بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد رہا ہونے والے ایک قیدی کے بارے میں متعدد افراد سمجھتے ہیں کہ وہ ان کا رشتہ دار ہے لیکن اس کی اصل شناخت ایک معمہ بن چکی ہے۔
شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد اردن کے رہائشی بشیر البطاینہ اپنے بیٹے اسامہ کی واپسی کا شدت سے انتظار کر رہے تھے جو 38 سال سے لاپتہ تھا۔
بشیر البطاینہ اردن کے شمالی شہر اربد کے رہنے والے ہیں اور ان کی عمر 83 برس ہے۔ ان کے مطابق اسامہ نے سنہ 1986 کے موسمِ گرما کی تعطیلات میں ایک ہفتے کے لیے شام جانے کے لیے اجازت مانگی تھی۔ وہ سیکنڈری سکول میں اپنے آخری سال کے آغاز سے پہلے گھومنا چاہتے تھے، لیکن پھر وہ کبھی واپس نہ آئے۔
لگ بھگ چار دہائیوں کے بعد بشیر البطاینہ کو خبر ملی جس کے لیے وہ اور ان کا خاندان ایک عرصے سے دعا کر رہے تھے۔
ایک ایسی ویڈیو سامنے آئی جس میں ایک شخص دمشق کے قریب صیدنایا جیل سے رہائی ملنے کے بعد کہہ رہا ہے کہ ’میں اربد سے ہوں۔‘
اس کے بعد اردن کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ ایک اردن کا شہری جس کا نام اسامہ بتایا گیا ہے وہ اردن پہنچ چکا ہے اور یہ شخص اپنی یادداشت کھو چکا ہے۔
تھوڑی دیر بعد حکام نے بشیر البطاینہ اور ان کے خاندان سے اسامہ کی ملاقات کروا دی۔
البطاینہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس نے میرا ہاتھ کافی دیر تک تھامے رکھا اور پھر اسے چومنے لگا۔‘
انھوں نے اسامہ کی صحت پر تبصرہ کرتے ہوئے اس کا موازنہ ’ایک ڈھانچے‘ سے کیا اور کہا کہ ’اس کی یادداشت کھو چکی ہے اور اس ظاہری شکل و صورت دل توڑ دینے والی ہے۔۔۔ اس کے چہرے کے نقش ہی تبدیل ہو چکے ہیں۔‘
اسامہ کی بہن نے بی بی سی کو بتایا کہ اسامہ نے ان کی والدہ کا نام بھی لیا اور خاندان کی پرانی تصاویر میں وہ اپنے آپ کو پہچان بھی رہا تھا۔
لیکن پھر اس کہانی میں ایک غیر متوقع موڑ آیا۔
اس شخص کو اردن کے دارالحکومت عمان منتقل کیا گیا جہاں ان کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ان کا جینیاتی اعتبار سے البطاینہ خاندان سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔
اس شخص کی شناخت کے بارے میں غیر یقینی اس وقت مزید بڑھنے لگی جب سوشل میڈیا پر متعدد دعوے سامنے آئے۔
ایک شخص نے فیس بک پر دعویٰ کیا کہ ویڈیو میں موجود شخص اصل میں ایک شامی ہے جس کا تعلق طرطوس شہر سے ہے اور وہ دونوں ایک ساتھ ہی جیل میں رہ چکے ہیں۔
ایک اور خاتون نے فیس بک پر دعویٰ کیا کہ یہ شخص طرطوس کے نواحی گاؤں کفرون سعادہ کے رہائشی ہیں اور انھیں ’بیروت سے 1986 میں شامی خفیہ ایجنسیوں نے اغوا کیا تھا۔‘
کیٹیلینا سعادہ کہتی ہیں کہ یہ شخص ان کے رشتہ دار حبیب سعادہ سے مشابہت رکھتا ہے جسے شام کے دارالحکومت دمشق سے اغوا کیا گیا تھا اور شامی جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے خاندان کو یہ خبر ڈھائی برس پہلے ملی تھی کہ ان کے دادا کے بھائی بدنامِ زمانہ صیدنایا جیل میں ہیں جہاں ایسے ہزاروں افراد قید ہیں جو شامی حکومت کے ناقد رہے ہیں۔
ان کا خاندان ڈی این اے ٹیسٹنگ کے ذریعے یہ اس بات کی تصدیق کرنا چاہتا ہے کہ یہ دراصل انھی کے رشتہ دار ہیں۔
کیٹیلینا سعادہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم اردن (کے حکام کو) ٹیسٹ بھجوائیں گے جہاں یہ لاپتہ شخص موجود ہے اور کفرون سعادہ گاؤں میں میرے دادا کا ڈی این اے کا نمونہ بھی لیا جائے گا۔ اگر میرے دادا کو ان کا بھائی مل جائے تو وہ سکھ کا سانس لیں گے۔‘
اردن کے سابق لیبر وزیر نضال البطاینہ جنھوں نے اردن میں اس شخص کے ساتھ وقت گزارا کہتے ہیں کہ انھیں بھی متعدد لوگوں کی کالز موصول ہوئی ہیں جن میں دعوے کیے گئے ہیں کہ یہ شخص ان کا رشتہ دار ہے۔
نضال نے ان خاندانوں سے ڈی این اے ٹیسٹ کروا کر انھیں بھیجنے کی درخواست کی ہے۔
دریں اثنا اردن میں قاسم بشتاوی اور ان کے خاندان کا خیال ہے کہ رہا ہونے والا شخص قاسم کا کزن احمد ہے۔
قاسم بشتاوی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کا کزن ایک فلسطینی جنگجو تھا جسے لبنان سے اغوا کر کے شام منتقل کیا گیا تھا۔
قاسم کے مطابق سنہ 1995 میں رہا ہونے والے ایک قیدی نے ان کے خاندان کو بتایا کہ احمد صیدنایا جیل میں ہیں۔ انھوں نے جیل میں اس تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن شام میں سکیورٹی فورسز نے انھیں ڈرا دھمکا کر خاموش کروا دیا۔
بشتاوی خاندان بھی ڈی این اے ٹیسٹ کروانے کا منصوبہ کر رہے ہیں۔
’ہمیں خدا کی رحمت کا انتظار ہے‘
ادھر البطاینہ خاندان کے لیے یہ بات بہت مایوس کن ہے کہ ڈی این اے ٹیسٹ میں یہ تصدیق ہوئی ہے کہ رہا ہونے والا قیدی ان کا رشتہ دار نہیں ہے۔
اسامہ کے بھائی محمد البطاینہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے ہم صرف خدا کی رحمت کا انتظار کر رہے ہیں۔‘
البطاینہ خاندان کا کہنا ہے کہ ان کے والد نے اپنے بیٹے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے سب کچھ کیا، ان کی والدہ اس دکھ میں نابینا ہو گئیں اور چند سال پہلے وفات پا گئیں۔
محمد البطاینہ نے بتایا کہ ’ان کی گرفتاری کے بعد سے ہم نے کبھی بھی ان کی تلاش نہیں چھوڑی اور ہم اب بھی شام میں لوگوں سے ان کے بارے میں پوچھنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ یہ جان سکیں کہ وہ زندہ ہیں یا فوت ہو چکے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ انھیں سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایسی کہانیاں سن کر پریشانی ہوتی ہے جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ صیدنایا جیل میں لاشوں کو مبینہ طور پر تیزاب میں ڈالا گیا تھا۔
تاہم البطاینہ خاندان امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہتی اور لاپتہ اسامہ کی تلاش جاری رکھنا چاہتی ہے۔