وقت کے ساتھ دیکھا گیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے لوگوں کے لیے بین الاقوامی سطح پر درمیانے، اعلیٰ اور انتہائی ترقی یافتہ ممالک کی طرف نقل مکانی کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ایک بہت واضح رجحان کو ظاہر کرتا ہے۔ دوسرے ملک ہجرت کے لیے باقاعدہ چینلز تک رسائی اب آسان نہیں رہی۔
دنیا بھر میں نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے اور اس بات کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے کہ اس رجحان میں مستقبل میں کمی ہو گی یا نہیں۔
تاہم گذشتہ دہائی نے نقل مکانی کے خواہشمند افراد کے لیے سنگین رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔
نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اپنی صدارت کے پہلے دور میں اس کو روکنے کے لیے ’دیوار بنانے‘ کی بیان بازی سے لے کر کوورنا وائرس کی عالمی وبا اور اس کے نتیجے میں سفری پابندیاں اور بریگزٹ معاہدہ تک ان عوامل میں شامل رہی ہیں جس نے برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان لوگوں کی آزادانہ نقل و حرکت کا خاتمہ کرنے میں کردار ادا کیا۔
اور اب 2025 کے آغاز میں دنیا کے دو سب سے بڑے ممالک میں اہم سیاسی تبدیلیاں متوقع ہیں جو ہجرت یا نقل مکانی کرنے والوں کی ترجیح میں سرفہرست سمجھے جاتے رہے ہیں۔
امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ جنوری میں بطور صدر اپنی دوسری مدت شروع کریں گے جبکہ جرمنی میں فروری کے آخر میں قبل از وقت انتخابات متوقع ہیں۔ یہ انتخابات سخت امیگریشن پالیسیوں کی حامی جماعتوں کو برتری دلا سکتے ہیں۔
اس مضمون میں ہم 2025 میں نقل مکانی کے عالمی رجحانات کے بدلاؤ کا جائزہ لیں گے۔
عالمی نقل مکانی کے موجودہ رجحانات
گذشتہ تین دہائیوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پوری دنیا میں تارکین وطن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔
تاہم دنیا کی بڑھتی آبادی کے مقابلے اپنا ملک چھوڑ کر دوسرے ملک جانے والے افراد کی تعداد اب بھی نسبتاً کم ہے۔
اقوام متحدہ کے انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن میں مائیگریشن ریسرچ اینڈ پبلیکیشنز ڈویژن کی سربراہ میری میک اولیف کا کہنا ہے کہ انھوں نے 25 سال کے امیگریشن کے اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس ڈیٹا کا بھی جائزہ لیا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہم نے وقت کے ساتھ دیکھا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے لوگوں کے لیے بین الاقوامی سطح پر درمیانے، اعلیٰ اور انتہائی ترقی یافتہ ممالک کی طرف نقل مکانی کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔‘
ان کے مطابق ’یہ ایک بہت واضح رجحان کو ظاہر کرتا ہے۔ دوسرے ملک ہجرت کے لیے قانونی رستوں تک رسائی اب آسان نہیں رہی ہے۔‘
میک اولف نے یورپ کے اندر زیادہ نقل مکانی کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ ’زیادہ تر بین الاقوامی نقل مکانی ترقی یافتہ اور امیر ممالک کے درمیان ہوتی ہے یعنی ایک امیر ملک سے دوسرے امیر ملک۔‘
انھوں نے کہا کہ نقل مکانی ان علاقوں میں زیادہ ہے جہاں یورپی یونین، ایکوواس (مغربی افریقی ریاستوں کی اقتصادی کمیونٹی) اور مارکوسر (جنوبی امریکہ میں تجارتی اور اقتصادی بلاک) جیسے مفت سفری انتظامات ہیں۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ جنوبی ایشیا سے خلیجی ممالک کے لیے امیگریشن کا ایک بڑا کوریڈور بھی ہے۔
سنہ 2022 میں دنیا میں تقریباً سات ملین بین الاقوامی طلبا تھے اور یہ تعداد تین دہائیوں سے بھی کم عرصے میں تین گنا زیادہ ہو گئی ہے۔
شام میں بشارالاسد حکومت کے خاتمے کے بعد دیگر ممالک میں مقیم 60 لاکھ سے زائد شامی پناہ گزینوں کو وطن واپسی کا موقع مل سکتا ہے۔
شام کے صدر بشار الاسد کے روس فرار ہونے کے ابتدائی دنوں میں سرحد پر ان شامی باشندوں کی قطاریں لگ گئیں جو ترکی کی طرف واپس جانا چاہتے تھے۔
تاہم یہ پیشین گوئی کرنا مشکل ہے کہ آیا یہ رجحان برقرار رہے گا اور سکیورٹی کی صورتحال کیسے بدلے گی۔ اس لیے اس بارے میں غیر یقینی صورتحال ہے کہ شام میں مستقبل میں کس قسم کی حکمرانی ہوگی۔
ٹرمپ کی واپسی اور امیگریشن پر اثرات
ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کے لیے امیگریشن ایک نہایت اہم مسئلہ ہے۔
امریکہ تارکین وطن کے لیے دنیا کا سب سے مقبول مقام سمجھا جاتا ہے اور سنہ 2016 کے صدارتی انتخابات میں اسی موضوع کو بہت مقبولیت ملی۔
’باڑ کی تعمیر‘ وہ نعرہ تھا جس کی گونج ٹرمپ کی ریلیوں میں باقاعدگی سے سنی جاتی رہی اور اس میں غیر قانونی آمد و رفت کو روکنے کے لیے میکسیکو کی پوری سرحد کے ساتھ ایک رکاوٹ یا باڑ بنانے کے ٹرمپ کے وعدے پر زور دیا جاتا تھا۔
صدارت کی اپنی پہلی مدت میں ڈونڈ ٹرمپ میکسیکو کی سرحد پر ابتدائی رکاوٹ کی لمبائی میں خاطر خواہ اضافہ کرنے کے قابل نہیں تھے تاہم انھوں نے دوسرے اقدامات کیے جن کے امیگریشن پر زیادہ ٹھوس نتائج برآمد ہوئے۔
جنوری 2017 میں صدر بننے کے بعد انھوں نے جو اولین کام کیے ان میں سے ایک اکثریتی مسلم آبادی والے سات ممالک (ایران، عراق، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن) کے لوگوں پر سفری پابندیاں عائد کرنا تھا۔ اس کے نتیجے میں اس پالیسی کو ’مسلم پابندی‘ کا نام دیا گیا۔
ٹرمپ کے ان احکامات پر دستخط کے وقت ان ممالک کے تقریباً 2000 شہری امریکہ جانے والی پروازوں میں محو سفر تھے تاہم انھیں امریکہ میں اترنے کے بعد حراست میں لے لیا گیا۔
ایک اور پالیسی جسے ختم کیا گیا وہ تھی ’ڈائیورسٹی امیگرنٹ ویزا‘ پروگرام جس میں امریکہ ایک سالانہ لاٹری کے ذریعے رہنے اور کام کرنے کے حقوق دیتا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے عہدے کے آخری سال میں اس عمل کو روکنے کا فیصلہ کیا اور اس کی توجیہ میں کہا کہ اس کا مقصد علامی وبا کے دوران ’امریکی لیبرمارکیٹ کا تحفظ‘ تھا۔
لیکن اس عمل نے ان ہزاروں لاٹری جیتنے والوں کی زندگی کا رخ بدل دیا جو ایک نئی زندگی شروع کرنے کی تیاری میں مگن تھے۔
ترکی سے تعلق رکھنے والی 27 سالہ خاتون ایرمک (فرضی نام ) نے 2019 میں لاٹری میں حصہ لیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ اس لاٹری کے نتائج کا اعلان جون 2020 میں ہوا اور میں نے اسے جیت لیا۔
انھوں نے کہا کہ ’ایک بائی سیکشوئیل اور ملحد عورت کے طور پر میں خود کو ترکی میں آزادانہ اظہار کرنے میں محفوظ تصور نہیں کرتی تھی۔‘
ان کے مطابق ’مجھے امریکہ کے بارے میں جو چیز پسند ہے وہ ان کی رازداری کا احترام ہے۔ میں نے سوچا کہ امریکہ میں زندگی آسان ہو سکتی ہے۔‘
جب ایرمک کی امیگریشن روک دی گئیتو انھوں نے اسی صورتحال میں دوسروں کے ساتھ مل کر اسے چیلنج کر دیا تاہم عدالت سے ان کے حق میں فیصلہ نہیں آیا اور ہزاروں افراد نے امریکہ جانے کا موقع گنوا دیا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے ایک متنازع قانون بھی نافذ کیا جس کے تحت امریکی حکام کو سرحد پر مہاجرین سمیت تارکین وطن کو فوری طور پر ملک بدر کرنے کی اجازت دی گئی۔
اس کے نفاذ اور جنوری 2021 کے درمیان جب ٹرمپ کی صدارت کا دور مکمل ہوا تب تک تقریباً چار لاکھ افراد کو حراست میں لے کر ملک بدر کر دیا گیا۔
ٹرمپ کی دوسری مدت میں توقعات
اس سال ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے وعدوں میں سے ایک غیر قانونی تارکین وطن کی بڑے پیمانے پر ملک بدری رہا ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ ’یہ ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ درحقیقت ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ وہ اپنے منصوبے کے لیے امریکی فوج کو استعمال کرنے اور ایک قومی ایمرجنسی کا اعلان کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔‘
نائب صدر کے لیے ٹرمپ کے منتخب کردہ جے ڈی وینس نے کہا ہے کہ ملک بدری 10 لاکھ افراد سے ’شروع‘ ہو سکتی ہے۔
تاہم ماہرین اس بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں کہ آیا ایسا ممکن ہو گا۔
گذشتہ ایک دہائی کے عرصے میں امریکہ کے اندر گرفتار کیے گئے اور ملک بدر کیے جانے والے افراد کی تعداد سالانہ ایک لاکھ سے کم رہی ہے، جو سرحد پر گرفتار کیے جانے والوں کے مقابلے میں کافی کم ہے۔
امریکن امیگریشن کونسل کے پالیسی ڈائریکٹر آرون ریچلن میلنک نے بی بی سی کو بتایا، ’اس کو سالانہ ایک ملین تک بڑھانے کے لیے بہت زیادہ وسائل درکار ہوں گے جو ممکنہ طور پر دستیاب نہیں ہیں۔‘
ماہرین کا اندازہ ہے کہ 10 لاکھ یا اس سے زیادہ لوگوں کو ملک بدر کرنے کی کل لاگت سینکڑوں ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔
اس کے علاوہ امیگریشن سے متعلق عدالتی نظام اتنی بڑی تعداد کو انصاف دینے سے قاصر ہو گا اور اتنے بڑے پیمانے پر ملک بدری کے پروگرام کو قانونی چیلنجز کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
تاہم ٹرمپ کو قانونی امیگریشن کو کم کرنے کے اقدامات کو نافذ کرنے میں زیادہ کامیابی حاصل ہو سکتی ہے جیسے کہ انھوں نے اپنی پہلی مدت میں ’ڈائیورسٹی ویزا لاٹری‘ جیتنے والوں کے ساتھ کیا تھا۔
جرمنی کے الیکشن اور ممکنہ تبدیلی
جرمنی کو دنیا کا دوسرا سب سے بڑا تارکین وطن ملک سمجھا جاتا ہے۔ فروری 2025 میں جرمنی میں متوقع انتخابات کے بعد وہاں ایک نئی حکومت تشکیل دی جائے گی۔
حالیہ برسوں میں ملک میں افرادی قوت کو بھرتی کرنے کے لیے امیگریشن کو آسان بنایا گیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا امیگریشن مخالف دائیں بازو کی جماعتیں اقتدار میں آنے سے یہ سب تبدیل ہو جائے گا۔
موجودہ حکومت نے مزدوروں کی کمی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے امیگریشن کے کچھ قوانین میں نرمی کی ہے لیکن نرمی کرنے والی وزیر اعظم اولاف شولز کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی اس وقت انتخابات میں تیسرے نمبر پر ہے جسے ملک میں تقریباً پانچ میں سے ایک شخص کی حمایت حاصل ہے۔
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کرسچن ڈیموکریٹس اور انتہائی دائیں بازو کی اے ایف ڈی سے پیچھے ہے۔
جرمن کونسل آف فارن ریلیشنز میں سینٹر فار مائیگریشن کی سربراہ وکٹوریہ ریٹیگ نے کہا کہ ’غیر قانونی نقل مکانی کو سخت کرنا جرمنی کی پارٹیوں، خاص طور پر انتہائی دائیں بازو کی انتخابی مہم کا حصہ ہے۔‘
اگرچہ جرمن جماعتیں مزدوروں کی کمی کی وجہ سے باقاعدہ امیگریشن پر کم تنقید کرتی ہیں۔
وکٹوریہ ریٹیگ کا خیال ہے کہ’یہ بات یقینی ہے کہ یہ سیاسی ماحول فروری کے انتخابات کے بعد جرمنی کی امیگریشن پالیسیوں کو مزید سخت بنا دے گا اور یہ کہ نئی حکومت ممکنہ طور پر کرسچن ڈیموکریٹس کی قیادت میں ہو گی۔‘
دیگر ممالک اور نقل مکانی
اگرچہ جرمنی یا امریکہ میں امیگریشن زیادہ پیچیدہ ہو سکتی ہے لیکن دیگر ممالک میں اضافی رکاوٹوں کا اطلاق ممکن نہیں ہے۔
یورپی یونین اور ایکوواس جیسے علاقائی ڈھانچے کے تحت نقل مکانی اور جنوبی ایشیا سے خلیج تک کا مرکزی راستہ بلا روک ٹوک جاری رہنے کا امکان ہے۔
آئی او ایم کی میری میک اولف کہتی ہیں کہ ’جنوبی ایشیا سے خلیج تک عظیم راہداری جو کہ تقریباً مکمل طور پر کارکنوں کے لیے ہجرت کی منزل ہے اس کا تسلسل جاری رہے گا کیونکہ اس کی ضرورت اور طلب بہت زیادہ ہے۔‘
ان کے مطابق ’بہت سے خلیجی ممالک کے لیے تارکین وطن کارکن بہت اہم ہیں اور وہ اہم خدمات فراہم کرتے ہیں۔ لہٰذا مجھے کوئی بڑی تبدیلی نظر نہیں آ رہی۔ یقیناً نہیں جب آپ ان بڑے امیگریشن ممالک اور بڑی منزل والے ممالک کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔‘
انھوں نےاس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ انتہائی دائیں بازو کے گروہوں کی طرف سے امیگریشن سسٹم پر اعتماد کو مجروح کرنے کے لیے آن لائن ڈس انفارمیشن مہم بھی چل رہی ہے۔
’میرے نزدیک بین الاقوامی نقل مکانی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ غلط معلومات کا تنازع نقل مکانی پر اعتماد کو کمزور کر رہا ہے۔‘
میک اولف کا کہنا ہے کہ جنگوں اور آفات کی وجہ سے ہونے والی شدید نقل مکانی کے علاوہ بین الاقوامی امیگریشن کے رجحانات نسبتاً مستحکم ہیں اور یہ صرف وقت کے ساتھ پالیسی کی تبدیلیوں سے متاثر ہوتے ہیں۔
’ہم جانتے ہیں کہ بین الاقوامی نقل مکانی اس سے مستثنیٰ ہے زیادہ تر لوگ انہی ممالک میں رہتے ہیں جہاں وہ پیدا ہوئے تھے۔‘