عدالت کا خاتون کے حق میں فیصلہ: ’شوہر کو جنسی تعلق قائم کرنے کی اجازت نہ دینا طلاق کی توجیح نہیں ہو سکتی‘

انسانی حقوق کی یورپی عدالت (ای سی ایچ ) نے جمعرات کے روز 69 سالہ خاتون کا ساتھ دیتے ہوئے کہا کہ عدالتوں کو طلاقکے معاملات پر جنسی تعلقات سے انکار کو بنیاد نہیں بنانا چاہیے۔
سیکس سے انکار، علامتی تصویر
Getty Images

یورپ میں انسانی حقوق کی ایک عدالت نے فرانس کی ایک ایسی خاتون کے حق میں فیصلہ سُنایا ہے جنھوں نے اپنے شوہر کے ساتھ جنسی تعلقات ختم کر دیے تھے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ خاتون کی جانب سے جنسی تعلق ختم کرنے کے عمل کی وجہ سے خاتون کو طلاق کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

انسانی حقوق کی یورپی عدالت (ای سی ایچ ) نے جمعرات کے روز 69 سالہ فرانسیسی خاتون کا ساتھ دیتے ہوئے کہا کہ عدالتوں کو طلاقکے معاملات میں جنسی تعلقات سے انکار کو بنیاد نہیں بنانا چاہیے۔

اس متفقہ فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ فرانس نے یورپی انسانی حقوق کے قانون کے تحت نجی اور خاندانی زندگی کے احترام کے حق کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس فیصلے کے ساتھ تقریباً ایک دہائی سے جاری قانونی تنازعے کا خاتمہ بھی ہوا ہے۔

فرانسیسی خاتون جن کی شناخت ’ایچ ڈبلیو‘ کے طور پر کی گئی ہے نے اس فیصلے کو ’ریپ کلچر‘ کے خاتمے اور شادیمیں باہمی رضامندی کو فروغ دینے کی سمت میں ایک قدم قرار دیا ہے۔

اس معاملے نے فرانس میں ازدواجی رضامندی اور خواتین کے حقوق کے بارے میں رویّوں کے بارے میں ایک نئی بحث کو بھی جنم دیا ہے۔

طلاق کے لیے دیے گئے جواز پر اعتراض

سیکس سے انکار، علامتی تصویر
Getty Images

خاتون کی وکیل لیلیا مہسن نے کہا کہ اس فیصلے نے ’ازدواجی ذمہ داری‘ کے فرسودہ تصور کو ختم کر دیا ہے اور فرانسیسی عدالتوں پر زور دیا ہے کہ وہ رشتے میں رضامندی اور مساوات کے بارے میں جدید نظریات کے ساتھ ہم آہنگ ہوں۔

خاتون کی حمایت کرنے والے خواتین کے حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ فرانسیسی جج ’شادی کے بارے میں فرسودہ تصور‘ نافذ کر رہے ہیں جو نقصان دہ دقیانوسی تصورات کو برقرار رکھتا ہے۔

پیرس کے قریب رہنے والی اس خاتون نے سنہ 1984 میں اپنے شوہر سے شادی کی تھی۔ اُن کے چار بچے تھے جن میں ایک معذور بیٹی بھی شامل تھی۔ معذور بچی کی مستقل دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی خاتون کے ذمے تھی۔ خاتون کے مطابق بچوں کی پیدائش کے بعد اُن کے اپنے شوہر سے ازدواجی تعلقات خراب ہو گئے اور بعدازاں انھیں صحت سے متعلقہ مسائل کا سامنا بھی رہا۔

خاتون کے مطابق سنہ 2002 میں اُن کے شوہر نے ان کے ساتھ جسمانی اور زبانی بدسلوکی کا سلسلہ بھی شروع کیا اور اس کے دو سال بعد یعنی سنہ 2004 میں انھوں نے اپنے شوہر کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنا چھوڑ دیا۔ بلآخر سنہ 2012 میں جوڑے کی جانب سے طلاق کی درخواست دے دی گئی۔

خاتون نے طلاق کی مخالفت نہیں کی، تاہم انھیں شوہر کی جانب سے طلاق کے لیے پیش کیے جانے والے جواز پر اعتراض (رشتے میں جنسی تعلق کا نہ ہونا) کیا جس کی بنیاد پریہ درخواست منظور کی گئی تھی۔

سنہ 2019 میں فرانس کی عدالت نے خاتون کی شکایات کو مسترد کرتے ہوئے اُن کے شوہر کے حق میں فیصلہ سنایا تھا۔

بعد ازاں فرانس کی سب سے بڑی عدالت کورٹ آف کیسیشن نے بغیر کسی وضاحت کے خاتون کی اس فیصلے کے خلاف کی گئی اپیل کو بھی مسترد کر دیا تھا۔

’شادی کا مطلب ہمیشہ جنسی تعلقات پر رضامندی نہیں‘

سیکس سے انکار، علامتی تصویر
Getty Images

اس کے بعد خاتون سنہ 2021 میں ای سی ایچ آر میں اپنا کیس لے کر آئیں۔ ای سی ایچ آر نے اب فیصلہ دیا ہے کہ حکومتوں کو صرف جنسیت جیسے معاملات میں بہت سنگین وجوہات کی بنا پر مداخلت کرنی چاہیے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ فرانسیسی قانون میں ’ازدواجی فرائض‘ کے خیال نے جنسی تعلقات میں رضامندی کی اہمیت کو نظر انداز کیا۔

عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ شادی پر رضامند ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مستقبل میں ہر حال میں جنسی تعلقات قائم کرنے پر رضامندی ظاہر کی جائے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایسا تاثر دینا اس بات سے انکار ہے کہ ازدواجی ریپ (میریٹل ریپ) ایک سنگین جرم ہے۔

یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب فرانس میں ڈومینک پیلیکوٹ کے خلاف ہائی پروفائل ٹرائل کے بعد شادی میں رضامندی جیسے معاملات پر توجہ بڑھ رہی ہے۔ ڈومینک نے اپنی بیوی کو مدہوش کر کے کئی مردوں سے ان کا ریپ کروایا تھا۔

ڈومینک اور اُن کے ساتھ ملوث 50 افراد کو گذشتہ ماہ مجرم قرار دیا گیا تھا اور اس معاملے میں اس بارے میں خدشات پیدا ہوئے تھے کہ فرانسیسی قانون رضامندی جیسے معاملے سے کیسے نمٹتا ہے۔

فیمنسٹ گروپوں کا کہنا ہے کہ ای سی ایچ آر کا فیصلہ فرانسیسی قوانین اور ثقافتی رویوں کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت کو تقویت دیتا ہے۔

فرانسیسی ارکان پارلیمنٹ کی ایک حالیہ رپورٹ میں ریپ کی قانونی تعریف میں عدم رضامندی کے تصور کو شامل کرنے کی سفارش کی گئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ رضامندی آزادانہ طور پر دی جانی چاہیے اور کسی بھی وقت اسے واپس لیا جا سکتا ہے۔

میریٹل ریپ کیا ہوتا ہے؟

ایسا گھریلو تشدد جو جنسی تعلق میں بھی شامل ہو اور شوہر اپنی بیوی کے انکار کے باوجود اسے جنسی تعلقات قائم کرنے پر مجبور کرے تو اسے ’میریٹل ریپ‘ کہا جاتا ہے۔

دنیا کے 50 سے زائد ممالک میں ’میریٹل ریپ‘ کو جرم سمجھا جاتا ہے اور ان ممالک کے قوانین میں اس جرم کی باقاعدہ سزائیں موجود ہیں

وکیل ناصر علیکا کہنا ہے کہ ’میریٹل ریپ کا پتہ کرنا ایک مشکل امر ہے۔ اس طرح کے معاملات میں ہمیشہ ایک باریک لکیر ہوتی ہے اور شوہر بیوی کے ساتھ سیکس کے معاملے میں یہ طے کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ کب وہ باریک لائن عبور ہو گئی۔‘

دوسری جانب میریٹل ریپ کو سزا کے زمرے میں شامل کرانے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ عام طور پر پدرشاہی معاشرے میں خواتین کو خاموش کروا دیا جاتا ہے اور اس وجہ سے وہ بروقت شکایت درج نہیں کر پاتیں۔

یاد رہے کہ میریٹل ریپ یعنی شوہر کی جانب سے بیوی کی رضامندی کے بغیر اس سے جنسی تعلق قائم کرنا سنہ 1991 میں تسلیم کیا گیا تھا جب برطانیہ میں پانچ ججوں پر مشتمل ایک بینچ نے ایک شوہر کو اپنی بیوی کے ریپ کا مجرم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ریپ کرنے والا، ریپ کرنے والا ہی ہوتا ہے اور اسے اس کے جرم کی سزا ملنی چاہیے، متاثرہ خاتون کے ساتھ چاہے اس کا کوئی بھی تعلق ہو۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.