انڈین فلم انڈسٹری میں ’مہا نائیکا‘ یعنی عظیم اداکارہ کا خطاب حاصل کرنے والی فنکارہ نے بالی وڈ یعنی ہندی سنیما کے بجائے بنگالی سینما میں زیادہ دھوم مچائی اور دنیا بھر میں اپنی اداکاری کا لوہا منوایا۔وہ پہلی ہندوستانی اداکارہ تھیں جنہیں پہلی بار کسی بین الاقوامی فلم فیسٹیول میں کسی اعزاز سے نوازا گیا۔ ہم آج اسی بے مثال اور خوبصورت اداکارہ کی بات کر رہے ہیں جنہوں نے ہندی میں محض پانچ فلمیں کیں جبکہ بنگالی میں کوئی 50 فلمیں دیں۔ ان کے نام یہ بھی ریکارڈ ہے کہ انہوں نے دو سال میں 20 فلمیں دی تھیں۔ان کا نام سُچترا سین ہے جو آج سے کوئی دس سال قبل آج ہی کے دن 17 جنوری 2014 کو 82 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئیں لیکن فلم انڈسٹری کو تو انھوں نے کوئی 50 سال قبل ہی خیرباد کہہ دیا تھا اور عوام کی نظروں سے پوشیدہ زندگی گزار رہی تھیں۔عوام سے ان کی دوری کی وجہ سے انہیں معروف اداکار گریٹا گاربو کہا گیا جو تنہائی اور اداسی کا پیکر سمجھی جاتی تھیں۔ 2005 میں جب انہیں سینما میں انڈیا کے گرانقدر ایوارڈ ’دادا صاحب پھالکے ایوارڈ‘ کے لیے منتخب کیا گیا تو انہوں نے شاید اسی وجہ سے اسے بھی لینے سے انکار کر دیا۔انڈین میڈیا رپورٹس کے مطابق جب انہیں اس ایوارڈ کی پیشکش کی گئی تو اس کے ساتھ ایک نوٹ بھیجا گیا کہ اس ایوارڈ کو لینے کے لیے انہیں بذات خود آنا پڑے گااس وقت انڈیا کے وزیر اطلاعت و نشریات پریہ رنجن داس منشی تھے جو ان کے بڑے مداح تھے اور وہ یہ چاہتے تھے کہ اداکارہ سچترا سین اس موقعے سے ہی سہی عوام کے رو برو ہوں۔ اس کے برعکس انہوں نے اپنی تنہائی کو مقدم سمجھا اور فلم کے شعبے میں سب سے اہم مانا جانے والا ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا۔ان کی اداکاری کا لوہا ’صدی کے عظیم اداکار‘ کا خطاب حاصل کرنے والے امیتابھ بچن نے بھی مانا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی ایک بنگالی فلم کو ریکھا اور امیتابھ بچن کی اداکاری کے ساتھ ہندی میں پیش کیا جانا تھا لیکن جب امیتابھ نے ان کی بنگالی میں بننے والی فلم دیکھی تو مجوزہ فلم کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ 'یہ ان سے نہ ہو پائے گا۔
سُچترا سین نے ہندی سنیما کے بجائے بنگالی سینما میں زیادہ دھوم مچائی۔ فوٹو: اکنامک ٹائمز
سُچترا سین 6 اپریل 1931 کو سراج گنج ضلعے کے بھنگاباڑی میں ایک بنگالی ہندو خاندان میں پیدا ہوئیں اور ان کا نام روما داس گپتا رکھا گیا۔ یہ علاقہ اب بنگلہ دیش میں آتا ہے۔ تقسیم ہند کے دوران ان کا خاندان کلکتے منتقل ہو گیا جہاں 16 سال کی کم عمر میں ان کی شادی ایک بہت امیر تاجر سے ہوئی۔ ان کے سسر ان کی اداکاری کے حق میں تھے اور انہوں نے ان کے پروموشن پر دل کھول کر پیسے خرچ کیے۔ شادی کے ایک سال بعد ان کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جو مُن مُن سین کے نام سے مشہور ہوئیں۔
انڈیا میں ایسا بالکل نہیں دیکھا گیا ہے کہ شادی کے بعد اور ایک بیٹی کے ولادت کے بعد کوئی اداکارہ اپنا کیریئر شروع کرے اور اس کی سسرال سے بھی حوصلہ افزائی کی جائے اور وہ اداکاری کی دنیا پر راج کرے۔سُچترا سین کی پہلی فلم اگرچہ ریلیز نہ ہو سکی لیکن بنگالی اداکار اتم کمار کے ساتھ ان کی جوڑی بنگالی فلم کی سب سے کامیاب جوڑی مانی جاتی ہے۔ ان کی پہلی کامیاب فلم 'ساڑھے چوہتر' تھی جو ایک کامیڈی فلم تھی۔بہر حال جب ان کی ہندی فلم ’دیو داس‘ آئی تو اس فلم نے انہیں پورے برصغیر میں متعارف کرا دیا اور لوگوں نے ان کے بے پناہ حسن اور ان کی ادکاری کی دل کھول کر تعریف کی۔اس فلم میں وہ دلیپ کمار کے مد مقابل تھیں اور اداکاری میں ان سے کسی معاملے میں کم نظر نہ آئیں۔ لیکن انہیں اس بات کی خوشی تھی کہ انہیں دلیپ کمار جیسے بڑے سٹار کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور اس کا اظہار انہوں نے بعد میں بھی کیا۔انہیں دلیپ کمار کے ساتھ ایک دوسری فلم 'مسافر' میں بھی اداکاری کا موقع ملا لیکن یہ فلم اپنے طرز بیان کی وجہ سے لوگوں کو متاثر نہ کر سکی۔ لیکن پھر جب دیو آنند کے ساتھ ان کی فلم 'بمبئی کا بابو' آئی تو لوگوں نے پارو کے کردار میں جو سوگوار حسن دیکھا تھا اسے شوخی و شرارت اور چنچل پن سے پُر رول میں دیکھا۔یہ فلم بھی کافی کامیاب رہی اور انہوں نے آنے والی اداکاراؤں پر گہرا اثر چھوڑا۔ چنانچہ آپ اگر مادھری دیکشت کو دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ وہ شوخی اور شرارت میں ان کی کاپی نظر آتی ہیں۔
سُچترا سین کو انڈین فلم انڈسٹری میں ’مہا نائیکا‘ یعنی عظیم اداکارہ کا خطاب ملا۔ فوٹو: ورائٹی
جب وہ 47 سال کی تھیں اور ان پر عمر کے اثرات بھی نمایاں ہونے لگے تھے تو انہوں نے انڈین وزیر اعظم اندرا گاندھی پر مبنی فلم 'آندھی' میں ان سے مماثل کردار ادا کیا۔ یہ فلم بھی بے حد کامیاب فلم رہی اور اس نے ایک انمٹ نقش چھوڑا۔
بنگالی زبان کی 1959 میں ریلیز ہونے والی فلم 'دیپ جلے جائے' میں ان کی اداکاری کا نیا انداز نظر آیا جس میں انہوں نے رادھا نامی ایک نرس کا کردار ادا کیا ہے جو پاگل مریضوں کا علاج کرتے کرتے خود ہی بیمار ہو جاتی ہے۔ اپنے دکھ درد کو انہوں نے آنکھوں اور چہرے سے اس طرح پیش کیاجیسے وہ اداکاری نہ کرکے حقیقی زندگی جی رہی ہوں۔اس کے دس سال بعد اس فلم کا ہندی ریمیک 'خاموشی' کے نام سے پیش کیا گیا اور ان کے کردار کو معروف اداکارہ وحیدہ رحمان نے ادا کیا۔ یہ فلم انڈیا کی صف اول کی فلموں میں شمار ہوتی ہے اور اس کے گیت آج بھی سنے اور پسند کیے جاتے ہیں۔اسیت سین کی ہدایت کاری میں بننے والی ان کی فلم ’اتر پھالگنی‘ 1963 میں آئی۔ اس فلم میں انہوں نے ماں اور بیٹی کا ڈبل رول کیا ہے۔ اس میں انہوں نے ایک طوائف پنّا بائی کا کردار ادا کیا جس نے اپنی بیٹی سپرنا کو صاف ستھرے ماحول میں پرورش کرنے کا عہد لیا ہے اور اسے وکیل بنایا۔ اس فلم میں پنّا بائی کی موت کا منظر ان کی اداکاری کی معراج کہا جاتا ہے۔ اسی سال ان کی ایک اور سپرہٹ فلم 'سات پا کے بندھ' آئی۔ اس فلم میں اپنی سنجیدہ اداکاری سے انہوں نے ناظرین کا دل جیت لیا۔ اس فلم کے لیے انہیں ماسکوفلم فیسٹیول میں بہترین اداکارہ کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔یہ فلمی دنیا کی تاریخ میں پہلا موقع تھا جب کسی ہندوستانی اداکارہ کو غیر ممالک میں ایوارڈ ملا تھا۔ اس فلم کی کہانی پر 1982 میں میں فلم کورا کاغذ بنائی گئی جو کامیاب رہی۔سچترا سین اپنے اصولوں کی پابند تھیں۔ انڈیا کے سب سے بڑے فلم ساز اور ہدایتکار ستیہ جیت رے ان کے ساتھ ایک فلم بنانا چاہتے تھے۔ وہ بنگالی ناول 'دیوی چودھرانی' پر ایک فلم بنا رہے تھے اور اس کے لیے انہوں نے سچترا سین کا انتخاب کیا۔
فلم ’دیو داس‘ نے سچترا سین کو پورے برصغیر میں متعارف کرا دیا۔ ٹائمز آف انڈیا
انہوں نے ان کے سامنے دو شرطیں رکھیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ اس فلم کے دوران وہ کوئی دوسری فلم نہیں کریں گی اور دوسری یہ کہ اس فلم میں ان کا لُک بدلا جائے گا۔ سچترا سین نے دونوں شرائط کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد ستیہ جیت رے بھی اپنے انتخاب کے اتنے پابند تھے کہ انہوں نے اس فلم کے لیے کسی دوسری اداکارہ سے رجوع نہیں کیا اور وہ پراجیکٹ ہی بند کر دیا۔
اسی طرح انہوں نے راج کپور کی ایک فلم میں بھی کام کرنے سے منع کر دیا تھا کیونکہ انہیں راج کپور پسند نہیں تھے۔ جب وہ ان کی فلم میں کام کرنے کے لیے کسی طور راضی نہ ہوئیں تو راج کپور انہیں منانے ان کے گھر کلکتے پہنچ گئے اور اپنے جانے پہچانے منچلے انداز میں انہیں گھٹنوں پر بیٹھ کر گلدستہ پیش کیا۔بعد میں لوگوں نے بتایا کہ انہیں راج کپور کا فلمی انداز پیش نہیں آیا اور انہوں کہا کہ ایک شخص کو کسی کو منانے کے لیے گھٹنوں کے بل جھکنے کی کیا ضرورت تھی۔ان کی سوانح کے مصنف گوپال کرشن رائے بتاتے ہیں کہ سچترا بہت موڈی تھیں لیکن ہمیشہ خوش و خرم رہتی تھیں۔ ان کا یہ دونوں انداز ہم دیوداس اور بمبئی کا بابو میں دیکھ سکتے ہیں۔