وحید مراد کی آخری فلم جس میں لگا کہ ’وہ بتا رہے ہیں کہ میرے ساتھ کیا کیا ہوا‘

حال ہی میں پاکستان کے سینیماز میں ایک بنگلہ دیشی فلم، 'طوفان' ڈبنگ کے بعد نمائشکے لیے پیش کی گئی۔ فلم میں بنگلہ دیش کے سپر سٹار شکیب خان کو دوہرے کرداروں ایک ڈان اور ایک شہرت کے مارے اداکار کے رول میں پیش کیا۔

حال ہی میں پاکستان کے سینیماز میں ایک بنگلہ دیشی فلم، 'طوفان' ڈبنگ کے بعد نمائشکے لیے پیش کی گئی۔ فلم میں بنگلہ دیش کے سپر سٹار شکیب خان کو دوہرے کرداروں ایک ڈان اور ایک شہرت کے مارے اداکار کے رول میں پیش کیا۔

شنتو نامی اداکار ایک ایسے ڈان کا ہمشکل ہے جو چوری چکاری، قتل و غارت سے نہیں ڈرتا۔ سینیما میں یہ فلم دیکھتے دیکھتے میں کوئی چالیس سال پیچھے چلا گیا، جب کراچی میں ایک ایسی ہی فلم کا پریمیئر ہوا تھا، جس میں ایک چور تھا اور ایک اداکاری کا شوقین دیہاتی اور ان دونوں کرداروں کو ادا کیا تھا اس وقت کے ایک سپر سٹار نے۔

گیارہ جنوری 1985 کو ریلیز ہونے والی فلم کا نام 'ہیرو' تھا، جو چاکلیٹ ہیرو وحید مراد کی آخری فلم تھی۔ فلموں میں اپنے انداز اور اپنی آواز سے برسوں ایک الگ مقام پانے والے وحید مراد کو اپنی اس فلم سے کافی امیدیں وابستہ تھیں۔ بحیثیت پروڈیوسر تو انھوں نے اس فلم کا اعلان سن 1981 میں کیا تھا، لیکن اپنے والد نثار مراد کی وفات، متعدد کار ایکسڈنٹس اورپیٹ کے ایک آپریشن کے بعد کمزوری کی وجہ سے ہیرو کی 'ہیرو' تاخیر کا شکار ہورہی تھی۔

فلم کی کہانی روایتی تھی، گاؤں سے شہر آئے بھولے بھالے 'فتو' کی شکل پولیس کو چکر دینے والے ماہر چور 'جانی' سے ملتی ہے۔ 'جانی' کے سرپرست بخاری صاحب 'فتو' کو فلم سٹار بنانےکا جھانسا دیتے ہیں۔ ایک 'فیک'پرودکشن کمپنی کھولتے ہیں اور 'جانی' کے فلمی نام سے اسے بطور ہیرو متعارف کراتے ہیں۔ مزے کی بات تو یہ تھی کہ فلم کی شوٹنگ صرف اس وقت ہوتی ہے جب 'جانی' کوئی کارروائی کررہا ہوتا۔فلم میں کرن اور شعلہ کے نام سے بالترتیب بابرہ شریف اور ممتاز نے ہیروئن کا رول ادا کیا، 'کرن' اندرونِ لاہور کی ایک سیدھی سادھی لڑکی تھی جو بچپن سے جانی کو چاہتی تھی، جبکہ 'فتو' کے ساتھ کام کر کے ٹاپ کی اداکارہ 'شعلہ' کو اس بھولے بندے سے پیار ہو جاتا ہے۔

سنہ 1983 میں فلم کی شوٹنگ رکی ہوئی تھی، صرف چند سینز شوٹ ہونا باقی تھے۔ چہرے پر زخم ٹھیک کرانے کے لیے وحید مراد نومبر میں کراچی آ کر معروف پلاسٹک سرجن ڈاکٹر فیض سے بھی ملے۔ وحید مراد کے بچپن کے ساتھی اور سابق بیوروکریٹ جاوید علی خان نے بی بی سی کو بتایا کہ 'وحید میرے پاس لندن آکر کچھ دن رکنے کا ارادہ کرچکے تھے۔ میں نے اسی سال کے اوائل میں اسے لاہور جا کر راضی کیا تھا، کہ وہ اپنا فلمی کیرئیر 'ری سٹارٹ' کرے۔ اس نے ہیرو کے چند بچ جانے والے سینز کی شوٹنگ کے بعد لندن آنے کا وعدہ کیا تھا، وہ اس زخم سے بھرے چہرے کے ساتھ لندن آنا نہیں چاہتا تھا۔ اس کے لیے چہرے کو درست کرانا زیادہ ضروری تھا کیونکہ اس سے ہیرو کے باقی سینز شوٹ ہوجاتے اور فلم مکمل ہو کر ریلیز ہوجاتی۔'

زندگی نے وفا نہ کی اور ان کی اسی ماہ 23 تاریخ کو وفات ہوگئی۔ محض بارہ دن پہلے انھوں نے فلم کے ڈائریکٹر اور اپنے قریبی دوست اقبال یوسف سے ملاقات کی تھی اور کہا تھا کہ سنہ 1984 میں تینوں فلمیں ریلیز کریں گے یعنی 'ہم بھی پڑے ہیں راہوں میں'، 'زلزلہ' اور 'ہیرو'۔

'ہم بھی پڑے ہیں راہوں میں' آج تک ریلیز نہ ہوسکی، 'زلزلہ' سنہ 1987 میں کافی تاخیر سے ریلیز ہوئی، جبکہ 'ہیرو'، 'اقبال یوسف نے مکمل کی، وہی اقبال یوسف، جنھوں نے وحید مراد کو 'ہیرو' بنوایا تھا۔

کالج میں ضیا محی الدین کے ڈرامے میں کام اور ریڈیو پر نیوز کاسٹر

وحید مراد دو اکتوبر 1938 میں فلم ڈسٹری بیوٹر نثار مراد کے گھر پیدا ہوئے تھے۔ گھر میں فلم والوں کا آنا جانا تھا اور باتیں بھی اسی شعبے کے حوالے سے ہوا کرتی تھیں تو فلم میکنگ اس 'سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہونے والے' بچے کی گٹھی میں شامل تھی۔

کالج میں پڑھائی کے دوران انھوں نے ضیا محی الدین کی ہدایت میں پیش کردہ ڈرامے، رومیو اینڈ جولیٹ میں 'بین وولیو' کا کردار بھی ادا کیا تھا۔ ریڈیو پر خبریں پڑھنے کا بھی اتفاق ہوا، مگر پرکشش شخصیت انھیں فلمز میں لے آئی۔

انھوں نے ایکٹنگ سے قبل فلم پروڈکشن کا رخ کیا اور جلد ہی ابھرتے ہوئے پروڈیوسر کہلائے جانے لگے۔

فلم ہیرو کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر شوکت یوسف نے بی بی سی کو بتایا کہ وحید مراد کی پہلی اور آخری فلم کے پیچھے ان کے بڑے بھائی اقبال یوسف ہی تھے۔

وہ بتاتے ہیں 'یہ بات ہے سن 1959کی جب وحید نے کراچی یونیورسٹی کے ایم اے انگلش پروگرام میں داخلہ لیا تھا اور اقبال بھائی میرے والد پروڈیوسر ڈائریکٹر ایس ایم یوسف کے ہمراہ انڈیا سے پاکستان آگئے تھے۔ وحید مراد کے والد نثار مراد سے ہمارے گھریلو تعلقات تھے۔'

'وحید مراد اور اقبال بھائی کی دوستی ہوگئی اور ان نوجوانوں کا ایک گروپ بن گیا جس میں پرویز ملک، مسرور انور بھی شامل تھے۔ بھائی کا 'رات کے راہی'، 'زمانے کیا کہے گا' کی وجہ سے ایک نام ہوگیا تھا اور وہ کوشش میں لگے رہتے کہ وحید کو ایکٹنگ کی طرف لے آئیں۔

شوکت یوسف نے بتایا کہ'والد صاحب کی فلم اولاد میں جب ایک سمارٹ نوجوان کے کردار کے لیے اداکار کی ضرورت آن پڑی تو اقبال بھائی نے وحید مراد کو آگے کردیا۔ وحید مراد کبھی اقبال بھائی کو بحیثیت ڈائریکٹر ناں نہ کرسکے۔'

سنہ 1966 میں ریلیز ہونے والے جوش، 1972 میں ہل سٹیشن، 1976 میں صورت اور سیرت، 1978کی خدا اور محبت ، 1980 میں گن مین، 1981 میں گھیراؤ، اور 1987 میں ان کی موت کے بد ریلیز ہونے والی زلزلہ میں دونوں کی جوڑی نے کمال کام کیا۔

احمد رشدی کی آواز اور وحید مراد کی اداکاری سے گیتوں کی مقبولیت

وحید مراد فلم 'ارمان' کے بعد سے ہر دل کا ارمان بن گئے تھے۔۔۔ اس دور کی شاید ہی کوئی لڑکی ہو جس کی کتاب میں ان کی تصویر نہ رہتی ہو۔

شوکت یوسف کا کہنا تھا کہ نے کہا 'اکیلے نہ جانا' ایک سٹریٹ سانگ بن چکا تھا۔ 'وحید مراد کا گانا فلمانے کا انداز بھی منفرد تھا جس نے پوری جنریشن کو انھیں اپنا گرویدہ کرلیا تھا۔ وحید مراد سے بہتر پاکستان میں شاید ہی کوئی گانے فلماتا ہو۔ ان پر مہدی حسن، اے نیر اور مسعود رعنا نے کافی مقبول گیت گائے، لیکن احمد رشدی کی آواز ان پر سب سے زیادہ جچتی تھی۔'

سنہ 1964 میں ان کی پہلی فلم 'ہیرا اور پتھر' ریلیز ہوئی، جبکہ 1967 میں فلم ارمان۔ ارمان نے باکس آفس پر دھوم مچا دی اوراگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ کر ملک کی پہلی پلاٹینم جوبلی فلم بنی۔

اس کے بعد وحید مراد کا دور شروع ہوا جو دس سال تک جاری و ساری رہا۔ ان کی کامیابی کے پیچھے احمد رشدی کے گانوں کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ احمد رشدی نے وحید مراد کے لیے لگ بھگ 1935گیت گائے۔ انھوں نے فلم 'ہیرا اور پتھر' سے لے کر 'ہیرو' تک وحید مراد پر المیہ، طربیہ، مزاحیہ اور رومانٹک سب گانے گائے۔ کئی فلموں میں تو رشدی نے وحید مراد کے لیے چار یا پانچ گانے تک گائے۔

وحید مراد کے یادگار گانوں میں 'مجھے تم سے محبت ہے'، 'کوکوکورینا'، 'بھولی ہوئی ہوں داستان'، 'پیار پیار ہوتا ہے'، 'دل کو جلانا'، 'اک البیلی سی نار' ہو، 'کیا ہے جو پیار تو پڑے گا نبھانا' یا 'اک میں ہی برا ہوں باقی' شامل ہیں۔غرض کہ شاعر کوئی بھی یا موسیقی کسی کی بھی ہو، احمد رشدی اور وحید مراد کی جوڑی کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا۔

بطور چاکلیٹ ہیرو مقبولیت

یہ کہنا غلط ہوگا کہ وہ صرف رومانوی کرداروں میں نظر آئے گے۔ اک نگینہ، دولت اور دنیا، انہونی، پرکھ جیسے فلموں میں وہ ایکشن ہیرو تھے۔ وہیں انھوں 'شیشے کا گھر' میں منفی کردار ادا کیا، اس کے علاوہ انھوں نے ہر قسم کے کردار نبھائے جن میں کشتی چلانے والا، ٹیکسی ڈرائیور ، ڈاکٹر، وکیل، بگڑا ہوا نوجوان اور گھریلو ملازم شامل ہے البتہ عوام نے انھیں صرف 'ہیرو' کے روپ میں ہی پسند کیا۔

وحید مراد پر ایک کتاب 'وحید مراد، ہز لائف اینڈ آر ٹائمز' لکھنے کے ساتھ ساتھ، علامہ اقبال پر ایک اتھارٹی سمجھے جانے والے استاد اور محقق خرم علی شفیق، وحید مراد کی تمام پروڈیوس کی ہوئی فلموں پر تجزیہ کر چکے ہیں۔

ان کے مطابق وحید مراد بحیثیت پروڈیوسر بھی بہت ذہین تھے۔ انھوں نے لگ بھگ گیارہ فلمیں پروڈیوس کیں جس میں نو میں وہ خود ہیرو تھے۔

محقق خرم علی شفیق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'ان کی پہلی فلم 'ہیرا اور پتھر' سے لے کر آخری فلم'ہیرو' تک ہر فلم میں کوئی نہ کوئی پیغام ہوتا تھا۔'ہیرا اور پتھر' نوجوان نسل کو جھوٹی شان و شوکت سے دور رکھنے کا پیغام دیتی ہے، 'ارمان' اور 'احسان'، 'آوٹ گوئنگ' لڑکیوں کی طرف توجہ مبزول کرتی ہے اور دھتکاری ہوئی عورت کو درپیش مسائل کو سامنے لاتی ہے۔ 'سمندر' میں انھوں نے ٹوٹتے مشرقی اور مغربی پاکستان کے حوالے سے عوام کو خبردار کیا تھا، جسے مستانہ ماہی میں الگ انداز سے پیش کیا۔ جبکہ اشارہ، ایک فنکار کی کہانی ہے جسے صحیح وقت پر بدلنا آنا چاہیے'۔

'ہیرو' کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ 'وحید مراد یہ دکھانا چاہتے تھے کہ وہ عوام کے سامنے تو فلم بنانے والوں کے بتائے گئے کردار کرتے ہیں مگر اپنی مہارت سے ایسی چھاپ چھوڑ جاتے ہیں کہ دیکھنے والا سب بھول کر انھیں ہی یاد رکھتا ہے۔'

وحید مراد کو عروج کے زمانے میں کافی پسند کیا جاتا تھا۔ 'لیڈی کلر' اور 'چاکلیٹی ہیرو' ان کے خطاب بن گئے تھے جو اخبار، رسالوں اور دیگر ذرائع ابلاغ میں استعمال ہوتے۔

معروف فلمی کالمسٹ اور محقق سرفرار فرید نیہاش بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہیں کہ 'وحید مراد کا رنگ چونکہ گہرا سانولا تھا اور اکثر وہ پردے پرمہذب اور تعلیم یافتہ نوجوان کے روپ میں نظر آتے تھے، تو لوگ انھیں ایسے چاہنے لگے جیسے چاکلیٹ۔ جس کو 'ریزسٹ' کرنا کافی مشکل ہوتا ہے۔'

وحید مراد نے ہیرو کے طور پر بیس سال فلموں میں کام کیا۔ انھوں نے محمد علی، ندیم، شاہد کے ہمراہ ثانوی کردار بھی کیے لیکن کبھی کبھی وہ اپنے انداز سے دوسروں پر چھا جاتے۔

سنہ 1975 میں آنے والی فلم 'جب جب پھول کھلے' میں ندیم اور محمد علی کی موجودگی میں وہ 'شہزادہ' کے کردار میں شاندار اداکاری کے باعث پسند کیے گئے۔

اداکار پروڈیوسر قوی خان نے ایک مرتبہ گفتگو میں بتایا تھا کہ وحید کے ساتھ اداکاری کافی مشکل کام تھا، 'ان کی سحر انگیز ایکٹنگ دیکھ کر میں اکثر اپنے ڈائیلاگ بھول جاتا تھا'۔ اسی طرح پشتو اور اردو فلموں کے اداکار، پروڈیوسر آصف خان کا کہنا تھا کہ 'لندن میں انڈین سپرسٹار جتندر سے ملاقات میں انھوں نے بتایا تھا کہ وہ وحید مراد سے کافی مرعوب رہے ہیں۔

وحید مراد کی شخصیت ہی ایسی تھی، ان کے دور میں بھی فینز حواس کھو بیٹھتے تھے اور آج بھی انھیں دنیا خراج تحسین پیش کرتی ہے۔

کراچی کی ایک ایسی شاہراہ جس پر کئی سینیما گھر ہوا کرتے تھے، اس کا نام وحید مراد روڈ رکھ دیا گیا تھا۔

فلم 'ہیرو' میں فتو اور جانی کے بچپن کا کردار ادا کرنے والے وحید مراد کے بیٹے عادل مراد نے ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ انکی بہن کانونٹ سکول میں پڑھتی تھیں اور ایک دفعہ ان کے والد انھیں چھٹی میں لینے چلے گئے۔ وہاں کی ننز نے وحید مراد کو دوبارہ سکول آنے سے منع کردیا کیونکہ جو حالات پیدا ہوگئے تھے، انھیں کنٹرول کرنا مشکل تھا۔

محقق سرفرار فرید نیہاش وحید مراد کی فلمی زندگی کو دو حصوں میں بانٹتے ہیں، ان کے بقول 'وحید مراد کے عروج کا دور 1966 سے 1975 کا تھا، اس دوران انھوں نے پنجابی فلموں میں بھی کام کر کے نام کمایا۔ اس دوران اونچ نیچ آئی لیکن وحید صاحب نے رومانس، ایکشن اور کامیڈی، سب میں بہترینکام کیا۔'

وہ کہتے ہیتں 'وحید مراد کا ہیئر سٹائل تو اتنا مقبول تھا کہ حجام کی دکان پر اکثر لوگ 'وحید کٹ' کے لیے آتے تھے۔ ان کے 'سٹائل کے کُرتے درزیوں سے کہہ کر سلوائے جاتے تھے۔سن 1977 کے بعد جب رومانٹک فلمیں بننا کم ہوئیں اور ایکشن فلموں کا دور آیا، تو وحید مراد نے مار دھاڑوالی فلموں میں بھی کام کیا مگر گنڈاسا کلچر کے آتے ہی ان کا جادو کم ہونے لگا۔'

سرفراز فریذ نیہاش کے خیال میں اس کی وجہ یہ تھی کہ 'چاکلیٹی ہیرو کا چِلّانا شاید لوگ کبھی قبول نہ کرتے۔ مولا جٹ کےبعد وحید مراد پر ایسا زوال آیا کہ وہ سنبھل نہ سکے۔ انھوں نے آہٹ میں ندیم کے سامنے ثانوی کردار ادا کیا، جبکہ جاوید شیخ کے والد کا کردار ملنے پر وہ چونک گئے تھے۔'

مقبولیت میں کمی پر بھی ہیرو آنے پر بضد

وحید مراد کی مقبولیت میں کمی سنہ 1979 میں شروع ہوئی۔ گھروں میں وی سی آر کی موجودگی، کرائے پر دس روپے پر مل جانے والی انڈین فلم نے سنیما جانے والی عوامکی تعداد کو کر دیا تھا اور رہی سہی کسر پنجابی فلموں نے پوری کردی۔

پاکستان ٹیلی وژن کے ایک شو میں انور مقصود کو دیے گئے انٹرویو میں وحید مراد کا کہنا تھا کہ انھیں افسوس ہے کہ اتنی کامیابی کے بعد بھی ان کی ایم اے کی تعلیم ان کے کریئیر میں کہیں کام نہیں آ سکی۔

اسی انٹرویو میں وہ انڈین فلموں کی نقل بنانے پر نالاں نظر ئے اور انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ 'فلموں میں تو بغیر تعلیم کے لوگ شاید زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔'

انور مقصود کے پنجابی فلم میں کام کرنے کے حوالے پوچھے گئے سوال پر سے ان کا کہنا تھا کہ 'لوگ مجھ سے پنجابی فلموں میں کام کرنے کو کہتے تھے تو سوچا کرنا ہی ہے تو خود کیوں نہ بناؤں۔ اور 'مستانہ ماہی' (بطور پروڈیوسر پہلے ہنجابی فلم) میں کوئی مار دھاڑ نہیں۔ اگر یہ فلم کسی بھی زبان میں بنائی جائے تو اس کی کہانی وہیں رہے گی۔'

فلمی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملٹی سٹار کاسٹ فلموں میں لوگ وحید مراد سے بارہ سال چھوٹے شاہد اور غلام محی الدین کو دیکھنا پسند کرنے لگے، ندیم اور محمد علی اس لیے 'سروائیو' کر گئے کیونکہ دونوں نے اپنا انداز بدل دیا تھا۔ ندیم نے کام کم اور ریٹ بڑھا دیا تھا، جبکہ محمد علی نے اپنی عمر کے رول کرنا شروع کردیے تھے۔ لیکن وحید مراد ایسا کچھ نہ کرسکے۔

وحید مراد کے بچپن کے ساتھی اور سابق بیوروکریٹ جاوید علی خان بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نےخود وحید کو دلیپ کمار اور راج کپور کی طرح بدلنے کا مشورہ دیا تھا، ان کے بقول 'میں نے اس دور میں جب وہ ڈپریشن کا شکار ہوگئے تھے، دلیپ اور راج کی طرح کیرکٹر رولز کا مشورہ دیا تھا۔ دلیپ کمار نے منوج کمار کی کرانتی اور راج کپور نے سنجے خان کی عبداللہ میں کام کیا تھا، جو لیڈ رول نہ سہی، بڑا رول تھا، لیکن وحید نے دیو آنند کی مثال دے کر مجھے چپ کرادیا۔کہ دیو آنند تو ہیرو آرہا ہے ابھی بھی'۔

اداکار غلام محی الدین کے مطابقوحید مراد سے آخری دنوں میں وہ اداکار اور پروڈیوسر بھی کترانے لگے تھے جن کی فلموں میں کبھی وحید مراد کام سے منع کیا تھا۔

ایک مرتبہ اداکار غلام محی الدین نے مجھے بتایا کہ 'وحید مراد صرف چند لوگوں سے ہی بے تکلّف ہوتے تھے۔ وہ اپنےکام سے کام رکھنے والے شخص تھے اور انھیں مغرور کہنا غلط ہوگا۔ لوگ اُن سے کترانے لگے تھے اور ایک مرتبہ انھوں نے مجھ سے یہ تک کہہ دیا کہ یہ لوگ مجھے دیکھ کر ہٹ کیوں جاتے ہیں میں کوئی ان سے کام مانگنے تو نہیں جارہا؟'

ان کے آخری دور میں صرف اقبال یوسف ان کے ساتھ کھڑے رہے اور گن مین، بدنام، گھیراؤ جیسی فلمیں بنا کر، ان کا اعتماد بحال کیا۔ اردو فلموں میں فیصل رحمن اور ایاز نائیک کے آنے سے 'درختوں کے پیچھے بھاگنے اور ہاتھ میں کتاب اٹھانے والے' کردار تو وحید مراد کے ہاتھ سے نکل گئے، لیکن شاید وہ اپنے اندر تبدیلی لانے میں دیر کر گئے۔

'ہیرو' فلم کے ایک سین میں جب 'فتو' ہیروئن 'شعلہ' سے کہتا ہے، کہ 'اب میں سلطان راہی کی طرح چِلّا سکتا ہوں، مصطفی قریشی کی طرح ہنس سکتا ہوں، ندیم کی طرح رو سکتا ہوں، محمد علی کی طرح ڈراما بول سکتا ہوں۔۔۔' یہ ثابت کرتا ہے، کہ وہ بدلنے کو تیار تھے اور من ہی من میں جاوید علی خان کی بات مان چکے تھے۔

مگر قسمت کو کچھ اور منظور تھا، 'ہیرو' کو نوے فیصد مکمل کر کے 'ہیرو' چلا گیا۔ بقول اسی فلم پر وحید مراد پر فلمائےجانے والے احمد رشدی کے واحد گانے 'تم جو روٹھی رہی یونہی جان وفا، تیرا دیوانہ دنیا سے روٹھ جائے گا'۔

'ایسا لگا وہ بتا رہے ہیں کہ میرے ساتھ کیا کیا ہوا'

فلم 'ہیرو' کو اس کے ہیرو کے بغیر مکمل کیا گیا۔ بقیہ سینز کو ایک ہم شکل یعنی ڈپلیکیٹکے ساتھ مکمل کیا گیا اور یہ فلم وحید مراد کی وفات کے چودہ ماہ بعدریلیز ہوئی۔

میں نے جب یہ فلم آج سے کوئی بیس سال پہلے کیبل پر دیکھی تو اک پل کو بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا۔ اس فلم میں بھی وحید مراد کا انداز اتنا جدا گانہ تھا کہ وہ 'ہیرو' ہی لگ رہے تھے۔

ان کا ہیئر سٹائل الگ تھا، روایت سے ہٹ کر ایکٹنگ تھی اور دونوں رول، بالکل الگ تھے۔

بقول محقق خرم شفیق، 'فلم کے آغاز سے ہی وحید صاحب نے دیکھنے والوں سے خود کو جوڑ لیا تھا۔ جس طرح فتو کا کردار سٹوڈیوز کے باہر دھکے کھا رہا ہے، اسے دیکھ کر ایسا لگا کہ ہم اسی دنیا کا حصہ بن گئے۔ دوسری جانب 'جانی' کا کردار سکرین پر آتے ہی چھا جاتا ہے، جو وحید صاحب کی فائٹنگ سپرٹ کو پیش کرتا ہے۔ آپ یوں سمجھیں کہ وہ 'کتھارسس' تھا اور ایک ایسا احساس تھا کہ وحید مراد سینیما میں بتا رہے تھے کہ میرے ساتھ کیا کیا ہوا۔'

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے خرم علی شفیق کا کہنا تھا 'وحید مراد کے فینز کی تعداد وقت کے ساتھ بڑھتی رہی ہے، ان کی موت سے اس میں کمی نہیں آئی۔ آپ کو وحید مراد کے مداح ہر جگہ ملیں گے، وہ ایلیٹ کلاس سے بھی ہوں گے اور لور کلاس سے بھی، اس میں مذہبی لوگ بھی ہوں گے اور لبرل بھی۔ ایسے بھی لوگ موجود ہیں جن کی پیدائش وحید مراد کی وفات کے بعد ہوئی ہے لیکن وہ بھی انھیں سراہتے ہیں۔'

چاکلیٹی ہیرو کو چارسال پہلے، دو اکتوبر کے دن ان کے یوم پیدائش پر سرچ انجن گوگل نے اپنے ہوم پیج پر ڈوڈل کے اعزاز سے خراج تحسین پیش کیا تھا۔

اپنی سالگرہ اور وفات پر سماجی ویب سائٹ ایکس پر ہیش ٹیگ وحید مراد ایک ٹاپ ٹرینڈ رہتا ہے،یہاں تک کہ سن دو ہزار چار کی مشہور انگریزی فلم ایجنٹ کوڈی بینکس ٹو میں ان کا نام ایک ایسے سین میں آتا ہے، جب کسی بچے کو مشہور آدمی کا نام لینا ہوتا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.