پناہ گزینوں کا یہ کیمپ مقبوضہ مغربی کنارے کے شمال میں جنین شہر کے اندر واقع ہے۔ یہ دریائے اردن کے مغربی کنارے پر زمین کا علاقہ ہے جسے اسرائیل نے 1967 میں چھ روزہ جنگ میں اردن سے چھین لیا تھا۔ اسرائیل اور فلسطین دونوں ہی اس علاقے پر دعویٰ کرتے ہیں لیکن کئی دہائیوں سے جاری مذاکرات کے بعد بھی اس کی حتمی حیثیت کا فیصلہ نہیں ہو سکا۔
فلسطینی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقے جنین میں اسرائیلی فوج کی ایک بڑی کارروائی کے دوران کم از کم 10 فلسطینی ہلاک اور 40 کے قریب زخمی ہو گئے ہیں۔
فلسطینی ذرائع ابلاغ کے مطابق منگل کے روز متعدد فضائی حملے ہوئے جب بڑی تعداد میں فوجی اہلکار ڈرونز، ہیلی کاپٹروں اور بکتر بند بلڈوزر کی مدد سے شہر اور اس کے پناہ گزین کیمپ میں داخل ہوئے۔
اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ اس نے جنین میں ’دہشت گردی کو شکست دینے‘ کے لیے ایک’وسیع اور اہم‘ آپریشن شروع کیا، جسے طویل عرصے سے فلسطینی مسلح گروہوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔
یہ سب غزہ میں جنگ بندی کے آغاز کے تین دن بعد ہوا اور اس سے مغربی کنارے میں مزید تشدد کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے، جہاں پیر کی رات مشتبہ اسرائیلی آباد کاروں نے بھی تشدد کیا تھا۔
اسرائیل نے گذشتہ دو برس کے دوران جنین میں کئی چھاپے مارے ہیں تاکہ وہاں موجود عسکریت پسندوں کے حملوں کو روکا جا سکے۔
جنین کیمپ کہاں ہے اور کتنا بڑا ہے؟
پناہ گزینوں کا یہ کیمپ مقبوضہ مغربی کنارے کے شمال میں جنین شہر کے اندر واقع ہے۔
یہ دریائے اردن کے مغربی کنارے پر زمین کا ایک علاقہ ہے جسے اسرائیل نے 1967 میں چھ روزہ جنگ میں اردن سے چھین لیا تھا۔
اسرائیل اور فلسطین دونوں ہی اس علاقے پر دعویٰ کرتے ہیں لیکن کئی دہائیوں سے جاری مذاکرات کے بعد بھی اس کی حتمی حیثیت کا فیصلہ نہیں ہو سکا۔
سنہ 1995 سے جینن فلسطینی اتھارٹی کے کنٹرول میں ہے جو مغربی کنارے کے کچھ حصوں کو چلاتی ہے جو براہ راست اسرائیلی حکمرانی میں نہیں تاہم اسرائیلی افواج سکیورٹی کارروائیوں کے لیے اکثر کیمپ میں داخل ہوتی رہتی ہیں۔
کیمپ کنکریٹ کی عمارتوں پر مشتمل ہے جن میں سے اولین 1970 کی دہائی میں تعمیر کی گئی تھیں۔
اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (یو این آر ڈبلیو اے) کے مطابق سنہ 2023 تک اس میں 24،239 رجسٹرڈ پناہ گزین تھے لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ 14،000افراد آدھے مربع کلومیٹر سے بھی کم علاقے میں رہتے ہیں۔
یو این آر ڈبلیو اے کا کہنا ہے کہ جنین کیمپ میں غربت اور بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے خاص طور پر نوجوانوں میں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر عدم اطمینان اور مایوسی پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے چھوٹے بچوں میں سکول چھوڑنے کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے۔
جنگ کے نشان
اسرائیلی فوج اور فلسطینی مسلح گروہوں کے درمیان برسوں سے جاری پرتشدد جھڑپیں جنین کے تنگ راستوں پر نقش ہو چکی ہیں جن میں دیواروں پر ’حماس‘ کا نام، گولیوں کے سوراخ اور ایم 16 رائفلوں کی شکل میں گرافیٹی موجود ہیں۔
یہاں کئی جگہ پر فوجی بلڈورز کی کارروائی کے بعد پیچھے رہ جانے والے ملبے کے بڑے بڑے ڈھیر ہیں۔
تباہی کے درمیان شہر کے وسط میں ایک بڑا سوراخ ہے، مرکزی سڑک ٹوٹی ہوئی اور ناقابل رسائی ہے۔
کیمپ جینن بریگیڈ کا گڑھ ہے
یہ حماس اور فلسطینی اسلامی جہاد کی القدس بریگیڈ سمیت مختلف فلسطینی عسکریت پسند گروہوں کے جنگجوؤں کا گڑھ ہے۔
اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) کے مطابق کیمپ کے اندر تقریبا 420 مسلح جنگجو موجود ہیں۔ وہ مقامی علاقے کے ارد گرد کام کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اسرائیل کے خلاف ’مزاحمت‘ کا حصہ ہیں۔
بی بی سی کے سفارتی نامہ نگار پال ایڈمز کا کہنا ہے کہ جینین فلسطینی جنگجوؤں کی ایک نئی نسل ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ان نوجوان مسلح افراد نے کبھی بھی امن کےعمل کو نہیں سمجھا۔ ان کے پاس اس تنازعے کے سفارتی حل کے کوئی امکانات نہیں۔‘
’انھیں اپنی سیاسی قیادت پر بالکل بھی بھروسہ نہیں اور اس لیے وہ صرف اسی طریقے سے لڑ رہے ہیں جس کے بارے میں وہ سوچتے ہیں کہ وہ کر سکتے ہیں۔‘
جنین کیمپ کی تاریخ کیا ہے؟
یہ کیمپ 1948-49 کی جنگ کے دوران بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کے لیے سنہ 1953 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ جنگ اسرائیل کی ریاست کے قیام کے وقت اسرائیلی اور عرب افواج کے درمیان لڑی گئی تھی۔
اس وقت مغربی کنارہ اردن کے زیر انتظام تھا۔ حیفا، نازرتھ اور آس پاس کے علاقے جو اب جدید اسرائیل میں ہیں وہاں سے پناہ گزین جنین کیمپ میں آئے۔
یہ مغربی کنارے کے 19 پناہ گزین کیمپوں میں سے ایک ہے، جہاں 200،000 افراد رہتے ہیں۔
جنین کیمپ 2000 اور 2005 کے درمیان ہونے والی دوسری فلسطینی بغاوت کے دوران لڑائی کا مرکز بن گیا۔
آئی ڈی ایف نے 10 دن کی لڑائی کے بعد 2002 میں کیمپ پر قبضہ کر لیا تھا جسے ’جنین کی لڑائی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس دوران کم از کم 52 فلسطینی عسکریت پسند اور عام شہری اور 23 اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے جبکہ 400سے زیادہ گھر تباہ ہو گئے اور ایک چوتھائی سے زیادہ آبادی بے گھر ہو گئی۔