بینچ کی تشکیل کا تنازع اور سپریم کورٹ میں تقسیم: ’یہ اختلاف رائے نہیں، اختیارات کی جنگ ہے‘

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس فیصل عرب کے مطابق پاکستان کی سب سے بڑی عدالت، یعنی سپریم کورٹ میں ،اس وقت ججز کے درمیان جو تقسیم موجود ہے وہ کسی معاملے پر اختلاف رائے نہیں بلکہ اختیارات کی جنگ کا معاملہ ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔

’کیا یہ کمیٹی کا دائرہ اختیار ہے کہ ایک کیس چل رہا ہو اور وہ واپس لے سکے۔۔۔ یہاں کیس ہم سے واپس لیکر کمیٹی نے آئینی بینچ میں لگا دیا۔‘

سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ کے یہ ریمارکس جمعرات کو ایک ایسے مقدمے کی سماعت کے دوران سامنے آئے جس کا مرکزی نقطہ عدالت میں بینچوں کی تشکیل اور مقدمات ہیں۔

لیکن بظاہر معمول کی یہ سماعت سابق ججوں کے مطابق حالیہ سپریم کورٹ کے اندر اختیارات کا غیر معمولی تنازع ہے جس کا آغاز 26ویں آئینی ترمیم اور آئینی مقدمات سننے کے لیے بینچ کی تشکیل سے ہوا۔

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس فیصل عرب کے مطابق ’پاکستان کی سب سے بڑی عدالت، یعنی سپریم کورٹ میں اس وقت ججز کے درمیان جو تقسیم موجود ہے وہ کسی معاملے پر اختلاف رائے نہیں بلکہ اختیارات کی جنگ کا معاملہ ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔‘

واضح رہے کہ 26ویں آئینی ترمیم اور پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری کے تحت تمام آئینی نوعیت کے مقدمات کی سماعت، خصوصا جن میں آئین کی تشریح مطلوب ہو، آئینی بینچ کی ذمہ داری قرار دیے گئے جس کے سربراہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس امین الدین خان نامزد کیے گئے تھے۔

26ویں آئینی ترمیم کے بعد جب عدالت عظمیٰ میں سنیارٹی میں نمبر تین پر موجود جسٹس یحییٰ آفریدی کا چناؤ ملک کے نئے چیف جسٹس کے طور پر ہوا تو آئینی بینچ کے سربراہ کی نامزدگی نے عدلیہ میں تقسیم کی باتوں کو مزید ہوا دی اور حالیہ مقدمے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ تنازع ختم نہیں ہوا۔

سپریم کورٹ میں تقسیم کیوں پیدا ہوئی اور یہ عدالتی معاملات کو کیسے متاثر کر رہی ہے؟ ان سوالات کا جواب جاننے سے قبل یہ جانتے ہیں کہ حالیہ تنازع ایک نوٹیفیکیشن سے کیسے شروع ہوا؟

کیس کی تبدیلی، توہین عدالت اور ایڈیشنل رجسٹرار کی غلطی

یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب ٹیکس قوانین سے متعلق سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف کسٹم حکام نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جسے 13 جنوری کو جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی کی سماعت کے لیے مقرر کیا گیا۔ اس بینچ میں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عرفان سعادت شامل تھے۔

تاہم ابتدائی سماعت میں عدالت نے ریمارکس دیے کہ پہلے اس بات کا تعین کرنا ہوگا کہ یہ معامہ آئینی بینچ سنے گا یا دوسرا بینچ جس کے بعد سماعت ملتوی کر دی گئی۔

لیکن 20 جنوری کے نوٹیفیکیشن کے تحت یہ اپیل جسٹس منصور علی شاہ کے بینچ سے ڈی لسٹ کر دی گئی اور اسے آئینی بینچ کو بھجوا دیا گیا جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے اعتراض اٹھایا کہ کیسے اپیل کی سماعت کے لیے نیا بینچ تشکیل دیا گیا اور کیسے یہ اپیل آئینی بینچ کو بھیج دی گئی۔

عدالت نے اس ضمن میں ایڈیشنل رجسڑار کو توہین عدالت میں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کر دیا تو سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس کی جانب سے ایک پریس ریلیز جاری کی گئی جس میں کہا گیا کہ ایڈیشنل رجسٹرار نے غلطی سے یہ اپیل آئینی بینچ کی بجائے جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں بننے والے بینچ کے سامنے لگا دی تھی۔ اس اعلامیے کے مطابق اس غلطی پر ایڈیشنل رجسٹرار کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

ایسے میں توہین عدالت کی سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے اہم ریمارکس دیے کہ ’پروسیجر کمیٹی چلتے ہوئے کیسز واپس لے تو عدلیہ کی آزادی تو ختم ہو گئی اور جہاں محسوس ہو فیصلہ حکومت کے خلاف ہو سکتا ہے تو بینچ سے کیس ہی واپس لے لیا جاتا ہے۔‘

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ ’17 جنوری کو ججز کمیٹی کے دو اجلاس ہوئے، مجھے ریگولر ججز کمیٹی اجلاس میں مدعو کیا گیا، میں نے جواب دیا جوڈیشل آرڈر دے چکا ہوں، کمیٹی میں بیٹھنا مناسب نہیں، پھر 17 جنوری کو ہی آرٹیکل 191 اے 4 کے تحت آئینی بینچز ججز کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس وقت عدالتی بینچ میں اس اپیل کی سماعت تھی اس وقت دو اجلاس ایک ہی دن ہوئے۔ انھوں نے کہا کہپریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا کام کیس پہلی بار مقرر ہونے سے پہلے تک ہے، جب کیس چل پڑے اس کے بعد کمیٹی کا کام ختم ہو جاتا ہے۔‘

جسٹس منصور علی شاہ نے یہ موقف اپنایا کہ ایڈیشنل رجسٹرار کو توہین عدالت کا نوٹس بھی 3 رکنی بینچ نے کیا تھا اور جسٹس عائشہ اس کیس کو کافی حد تک سن چکی تھیں۔

واضح رہے کہ کسٹم حکام کی اس اپیل کو سماعت کے لیے آئینی بینچ کو منتقل کرنے پر جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ ملک نے چیف جسٹس اور آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین کو اس ضمن میں خطوط بھی لکھے تھے جس میں انھوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

’کچھ جج رائج نظام پر سوال اٹھا رہے ہیں، ایسا ماضی میں نہیں ہوا‘

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس فیصل عرب اس مقدمے کو اس لیے غیر معمولی سمجھتے ہیں کیونکہ ان کی رائے میں ’اب سپریم کورٹ کے کچھ ججز ملک میں رائج سسٹم پر سوال اٹھا رہے ہیں جبکہ ماضی میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’شاید پہلے والا نظام اعلی عدلیہ کے ججز کو پسند تھا جس میں ججز کی تعیناتی اور بینچز کی تشکیل میں اہم کردار اس وقت کے چیف جسٹس کا ہوتا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کے ججز میں کسی آئینی معاملے پر اختلاف رائے ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے لیکن اب یہ معاملہ اختلاف رائے سے آگے نکل گیا ہے اور ججز کے گروپس ایک پوزیشن لیے ہوئے ہیں چاہے وہ پوزیشن غلط ہے یا صیح۔‘

آئینی بینچ اور سماعت کے اختیار کے حوالے سے جسٹس ریٹائرڈ فیصل عرب کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد زور پکڑ گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ ایک آئینی عدالت ہے تو پھر الگ سے آئینی بینچ بنانا سمجھ سے بالاتر ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’دنیا کے کسی بھی ملک میں کوئی ایسا شخص یا ادارہ عدلیہ کے بینچز تشکیل نہیں دیتا جس نے کسی کے خلاف مقدمہ درج کروایا ہو یا اس کے خلاف کوئی درخواست آئی ہو۔‘

جسٹس ریٹائرڈ فیصل عرب کا کہنا تھا کہ ’کسی بھی حکومت وقت کے خلاف بڑی عدالتوں میں سب سے زیادہ مقدمات ہوتے ہیں تو ایسے حالات میں وہ کیسے بینچز کی تشکیل کا فیصلہ کر سکتی ہے کہ فلاں مقدمہ آئینی بینچ سنے گا اور فلاں مقدمہ دوسرا بینچ؟‘

انھوں نے کہا کہ ’جب سے سپریم کورٹ نے ججز کی تعیناتی سے لیکر بینچز کی تشکیل کا اختیار پارلیمنٹ کو دیا، اس وقت سے ججز مشکل میں آ گئے ہیں۔‘

سپریم کورٹ
Reuters

’یہ ذاتی مفاد کا معاملہ ہے‘

تاہم سابق جج جسٹس وجیح الدین کی رائے کچھ مختلف ہے۔

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیح الدین احمد کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ کے موجودہ ججز میں اختلافات آئین یا قانون کی حکمرانی کے لیے نہیں بلکہ یہ معاملہ ذاتی مفاد کا ہے۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے جسٹس وجیہہ الدین کا کہنا تھا کہ ’سیاسی معاملات کو سننا جس میں ججز دلچسپی ظاہر کر رہے ہوں تو یہ کانفلکٹ آف انٹرسٹ ہے اور اس تاثر کو بھی تقویت ملتی ہے کہ ججز کے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ وہ اس بارے میں فیصلہ دیں گے تو فلاں سیاسی جماعت خوش ہوگی اور وہ جج کے مفاد کا تحفظ کرے گی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’بدقسمتی سے دنیا بھر میں پاکستان کا عدالتی نظام سب سے کم نمبروں میں سے ایک ہے اور اگر اعلی عدلیہ کے ججز میں اختلافات کا سلسلہ یوں جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب پورے عدالتی نظام کا دھڑن تختہ ہو جائے گا۔‘

دوسری جانب قانونی معاملات کے بارے میں وزیر اعظم کے مشیر بیرسٹر عقیل کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ معاملہ توہین عدالت کا ہے اس سے حکومت کا کوئی لینا دینا نہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’توہین عدالت کا معاملہ عدالت اور توہین کرنے والے کے درمیان ہوتا ہے باقی کوئی فریق اس میں کچھ نہیں کر سکتا۔‘

تاہم جمعرات کو جسٹس منصور علی شاہ نے توہین عدالت مقدمہ کے دوران یہ معاملہ فل کورٹ کے سامنے رکھنے کی بات کی اور ریمارکس دیے کہ ’چیف جسٹس پاکستان صاحب کی مرضی ہے فل کورٹ بنائیں یا نہ بنائیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.