خاتون کے قتل کا پُراسرار مقدمہ جو 30 سال بعد سگریٹ کے ٹکڑے کی مدد سے حل ہوا

جب 58 سالہ میری کو گلاسگو میں مردہ حالت میں پایا گیا تو اس وقت مرکزی ملزم ایڈنبرا کی ایک جیل میں قید تھا۔ مگر پرانے غیر حل شدہ کیسز کو جانچنے والے پولیس اہلکاروں کے لیے یہ نئے شواہد حیرانی کا باعث تھے۔

میری میکلافلن نامی خاتون کے قتل کے 30 سال بعد اُن کے فلیٹ سے برآمد ہونے والا سگریٹ کا ایک ٹکڑا اُن کے قاتل کی شناخت ظاہر کرنے کی پہلی کڑی تھا۔

11 بچوں کی والدہ میری کو گلا دبا کر قتل کرنے کے لیے اُن کے ڈریسنگ گاؤن کی ناٹ استعمال کی گئی تھی۔ تفتیش کاروں کو اِسی ڈریسنگ گاؤن کی ناٹ سے بعدازاں ڈی این اے کی ایک میچنگ پروفائل ملی تھی۔

ابتدا میں یہ شواہد تفتیش کرنے والوں کو ورطہ حیرت میں مبتلا کر رہے تھے۔ کیونکہ یہ شواہد جس مبینہ قاتل کی طرف اشارہ کر رہے تھے وہ ابتدائی ریکارڈ کے مطابق اُس وقت جیل میں قید تھا جب 58 سالہ میری اپنے فلیٹ سے مردہ حالت میں ملی تھیں۔

تاہم بعد میں سامنے آنے والی دستاویزات سے پتہ چلا کہ جس روز یہ قتل ہوا اس روز جنسی جرائم کے مجرم گراہم میکگل دو روز کے پیرول پر جیل سے باہر آئے تھے۔ اور 27 ستمبر 1958 کی صبح میری کی موت کے چند ہی گھنٹوں بعد وہ اُن کے فلیٹ سے نکل کر جیل میں موجود اپنے سیل میں لوٹ چکا تھا۔

بی بی سی کی نئی دستاویزی فلم ’مرڈر کیس: دی ہنٹ فار میری میکلافنز کِلر‘ میں اس دلچسپ کیس کی کہانی سُنائی گئی ہے۔

سینیئر فارنزک سائنسدان جوین کوچرین کا کہنا ہے کہ ’کچھ قتل کی وارداتیں آپ کو ہمیشہ یاد رہتی ہیں۔ میری کا قتل انھی پریشان کن اور غیر حل شدہ کیسز میں سے تھا جن پر میں نے چھان بین کی۔‘

اس کیس کی کہانی کچھ اس طرح ہے کہ میری نے اپنی زندگی کی آخری رات ایک پب (شراب خانے) میں دیر تک شراب پینے اور ڈومینوز کھیلتے ہوئے گزاری۔ وہ بار سے اکیلی رات 10 بج کر 15 منٹ پر نکلیں اور 15 منٹ پیدل چلنے کے بعد وہ 10 بج کر 30 منٹ پر اپنے فلیٹ پر پہنچ گئیں۔

راستے میں وہ ایک دکان پر رُکیں اور وہاں موجود عملے سے انھوں نے کچھ مزاحیہ گفتگو کی اور کچھ سگریٹ خریدے۔

میری کو جاننے والے ایک ٹیکسی ڈرائیو نے بعد میں بتایا کہ کیسے میری ننگے پاؤں چلی جا رہی تھیں جبکہ انھوں نے اپنے جوتے اپنے ہاتھوں میں اٹھا رکھے تھے جبکہ اس دوران ایک مرد اُن کا پیچھا کر رہا تھا۔

یہ کبھی معلوم نہیں ہو پایا کہ اُن کا پیچھا کرنے والا قاتل میکگل کس طرح رہائشی عمارت کی تیسری منزل پر واقع میری کے فلیٹ تک پہنچا کیونکہ میری کے فلیٹ میں کسی شخص کے زبردستی داخل ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملے تھے۔

اندر پہنچ کر میکگل نے اپنے سے دگنی عمر کی خاتون میری پر پرتشدد حملہ کر دیا۔ یہ اُس دور کی بات ہے جب موبائل فون نہیں ہوا کرتے تھے اور ویسے بھی میری اپنے خاندان سے مسلسل رابطے میں نہیں رہتی تھیں۔ ان کا ایک بیٹا مارٹن اُن سے ہفتے میں ایک بار ملنے آتا تھا۔

جب اُن کا 24 سالہ بیٹا 2 اکتوبر 1984 کو اُن کے فلیٹ پر ان سے ہفتہ وار ملاقات کے لیے پہنچا تو کسی نے دروازہ نہیں کھولا۔ دروازے پر نصب لیٹر بوکس کھولنے پر اسے ایک ناگوار کی بدبو آئی۔

دروازہ کھولا گیا تو معلوم ہوا کہ فلیٹ کے اندر میری کی لاش ایک بغیر چادر کے بستر پر اوندھے منھ پڑی تھی۔ اُن کے نقلی دانت فرش پر تھے جبکہ سبز لباس جو انھوں نے پب جانے کے لیے پہنا تھا وہ اُن کے جسم پر تھا۔

سابق سینیئر تفتیش کار این وشرٹ نے اس کرائم سین کو ’بہت ظالمانہ‘ قرار دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ’قتل کے وقت وہ قاتل کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھیں۔‘

پوسٹ مارٹم سے معلوم ہوا کہ میری کی موت ان کی لاش ملنے سے کم از کم پانچ روز قبل گلا گھونٹنے سے ہوئی تھی۔ کئی مہینوں تک جاری تحقیقات کے دوران ایک ہزار سے زیادہ لوگوں کے بیانات لیے گئے لیکن میری کے قتل کا مقدمہ ہر بار بند گلی میں داخل ہو جاتا تھا اور کوئی سراغ ہاتھ نہ لگتا۔

اگلے سال میری کے اہلخانہ کو بتایا گیا کہ قتل کا یہ کیس بند کر دیا گیا ہے مگر اُس وقت ایک افسر نے میری کی بیٹی جینا میکگیون سے کہا کہ ’امید مت ہارنا۔‘

میری کے اپنے دو سابقہ خاوندوں سے مجموعی طور پر11 بچے تھے اور مقامی رہائشیوں میں وہ کافی مقبول تھیں۔ان کی بیٹی جینا نے بتایا کہ ان کے پہلے شوہر سے چھ بچے جبکہ دوسرے سے پانچ بچے تھے۔

جینا نے اپنی والدہ کے قتل پر کتاب بھی لکھی اور پولیس کے ساتھ اپنے شکوک و شبہات شیئر کیے۔ ’1984 میں میرے بہن بھائی میری جیسی سوچ رکھتے تھے۔ ہمیں لگتا تھا کہ کوئی اُن کا اپنا بچہ اس قتل میں ملوث ہے۔ مگر ہم کچھ ثابت نہیں کر پائے۔‘

سنہ 2008 تک قتل کے اس کیس کو چار بار کھول کر بند کیا گیا یعنی متعدد مرتبہ تفتیش کی گئی اور نئے شواہد کا جائزہ لیا گیا مگر ملزم کا کوئی سرا نہ مل سکا۔

سنہ 2014 میں کیس کا پانچویں دفعہ ریویو ہوا۔ اور اس دفعہ بڑی پیشرفت اس وقت ہوئی جب سکاٹ لینڈ کے حکام نے نئی ڈی این اے پروفائلنگ کا عمل شروع کیا۔

ماضی میں ہونے والی ڈی این اے پروفائلنگ میں ماہرین11 انفرادی ڈی این ایز کی شناخت کر پائے تھے مگر 2014 میں دستیاب جدید ٹیکنالوجی کی بدولت 24 کی نشاندہی ممکن ہوئی اور یوں سائنسدانوں کے لیے چھوٹے یا کم معیار کے نمونوں کے ذریعے نتائج حاصل کرنے کے امکان کافی بڑھ گئے۔

سکاٹس پولیس اتھارٹی میں فارنزکس کے ڈائریکٹر ٹام نیلسن کہتے ہیں کہ 2015 میں ٹیکنالوجی نے یہ ممکن بنایا کہ ’ہم ماضی میں واپس جائیں اور اُن کے لیے انصاف یقینی بنائیں جو امید چھوڑ چکے ہیں۔‘

سنہ 1984 میں جو شواہد جمع کیے گئے تھے ان میں میری کے بال، ناخن اور سگریٹ کے چند ٹکڑے تھے۔

ان شواہد کو 30 سال پہلے کاغذ کے پیکٹ میں محفوظ کیا گیا تھا۔

کوچرینکہتی ہیں کہ ’اُس وقت تفتیش کاروں کو ڈی این اے پروفائلنگ کا علم نہیں تھا۔ انھیں معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ اشیا مسقتبل میں کتنی اہم ثابت ہوں گی۔‘

’انھیں ممکنہ طور پر معلوم نہیں تھا کہ بعد میں اس کی کتنی قدر ہو گی۔‘

سینیئر فارنزک سائنسدان کا کہنا ہے کہ ماضی کی انکوائری ٹیم کے پاس محض اس قدر دور اندیش مہارت تھی کہ انھوں نے شواہد کو محفوظ کرنا صحیح سمجھا۔

جو چیز مجرم کی نشاندہی میں پہلی کڑی ثابت ہوئی وہ ایمبیسی سگریٹ کا آخری حصہ تھا جو میری کے فلیٹ کے لونگ روم میں کافی ٹیبل پر موجود ایشٹرے میں پڑا تھا۔ انکوائری ٹیم کے لیے یہ بات دلچسپی کا باعث بنی کہ میری کو تو ووڈ بائن برانڈ کا سگریٹ پسند تھا۔

کوچرین کو امید تھی کہ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ڈی این اے کے شواہد حاصل کرنے میں مدد ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ ’سگریٹ کے آخری حصے نے ماضی میں ہمیں ڈی این اے پروفائل نہیں دی تھی اب اس نے ہمیں ایک مرد کی مکمل پروفائل دے دی۔‘

’یہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اس کیس میں یہ فرانزک کا پہلا سراغ تھا۔‘

انھوں نے ملنے والے شواہد سکاٹش ڈی این اے ڈیٹا بیس میں جانچے اور سزا یافتہ مجرموں کی ہزاروں دستیاب پروفائلز سے اس کا موازنہ کیا۔ کوچرین کو نتائج ایک ای میل کی صورت میں ملے۔

تصویر
BBC
میری کی بیٹی جینا کہتی ہیں کہ انھیں نہیں لگتا تھا کہ ان کی والدہ کا قاتل ان کی زندگی میں پکڑا جائے گا۔

انھیں معلوم ہوا کہ ایک ڈی این اے کا براہ راست میچ ہو گیا ہے۔ ’میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ ہمیں بتایا گیا کہ اس شخص کا نام گراہم میکگل ہے جبکہ ای میل میں یہ بھی درج تھا کہ انھیں جنسی جرائم کے سنگین مقدمات میں مجرم قرار دیا گیا تھا۔‘

’30 سال کے انتظار کے بعد ہمیں ایک ڈی این اے پروفائل مل ہی گئی تھی۔‘

مگر اس پیشرفت نے پیچیدہ صورتحال اس وقت اختیار کر لی جب تفتیش کاروں کو معلوم ہوا کہ جس شخص کا ڈی این اے میچ ہوا تھا یعنی میکگل، وہ میری کے قتل کے وقت جیل میں تھے۔ انھیں ریپ اور ریپ کی کوشش کرنے کے الزامات پر سزائیں ہو چکی تھیں۔

ریکارڈ سے پتا چلا کہ 5 اکتوبر 1984 تک انھیں رہا نہیں کیا گیا تھا۔ جبکہ میری کو اس سے نو روز قبل زندہ دیکھا گیا تھا۔

سابق پولیس اہلکار کینی میکیوبن، جنھیں کیس سلجھانے کا کام ملا تھا، کے لیے یہ سمجھ سے بالاتر تھا۔ کوچرین کو بتایا گیا کہ کیس کو حل کرنے کے لیے مزید فارنزک شواہد درکار ہوں گے۔

ان کوششوں کے دوران میری کے ڈریسنگ گاؤن کے ازار بند سے ڈی این اے کا ایک اور نمونہ حاصل کیا گیا۔ کوچرین کا خیال تھا کہ قاتل نے اسے چھوا ہو گا اور اس میں مجرم کا ڈی این اے موجود ہو گا۔

تین دہائیوں بعد اس ازار بند کو چیک کیا گیا اور وہاں سے بھی گراہم میکگل کا ہی ڈی این اے ملا۔ لیکن محض فرانزک شواہد کی مدد سے میکگل کو سزا نہیں دلائی جا سکتی تھی کیونکہ تفتیش کاروں کے مطابق ’اس سے فرق نہیں پڑتا کہ ہمارے پاس ڈی این اے کے شواہد ہیں۔ اُن کے پاس یہ دلیل تھی کہ جب قتل ہوا تو وہ جیل میں تھے اور وہ کیسے یہ قتل کر سکتے تھے؟‘

ایچ ایم پی ایڈنبرگ جیل سے ریکارڈ تلاش کرنا مشکل کام تھا، جو قتل کے وقت زیرِ تعمیر تھی۔ کمپیوٹر کے دور سے قبل کی تمام دستاویزات کھو چکی تھیں۔

تفتیش کار میکیوبن کی کھوج انھیں سکاٹ لینڈ کے نیشنل ریکارڈز تک لے گئی جہاں انھوں نے گورنر آفس کی جانب سے ترتیب دیا گیا ریکارڈ مل گیا اور یہی وہ وقت تھا جب اس کیس نے ایک نیا رُخ اختیار کر لیا۔

میکگل کے نام کے ساتھ لکھا تھا کہ وہ پرول پر باہر آئے تھے۔

انکوائری ٹیم کو معلوم ہوا کہ میکگل کو دوران سزا قید سے دو روز کا پیرول ملا تھا اور وہ جیل سے 27 ستمبر 1984 کو نکلے تھے۔ سابق سینیئر تفتیش کار مارک ہینڈرسن کے مطابق ’یہ شواہد سونے کی اینٹ جیسے تھے جنھیں ہم ڈھونڈ رہے تھے۔‘

بلآخر میکگل کو 4 دسمبر 2019 کو گرفتار کر لیا گیا۔

اس وقت بھی وہ جنسی جرائم میں سزا یافتہ شخص تھے۔ وہ سکاٹ لینڈ میں ہی ایک کمپنی کے لیے بطور فیبریکیٹر کام کر رہے تھے۔

جینا کہتی ہیں کہ یہ خبر ایک سکون کا باعث بنی۔ ’کیونکہ مجھے نہیں لگتا تھا میری زندگی میں یہ کیس حل ہو گا۔‘

میکگل کو اپریل 2021 کے دوران چار روزہ ٹرائل کے بعد قصوروار ٹھہرایا گیا اور 14 سال قید کی سزا دی گئی۔

گلاسگو ہائی کورٹ کے جج لارڈ برنز نے کہا کہ میکگل کی عمر 22 سال تھی جب انھوں نے 59 سالہ میری کو گلا دبا کر قتل کیا۔

’اُن (میری) کے خاندان کو اس لیے انتظار کرنا پڑا کہ ذمہ دارکا تعین ہو سکے جو شاید کھلے عام پھر رہا تھا۔‘

’اگر انھوں نے امید ہار دی ہوتی تو وہ یہ کبھی نہ جان پاتے کہ میری کے ساتھ کیا ہوا تھا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.