یہ پتھری اکثر بڑی عمر کی گایوں کے جسم میں بنتی ہے لیکن انھیں جانور کے مرنے کے بعد ہی اس کے جسم سے نکالا جاتا ہے۔ البتہ زیادہ مقدار میں گوشت فروخت کرنے والے افراد یا کمپنیاں ایسی گائیں زیادہ ذبح کرتے ہیں جن کی زندگی قلیل ہو اسی لیے مویشیوں کے ذبح خانوں میں بھی اس پتھری کا ملنا نایاب ہوتا ہے۔
پراسیکیوٹراینریک رودریگاز نے پہلے کبھی 'بوائین گولڈ' کا نام نہیں سنا تھا لیکن پھر ایک دن انھیں چین سے یوراگوئے میں رقم کی مشکوک منتقلی کے بارے میں الرٹ ملا اور انھوں نے تحقیقات شروع کر دیں۔
رودریگاز نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ بطور پراسیکیوٹر اپنے 34 سال کے کیرئیر میں انھوں نے کبھی ایسا کیس نہیں سنا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسا مسئلہ تھا جس کے بارے میں زیادہ تر لوگوں کو علم نہیں تھا۔
انھیں پتا چلا کہ 2020 سے 2023 کے درمیان ہانگ کانگ کی دو کمپنیوں کو لاکھوں ڈالر ٹرانسفر ہوئے اور یہ رقم مختلف یوروگوئین بینکوں تک پہنچی۔
لیکن جس چیز نے اینٹی منی لانڈرنگ پراسیکیوٹر کے دفتر کی توجہ حاصل کی وہ یہ چیز تھی کہ ان کمپنیوں کے پاس اس جنوبی امریکی ملک کے ساتھ پہلےکسی قسم کی رجارت کا کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔
تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ یہ ادائیگیاں گائے کے پتے کی پتھری کی ہانگ کانگ کو غیر قانونی ترسیل کے بدلے میں کی گئیں تھیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ پتھریاں کچھ گایوں کے پتے میں بنتی ہیں اور روایتی چینی ادویات میں استعمال ہوتی ہیں۔
ایشیائی ممالک میں ان کا دیگر چیزوں میں استعمال بھی کیا جاتا ہے۔
پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا ہے کہ 'اس پتھری کی تجارتی قدر میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اور انھیں سونے کی ایک ڈلی کی طرح سمجھا جاتا ہے اور اسی باعث اس کے لیے ادا کی جانے والی قیمت مذکورہ کہیں زیادہ ہے۔' اس پتھری کی قیمت فی گرام200 امریکی ڈالر تک ہے۔
یہ مقدمہ ابھی تک چل رہا ہے اور اس میں کئی افراد کو مجرم ٹھہرایا گیا ہے۔
ذبح کی جانے والی 100 گایوں میں سے دو کے پتے میں یہ پتھری پائی جاتی ہے
ایشیا میں دواؤں میں بوائین گال سٹون کا استعمال کوئی نئی بات نہیں ہے۔
برازیلین فیکلٹی آف چائنیز میڈیسن 'ایبرامیک' کے صدر ریجینالڈو فلہو کا کہنا ہے کہ درحقیقت ان کا ذکر چینی ہربل میڈیسن پر تقریباً دو ہزار سال قبل لکھی کتاب میں ملتا ہے۔
انھوں نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ 'آج یہ چند مخصوص فارمولوں میں استعمال میں ہیں۔ گائے کے پتے کی پتھری ایک ایسے عمل سے گزرتی ہے جس میں یہ پاؤڈر بن کر ایک حل پذیر شکل اختیار کرتے ہیں جیسے کہ کیپسول یا گولیاں۔'
اس کے موجودہ استعمال میں سے ایک اعصابی عوارض جیسے کہ فالج یا دوروں کے علاج کے لیے ہے۔
یہ پتھر دیگر ایشیائی ممالک جیسے جنوبی کوریا اور جاپان میں بھی دواؤں میں استعمال ہوتے ہیں۔
تاہم زرد یا سرخی مائل یہ پتھر بازار میں نایاب ہیں۔
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ انسانوں کی طرح جانوروں میں بھی اس پتھری کی قدرتی پیداوار نایاب ہے: ایک اندازے کے مطابق ذبح کی جانے والی ہر 100 گایوں میں سے تقریباً دو کے پتے میں یہ پتھری پائی جاتی ہے اور وہ بھی بہت چھوٹی سی ہوتی ہے۔
یہ پتھری اکثر بڑی عمر کی گایوں کے جسم میں بنتی ہے لیکن انھیں جانور کے مرنے کے بعد ہی اس کے جسم سے نکالا جاتا ہے۔ البتہ زیادہ مقدار میں گوشت فروخت کرنے والے افراد یا کمپنیاں ایسی گائیں زیادہ ذبح کرتے ہیں جن کی زندگی قلیل ہو اسی لیے مویشیوں کے ذبح خانوں میں بھی اس پتھری کا ملنا نایاب ہوتا ہے۔
ایک مقامی چینی طبی ایسوسی ایشن کے ایک اندازے کے مطابق چین میں ہر سال تقریباً ایک ہزار کلو بوائین گال سٹون پیدا ہوتی ہے لیکن ملک کی سالانہ مانگ پانچ ہزار کلو ہے اور کورونا کی وبا کے بعد بڑھتی قیمتوں کے باوجود وہ اس کمی کو بیرون ملک سے پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
امریکہ کے محکمہ زراعت کی ایک رپورٹ (جس نے اپریل میں ان اعداد و شمار کو اکٹھا کیا تھا) کے مطابق ہانگ کانگ میں بوائین پتھروں کی عالمی درآمدات میں 2019 سے نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ سنہ 2023 میں 66 فیصد اضافے کے ساتھ یہ درآمدات 218 ملین امریکی ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔
برازیل چین کے زیرِ انتظام اس خطے کو گائے کے پتے کی پتھری سپلائی کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے جس کی فروخت گذشتہ چار سالوں میں تین گنا بڑھ کر 2023 میں 148 ملین امریکی ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ ڈیٹا مانیٹر کے اعداد و شمار کے مطابق ہانگ کانگ کو برآمد کرنے والے ممالک میں برازیل کے بعد آسٹریلیا، کولمبیا، ارجنٹائن، امریکہ اور پیراگوئے شامل ہیں۔
اس رپورٹ میں ان کاروباری مواقع کو بھی ہائی لائٹ کیا گیا جو ایسی مصنوعات کی کمی کی وجہ سے امریکہ کے لیے پیدا ہوتے ہیں اور ان میں صارفین کی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔
لیکن دوسرے ممالک نے بھی اس کا نوٹس لینا شروع کیا ہے۔
ارجنٹائن نے چین کو اس پتھری کی برآمد کے لیے گذشتہ ماہ اس ملک کے ساتھ ایک نئے پروٹوکول کے معاہدے کا اعلان کیا تھا۔
یہ خبر 19 نومبر کو ریو ڈی جنیرو میں جی 20 سربراہی اجلاس کے دوران دونوں ممالک کے صدور ہاویئر میلی اور شی جن پنگ کے درمیان ہونے والی ملاقات سے کچھ دن پہلے سامنے آئی ہے۔
فیڈریشن آف ارجنٹائن ریجنل ریفریجریشن انڈسٹریز (فیفرا) کے صدر ڈینیئل روڈولفو اُرکیا نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ چین کی طرف سے پروٹوکول کی حتمی منظوری کا انتظار ہے اور اس کا مقصد گائے کی پتھری کی تجارت کے لیے اس کی قیمت مقرر کرنا ہے۔
اُرکیا نے بی بی سی منڈو کو بتایا 'مسئلہ یہ ہے کہ ان کا حجم بہت کم مگر اہمیت بہت زیادہ ہے۔ یہ ایسی چیز نہیں ہے جو زیادہ جگہ لیں لیکن درحقیقت ان کی موجودگی ایک مسئلہ ہے کیونکہ بعض اوقات لوگ انھیں اپنی جیبوں میں ڈال کر لے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور مسئلہ غیر قانونی بازار ہیں۔'
یوراگوئے کی وزارت لائیو سٹاک زراعت اور ماہی گیری میں بین الاقوامی امور کی ڈائریکٹر ایڈریانا لوپیناسی نے بتایا کہ چین کی اس پروڈکٹ میں دلچسپی کے بعد ان کا ملک اس پتھری کی چین کو باضابطہ طور پر برآمد کے لیے پروٹوکول پر کام کر رہا ہے۔
ان پتھروں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث ڈاکوؤں نے بھی ان میں دلچسپی دکھائی ہے۔
برازیل کی ریاست ساؤ پالو میں پچھلے سال ڈاکوؤں نے ایسے گھروں پر دھاوا بول کر یہ پتھری چوری کر لی جہاں انھیں ذخیرہ کیا گیا تھا اس کے علاوہ سڑکوں پر انھیں لیجانے والی گاڑیوں سے ہونے والی مسلح ڈکیتی میں ڈاکو 2.7 کلو بوائین پتھری لے گئے جس کی قیمت تقریباً چار لاکھ امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہے۔
برازیل کے شہر برازیلیا میں پولیس نے غلطی سے تقریباً 150 گرام جعلی بوائین پتھری کی ایک کھیپ پکڑی جس میں آئرن کی مقدار زیادہ تھی۔
ارجنٹائن میں ریفریجریٹروں سے ان پتھروں کی چوری کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔
اس کے علاوہ یوراگوئے میں گائے کا گوشت تیار کرنے والی ایک روایتی کمپنی سے بذریعہ پارسل ہانگ کانگ کو اس پتھری کی غیر قانونی سمگلنگ اور منی لانڈرنگ کے الزام میں چار افراد کو مجرم ٹھہرایا گیا ہے۔
سزا پانے والوں میں دو بھائی بھی شامل ہیں جن کے بینک میں تین سالوں کے دوران کل سات لاکھ 86 ہزار امریکی ڈالر ٹرانسفر ہوئے۔
تاہم پراسیکیوٹر رودریگاز کا کہنا ہے کہ 'تفتیش جاری ہے جس میں وہ اس چیز کا پتا چلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ گائے کے پتے کی یہ پتھری کہاں پیدا ہوئی اور اسے تیاری کے مراحل سے کہاں گزارا گیا اور کہاں پر ریفریجریٹر رکھا گیا۔'