فیس بک کے ڈیٹا کے ایک جامع تجزیے میں بی بی سی کی ٹیم کو معلوم ہوا ہے کہ فلسطینی علاقوں غزہ اور مغربی کنارے میں موجود خبررساں اداروں میں سنہ 2023 اکتوبر سے آڈئینس انگیجمنٹ کے اعداد و شمار میں شدید کمی واقع ہوئی ہے۔
بی بی سی کی ایک تازہ تحقیق کے مطابق فیس بک نے اسرائیل غزہ جنگ کے دوران فلسطینی خبر رساں اداروں کی خبروں کو سامعین اور ناظرین تک پہنچانے کی صلاحیت کو بہت حد تک محدود کیا ہے۔
فیس بک کے ڈیٹا کے ایک جامع تجزیے میں بی بی سی کی ٹیم کو معلوم ہوا ہے کہ فلسطینی علاقوں غزہ اور مغربی کنارے میں موجود خبررساں اداروں میں سنہ 2023 اکتوبر سے آڈئینس انگیجمنٹ کے اعداد و شمار میں شدید کمی واقع ہوئی ہے۔
بی بی سی کو لیک ہونے والی دستاویزات کے جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ انسٹاگرام نے بھی سنہ 2023 اکتوبر کے بعد فلسطینی صارفین کے تبصروں میں اپنی ماڈریشن یعنی نگرانی کو بڑھا دیا تھا۔
خیال رہے کہ فیس بک کی طرح انسٹا گرام بھی میٹا کی ملکیت ہے۔
فیس بک اور اور انسٹا گرام کی مالک کمپنی میٹا کا کہنا ہے کہ دانستہ طور پر مخصوص آوازوں کو دبانے کی بات ’مکمل طور پر غلط ہے۔‘
واضح رہے کہ اسرائیل فلسطین جنگ کے آغاز کے بعد سے صرف چند غیر ملکی صحافیوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی ہے اور وہ بھی صرف اسرائیلی فوج کی مدد سے ایسا کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔
فیس بک پیجز پر انگیجمنٹ کا ڈیٹا
تاہم غزہ سے مزید آوازیں سننے کے خواہشمندوں کے لیے سوشل میڈیا نے اس خلا کو پُر کیا ہے اور مغربی کنارے کے علاقے سے کام کرنے والے فلسطین ٹی وی، وفا نیوز ایجنسی اور فلسطین الوطن نیوز جیسے نیوز آؤٹ لیٹس اپنے فیس بک پیجز کے ذریعے دنیا بھر میں بہت سے لوگوں کے لیے اپ ڈیٹس کا ایک اہم ذریعہ بنے ہیں۔
بی بی سی نیوز عربی نے گذشتہ ایک سال میں 20 ممتاز فلسطینی خبر رساں اداروں کے فیس بک صفحات پر انگیجمنٹ کا ڈیٹا مرتب کیا ہے۔
انگیجمنٹ یعنی صارفین کی کسی بھی آن لائن مواد پر کسی بھی قسم کا ردِ عمل یہ جاننے کا ایک اہم پیمانہ ہے کہ سوشل میڈیا مواد کتنا مؤثر ہو گا اور کتنے لوگ یہ مواد دیکھ رہے ہیں۔ اس میں تبصروں، ردعمل اور شیئرز کی تعداد جیسے عوامل شامل ہوتے ہیں۔
عام طور پر ایسا دیکھا جاتا ہے کہ جنگ کے دوران یا جنگی صورتحال میں سوشل میڈیا پر سامعین کے انگیجمنٹ میں اضافہ دیکھا جاتا ہے اور اس کی توقع کی جا سکتی ہے لیکن اس کے برعکس سات اکتوبر 2023 کے بعد سے ان اعدداد و شمار میں 77 فیصد کمی دیکھی گئی۔
فلسطین ٹی وی کے فیس بک پر 58 لاکھ فالورز ہیں۔ نیوز روم میں موجود صحافیوں نے ہمارے ساتھ اعداد و شمار شیئر کیے جو ان کی پوسٹس دیکھنے والے لوگوں کی تعداد میں 60 فیصد کمی کو ظاہر کرتے ہیں۔
چینل کے ایک صحافی، طارق زیاد کہتے ہیں کہ ’انٹیریکشن مکمل طور پر محدود ہو گئے تھے، اور ہماری پوسٹس لوگوں تک پہنچنا بند ہو گئی تھیں۔‘
’شيڈو بین‘
فلسطینی صحافیوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ پچھلے سال کے دوران ان کے آن لائن مواد پر میٹا کی جانب سے ’شيڈو بین‘ لگایا جا رہا ہے۔ یہ ایسی پانبدی ہے جس کے بارے میں صارف کو علم نہیں ہوتا لیکن اس مواد کی پہنچ کو دیگر صارفین کے لیے محدود کر دیا جاتا ہے۔
اس کو جانچنے کے لیے ہم نے ییدیت اہرانوت، اسرائیل ہایوم اور چینل-13 جیسے 20 اسرائیلی نیوز آرگنائزیشنز کے فیس بک پیجز پر اسی ڈیٹا کا تجزیہ کیا۔ ان صفحات پر بھی جنگ سے متعلق مواد کی ایک بڑی مقدار پوسٹ کی جاتی رہی ہے لیکن یہاں ہم نے صارفین کی انگیجمنٹ میں تقریباً 37 فیصد اضافہ دیکھا ہے۔
میٹا پر پہلے بھی فلسطینیوں اور انسانی حقوق کے گروپوں کی طرف سے الزام لگایا گیا ہے کہ وہ آن لائن سرگرمیوں کو منصفانہ طور پر ماڈریٹ کرنے میں ناکام رہی ہے۔
سنہ 2021 میں کمپنی کی طرف سے کمیشن کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ جان بوجھ کر نہیں بلکہ ماڈریٹرز کے درمیان عربی بولنے کی مہارت کی کمی کی وجہ سے تھا۔ الفاظ اور جملوں کو جارحانہ یا پرتشدد چیزوں سے تعبیر کیا جا رہا تھا، جبکہ وہ حقیقت میں بے ضرر تھے۔
مثال کے طور پر عربی فقرہ ’الحمدللہ‘ جس کا معنی ساری تعریفیں اللہ کے لیے ہیں کا کبھی کبھی خود بخود ترجمہ ’الحمد للہ، فلسطینی دہشت گرد اپنی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں‘ کیا جا رہا تھا۔
بی بی سی نے اس وضاحت کی جانچ کرنے کا فیصلہ کیا کہ آیا اس طرح کے فقرے لکھنے سے انگیجمنٹ میں واقعی کمی واقع ہوتی ہے اور کیا اس سے فلسطینی اداروں کی انگیجمنٹ میں کمی آئی ہے یا نہیں۔
میٹا کے دعوے کے برعکس نتائج
بی بی سی نے 30 ممتاز عربی زبان کے خبر رساں اداروں کے فیس بک صفحات پر اس کا تجربہ کیا جن میں سکائی نیوز عربیہ اور الجزیرہ جیسے نیوز پلیٹفارمز شامل تھے۔
لیکن ہم نے دیکھا کہ اس کے بعد ان صفحات کی انگیجمنٹ میں تقریباً 100 فیصد کا اوسط اضافہ دیکھا گیا۔
ہماری تحقیق کا جواب دیتے ہوئے میٹا نے نشاندہی کی کہ انھوں نے اکتوبر سنہ 2023 میں کیے گئے ’عارضی پراڈکٹ اور پالیسی اقدامات‘ کو صیغۂ راز میں نہیں رکھا۔
میٹا نے کہا کہ اسے آزادئ اظہار کے حق کے متوازن استعمال کے حوالے سے چیلنجز کا سامنا رہا کیونکہ حماس کو امریکہ کی طرف سے منظور شدہ اور میٹا کی اپنی پالیسیوں کے تحت ایک خطرناک تنظیم کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔
میٹا نے یہ بھی کہا کہ جنگ کے بارے میں خصوصی طور پر پوسٹ کرنے والے صفحات پر انگیجمنٹ کے متاثر ہونے کا زیادہ امکان ہے۔
ایک ترجمان نے کہا کہ ’ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہم غلطیاں کرتے رہے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نکالنا کہ ہم جان بوجھ کر کسی خاص آواز کو دباتے ہیں واضح طور پر غلط ہے۔‘
انسٹاگرام کے الگورتھم میں تبدیلی
بی بی سی نے میٹا کے پانچ سابق اور موجودہ ملازمین سے اس بابت بات کی ہے کہ ان کی کمپنی کی پالیسیوں کا فلسطینی صارفین پر کیا اثر پڑا ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک شخص نے کچھ لیکڈ دستاویزات شیئر کیے جن میں انسٹاگرام کے ایلگوردھم میں تبدیلی کی نشاندہی کی گئی ہے جس میں فلسطینیوں کی جانب سے انسٹاگرام پوسٹس پر کمنٹس کی نگرانی سخت کر دی گئی۔
انھوں نے کہا کہ ’حماس کے حملے کے ایک ہفتے کے اندر ضابطے کو تبدیل کر دیا گیا جس سے یہ فلسطینی عوام کے خلاف زیادہ جارحانہ ہو گیا۔‘
اندرونی پیغامات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک انجینیئر نے اس نئے حکم کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ’فلسطینی صارفین کے خلاف نظام میں ایک نیا تعصب پیدا ہو سکتا ہے۔‘
میٹا نے تصدیق کی ہے کہ اس نے یہ اقدام اٹھایا ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ اس کے لیے فلسطینی علاقوں سے شائع ہونے والے ’نفرت انگیز مواد میں اضافے‘ کا جواب دینا ضروری تھا۔
اس کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ غزہ جنگ کے آغاز میں جو پالیسی تبدیلیاں کی گئی تھیں وہ اب واپس لے لی گئی ہیں لیکن یہ نہیں بتایا کہ ایسا کب کیا گیا ہے۔
غزہ میں تنازع کے آغاز سے اب تک کم از کم 137 فلسطینی صحافیوں کی ہلاکت کی اطلاع ملی ہے لیکن کئی ایسے بھی ہیں جو خطرات کے باوجود وہاں موجود ہیں۔
ان چند فوٹو جرنلسٹوں میں سے ایک عمر القطاع ہیں جنھوں نے شمالی غزہ میں رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’بہت ساری معلومات شائع ہی نہیں ہوتیں کیونکہ وہ بہت گرافک ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر (اسرائیلی) فوج کہیں بہت زیادہ افراد کو ہلاک کرتی ہے اور ہم اسے فلماتے ہیں تو وہ ویڈیو نہیں پھیلے گی۔‘
تاہم وہ کہتے ہیں کہ ’ان سارے چیلنجز، خطرات اور مواد پر پابندی کے باوجود ہمیں فلسطینیوں کے بارے میں مواد کو شیئر کرنا چاہیے۔‘
ریحاب اسماعیل اور نٹالی مرزوگی کی اضافی رپورٹنگ