خان محمد: دو امریکی شہریوں کے بدلے 18 سال کی قید کے بعد رہائی پانے والے افغان ’سمگلر‘ کون ہیں؟

خان محمد طالبان کے ایک سرگرم رکن تھے جنھیں امریکہ نے اپنی فوجی سرگرمیوں کے دوران افغانستان میں یرغمال بنایا لیا تھا۔ انھیں سنہ 2008 میں جیل بھیج دیا گیا۔ جو بائیڈن نے عہدہ چھوڑنے سے عین قبل ان کی سزا ختم کر دی۔
جلال آباد میں خان محمد نے میڈیا سے بات کی
AFP
رہائی کے بعد افغانستان پہنچنے پر خان محمد نے جلال آباد میں میڈیا سے بات کی

امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا ایک معاہدہ ہوا ہے جس کے تحت امریکہ میں قید ایک افغان شہری کے بدلے میں افغانستان میں زیر حراست دو امریکی شہریوں کو رہا کیا گيا۔

رہا ہونے والے امریکی شہریوں کے نام ریان کاربیٹ اور ولیم والیس میک کینٹی ہیں جبکہ افغان شہری خان محمد منشیات کی سمگلنگ اور دہشت گردی کے الزامات میں کیلیفورنیا کی وفاقی جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔

کابل میں طالبان حکومت کی جانب سے ایک بیان میں اس معاہدے کا اعلان کیا گیا، جو سابق امریکی صدر جو بائیڈن کے عہدے کی مدت ختم ہونے سے عین قبل طے پایا۔

کاربیٹ کی رہائی کی تصدیق ان کے اہلخانہ نے کی جبکہ امریکی میڈیا نے سرکاری ذرائع کے حوالے سے میک کینٹی کی شناخت دوسرے امریکی شہری کے طور پر کی ہے۔

یہ معاہدہ مبینہ طور پر دو سال کی بات چیت کا نتیجہ تھا اور یہ پیر کو ڈونلڈ ٹرمپ کو اقتدار سونپنے سے ٹھیک پہلے کیا گیا۔

طالبان کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ میں قید ایک افغان جنگجو خان محمد کو امریکی شہریوں کے بدلے رہا کر دیا گیا اور وہ وطن واپس آ گئے ہیں۔

ریان کاربیٹ کے خاندان نے قطر اور انتظامیہ دونوں کا شکریہ ادا کیا کیونکہ ان کے مطابق انھوں نے اس رہائی میں اہم کردار ادا کیا۔

کاربیٹ خاندان نے کہا کہ ’آج ہمارے دل ریان کی زندگی بچنے اور 894 دنوں کے سب سے مشکل اور غیر یقینی دور کے بعد ان کے گھر واپس آنے کی وجہ سے خدا کی حمد و ثنا اور شکر گزاری سے بھر گئے ہیں۔‘

کاربیٹ اپنی فیملی کے ساتھ کئی سال سے افغانستان میں مقیم تھے اور دو سال سے زیادہ عرصہ قبل جب وہ ایک کاروباری دورے پر افغانستان واپس آئے تو انھیں طالبان نے حراست میں لے لیا تھا۔

میک کینٹی کے بارے میں زیادہ تفصیلات دستیاب نہیں جبکہ ان کے اہلخانہ نے بھی رازداری کا مطالبہ کیا۔

خان محمد طالبان کے ایک سرگرم رکن تھے جنھیں امریکہ نے اپنی فوجی سرگرمیوں کے دوران افغانستان میں یرغمال بنایا لیا تھا۔ انھیں سنہ 2008 میں جیل بھیج دیا گیا۔ جو بائیڈن نے عہدہ چھوڑنے سے عین قبل ان کی سزا ختم کر دی۔

طالبان نے قیدیوں کے اس تبادلے کو امریکہ کے ساتھ ’طویل اور نتیجہ خیز مذاکرات‘ کا نتیجہ قرار دیا اور اسے ’مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی ایک اچھی مثال‘ کہا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’امارت اسلامیہ امریکہ کے ان اقدامات کو مثبت انداز میں دیکھتی ہے جو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے اور انھیں فروغ دینے میں مدد کرتے ہیں۔‘

خیال رہے کہ طالبان کو سنہ 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے کسی بھی حکومت نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔

اگرچہ اس اقدام سے کابل اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات میں کوئی تبدیلی آنے کا امکان نہیں تاہم مزید مذاکرات ہو سکتے ہیں کیونکہ دو دیگر امریکی اب بھی افغانستان میں موجود ہیں۔

ان کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ جارج گلیزمین اور محمود حبیبی ہیں۔ ان کے بدلے طالبان ایک افغان شہری کی رہائی چاہتے ہیں جو امریکہ کے گوانتاناموبے کے حراستی کیمپ میں باقی چند قیدیوں میں سے ایک ہیں۔

خان محمد کون ہیں اور انھیں کیسے گرفتار کیا گیا؟

افغان شہری خان محمد کو 29 اکتوبر 2006 کو افغانستان کے صوبہ ننگرہار کے شہر جلال آباد کے قریب سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اس وقت ان کی عمر 36 سال تھی اور اب وہ تقریبا 55 برس کے ہیں۔

اگلے سال یعنی نومبر سنہ 2007 میں انھیں افغانستان سے امریکہ لایا گیا جہاں ان کے خلاف مقدمات کی سماعت کی گئی اور دسمبر سنہ 2008 میں انھیں دو بار عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

کولمبیا ضلع کے فوجداری ڈویژن کے قائم مقام اسسٹنٹ اٹارنی جنرل میتھیو فریڈرک نے سزا سناتے ہوئے کہا تھا کہ ’خان محمد ایک متشدد جہادی اور منشیات کے سمگلر ہیں جنھوں نے افغانستان میں امریکی فوجیوں کو راکٹس کے ذریعے مارنے کی کوشش کی تھی۔ ان کی عمر قید کی سزا ان جرائم کی سنگینی کا نتیجہ ہے جن کے لیے انھیں یہ سزا سنائی گئی۔‘

خان محمد کے خلاف تفتیش اگست 2006 میں اس وقت شروع ہوئی تھی جب ایک افغان کسان (جنھوں نے ’جاوید‘ کے فرضی نام سے گواہی دی) نے مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے ڈرگ انفورسمنٹ ایڈمنسٹریشن (ڈی ای اے) کے ایجنٹوں سے رابطہ کیا۔

جاوید نے ادارے کو یہ معلومات فراہم کیں کہ پاکستان کے شہر پشاور سے طالبان نے انھیں جلال آباد ایئرفیلڈ پر راکٹ سے حملہ کرنے کے لیے بھرتی کرنے کی کوشش کی تھی۔

امریکہ، افغانستان
Getty Images

اس وقت یہ ایئرفیلڈ افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں امریکی اور نیٹو افواج کے ذریعے مشترکہ طور پر استعمال کی جا رہی تھی۔ طالبان نے اپنے مقامی نمائندے کی شناخت خان محمد کے طور پر کی اور وہ اس وقت صوبہ ننگرہار کے ضلع چپراہار کے ایک گاؤں کے سرپرست تھے جبکہ جاوید ان سے واقف تھے۔

جاوید نے ادارے کے کہنے پر ریکارڈنگ ڈیوائس پہن کر خان محمد سے ملاقات کی اور انھوں نے سرکاری گاڑیوں اور تنصیبات پر جو پہلے حملے کیے تھے ان حملوں کے بارے میں بات کی۔

خان محمد نے جاوید سے راکٹ اور گولہ بارود حاصل کرنے پر بات کی تاکہ امریکیوں، دوسرے مغربی ممالک کے باشندوں اور ان افغان شہریوں پر حملے کیے جا سکیں جو ان کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔

خان محمد نے جاوید کو یہ بھی کہا کہ ’امریکی کافر ہیں اور ان کے خلاف جہاد کی اجازت ہے۔ اگر ہمیں ہوائی اڈے کی طرف (میزائل) فائر کرنا پڑے تو ہم کریں گے اور اگر ایئرپورٹ پر نہیں ہو سکا تو جہاں وہ ٹھہرے ہوئے ہیں، ہم ان کے اڈے پر بھی فائر کریں گے۔ ہم ان کے خلاف بارودی سرنگوں کا بھی استعمال کریں گے۔ ہم اور تم ان کے خلاف جہاد کرتے رہیں گے۔‘

طالبان، امریکی سازوسامان
Getty Images

مقدمے میں پیش کیے گئے شواہد سے یہ بھی ثابت ہوا کہ خان محمد اس سے قبل بھی اسی طرح کے دہشت گرد راکٹ حملوں میں ملوث تھے۔

جاوید کے ساتھ ابتدائی بات چیت کے دوران ڈی ای اے کے ایجنٹوں کو پتا چلا کہ خان محمد پہلے افیون اور ہیروئن کی سمگلنگ میں ملوث تھے۔ خان محمد نے بھی بعد کی کئی ریکارڈنگ میں اس کا ذکر کیا۔

خان محمد نے افیون کی خریداری اور افیون بیچنے والے کو منتخب کرنے کے لیے جاوید کی خدمات حاصل کرنے سے متعلق بھی بات چیت کی۔

ستمبر 2006 کے وسط میں جاوید کے ساتھ خان محمد ایک افیون ڈیلر کے گھر گئے۔ مقدمے کی سماعت کے دوران دکھائی گئی ویڈیو ٹیپ میں خان محمد کو وہاں افیون کا معائنہ کرتے ہوئے، بات چیت کرتے ہوئے اور 11 کلو گرام افیون کی خریداری میں جاوید کی مدد کرتے ہوئے دیکھا گیا۔

بعد میں افیون کو ہیروئن میں تبدیل کر کے امریکہ بھیجنے کے ارادے کے بارے میں بات کرتے ہوئے خان محمد نے جواب دیا کہ ’جی، خدا تمام کافروں کو مردہ لاشوں میں بدل دے۔‘

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اپنی حلف برداری کے موقع پر واشنگٹن میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر طالبان 2021 میں امریکہ کے انخلا کے بعد قبضے میں لیے گئے فوجی سازوسامان واپس نہیں کرتے تو افغانستان کے لیے انسانی امداد میں کمی کر دی جائے گی۔

2022 میں امریکی محکمہ دفاع کی ایک رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد سات ارب ڈالر کا فوجی سازوسامان افغانستان میں رہ گیا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.