افریقہ کے چھوٹے سے ملک میں جوہری مواد کی کان کا ایسا تنازع جس کا فائدہ ایران اور چین کو ہو سکتا ہے

نائیجر اور فرانس کے تعلقات میں شدید کشیدگی کے بعد نائیجر کے فوجی رہنما فرانس کو ملک کے اہم اقتصادی شعبوں خصوصاً یورینیئم کی کان کنی کی صنعت سے بے دخل کرنے کے لیے پرعزم نظر آتے ہیں۔
niger
Getty Images

نائیجر اور فرانس کے تعلقات میں شدید کشیدگی کے بعد نائیجر کے فوجی رہنما فرانس کو ملک کے اہم اقتصادی شعبوں خصوصاً یورینیئم کی کان کنی کی صنعت سے بے دخل کرنے کے لیے پرعزم نظر آتے ہیں۔

حال ہی میں فرانس کی جوہری توانائی کی سرکاری کمپنی ایرانو (Erano) نے اعلان کیا تھا کہ جولائی 2023 کی بغاوت کے بعد فرانس کے دوست اور اتحادی محمد بازوم کا تختہ الٹنے کے بعد اقتدار میں آنے والی فوجی حکومت نےسومیر نامی کان پر قبضہ کر لیا ہے۔

اس اقدام کے وسیع اثرات ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ دنیا بھر میں موجود یورینیئم کے ذخائر میں نائیجر کا حصہ پانچ فیصد سے بھی کم بنتا ہے لیکن سنہ 2022 میں وہ پورے یورپ میں جوہری پاور پلانٹس کے لیے ایک چوتھائی یورینیئم فراہم کرتا تھا۔

حالیہ واقعات نے دیگر طریقوں سے بھی صورتحال کو مزید مشکل بنا دیا ہے کیونکہ یورپی ممالک موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے لڑنے اور بجلی کی پیداوار کے ذریعے کاربن آلودگی کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

نائیجر سے ایرانو کے انخلا سے فرانسیسی صدر ایمانویل میکخواں پر ایک اور منفی اثر پڑے گا، جنھیں پہلے ہی کئی اندرونی بحرانوں کا سامنا ہے۔

ایرانو کی ممکنہ روانگی کی خبر فرانس کے ایک اور دیرینہ افریقی پارٹنر چاڈ کے ساتھ تعاون کے خاتمے کی خبروں کے ساتھ مماثلت رکھتی ہے، جس نے حال ہی میں اچانک اعلان کیا تھا کہ وہ فرانس کے ساتھ اپنا سکیورٹی تعاون ختم کر دے گا۔ سینیگال نے بھی یہ اعلان کیا کہ وہ اپنے دارالحکومت ڈاکار میں موجود فرانسیسی فوجی اڈوں کو ختم کرنا چاہتا ہے۔

نائیجر میں ایرانو کو جس بحران کا سامنا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرانس کو توانائی کی فراہمی کے لیے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔

کل 56 ری ایکٹرز کے ساتھ 18 نیوکلیئر پاور پلانٹس رکھنے والے فرانس نے اب تک اپنی 56 فیصد بجلی جوہری توانائی سے سپلائی کی اور وہ بجلی کی پیداوار کے ذریعے کاربن آلودگی کو کم کرنے میں دوسرے ممالک سے آگے ہے۔

لیکن فرانس نے تقریباً 20 سال قبل مقامی سطح پر یورینیئم کی پیداوار کو محدود کر دیا تھا۔ اسی وجہ سے یہ ملک تقریباً ایک دہائی قبل سے اب تک تقریباً 90,000 ٹن یورینیئم درآمد کر چکا ہے، جس میں سے پانچواں حصہ نائجر سے آتا تھا۔

قازقستان، جو دنیا میں یورینیئم کی 45 فیصد طلب اکیلے پورا کرتا ہے، فرانس کے لیے یورینیئم کا ایک اور اہم ذریعہ ہے۔

یورینیئم
Getty Images

نائیجر سے ایرانو کے انخلا کے بعد یقینی طور پر فرانس اب دوسرے ذرائع تلاش کرنے پر مجبور ہو گا۔

اس حوالے سے دیگر سپلائرز جیسے ازبکستان، آسٹریلیا اور نمیبیا جیسے ممالک بھی درآمد کے لیے دستیاب ہیں۔

پچھلے سال، جنوب مغربی افریقہ میں نائیجر کے پڑوسیوں نے ملک میں بغاوت کے جواب پر اس پر پابندی لگا دی جس نے نائیجر کی یورینیئم کی برآمدات کو جزوی طور پر روک دیا اور اس کے نتیجے میں یورینیئم کے دوسرے برآمد کنندگان اس خلا کو پُر کرنے پر مجبور ہوئے۔

یورپی یونین کو اس ملک سے یورینیئم کی درآمد ایک تہائی تک پہنچ گئی ہے اور کینیڈا بھی اس کمی کو پورا کر رہا ہے۔

لیکن اس صورتحال کو ایک اور بھاری سیاسی قیمت چکانی پڑی۔ یوکرین پر حملے کے بعد روس سے یورپی یونین کی یورینیئم کی درآمدات میں 70 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔

روس سنہ 2020 سے نائیجر کے فوجی رہنماؤں (جنھوں نے اقتدار سنبھالا) اور نائیجر کےپڑوسی ملک برکینا فاسو اور مالی کا دوست ہے۔

روس کے ملٹری کانٹریکٹر مالی کی فوج کے ساتھ مل کر جہادی قوتوں کے ساتھ ساتھ تواریگ جیسی علیحدگی پسند اقلیتوں کے خلاف لڑ رہے ہیں جبکہ نائیجر اور برکینا فاسو کے اعلیٰ فوجی رہنماؤں کی حفاظت میں مدد بھی کر رہے ہیں۔

اس وجہ سے اگرچہ فرانس اور یورپ عمومی طور پر نائیجر سے درآمد شدہ یورینیم کے متبادل طریقے تلاش کر سکتے ہیں لیکن یہ اتنا آسان بھی نہیں۔

یورپی ممالک کم از کم مختصر مدت میں روس اور اس کے وسطی ایشیائی پڑوسیوں پر زیادہ انحصار کر سکتے ہیں اور یوکرین بحران کے اس حساس دور میں روس اور ولادیمیر پوتن پر اقتصادی دباؤ ڈالنے کو نظر انداز کر دینا چاہیے۔

اس کے علاوہ نائیجر کی نئی حکومت کے پورے یورپی یونین کے ساتھ تعلقات اتنے ہی بے اعتمادی کا شکار ہیں جتنے فرانس کے ساتھ ٹوٹے ہوئے تعلقات اور اسی وجہ سے اسے پرانے مغربی ممالک سے ہٹ کر نئے اتحادیوں کی ضرورت ہے۔

ایران یورینیئم کے ممکنہ کلائنٹ کے طور پر نائیجر کے لیے نیا آپشن ہو سکتا ہے۔ دونوں حکومتوں کے درمیان تعلقات گزشتہ جنوری میں نائیجر کے وزیر اعظم علی مہامنہ لامین زین کے تہران کے دورے سے مزید گہرے ہوئے ہیں۔ چند ماہ قبل دونوں ملکوں کے درمیان یورینیئم کی فراہمی کے لیے ممکنہ معاہدے کے بارے میں افواہیں بھی پھیلی تھیں۔

نائیجر میں برسراقتدار فوجی حکومت کی مخالفانہ پالیسی کی وجہ سے ایرانو کمپنی کو اس ملک سے یورینیم کی کان کنی کی سرگرمیاں معمول پر لانے کی زیادہ امید نہیں۔

نائیجر کی فوجی قیادت کی جانب سے فرانس کی اس مخالفت کی وجہ فرانسیسی صدر ایمانویل میکخواں کی جولائی 2023 میں نائیجر میں بازوم کی حکومت کا تختہ الٹنے پر مذمت تھی۔ بازوم افریقہ میں فرانس کے قریبی سیاسی اور سکیورٹی اتحادیوں میں سے ایک تھے۔

پیرس نے مغربی افریقی ریاستوں کی اکنامک کمیونٹی (ECOWAS) کے سخت موقف کی بھرپور حمایت کی اور اس وقت بھی یہ افواہیں تھیں کہ اگر اس گروپ نے نائیجر کے خلاف فوجی مداخلت کرنے اور بازوم کو واپس لانے کا فیصلہ کیا تو فرانس اس کی حمایت کرے گا۔

دشمنی اور بداعتمادی سے بھرے ایسے کشیدہ ماحول میں فرانس کی جوہری توانائی کی سرکاری کمپنی ایرانو بدلہ لینے کے لیے ایک موزوں اور اچھا ہدف دکھائی دے رہی تھی۔

نائیجر
Getty Images

برسوں سے اس کمپنی کی سرگرمیوں اور یورینیئم کی صنعت میں اس کے کردار نے نائیجر کے لوگوں میں کافی عدم اطمینان پیدا کیا تھا اور یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ کمپنی برآمدی معاہدے کی تجدید کے لیے وقتاً فوقتاً مذاکرات کے باوجود سستے داموں یورینیئم خریدتی ہے۔

اگرچہ کان کنی کا عمل نائیجر کی آزادی کے چند سال بعد شروع ہوا لیکن اس عمل کو بہت سے لوگوں نے فرانسیسی نوآبادیاتی عمل کی علامت کے طور پر دیکھا۔

نائیجر میں گذشتہ سال کی بغاوت کے بعد ایرانو کمپنی نے سفارتی تنازعات سے خود کو دور رکھنے کی کوشش کی اور خاموشی سے معمول کے مطابق اپنا کام جاری رکھا۔

تاہم مغربی افریقی ریاستوں کی اکنامک کمیونٹی کے بلاک کی طرف سے عائد پابندیوں نے افریقی صحارا میں ارلیت کے قریب سومیر کان سے یورینیم کی برآمد کو روک دیا۔

فروری کے آخر میں پابندیاں ہٹائے جانے کے بعد بھی افریقی ملک بینن میں کوتونوؤ کی بندرگاہ سے یورینیئم کی برآمد کا معمول کا راستہ بند رہا کیونکہ نائیجر کی نئی فوجی حکومت نے بینن کے ساتھ جاری سیاسی تنازعے کے بعد سرحد کو بند کر دیا۔

ایرانو نے یورینیئم کو ہوائی جہاز کے ذریعے ملک سے باہر لے جانے کی پیشکش کی لیکن حکومت نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔

جون میں فوجی حکومت نے ایمورین کی بڑی کان میں نئی ​​سہولیات کی تعمیر کے لیے فرانسیسی کمپنی کے حقوق کو منسوخ کر دیا۔ یہ کان نائیجر کی یورینیئم کی کان کنی کی صنعت کے مستقبل اور ترقی کے لیے ایک امید تھی۔

اسی وقت برآمدات کی روک تھام سے سومیر کی کان، جس میں نومبر تک 210 ملین ڈالر مالیت کا 1150 ٹن یورینیئم موجود ہے کو سنگین مالیاتی بحران کے قریب پہنچا دیا۔

جب ایرانو نے ملازمین کو تنخواہ دینے کو ترجیح بناتے ہوئے مزید یورینیئم کی پیداوار بند کرنے کا فیصلہ کیا تو نئی حکومت کے ساتھ اس کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے۔

یقیناً اس صورتحال کی بھاری قیمت صرف ایرانو کو ہی نہیں چکانا پڑے گی بلکہ برآمدات سے ہونے والی آمدن میں کمی اور سینکڑوں ملازمتوں کو خطرے میں ڈالنے کی وجہ سے نائیجر کی پوری معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچے گا۔

ارلیت اور شمالی صحرا میں رہنے والے دوسرے لوگوں کے لیے یہ بڑا دھچکا ہو گا۔ حال ہی میں چین کی طرف سے اس علاقے میں کان کنی شروع کرنے کے بارے میں بات چیت ہوئی اور دیگر صنعتوں کے شراکت داروں نے بھی اس علاقے میں دلچسپی ظاہر کی۔

لیکن نائیجر کی فوجی حکومت ایرانو کو کوئی رعایت دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی کیونکہ چینیوں کی مدد سے تعمیر کی گئی ایک نئی پائپ لائن کی بدولت ان کی تیل کی برآمدات میں اضافہ ہوا۔

نائیجر کی حکومت فرانس کے ساتھ پرانی یورینیئم کی کان کنی کی شراکت ختم کر کے بظاہر بھاری قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.