اس وقت ملزمان کے درمیان تنازع اپنے عروج پر ہے۔‘

عرفان شریف ایک سفید کالر والی شرٹ اور سیاہ جیکٹ میں ملبوس تھے۔ وہ ان تصاویر سے بہت زیادہ پتلے دکھائی دے رہے تھے جو ہم نے ان کی دیکھی ہوئی ہیں۔ بینش بتول کے چشموں کے رم سنہری رنگ کے تھے اور انھوں نے پیلے رنگ کی جیکٹ پہن رکھی تھی اور ان کے بال بندھے ہوئے تھے۔

اس تمام عرصے میں جب تک وہ اس کٹہرے میں موجود رہے میں نے ایک بار بھی انھیں ایک دوسرے سے نظریں ملاتے نہیں دیکھا۔ وہ زیادہ تر سامنے دیکھتے رہے اور کبھی کبھار وہ شواہد کے اس انبار کی جانب دیکھتے تھے جو ان کے سامنے موجود تھا۔

کچھ روز ایسا ہوتا کہ بتول پہلے آتیں اور ان کے شوہر ان کے پیچھے کچھ انچز کے فاصلے سے اپنی سیٹ کی جانب جاتے۔ وہ کبھی ایک دوسرے کی جانب مڑ کر بھی نہیں دیکھتے تھے اور کبھی کچھ بھی نہیں کہتے تھے۔

لیکن دونوں اکثر روتے دکھائی دیتے۔ بینش کی سسکیوں کی آواز اکثر کمرۂ عدالت میں سنائی دیتی۔ ایک دن تو عرفان شریف اتنے پریشان ہو گئے کہ وہ کٹہرے سے اٹھ کر چلے گئے اور سماعت ملتوی کرنی پڑی۔

انھوں نے کٹہرے سے اپنی اہلیہ کو ’نفسیاتی مریضہ‘ کہا لیکن بعد میں اپنا یہ بیان واپس لے لیا۔ ایک دن جب وہ گواہی دے رہے تھے تو بینش نے اونچی آواز میں انھیں ’جھوٹا‘ کہا۔

مقدمہ کے ابتدائی دن خصوصی طور پر چشم کشا تھے جب پراسیکیوٹر نے سارہ سے ہونے والے سلوک کی تفصیلات بتائیں۔ سارہ کی ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کے ایکسرے دکھائے گئے۔ کمپیوٹر کی مدد سے ان کے جسم پر زخموں کے نشانات واضح کیے گئے۔ پراسیکیوٹر نے جیوری سے کہا کہ مجھے ڈر ہے شاید یہ تصاویر بھی آپ کے لیے تکلیف دہ ہوں۔

ایملی جونز نے درجنوں ہولناک زخموں، نئے اور پرانے، جلنے کے نشانات، دانتوں سے کاٹے جانے کے نشانات کے بارے میں تفصیلات فراہم کیں۔ سارہ کے پیٹ پر اور ان کے دماغ پر بھی چوٹ آئی تھی۔

ایک ایسا موقع آیا جب ہمیں احساس ہوا کہ اب شاید اس سے زیادہ برا ثبوت سامنے نہیں آ سکتا، یہ بتایا گیا کہ سارہ کے سر اور چہرے کو ڈھانپ کر انھیں متعدد بار پیٹا گیا۔ کمرہ عدالت میں سب کے چہروں پر تاثرات سے واضح تھا کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں۔

اسی سماعت کے دوران پراسیکیوٹر سب کو ووکنگ، سرے، کے اس مکان میں بھی لے کر گئے جہاں سارہ رہائش پذیر تھی اور جہاں ان کا قتل ہوا۔ ہم نے پولیس افسران کی وہ فوٹیج دیکھی جب وہ پہلی بار سارہ کی لاش دریافت کرنے پہنچے۔ پولیس افسر نے بتایا کہ کیسے انھوں نے بستر ہٹایا تو نیچے سے دس سال کی بچی کی لاش ملی۔

چند گواہوں نے ایک پردے کے پیچھے سے بیان دیا۔ ان میں سے ایک سارہ کی استانی، ہیلن سمنز، تھیں جنھوں نے پہلی بار عدالت میں سارہ کی شخصیت کو زندہ کیا۔ انھوں نے بتایا کہ سارہ کو سٹیج پر گانے اور پرفارم کرنے سے خوشی ملتی تھی۔ ایسے چند لمحات ہمیں دیکھنے کو بھی ملے۔

ایک ویڈیو میں ہم نے دیکھا کہ موت سے دو دن قبل سارہ گھر پر رقص کر رہی تھیں۔ یہ ویڈیو دکھائی گئی تو بتول عدالت میں رو پڑیں۔ ایک اور ویڈیو میں ہمیں سارہ کی آواز سنائی دی جس میں وہ ایک باغیچے میں باقی بچوں کے ساتھ موجود تھیں۔

وہ لمحہ جب صدمہ خوف میں بدل گیا

مقدمے کی کارروائی کے تیسرے ہفتے میں عرفان شریف کے وکیل نعیم میاں عدالت میں کھڑے ہوئے اور انھوں نے کہا کہ اب کیا ہو گا کہ عرفان شریف گواہی کے اس کٹہرے میں پہنچے کے لیے اپنی زندگی کا سب سے طویل پیدل سفر طے کریں گے۔

عدالت میں خاموشی چھا گئی۔

سارہ کے والد سفید شرٹ اور جینز میں عدالت میں پیش ہوئے۔ جب وہ کٹہرے میں داخل ہوئے تو وہ پریشان دکھائی دے رہے تھے۔ انھوں نے اپنے آگے پڑے ڈبے سے ٹشو پیپر نکالے۔

جب وہ بیٹھ گئے تو ان کے وکیل نے آہستہ آہستہ اور انتہائی احتیاط سے واقعات کے بارے میں ان کا نطقہ نظر پیش کیا۔

اگلے چھ روز تک عرفان شریف نے یہ موقف اختیار کیے رکھا کہ ان کا اپنی بیٹی کی موت سے کچھ لینا دینا نہیں۔ انھوں نے سارہ کو تھپڑ مارنے کا اعتراف کیا لیکن اس بات سے انکار کیا کہ وہ اسے مارتے تھے۔

انھوں نے اپنی بیوی پر مار پیٹ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ سارہ کے ساتھ ایسا ان کی غیر موجودگی میں کرتی تھیں لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ جھوٹ تھا۔

اپنی گواہی کے دوران وہ بہت زیادہ جذباتی تھے اور بات کرنے کی کوشش میں کئی بار روئے بھی۔ وہ بار بار عدالت میں کہتے رہے کہ ’میری سارہ‘۔

آنسوؤں کے ساتھ بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ان کی ’پیاری فرشتہ‘ کا پسندیدہ کھانا چکن بریانی تھا جبکہ پسندیدہ رنگ پنک تھا۔

جب ان کے وکیل نے پوچھا کہ کیا آپ سارہ کے قریب تھے؟ تو انھوں نے جواب دیا ’ہاں‘۔

عرفان شریف نے عدالت میں بتایا کہ جب ان کی بیٹی ان کے بازؤوں میں دم توڑ گئی تو وہ بے سدھ ہو گئے۔ ’میری پوری دنیا اجڑ گئی۔‘

جب وہ جیوری کو اس بارے میں سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے تو ایسا محسوس ہوا کہ انھوں نے اس کی ریہرسل کر رکھی ہے۔

عرفان شریف کی گواہی کے دوسرے دن ایک ڈرامائی لمحہ آیا۔ جذبات سے بھری اونچی آواز میں انھوں نے اپنی اہلیہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انھیں ’نفسیاتی مریض‘ اور ’برائی‘ قرار دیا۔

لیکن عرفان شریف کی اہلیہ کی وکیل کی جانب سے جرح کے دوران آخر کار وہ ٹوٹ گئے۔

کیرولین کاربری عرفان شریف کے ماضی کو سامنے لے آئیں جب انھوں نے اپنی سابقہ پارٹنرز کو جان سے مارنے کی دھمکی دی۔

کیرولین کاربری نے عرفان شریف کو کہا کہ 'آپ جھوٹے، حقائق کو توڑ مروڑ کر بیان کرنے والے اور کنٹرول رکھنے والے آدمی ہیں۔'

یہ گواہی کا ساتواں دن تھا جب سب کچھ بدل گیا۔

عرفان شریف سے ان کے ایک بچے کی پیدائش کے بارے میں پوچھ گچھ کی جا رہی تھی۔ وہ کیرولین کاربری کو روکنے کی کوشش کرنے لگے جبکہ وہ اپنے سوالوں کے جواب لینے کی کوشش کر رہی تھیں۔

آخر کار وہ اس صورتحال سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور بولے کہ ’میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘

’میں نے اپنی فون کال اور نوٹ میں میں جو کہا میں اس کا اعتراف کرتا ہوا۔ ہر ایک لفظ کا اعتراف۔‘

عرفان شریف کے ان الفاظ کے بعد جیسے سب نے ایک وقفہ لیا ہو۔

کیرولین کاربری نے بھاگ کر اس نوٹ کی ایک کاپی اٹھا لی جو عرفان شریف نے لکھا تھا اور اس کی ہر لائن کو پڑھنا شروع کر دیا۔

انھوں نے سوال کیا کہ ’کیا آپ نے اپنی بیٹی کو پیٹ کر مار ڈالا۔‘

عرفان شریف نے جواب دیا ’ہاں وہ میری وجہ سے مر گئی۔‘

’کیا وہ آپ تھے جس نے سارہ کو چوٹ پہنچائی تھی؟‘ جواب تھا ’ہاں‘

’کیا آپ سارہ کو آنے والے فریکچر کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں؟‘ جواب تھا ’جی ہاں‘۔

’کیا آپ نے کرکٹ بیٹ کا استعمال کیا؟‘ جواب تھا ’جی میم‘۔

حیرت صدمے میں اور پھر صدمہ خوف میں بدل گیا کیونکہ عرفان شریف نے ظالمانہ کارروائیوں کا اعتراف کر لیا تھا۔

کچھ ججز کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔

عرفان شریف نے کہا کہ ’میں ہر چیز کی پوری ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔‘

وہ کانپ اور رو رہے تھے جبکہ بینش بھی سسکیاں لے رہی تھیں۔

حتیٰ کے عرفان کے وکیل بھی مکمل حیرت میں تھے۔ انھوں نے بعد میں جیوری کو بتایا کہ ’مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایسا کریں گے۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس وقت میرا ردعمل کیا ہو گا۔‘

بینش بتول روتے ہوئے کمرہ عدالت سے بھاگ گئیں اور سماعت کو معطل کر دیا گیا۔ جیوری میں شامل چند افراد کو بعد میں روتے ہوئے دیکھا گیا۔

تاہم عرفان شریف نے سارہ کے جسم پر موجود جلائے جانے اور دانتوں سے کاٹنے کے نشانات سے انکار کیا۔

کیرولین کاربری نے عرفان شریف سے پوچھا کہ کیا وہ چاہتے ہیں کہ قتل کا الزام ان پر دوبارہ لگایا جائے۔ انھوں نے جواب دیا کہ ’جی ہاں۔‘

جس کے بعد ان کے وکیل نے اپنے موکل سے بات کرنے کی اجازت مانگی۔

جب عدالت نے دوبارہ عرفان شریف کو بلایا تو انھوں نے کہا کہ ’وہ قتل کے مجرم ہونے کا الزام قبول نہیں کرتے کیونکہ وہ سارہ کو قتل کرنے کا ارداہ نہیں رکھتے تھے۔‘

تم اور کتنا نیچے گرو گے؟

عرفان شریف نے کٹہرے میں نو دن گزارے۔ ہم شاید کبھی یہ نہیں جان سکیں گے کہ آخر کس بات نے انھیں آخر میں اندر سے توڑا۔ شاید اپنے جھوٹ کو برقرار رکھنے کے دباؤ نے؟ یا اس احساس نے کہ اب بچنے کا کوئی راستہ نہیں رہا؟

جیوری کو سارہ کی سوتیلی والدہ کا موقف سننے کا موقع ہی نہیں ملا۔ بتول نے گواہی دینے سے انکار کر دیا۔ اس لیے ہم شاید کبھی ان کی وضاحت نہ سن پائیں کہ سارہ کے جسم پر دانتوں کے نشانات کا موازنہ کرنے کے لیے انھوں نے اپنا نمونہ کیوں نہیں دیا۔

عرفان شریف اور فیصل ملک کے موازنے کے بعد یہ طے کر لیا گیا تھا کہ یہ ان کے دانتوں کے نشان نہیں تھے۔

ہم یہ بھی نہیں جان پائیں گے کہ سارہ کے جسم پر گرم استری کے نشان کس نے لگائے۔ عرفان شریف کا اصرار تھا کہ ایسا انھوں نے نہیں کیا۔ ایک دن سماعت کے دوران پراسیکیوٹر نے کہا کہ ایسا کرنے کے لیے دو لوگوں کا ہونا ضروری تھا کہ ایک سارہ کو پکڑتا اور دوسرا اسے استری سے جلاتا۔ انھوں نے سوال کیا کہ وہ کون تھا؟

عرفان نے جواب دیا ’میں نہیں جانتا۔ شاید بچوں نے کیا ہو گا۔‘ پراسیکیوٹر نے اس جواب میں بولا کہ تم اور کتنا نیچے گرو گے۔ ہم اب یہ جانتے ہیں کہ بتول کو دو سال سے اس بات کا علم تھا کہ ان کے شوہر سارہ کو پیٹتے ہیں۔

جیوری کو آخرکار اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ عرفان شریف نے اکیلے سارہ کا قتل نہیں کیا۔ بتول نے چند مواقع پر عرفان کی مدد یا حوصلہ افزائی کی اور ان مواقع کا سارہ کی موت میں کردار تھا۔

فیصل ملک جو سارہ کے چچا تھے، نے بھی مقدمے کے دوران گواہی دینے سے انکار کیا۔ جیوری کو پراسیکیوشن کے اس دعوے پر یقین ہو گیا ہو گا کہ ان کو گھر میں پیش آنے والے واقعات کا علم ہو گا لیکن انھوں نے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا جس سے سارہ کی موت سے قبل ہونے والے تشدد کو روکا جا سکتا۔

جب عدالت میں فیصلہ سنانے کا موقع آیا تو جج نے سب سے خاموشی اختیار کرنے کی درخواست کی۔ عرفان شریف اور بتول کو قتل کا مجرم قرار دیا گیا اور اگرچہ فیصل ملک کو قتل کے الزام سے بری کر دیا گیا لیکن انھیں سارہ کی موت کی وجہ بننے کے الزام میں مجرم قرار دیا گیا۔ عرفان شریف بس سامنے کی جانب دیکھتے رہے۔ بتول سسکیاں لے رہی تھیں اور فیصل رو پڑا۔

تینوں کو کمرہ عدالت سے باہر لے جایا گیا اور یوں اس مقدمہ کا اختتام ہوا جس کے دوران کئی ماہ تک اس کمرہ عدالت میں ہولناکی کے واقعات کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد ایک پراعتماد اور محبت کرنے والی دس سالہ بچی کے لیے دکھ کا احساس پیدا ہو گیا تھا جس کے بڑے بڑے خواب تھے۔ ان میں سے ایک بڑے ہو کر بیلے ڈانسر بننے کا خواب بھی تھا۔

ڈینیئل سینڈفورڈ کی اضافی رپورٹنگ کے ساتھ


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.