یہ ایک بار نہیں بلکہ کئی بار ہوا کہ جب کبھی اُن کا ڈرائیور اُن کی سفید رنگ کی فیٹ میں موجود نہ ہوتا تو اُن کی گاڑی پر جابجا لپ سٹک کے نشان ہوتے اور تو اور اُن دنوں اُن کو خواتین فینز کی جانب سے خون سے لکھے ہوئے خط بھی موصول ہوا کرتے۔یہ دیوانگی، یہ جنون اس سے قبل کسی اور اداکار کے حصے میں نہیں آیا تھا اور نہ اُن کے بعد میں آںے والے اداکاروں کے لیے اس قسم کے جنون کا اظہار کیا گیا۔یہ کہانی بالی وُڈ کے پہلے سپرسٹار راجیش کھنہ کی ہے۔ یہ نہیں ہے کہ اُن سے قبل بالی وُڈ میں ایسے ستارے نہیں تھے جن کی پرستش نہ کی جاتی ہو۔ دلیپ کمار، دیو آنند اور راج کپور کو بلاشبہ لوگوں کی بڑی تعداد پسند کرتی تھی اور کرتی ہے مگر راجیش کھنہ کی بات ہی اور تھی۔ وہ بالی وُڈ میں آئے تو گویا بہت سے اداکار گمنامی میں چلے گئے۔یہ لیجنڈ فنکار آج ہی کے روز 29 دسمبر 1942 کو غیرمنقسم ہندوستان کے شہر امرتسر میں پیدا ہوا۔کچھ ذرائع یہ لکھتے ہیں کہ اُن کی جائے پیدائش ضلع وہاڑی کا شہر بورے والا ہے کیوں کہ اُن کے والد لالہ ہیرانند کھنہ اس قصبے کے ایم سی ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے جنہیں ازاَں بعد اُن کے قریبی عزیز چنی لال کھنہ اور لیلاوتی کھنہ نے گود لے لیا جو امرتسر میں رہائش پذیر تھے۔جیو نیوز اپنی ویب سائٹ پر ایک رپورٹ میں لکھتا ہے کہ ’راجیش کھنہ کے والد لالہ ہیرانند آنند ایم سی سکول بورے والا کے پہلے ہیڈماسٹر تھے جو مارچ 1947 کو ریٹائر ہوئے۔ وہ سال 1948 میں تقسیم کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ امرتسر منتقل ہوئے تھے۔‘اس رپورٹ کے مطابق راجیش کھنہ نے اول جماعت تک اسی سکول میں تعلیم حاصل کی۔ اُن کے آبائی گھر کی عمارت بورے والا کے ایچ بلاک کے مرکزی مندر سے متصل تھی جہاں ان دنوں ماڈل ٹاؤن پولیس سٹیشن ہے۔ اس عمارت کے باہر آج بھی ہندی زبان میں ’جتن نواس‘ کندہ ہے جو دلچسپ طور پر راجیش کھنہ کا اصل نام تھا۔اداکار کی جنم بھومی کے حوالے سے اس اختلاف سے قطع نظر وہ ایک ایسے اداکار تھے جنہوں نے ایک پوری نسل کو متاثر کیا مگر انہوں نے جس طرح ڈرامائی عروج حاصل کیا، وہ زوال کا شکار بھی کچھ اسی طرح ہوئے۔فلم ’باغبان‘ سے شہرت حاصل کرنے والے اداکار سمیر سونی نے اس تلخ حقیقت پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایک وقت تھا جب لڑکیاں راجیش کھنہ کی گاڑی کے بوسے لیا کرتی تھیں لیکن پھر وہ وقت بھی آیا کہ وہ ایک سیٹ سے دوسرے پر جاتے تو انہیں نظر انداز کیا جاتا اور کوئی اُن سے سلام تک لینا بھی گوارا نہیں کرتا تھا۔ زوال کا یہ دور کامیابی سے طویل ہوا کرتا ہے۔‘راجیش کھنہ کی کامیابی کا آغاز اولڈ راوین چیتن آنند کی 1966 میں ریلیز ہونے والی فلم ’آخری خط‘ سے ہوا، یہ فلم باکس آفس پر تو کامیاب نہ ہو سکی مگر ناقدین کی جانب سے اسے نہ صرف سراہا گیا بلکہ غیرملکی زبانوں کے آسکر ایوارڈ کے لیے بھی بھیجا گیا۔
راجیش کھنہ نے کہا کہ ’مجھے مرکزی اداکار کے طور پر بریک روندر دیو کی سال 1967 میں ریلیز ہوئی فلم ’راز‘ سے ملی۔‘ (فوٹو: ریڈیو مرچی)
اُس وقت اداکار کے زیرِاستعمال ایم جی سپورٹس کار تھی جو اُس زمانے میں ایک نوآموز اداکار کے لیے ایک غیرمعمولی بات تھی مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ فلموں میں آنے سے قبل تھیٹر میں اپنی پہچان بنا چکے تھے اور سال 1962 میں انہوں نے کھیل ’اندھا یُگ‘ میں گونگے زخمی سپاہی کا کردار ادا کیا تھا جسے بے پناہ سراہا گیا تھا۔
اور جب انہوں نے بمبئے (اب ممبئی) کی مہا فلم نگری کا رُخ کیا تو اُس وقت اُن کے چچا نے اُن کا نام تبدیل کر کے راجیش رکھ دیا۔ جتن سے یاد آیا کہ اداکار جتندر راجیش کھنہ کے سکول میں ہم جماعت تھے جن کی پہلی فلم کے لیے آڈیشنز کی تیاری بھی اداکار نے ہی کروائی تھی۔سال 1965 میں آل انڈیا ٹیلنٹ کانٹیسٹ ہوا جس میں 10 ہزار سے زیادہ امیدواروں نے حصہ لیا جن میں کھنہ اور فریدہ جلال کامیاب ہوئے جس کے بعد اُن کے لیے فلم انڈسٹری کے دروازے کھلتے چلے گئے، اور جی پی سپی اور ناصر حسین جیسے کامیاب ہدایت کاروں اور پروڈیوسرز نے انہیں اپنی فلموں میں کاسٹ کیا۔ اسی زمانے میں اُن کی فلم ’راز‘ ریلیز ہوئی مگر اداکار کو سرِدست اُس بریک کا انتظار تھا جو بالی وُڈ کی سلطنت پر اُن کی حکمرانی کی بنیاد رکھ پاتی۔اداکار نے اخبار ’دی ہندو‘ سے بات کرتے ہوئے اس فلم کے بارے میں کہا تھا کہ ’اگرچہ ’آخری خط‘ میری پہلی فلم تھی مگر مجھے مرکزی اداکار کے طور پر بریک روندر دیو کی سال 1967 میں ریلیز ہوئی فلم ’راز‘ سے ملی۔ میری ہیروئن بابیتا تھیں۔ میں اگرچہ بہت زیادہ پراعتماد تھا مگر مجھے ابتدا میں کیمرے کا سامنا کرتے ہوئے گبھراہٹ محسوس ہوئی۔‘اُن کی اس کے بعد آنے والی دونوں فلمیں ’عورت‘ اور ’بہاروں کے سپنے‘ ناکام رہیں۔ سال 1969 اداکار کے فنی کیئریر میں ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا جس کا آغاز اُن کی یادگار فلم ’خاموشی‘ سے ہوا۔انہوں نے اس فلم میں مریض نمبر 24 (ارون) کا کردار ادا کیا تھا جس میں اُن کے مقابل وحیدہ رحمان نظر آئیں جن کی اداکاری اس قدر جاندار تھی کہ اس فلم کے لیے ان کو بہترین اداکارہ کے فلم فیئر ایوارڈ کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا۔ اس فلم کے سبھی گیت یادگار رہے جن میں ’ہم نے دیکھی ہے ان آنکھوں کی مہکتی خوشبو‘،’وہ شام کچھ عجیب تھی‘ اور ’تم پکار لو، تمہارا انتظار ہے‘ شامل ہیں۔ اس فلم کے شاعر اور مکالمہ نگار گلزارؔ تھے۔سال 1969 میں ہی ’ارادھنا‘ ریلیز ہوئی جس سے راجیش کھنہ کی بالی وُڈ پر حکمرانی کا آغاز ہوا جس کے بعد اُن کی ہر اگلے تین برس تک اُن کی ہر فلم بلاک بسٹر رہی۔
فلم ’آنند‘ میں راجیش کھنہ کے ساتھ بڑے پردے پر امیتابھ بچن نظر آئے (فوٹو: این ڈی ٹی وی)
اس فلم کے گیت، ’میرے سپنوں کی رانی‘، ’کورا کاغذ تھا یہ من میرا‘ اور ’روپ تیرا مستانہ‘ ایور گرین قرار پائے اور کشور کمار کا دوبارہ جنم ہوا جو کھنہ کی آواز بن گئے جیسا کہ ’یہ جو محبت ہے‘، ’یہ شام مستانی‘ اور ’ہمیں تم سے پیار کتنا‘ جیسے سپرسٹار پر فلمائے گئے بے شمار سدا بہار گیتوں کے لیے کشور کمار نے ہی اپنی آواز مستعار دی تھی۔
فلم ’ارادھنا‘ کے بعد اداکار کی ایک نہیں، دو نہیں، بلکہ 10 بھی نہیں، 15 فلمیں سپرہٹ رہیں۔ یہ ایک ایسا ریکارڈ ہے جو اُن سے قبل بھی کوئی اداکار نہ بنا سکا تھا اور نہ اُن کے بعد بن سکا۔ پروڈیوسرز اُن سے وقت لینے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار تھے۔فلم فیئر میگزین میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق ’ہاتھی میرے ساتھی‘ کامیاب رہی تو ’آنند‘ کو غیرمعمولی پذیرائی اور ایوارڈز حاصل ہوئے جس کے بعد ’سچا جھوٹا‘، ’آن ملو سجنا‘، ’کٹی پتنگ‘، ’انداز‘ اور ’باورچی‘ کامیاب رہیں۔فلم فیئر میگزین کے اس مضمون کے مطابق، کہا جاتا ہے کہ کلکتہ کے حکام نے اس ڈر سے فلم ’امر پریم‘ کی ہاوڑا پل پر شوٹنگ کی اجازت نہیں دی تھی کہ کہیں کھنہ کے لاکھوں چاہنے والوں کے جمع ہونے سے پل ہی منہدم نہ ہو جائے۔اخبار ٹائمز آف انڈیا لکھتا ہے کہ ’جب راجیش کھنہ راج کر رہے تھے تو مقابلہ ہی ختم ہو گیا تھا۔ اُن کے اس دور کا ٹریک ریکارڈ حیران کن ہے۔‘دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ فلم ’آنند‘ تھی جس میں راجیش کھنہ کے ساتھ بڑے پردے پر امیتابھ بچن نظر آئے جنہوں نے ازاَں بعد اینگری ینگ مین کے طور پر انڈیا کے پہلے سپرسٹار کی حکمرانی کو چیلنج کیا۔ اس فلم میں راجیش کھنہ کا ادا کیا گیا مکالمہ تو بہت سے لوگوں کی زندگی کا فلسفہ بن گیا، ’زندگی بڑی ہونی چاہیے، لمبی نہیں۔‘انڈین آن لائن نیوز پورٹل ’دی پرنٹ‘ اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے کہ ’کھنہ کے اس جادوئی عروج کی وجہ صرف ان کا ٹیلنٹ یا وجاہت نہیں تھی بلکہ فلم بین تو اُن کی نشیلی آنکھوں اور جادوئی مسکراہٹ کے دیوانے تھے جن کے باعث ان کو ’کاکا‘ کی عرفیت ملی۔‘
راجیش کھنہ نے ڈمپل کپاڈیہ سے اُس وقت شادی کی جب اداکارہ کی ڈیبیو فلم ’بوبی‘ سپرہٹ رہی تھی (فوٹو: انڈین ایکسپریس)
راجیش کھنہ کی یہ حکمرانی مگر جلد ہی ختم ہو گئی جب امیتابھ بچن کی فلم ’زنجیر‘ ریلیز ہوئی اور کھنہ کے کھلنڈرے پن کی جگہ امیتابھ کے اینگری ینگ مین نے لے لی۔
امیتابھ بچن نے راجیش کھنہ کی وفات پر اپنے تعزیتی بلاگ میں لکھا تھا کہ ’راجیش کھنہ پر اچٹتی سی نگاہ ڈالنے سے مجھ پر یہ حقیقت عیاں ہو گئی کہ اُن کی طرح کے لوگوں کا میرے اردگرد ہونے کی وجہ سے میرے لیے اس نئے شعبے میں زیادہ مواقع نہیں ہوں گے۔‘راجیش کھنہ کے ڈرامائی زوال پر بات کرنے سے قبل اُن کی اداکارہ ڈمپل کپاڈیہ سے شادی پر بات ہو جائے جو بالی وُڈ کی ہنگامہ خیز تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے۔ یہ شادی اداکار نے اپنے کیریئر کے عروج پر سال 1973 میں اُس وقت کی جب اداکارہ کی ڈیبیو فلم ’بوبی‘ سپرہٹ رہی تھی۔ڈمپل کپاڈیہ نے کچھ عرصہ قبل ایک تقریب میں راجیش کھنہ سے اپنی پہلی ملاقات کا احوال بتاتے ہوئے یہ ذکر کیا تھا کہ ’ہم ایک نجی فلائٹ سے ایک تقریب میں شرکت کے لیے احمد آباد جا رہے تھے۔ میں پیدائشی طور پر زندگی میں کچھ ڈراما پسند کرتی ہوں۔ بچپن سے ڈرامے کا شوق بہت زیادہ تھا۔ وہ میرے ساتھ والی نشست پر براجمان تھے۔ میں اُن کی جانب دیکھ رہی تھی۔ راجیش کھنہ، حقیقت میں ایسا ہی تھا۔ میں نے چالاکی سے اُن سے کہا، ‘وہاں تو بہت ہجوم ہوگا، بھیڑ ہوگی۔ آپ میرا ہاتھ پکڑو گے نا؟‘انہوں نے کہا، ’ہاں بالکل۔‘ میں نے جواب دیا، ’ہمیشہ کے لیے‘۔ اور باقی سب تاریخ کا حصہ ہے۔ یوں یہ ہو گیا۔‘اداکارہ نے یہ اعتراف کیا تھا کہ اُن کی دورانِ پرواز اس پہلی ملاقات کے ایک ہفتے بعد انڈیا کے اولین سپرسٹار سے شادی کی بات پکی ہو چکی تھی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے قبل سپرسٹار کا اداکارہ انجو مہندرو سے افیئر شہ سرخیوں میں رہا تھا۔
شادی کے بعد ڈمپل کپاڈیہ نے راجیش کھنہ کی خواہش کے پیشِ نظر فلم انڈسٹری چھوڑ دی (فوٹو: اے ایف پی)
اداکار کی سوانح عمری ’راجیش کھنہ: انڈیا کے اولین سپر سٹار کی اَن کہی کہانی‘ کے مطابق ملک بھر میں ہزاروں لڑکیاں راجیش کھنہ کا دل جیتنے کے لیے کچھ بھی کر گزرنے پر تیار تھیں لیکن سپرسٹار کی گرل فرینڈ انجو مہیندرو تھیں۔انہوں نے آشیرواد (اداکار کا گھر) کو سجانے سنوارنے کی ذمہ داری لے رکھی تھی اور اپنا زیادہ وقت یہیں پر گزارتیں تھیں۔
راجیش کھنہ کا تمام سٹاف انہیں ’میم صاحب‘ کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔ اداکار کے قریبی دوست پرشانت رائے یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’انجو میم صاحب پورے بنگلے کا دھیان رکھا کرتی تھیں۔ اگر کوئی پارٹی یا فنکشن ہوتا تو وہ اُن کی نگرانی میں ہوتا۔‘اور پھر ان دونوں میں فاصلے ایسے بڑھے کہ انہوں نے اگلے 17 سال تک ایک دوسرے بات نہیں کی۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سپرسٹار کا مزاج تھا۔اُن دنوں ہی ڈمپل کپاڈیہ راجیش کھنہ کی زندگی میں آئیں۔ وہ اُس وقت صرف 16 برس کی تھیں جب کہ اداکار اُن سے عمر میں 15 برس بڑے تھے۔کہا جاتا ہے کہ راجیش کھنہ نے اُن سے یہ شادی محض توجہ حاصل کرنے کے لیے کی تھی۔ تاہم اداکارہ نے اس بارے میں کہا تھا کہ ’میرے لیے سب سے بڑی بات راجیش کھنہ سے شادی کرنا تھی۔ یہ میرے لیے غیرمعمولی بات تھی اور میرا نہیں خیال کہ میں کوئی بہت زیادہ کامیاب تھی کہ میری شادی سپرسٹار سے ہوتی۔ میں اُن کی بہت بڑی مداح رہی تھی۔ یہ خواب کے پورے ہونے جیسا تھا۔‘اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق بوبی کی کامیابی کی وجہ سے ڈمپل کپاڈیہ کو بہت زیادہ فلموں کی آفرز ہو رہی تھیں۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ راجیش کھنہ نے شادی کے بعد اُن کے اداکاری کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔شادی کے بعد ڈمپل کپاڈیہ نے راجیش کھنہ کی خواہش کے پیشِ نظر فلم انڈسٹری چھوڑ دی۔اداکارہ نے اس بارے میں کہا تھا کہ ’میری اس وقت شادی ہوگئی جب میں صرف 16 برس کی تھی۔ مجھے اپنی خانگی زندگی کے لیے سٹارڈم چھوڑنے پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔ میں محسوس کرتی ہے کہ یہ میری زندگی کا بہترین وقت تھا۔‘
اداکار کا اُس وقت زوال شروع ہوا جب سال 1972 میں اُن کی چھ فلمیں یکے بعد دیگرے فلاپ ہوئیں (فوٹو: اے ایف پی)
اور اس کے بعد سپرسٹار کا وہ زوال شروع ہوا جن سے اُن کی نجی زندگی بھی محفوظ نہ رہ سکی۔ وہ جلد غصے میں آ جاتے، اور ہمہ وقت مے نوشی کرتے رہتے جس کے باعث ان دونوں میں فاصلے بڑھ گئے۔
ڈمپل کپاڈیہ نے اخبار ’انڈین ٹوڈے‘ سے گفتگو کرتے ہوئے اِن مشکل دنوں کا ذکر کچھ ان الفاظ میں کیا تھا کہ ’زندگی میں پہلی بار مجھے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ایک کامیاب آدمی جب ناکامی سے دوچار ہوا تو اس کی فرسٹریشن اُس کے اردگرد کے لوگوں پر بھی اثرانداز ہوئی۔‘انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’میں اور راجیش اپنی شادی کی ناکامی کو قبول کرنے پر تیار نہ تھے۔ لیکن مجھے ادراک ہوا کہ میرے لیے مزید یہ برداشت کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ میں اعصابی تناؤ کا شکار ہو گئی تھی کیوں کہ میں کچھ بھی کرنے پر تیار تھی، کسی بھی انتہا پر جانے پر تیار تھی تاکہ اُن کے چہرے پر مسکان لا سکوں۔‘لیکن بدقسمتی سے اُن دونوں کے راستے جلد ہی الگ ہو گئے اور سال 1982 میں اداکارہ نے اپنی صاحب زادیوں ٹونکل اور پنکی کے ساتھ ’آشیرواد‘ چھوڑ دیا مگر اُن دونوں میں طلاق نہیں ہوئی۔اداکار کا 15 مسلسل کامیاب فلموں کے بعد اچانک اُس وقت زوال شروع ہوا جب سال 1972 میں اُن کی چھ فلمیں یکے بعد دیگرے فلاپ ہوئیں جس کے بعد اگرچہ اداکار نے سال 1974 میں کچھ کامیاب فلموں جیسا کہ ’آپ کی قسم‘، ’پریم نگر‘ اور ’روٹی‘ کے ذریعے کم بیک کیا مگر اُن کا سپرسٹار کا تشخص خطرے میں پڑ چکا تھا۔کہا جاتا ہے کہ راجیش کھنہ مغرور ہو گئے تھے اور من مانی کرنے لگے تھے جس کے باعث اُن کے قریبی دوست فلم میکر من موہن ڈیسائی، جنہوں نے اُن کی دو کامیاب فلموں ’سچا جھوٹا‘ اور ’روٹی‘ کی ہدایت کاری کی تھی، نے اپنی اگلی فلم ’امر اکبر انتھونی‘ کے لیے امیتابھ بچن کا انتخاب کیا جس کے باعث کھنہ کا کیریئر تیزی سے روبۂ زوال ہوا۔ٹائمز آف انڈیا کے مطابق یہ کہانیاں بھی گردش میں رہیں کہ کس طرح سپرسٹار اپنے پورے پراجیکٹ کو اپنی مرضی کے مطابق ترتیب دینے پر اصرار کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ موسیقی آر ڈی برمن کے علاوہ کوئی نہ دے، مگر اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔اخبار مزید لکھتا ہے کہ ’کھنہ اور آر ڈی برمن نے سال 1985 میں فلم ’الگ الگ‘ میں ایک ساتھ کام کیا جس کے ہدایت کار کھنہ کے مخلص دوست شکتی سامنت تھے جس میں ٹینا منیم نے اُن کی ہیروئن کا کردار ادا کیا جن سے اُن کا حقیقی زندگی میں افیئر جاری تھا مگر بات بن نہیں سکی۔‘
راجیش کھنہ سال 1992 میں سیاست میں بھی آئے اور پارلیمان کے رُکن منتخب ہوئے (فوٹو: اے ایف پی)
یہ فلم ہی نہیں بلکہ ’سوتن‘ کے علاوہ ان دونوں کی کوئی فلم بھی کامیاب نہیں ہو سکی جو سال 1983 میں حیران کن طور پر کامیاب رہی تھی، اسی برس اُن کی دو اور فلمیں بھی ’اگر تم نہ ہوتے’ اور ’اوتار‘ کسی حد تک کامیاب رہیں مگر وہ دوبارہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل نہیں کر پائے۔
کھنہ نے اگرچہ ملٹی سٹارر ایکشن فلموں میں کام کر کے اپنے رومانی ہیرو کی چھَوی مٹانے کی کوشش کی اور ’چھیلا بابو‘ اور ’انورودھ‘ جیسی کامیاب فلمیں دیں مگر اُن کی ناکام فلموں کی تعداد زیادہ تھی۔نوّے کی دہائی میں ریلیز ہونے والی فلم ’سوّرگ‘ اداکار کی آخری کامیاب فلم تھی۔ لیکن وہ اِس زوال کے باوجود فلم بینوں کے دلوں میں رہے۔ وہ اس دوران سال 1992 میں سیاست میں بھی آئے اور پارلیمان کے رُکن منتخب ہوئے مگر جلد ہی سیاست سے بھی جی اُچاٹ ہو گیا تو دوبارہ فلموں کا رُخ کیا اور ’آ اَب لوٹ چلیں‘، ‘کیا دل نے کہا‘ اور ’وفا‘ میں کام کیا مگر اب اُن کا دور ختم ہو چکا تھا۔اداکار کے زوال کی وجوہات پر تفصیل سے بات ہو سکتی ہے مگر اداکار کے اپنے الفاظ میں جب اُن کا کیریئر ناکامی سے دوچار ہوا تو انہوں نے شراب نوشی میں پناہ لی۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ کوئی غیرمعمولی انسان نہیں تھے اور وہ ناکامی کو آسانی سے قبول نہیں کر سکے۔ٹائمز آف انڈیا کے مطابق اداکار نے یہ تسلیم کیا تھا کہ انہوں نے ناکامی کا سامنا کرنے کی کوشش کی کیوں کہ کامیابی اُن پر بہت زیادہ اثرانداز ہوئی تھی۔بالی وُڈ کا یہ لیجینڈ اداکار 12 جولائی 2012 کو ڈرامائی زندگی گزار کر چل بسا۔ وہ آخری برسوں میں تنہائی کا شکار ہو گئے تھے۔ یہ ایک ایسے فنکار کی زیست کا بیاں تھا جس نے بالی وُڈ کو کئی یادگار فلمیں دیں مگر کامیابی کے بوجھ تلے ایسا دبا کہ پھر کبھی اُبھر نہیں سکا، اور یوں اس کہانی کا انجام ایسا ہوا جو کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔