امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چار سال قبل واشنگٹن ڈی سی میں کیپیٹل ہِل پر حملے میں ملوث قریب 1600 ملزمان کی صدارتی معافی منظور کی ہے۔ جبکہ ان کے پیشرو جو بائیڈن نے اپنے بیٹے ہنٹر اور تین بہن بھائیوں کو معافی دلائی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چار سال قبل واشنگٹن ڈی سی میں کیپیٹل ہِل پر حملے میں ملوث تقریباً 1600 مجرمان کے لیے معافی منظور کی ہے جس کے بعد اس حملے میں ملوث بہت سے افراد کو جیلوں سے رہا کر دیا گیا ہے۔ جبکہ چند روز قبل اُن کے پیشرو یعنی سابق صدر جو بائیڈن نے اپنے بیٹے ہنٹر بائیڈن اور اپنے تین بہن بھائیوں کو صدارتی معافی دی تھی۔
ماضی میں بھی امریکی صدور نے معاف کرنے کا اختیار اپنے رشتہ داروں اور سیاسی اتحادیوں کے لیے استعمال کیا ہے۔
وہ ایسا اس لیے کر سکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس صدارتی معافی کے وسیع اختیار ہوتے ہیں۔
امریکی صدر کے پاس معافی دینے کا اختیار کیوں؟
امریکی آئین کے آٹیکل 2 میں درج ہے کہ صدر کے پاس ’امریکہ کے خلاف جرائم پر سزا ختم کرنے اور معاف کرنے کا اختیار ہو گا مگر اس میں مواخذے کی کیسز شامل نہیں۔‘
یعنی امریکی صدر ایسے لوگوں کو معاف کر سکتے ہیں جنھوں نے وفاقی یا فوجی قوانین توڑے ہوں، تاہم یہ معافی ریاستی سطح کے قوانین توڑنے والوں پر لاگو نہیں ہوتی۔ یہ قانون برطانوی بادشاہوں کے اختیارات سے متاثرہ ہے۔
بعض اوقات بادشاہ رحم کی اپیل پر معافی نامہ جاری کرتے تھے اور کبھی کبھار وہ کسی ایسی بغاوت کو ختم کرنے کے لیے پورے گروہ کو معاف کر دیتے تھے جو عوام میں پذیرائی حاصل کر رہا ہو۔
یونیورسٹی کالج لندن میں امریکی تاریخ کے پروفیسر ایون مورگن کا کہنا ہے کہ ’نوآبادیاتی گورنر امریکہ میں آزادی سے قبل برطانوی بادشاہ کی طرف سے معافی دینے کا اختیار استعمال کرتے تھے۔‘
بعدازاں ’امریکہ کے بانیوں نے سوچا کہ اس اختیار کو نئے ملک میں قائم رکھا جائے۔‘
جب امریکی آئین لکھا جا رہا تھا تو اس پر بحث ہوئی کہ آیا معافی دینے کا اختیار صدر کے پاس ہونا چاہیے یا کانگریس کے۔ امریکہ کے پہلے وزیر خزانہ الیگزینڈر ہیملٹن نے اپنے ساتھیوں پر زور ڈالا کہ یہ اختیار صدر کے پاس ہونا چاہیے نہ کہ کانگریس کے۔
انھوں نے بطور شریک مصنف مضامین کے مجموعے ’دی فیڈرلسٹ پیپرز‘ میں لکھا کہ ’مردوں کے گروہ کی بجائے ایک مرد حکومت کی طرف سے معافی دینے کا زیادہ اہل لگتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ صدور جلد معافی دلا سکیں گے تاکہ بغاوت روکی جا سکے جبکہ کانگریس میں بہت وقت لگ جائے گا۔
کتنے صدور نے معافی دینے کا اختیار استعمال کیا؟
امریکہ کے پہلے صدر جارج واشنگٹن نے پہلی بار معافی کا اختیار استعمال کیا تاکہ سیاسی بحران سے نمٹنا جا سکے۔
انھوں نے سنہ 1794 کی بغاوت ’ویسکی ریبیلیئن‘ میں حصہ لینے والے دو افراد کو معاف کیا جنھیں غداری کی سزا سنائی گئی تھی۔ یہ شراب سے متعلق نئے قانون کے خلاف بڑھتی مخالفت کا نتیجہ تھا۔
سنہ 1868 میں امریکہ کی خانہ جنگی کے دوران اینڈریو جانسن نے باغی ریاستوں کے صدر جیفرسن ڈیوس اور دیگر کو معاف کیا جو متحد امریکہ کے خلاف تھے۔
اس اختیار کا شاید سب سے متنازع استعمال اُس وقت ہوا جب جیرالڈ فورڈ نے سنہ 1974 میں اپنے پیشرو اور مستعفیٰ صدر رچرڈ نکسن کو معاف کیا۔ ایسا واٹر گیٹ سکینڈل کے بعد کیا گیا تاکہ فورڈ کے بقول قوم کو شفایاب کیا جا سکے۔
سنہ 2001 میں صدر بِل کلنٹن نے اپنے سوتیلے بھائی راجر کلنٹن کو سنہ 1985 میں کوکین سے جڑے جرم پر معاف کیا۔ کلنٹن نے کاروباری شخیصت مارک رِچ کو معافی دی جو امریکہ کو فراڈ، ٹیکس چوری اور غیر قانونی تجارت جیسے جرائم میں مطلوب تھے۔ ان کی اس معافی سے قبل رچ کی بیوی نے ان کی صدارتی لائبریری کے لیے بھاری امداد دی تھی۔
کلنٹن کو بعد میں اس صدارتی معافی پر افسوس ہوا مگر انھوں نے اس الزام کی تردید کی کہ یہی عطیہ ان کے اقدام کی وجہ تھا۔
اپنے پہلے دورِ صدارت کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے داماد جیرڈ کے والد چارلس کشنر کو ٹیکس ادائیگی سے متعلق جرم پر معافی دی تھی۔
انھوں نے اپنے سیاسی اتحادیوں سٹیو بینن، پال منافورٹ اور راجر سٹون کو بھی معاف کیا جن پر متعدد نوعیت کے الزامات ثابت ہو چکے تھے۔
دسمبر 2024 کے دوران جو بائیڈن نے اپنے بیٹے ہنٹر کو قبل از سزا معافی دی۔ ان پر الزام تھا کہ انھوں نے منشیات کے استعمال کے بارے میں جھوٹ بولا تھا۔ اُن پر ٹیکس ادائیگی سے متعلق بھی الزام تھا۔
ہنٹر بائیڈن کو مستقبل میں بھی سنہ 2014 سے پہلے کے کسی جرم کے خلاف کارروائیوں سے استثنیٰ دیا گیا۔
بائیڈن نے اپنے دورِ صدارت کے آخری روز اپنے دو بھائیوں اور ایک بہن سمیت خاندان کے دیگر افراد کو قبل از وقت معافیاں دیں تاکہ مستبقل میں انُ کے خلاف کارروائی نہ کی جا سکے۔
واشنگٹن ڈی سی میں جارج میسن یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر اینڈریو نوواک کے مطابق ’صدور کی جانب سے ذاتی نوعیت کے ایسے اقدام پہلے کی نسبت اب زیادہ واضح ہیں۔‘
’امریکی آئین کے بانیوں نے سوچا ہو گا کہ کوئی اپنے لیے ایسا نہیں کرے گا۔ شاید گزرتے برسوں کے دوران سیاسی روایات بکھر رہی ہیں۔‘
اپنے دوسرے دورِ صدارت کے پہلے روز ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے 1500 سے زیادہ افراد کو معاف کر دیا جن پر چھ جنوری 2021 کو کیپیٹل ہِل حملوں کا الزام ثابت ہو چکا تھا یا وہ اس میں ملزم تھے۔ یہ مظاہرین کانگریس کو جو بائیڈن کی انتخابی فتح منظور کرنے سے روکنا چاہتے تھے۔
اس حملے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 140 افسران پر تشدد کیا گیا جبکہ ہنگامے کے دوران ایک خاتون کو پولیس افسر نے گولی مار کر ہلاک کیا۔ کیپیٹل ہل کے احاطے میں تین دیگر افراد قدرتی وجوہات کی بنا پر دم توڑ گئے۔
امریکہ کے مقابلے دیگر ملکوں میں معافی دینے کے کیا اختیارات ہیں؟
ڈاکٹر نوواک کے مطابق دنیا کے کئی ملکوں میں عدالتی فیصلوں پر معافی اور رحم کی اپیل منظور کرنے کے اختیارات ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جن ممالک کا میں نے جائزہ لیا وہاں آئین صدر کو صرف سزا یافتہ مجرموں کو معاف کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ سزا دیے جانے سے قبل ہی معافی دینے کا تصور زیادہ نہیں ہے۔‘
امریکہ میں یہ مختلف ہے کیونکہ یہاں صدرو معافی کے ذریعے ممکنہ قانونی کارروائی بھی روک سکتا ہے۔
پاکستان میں بھی صدر مملکت کو یہ اختیار حاصل ہے۔ انڈیا جیسے ملکوں میں صدر کابینہ کے مشورے پر معافی دیتے ہیں اور یہ معافی عدالتی نظر ثانی میں بھی جا سکتی ہے۔
برطانیہ میں شاہی خاندان کی طرف سے معافی ملنے کا اختیار حکومتی وزرا کو دے دیا گیا ہے، جیسا کہ وزیر انصاف۔ کریمینل کیسز ریویو کمیشن (سی سی آر سی) کو 1997 میں قائم کیا گیا تاکہ انصاف کی فراہمی میں ممکنہ کوتاہی کو اپیل میں لے جایا جا سکے۔
امریکی صدور کی طرف سے معافی دینے کا سلسلہ کیسے بدلا؟
پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق ٹرمپ نے پہلے دورِ صدارت کے دوران 237 صدارتی معافی نامے منظور کیے جس میں اُن کے داماد کے والد بھی شامل تھے۔
جبکہ بائیڈن نے سابق چیف میڈیکل ایڈوائزر انتھونی فاؤچی اور سابق جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارک میلی کے خلاف کوئی بھی کارروائی روکنے کے لیے معافی جاری کی۔ مگر بائیڈن نے سابقہ صدور کے مقابلے کم صدارتی معافیاں منظور کی ہیں۔
پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق بارک اوباما نے دو ادوار کے دوران 1927 رحم کی اپیلیں منظور کیں جن میں 1715 افراد کی سزائیں کم کی گئیں اور 212 افراد کو صدارتی معافی دی گئی۔
سنہ 1789 سے امریکہ میں روایت تھی کہ اٹارنی جنرل اور سیکریٹری آف سٹیٹ ایسے افراد کی فہرست تیار کرتے تھے جو معافی کے مستحق ہیں اور اسے صدر کے پاس منظوری کے لیے لے جایا جاتا تھا۔ سنہ 1894 سے یہ کام پارڈن اٹارنی کر رہا ہے۔
ڈاکٹر نوواک کے مطابق رجحان اس طرح بدلا ہے کہ اب معافی دینے جیسے عمل کو سیاسی اتحادیوں اور رشتہ داروں کو تحفظ دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میری خواہش ہے کہ صدور عام مجرموں کی رحم کی اپیل کے لیے معافی کا اختیار استعمال کریں، نہ کہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے لیے۔‘
’ناانصافی کے کیسز بڑھ رہے ہیں اور اس اختیار کا بہتر استعمال ہو سکتا ہے۔‘