بشار الاسد حکومت کا تختہ الٹنے والا باغی اسلامی گروہ ایچ ٹی ایس وہی جھنڈا استعمال کرتا ہے جو افغانستان میں گذشتہ کئی دہائیوں سے طالبان کرتے چلے آ رہے ہیں اور حال ہی میں یہ جھنڈا ایک سرکاری تقریب کے دوران شام کے عبوری وزیراعظم کے عقب میں بھی نظر آیا۔اس جھنڈے کو لے کر بہت سے شامی شہریوں کے ذہنوں میں مستقبل کے حوالے سے خدشات جنم لے رہے ہیں۔
شام کی نئی عبوری حکومت کے وزیر اعظم محمد البشیر متنازع جھنڈے کے سامنےشام کے نئے عبوری وزیر اعظم محمد البشیر نے 10 دسمبر کو دمشق میں بلائے گئے اپنے پہلے اجلاس کی صدارت کی۔
اس اجلاس کے بعد سامنے آنے والی ایک تصویر میں محمد البشیر کے عقب میں دو جھنڈے دکھائی دے رہے تھے۔ ایک شام کا ’انقلابی پرچم‘ جو سبز، سفید اور سیاہ پٹیوں پر مشتمل ہے اور جس کے وسط میں تین سُرخ ستارے ہیں اور دوسرا جھنڈا ایک سفید پرچم تھا جس پر مسلمانوں کے بنیادی عقیدے کا حلف (یعنی کلمہ طیبہ) سیاہ رنگ میں تحریر کیا گیا تھا۔
سرکاری اجلاس میں نظر آنے والا یہ سفید پرچم،جسے شام کے کچھ حصوں پر حال ہی میں کنٹرول حاصل کرنے والا باغی گروہ ہیت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) استعمال کرتا ہے، طالبان کے جھنڈے سے مماثلت رکھتا ہے۔ یہ وہی پرچم ہے جسے 2021 میں افغانستان پر دوبارہ قابض ہونے والے طالبان نے لہرایا تھا۔
ہیت تحریر الشام اور حزب اختلاف کے دیگر مسلح گروہوں نے 8 دسمبر کو سابق صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد شام کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ اس گروہ نے گذشتہ ماہ نومبر کے آخر میں شمال مغربی شام کے صوبہ ادلب میں اپنے مضبوط گڑھ سے نکل کر دمشق کی جانب پیش قدمی کی تھی۔
دمشق کی جانب پیش قدمی کرنے کے دوران اور بعدازاں دمشق کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد گروپ کے رہنما ابو محمد الجولانی (جو اب احمد الشرع کے نام سے جانے جاتے ہیں) شامیوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ شام میں مستقبل کی میں ایک متحدہ حکومت ہو گی جو ملک کے اندر تمام مختلف اقلیتی فرقوں کی نمائندگی کرے گی اور یہ کہ یہ حکومت کسی بھی مخالف گروہ پر ظلم نہیں کرے گی۔
وہ شامی لوگوں کو یہ یقین دلانے کی بھی کوشش کر رہے ہیں کہ انھیں اسلامی طرز پر بنائی جانے والی حکومت سے یا اسلامی نظام کے نفاذ سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
تاہم اس سفید جھنڈے کی ظاہری شکل نے شامیوں میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے کہ یہ سفید جھنڈا شام کے سیاسی مستقبل کے بارے میں کیا پیغام دیتا ہے۔
طالبان نے افغانستان پر قبضے کے بعد یہی پرچم لہرایا تھاشام میں سوشل میڈیا پر پایا جانے والا ’غصہ‘ اور ’خوف‘
شام سے بی بی سی عربی کے خصوصی نامہ نگار فراس کیلانی نے بتایا کہ اس واقعے (سفید جھنڈے کا سرکاری سطح پر استعمال) نے ’بہت سے لوگوں کو صدمے کی سی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے۔‘
کیلانی کا کہنا ہے کہ ’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نئی حکومت طالبان ماڈل کی پیروی کر سکتی ہے اور شریعت کے قانون کے مطابق ایک اسلامی ریاست تشکیل دے سکتی ہے۔‘
کچھ لوگوں نے سوشل میڈیا پر اس اقدام پر اپنی ’مایوسی‘ کا اظہار کیا۔
شام کے سیاسی کارکن اور صحافی رامی جراح نے کہا ہے کہ ’عبوری وزیر اعظم محمد البشیر جب شامیوں سے خطاب کر رہے تھے تو اُن کے پیچھے اسلامی پرچم کی نمائش ’توہین‘ ہے۔‘
انھوں نے ایکس پر لکھا کہ ’عبوری حکومت کا سربراہ اسلامی پرچم کے ساتھ شامیوں سے خطاب کیوں کر رہا ہے؟ انھیں ہر مذہبی گروہ سے تعلق رکھنے والے تمام شامی شہریوں کی نمائندگی کرنی چاہیے، یہ ہم سب کی توہین ہے۔‘
دیگر صارفین نے سرکاری اداروں میں ’انقلابی جھنڈے (شام کا سرکاری جھنڈا) کے علاوہ کوئی اور پرچم‘ لہرانے کی مخالفت کی ہے۔
صحافی ندل العماری نے ایکس پر لکھا ہے کہ ’ہم بعث پارٹی سے بہت کچھ سیکھ چکے ہیں اور اب ہم افراتفری کے ایک اور دور میں داخل نہیں ہونا چاہتے۔‘
لیکن بہت سے شامی شہری ایسے بھی ہیں جنھیں یہ پرچم لہرانے میں ’کوئی قباہت‘ نظر نہیں آتی۔ اُن کا خیال ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شام کی حکومت افغانستان میں اپنائے جانے والے ماڈل کی طرز پر ہو گی۔
’طالبان کا جھنڈا‘ اور خدشات
8 دسمبر 2024: دمشق میں اسد حکومت کے خاتمے کے بعد ایچ ٹی ایس کے رہنما ابو محمد الجیلانی مسجد اموی کے اندر اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئےافغانستان میں برسراقتدار طالبان انتہا پسند سُنی اور جہادی نظریے پر عمل پیرا ہیں۔ یہ گروپ 1996 سے ایسے سفید پرچم کا باقاعدہ اور سرکاری طور پر استعمال کر رہا ہے جس پر کلمہ درج ہے۔
شام میں باغی گروہ ایچ ٹی ایس بھی کچھ عرصے سے یہی پرچم استعمال کر رہا ہے اور یہ ادلب، جہاں کا انتظام ایچ ٹی ایس دیکھتا ہے، میں سرکاری اداروں کی عمارتوں پر لہراتا نظر آتا ہے۔
اگرچہ ایچ ٹی ایس اور طالبان کا جھنڈا ایک جیسا ہے لیکن طالبان حکومت کے ایک سینیئر عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ دونوں گروپوں نے اپنے اپنے طور پر اس جھنڈے کو اپنایا ہے اور یہ کہ کسی نے اس معاملے میں دوسرے کی نقل نہیں کی۔
افغانستان میں طالبان حکومت شام میں باغی گروہ ہیت تحریر الشام کی سیاسی اور فوجی کامیابیوں کا جشن منا رہی ہے اور طالبان حکام نے اس اُمید کا اظہار کیا ہے کہ اب شام میں ’اسلامی حکومت‘ کا قیام عمل میں آئے گا۔
افغانستان میں طالبان کے حامیوں اور اُن کے کچھ اتحادیوں نے شام کے معزول صدر بشار الاسد کے اقتدار سے ہٹائے جانے کا جشن منانے کے لیے کئی صوبوں میں اجتماعات منعقد کیے جہاں شرکا میں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔
25 نومبر 2024: کابل میں طالبان کا ایک بڑا پرچم لہرا رہا ہےطالبان اور ایچ ٹی ایس کے درمیان موجود ’نظریاتی تعلق‘ شاید وہ وجہ ہے جس کی بنیاد پر افغانستان میں طالبان شام میں اس باغی گروہ کی حمایت میں نظر آتے ہیں۔
افغانستان کے صدارتی دفتر میں کام کرنے والے طالبان کے ایک سینیئر اہلکار نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر لکھا کہ ’کابل اور دمشق کی کہانی ایک جیسی ہے، دونوں میں حکومتوں کا خاتمہ اتوار کے روز ہوا، دونوں مُمالک میں حکومت پر قبضہ 11 روز میں ہوا اور دونوں ممالک میں برسراقتدار رہنما مُلک سے فرار ہو گئے۔‘
گذشتہ ہفتے سی این این کو دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران الجولانی کے پیچھے بھی یہی جھنڈا نظر آیا تھا۔ انٹرویو کے دوران انھوں نے کہا کہ لوگوں کو اسلامی نظام سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ انھوں نے یقین دلایا تھا کہ شامی معاشرے کے تمام متنوع فرقوں کو آئندہ حکومت میں نمائندگی دی جائے گی۔
شام میں برسرپیکار اسلامی گروہوں کے ماہر ایمن التمیمی نے بی بی سی کو بتایا کہ جھنڈے کے استعمال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایچ ٹی ایس شام میں ’اسلامی نظام‘ کی نمائندگی کرنا چاہتا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ پرچم (ایچ ٹی ایس) کے دیرینہ موقف سے مطابقت رکھتا ہے، جو خود کو شام میں بسنے والے سُنیوں کے نمائندے کے طور پر ظاہر کرتا ہے۔‘
تاہم التمیمی وضاحت کرتے ہیں کہ 'ایچ ٹی ایس کے لیے طالبان کی طرح حکمرانی کا ماڈل نافذ کرنا بہت مشکل ہو گا کیونکہ (شامی) معاشرہ بڑے پیمانے پر لڑکیوں کو اعلی تعلیم سے محروم کرنے یا ایک آمرانہ حکومت کے قیام جیسی پابندیوں کو قبول نہیں کرے گا، ایسی پابندیاں جو عوامی انتخاب کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔‘