انڈیا کی مغربی ریاست راجستھان میں ’عرفان تھیٹر فیسٹیول-2025‘ منایا جا رہا ہے۔ یہ انڈیا کے معروف اداکار عرفان خان کو ان کی موت کے بعد خراج تحسین کے طور پر شروع کیا گیا ہے کیونکہ عرفان خان اسی ریاست سے تھے۔عرفان خان کا کیریئر اگرچہ 1988 میں آنے والی فلم ’سلام بامبے‘ سے شروع ہوا تھا لیکن انھیں اپنی پہچان بنانے میں ایک عرصہ لگا۔ عرفان انڈیا کے ایک ایسے اداکار رہے جنھیں انڈین سینما کے ساتھ ساتھ مغربی ممالک کے سینما میں بھی پزیرائی ملی۔آپ میں سے بہت سے لوگوں نے برطانوی فلمساز اور ہدایتکار ڈینی بوائل کی فلم ’سلم ڈاگ ملینیئر‘ دیکھی ہوگی جس میں عرفان خان نے یادگار کردار ادا کیا ہے۔ 2008 میں آنے والی اس فلم نے آسکر ایوارڈز میں دھوم مچا دی تھی اور اس نے راتوں رات کئی سٹار پیدا کر دیے۔یہ وہ موڑ تھا جس کے بعد عرفان خان نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اگرچہ اس سے قبل وہ ایک برطانوی فلم ’دی واریئر‘ میں نظر آ چکے تھے اور انڈیا میں فلم ’حاصل‘، ’مقبول‘، ’دی نیم سیک‘ اور ’لائف ان اے میٹرو‘ کی وجہ سے وہ منجھے ہوئے اداکاروں میں شمار ہونے لگے تھے لیکن ان کی کہانی بھی کسی سلم ڈاگ ملینیئر کی کہانی سے کم نہیں۔عرفان خان نے ہالی وڈ فلم ’دی انفرنو‘، ’دی امیزنگ سپائڈر مین‘ اور ’جوراسک ورلڈ‘ میں اداکاری کی۔ 2015 میں آنے والی جوراسک ورلڈ کی پروموشن کے لیے جب ایک بار وہ امریکہ پہنچے تو انہوں نے بتایا کہ جب 1993 میں پہلی ’جوراسک پارک‘ فلم ریلیز ہوئی تھی تو اس وقت وہ ممبئی میں ٹی وی میں کام حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔ان کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ وہ ’جوراسک پارک‘ دیکھنے کے لیے تھیٹر کا ٹکٹ خرید سکیں، لیکن اس کے 22 سال بعد انھوں نے اس سیریز کی ایک فلم میں نہ صرف اداکاری کی بلکہ اس سے کہیں زیادہ شہرت حاصل کی۔ اس فلم نے پوری دنیا میں ایک اعشاریہ سات ارب ڈالر کا بزنس کیا۔انڈیا کے کسی دوسرے اداکار کو اتنی کامیابیاں ہالی وڈ فلمیں نہیں ملیں جتنی کہ عرفان خان کو ملیں۔ انہوں نے 2012 میں آنے والی فلم ’دی لائف آف پائی‘ میں اہم کردار ادا کیا۔عرفان خان کی ابتدائی زندگیعرفان خان کو ہم آج اس لیے یاد کر رہے ہیں کہ آج سے 58 سال قبل آج ہی کے دن سات جنوری 1967 کو انہوں نے راجستھان میں ٹونک کے ایک مسلم گھرانے میں آنکھیں کھولیں۔ ان کا پورا نام صاحبزادہ عرفان علی خان رکھا گیا۔انہوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی دن ٹونک میں گزارے اور پھر تعلیم کے لیے انڈیا کے گلابی شہر اور ریاستی دارالحکومت جے پور پہنچے۔
عروف ایتھلیٹ ڈاکو ’پان سنگھ تومر‘ کی زندگی پر مبنی فلم کے لیے انہیں بہترین اداکار کا نیشنل ایوارڈ دیا گیا (فوٹو: پنک ولا)
عرفان کرکٹ کے اچھے کھلاڑی تھے اور انہیں 23 سال سے کم عمر کھلاڑیوں کے لیے سی کے نائیڈو ٹورنامنٹ میں کھیلنے کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ یہ ٹرافی انڈیا میں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے کا دروازہ مانی جاتی ہے۔ لیکن وہ اس میں شرکت نہ کر سکے کیونکہ ان کے پاس سفر کے کرایے کے لیے پیسے نہیں تھے۔
اس مایوسی کے بعد ماموں کی وجہ سے ان کی تھیٹر میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ جے پور میں انہوں نے تعلیم کے دوران تھیٹر شروع کر دیا تھا اور ایم اے کرنے کے بعد 1984 میں وہ باضابطہ طور پر نیشنل سکول آف ڈرامہ میں ایکٹنگ کی تعلیم کے لیے پہنچ گئے۔اس کے بعد انہوں نے فلم نگری ممبئی کا رخ کیا جہاں اپنے ابتدائی دنوں میں عرفان نے ایئر کنڈیشنر کی مرمت کرنے والے کے طور پر کام کیا۔اسی سلسلے میں ایک بار انہیں راجیش کھنہ کے گھر اے سی کی مرمت کے لیے جانا پڑا۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ’راجیش کھنہ کا جو کریز تھا ویسا کریز کسی اور اداکار کا نہیں رہا ہے۔ وہ بالی وڈ کے سب سے بڑے اور حقیقی سٹار تھے۔ میں کہوں گا کہ سٹارڈم اپنے آئیڈیل کے پاس ہونے کا احساس ہے۔ آپ جوش و خروش سے اتنے مغلوب ہو جاتے ہیں کہ آپ حقیقت سے دور ہو جاتے ہیں۔‘اپنے جدوجہد کے زمانے سے جب نکل کر نئی صدی میں عرفان نے قدم رکھا تو شیکسپیئر کے ڈرامے پر مبنی فلم ’مقبول‘ میں ان کی اداکاری کو سراہا گیا اور پھر جب ان کی لیڈ اداکاری والی فلم ’روگ‘ آئی تو ناقدین نے ان کی اداکاری کو مزید سراہا اور کہا کہ ’ان کی آنکھیں بولتی ہیں۔‘بڑی بڑی آنکھوں والے اداکار عرفان خان نے اس کے بعد مڑ کر نہیں دیکھا اور ان کا اپنا انداز ہر جگہ نظر آیا۔ انہیں فلم ’حاصل‘ کے لیے بہترین ولن کا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ اس کے بعد ’لائف ان اے میٹرو‘ کے لیے بہترین معاون اداکار کا ایوارڈ ملا۔2012 میں معروف ایتھلیٹ ڈاکو ’پان سنگھ تومر‘ کی زندگی پر مبنی فلم کے لیے انہیں بہترین اداکار کا نیشنل ایوارڈ دیا گیا۔
عرفان خان کی معروف فلموں میں اداکارہ دیپکا پاڈوکون کے ساتھ ’پیکو‘ شامل ہے (فوٹو: ولچر)
2018 میں ان میں نایاب کینسر کی تشخیص ہوئی اور 29 اپریل 2020 کو عرفان خان نے آنکھیں موند لیں۔
ان کی موت پر گارڈین کے پیٹر بریڈشا نے انہیں جنوبی ایشا اور ہالی وڈ کے درمیان ایک قیمتی پل کے طور پر یاد کیا۔ انہوں نے عرفان خان کو ’ہندی اور انگریزی زبان کی فلموں میں ایک ممتاز اور کرشماتی ستارہ کے طور پر بیان کیا۔‘عرفان خان کی سوانح ’عرفان دی مین، دی ڈریمر، دی سٹار‘ کے مصنف اسیم چھابڑا نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ 2007 میں فلم ’اے مائٹی ہارٹ‘ کی تشہیر کے لیے عرفان خان نیویارک آئے تھے۔ یہ فلم وال سٹریٹ جرنل کے جنوبی ایشیا کے نمائندے ڈینیئل پرل کے اغوا اور قتل کی تحقیقات پر مبنی ہے۔ان کے اور انجلینا جولی سمیت ان کے ساتھی اداکاروں کے انٹرویوز کے درمیان، عرفان نے مجھے ایک طرف کھینچ کر مجھ سے ہندی زبان میں پوچھا کیا کچھ ہو رہا ہے، کیا لوگ مجھے پہچان رہے اور کیا ہالی وڈ میں مزید کام کرنے کا موقع ملے گا۔‘نہ صرف عرفان خان کو مزید مواقع ملے بلکہ ان کی موت کے بعد 93 ویں اکیڈمی ایوارڈز میں ’ان میموریم‘ زمرے میں انہیں اعزاز سے نوازا گیا جو شاید کسی دوسرے انڈین اداکار کے حصے میں نہیں آیا ہے۔عرفان خان کی معروف فلموں میں اداکارہ دیپکا پاڈوکون کے ساتھ ’پیکو‘ شامل ہے۔ اس کے بارے میں اسیم چھابڑا لکھتے ہیں کہ 2015 میں اس نے رڈلے اسکاٹ کی ’دی مارٹیئن‘ میں کام کرنے کے بجائے ایک دلکش محبت کی کہانی ’پیکو‘ میں کام کرنے کا انتخاب کیا جو کہ دہلی اور کلکتہ پر مبنی فلم ہے۔انہوں نے لکھا کہ جب عرفان کی سوانح کے لیے انہوں نے پیکو کے ڈائریکٹر شوجیت سرکار سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ وہ اس وقت تذبذب کا شکار تھے کہ وہ کیا کریں پیکو کریں یا دی مارٹیئن کریں۔
عرفان کی ’مداری‘ اور ’لنچ باکس‘ بھی قابل دید فلمیں ہیں جبکہ ’بلو باربر‘ میں انہوں نے سادگی کے ساتھ یادگار کردار ادا کیا ہے (فوٹو: پنک ولا)
شوجیت سرکار بتاتے ہیں کہ جب عرفان ان سے اس بابت پوچھ رہے تھے تو وہ دل میں سوچ رہے تھے کہ ’ہالی وڈ کے ڈائریکٹر کے سامنے شوجیت سرکار کی حیثیت کیا ہے‘، لیکن عرفان نے پیکو کو منتخب کیا۔
عرفان کی ’مداری‘ اور ’لنچ باکس‘ بھی قابل دید فلمیں ہیں جبکہ ’بلو باربر‘ میں انہوں نے سادگی کے ساتھ یادگار کردار ادا کیا ہے۔آج اگر ان کی آبائی ریاست میں انہیں خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے تو یہ خیال آتا ہے کہ ان کے لیے تو پورے انڈیا کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے کیونکہ انہوں نے انڈیا کی اداکاری کی صلاحیت کو عالمی منظرنامے پر اجاگر کیا ہے جس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔