’وہ انسان نہیں تھا‘: برطانیہ میں مسلمان مخالف فسادات کو جنم دینے والا ’ناقابل بیان‘ حملہ کیسے ہوا؟

تین بچیوں کی ہلاکت کے بعد برطانیہ میں بڑے پیمانے پر مسلمان مخالف فسادات کا آغاز ہوا جس کی وجہ یہ افواہ تھی کہ حملہ آور مسلمان تھا۔ ان فسادات کے دوران مسلمان آبادی سمیت مساجد کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔

انتباہ: اس تحریر میں موجود چند تفصیلات قارئین کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہیں۔

’ڈانس کلب قہقہوں اور خوشی سے بھرپور تھا۔‘ برطانیہ کے ساؤتھ پورٹ میں ایک ڈانس پارٹی کے لیے جمع 26 بچیوں میں سے ایک 14 سالہ لڑکی نے اس دن کو یاد کرتے ہوئے بتایا۔

موسم گرما کی چھٹیوں کا آغاز ہوا تھا اور ان بچیوں کو ان کے والدین چھوڑ کر جا رہے تھے۔ 29 جولائی کا دن بظاہر ایک خوشگوار دن تھا۔ لیکن پھر ایک ایسا حملہ ہوا جس میں تین بچیوں کی ہلاکت کے بعد برطانیہ میں بڑے پیمانے پر مسلمان مخالف فسادات کا آغاز ہوا جس کی وجہ یہ افواہ تھی کہ حملہ آور مسلمان تھا۔ ان فسادات کے دوران مسلمان آبادی سمیت مساجد کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔

اس معاملے میں ایک پاکستانی شہری کا بھی نام آیا تھا تاہم اگست میں لاہور کی ایک مقامی عدالت نے برطانیہ کے علاقے ساؤتھ پورٹ میں تین بچیوں کے قتل کے معاملے پر فیک نیوز (جھوٹی خبر) پھیلانے اور پرتشدد مظاہروں کو ہوا دینے کے الزام میں گرفتار کیے گئے پاکستانی شہری فرحان آصف کو بری کر دیا تھا۔

اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ یہ حملہ کس نے کیا تھا اور ایکسل رڈاکبانہ نامی مجرم کو 52 سال قید کی سزا سنائی جا چکی ہے۔ جمعرات کے دن سماعت کے دوران پہلی بار اس حملے کے عینی شاہدین کی بتائی ہوئی تفصیلات کی مدد سے ایک خاکہ سامنے آیا کہ اس دن کیا ہوا تھا۔

اس دن ڈانس پارٹی کے مقام کے باہر ایکٹیکسی رکی اور ایک مسافر باہر نکلا جس نے کرایہ ادا کرنے سے انکار کر دیا۔

یہ نوجوان منھ پر ماسک پہنے ہوئے تھا اور اس کی جیب میں 20 سینٹی میٹر لمبی چھری تھی۔ پہلے ایکسل کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ سٹوڈیو میں کیسے داخل ہو اور سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا گیا کہ وہ ایک بند دروازے سے داخل ہونے کی کوشش کرتا رہا۔

لیکن پھر اسے ایک اور دروازہ نظر آیا اور وہ اندر گھس گیا۔ وہاں موجود ایک بچے کے مطابق ’یہ میرے ڈراؤنے خواب کا آغاز تھا۔‘

’یہ مذاق نہیں تھا‘

ڈانس کلاس سے سامنے آنے والے بیانات کے مطابق ایکسل بہت اطمینان سے حرکت کر رہا تھا جیسے وہ اس لمحے کی منصوبہ بندی بہت دیر سے کر رہا تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی اس نے بنا ہچکچائے ایک بچی کو پکڑا اور اسے چھری گھونپ دی۔

اس دوران اس نے منھ سے ایک لفظ بھی نہیں بولا۔ سٹوڈیو میں موجود افراد کو چند لمحے تک سمجھ ہی نہیں آیا کہ آخر ہوا کیا ہے۔

ایک زندہ بچ جانے والی بچی نے بتایا کہ ’مجھے لگا کہ جس شخص نے حملہ کیا وہ صفائی کرنے والا تھا۔‘ اس بچی کے مطابق ایسا لگا جیسے یہ مذاق تھا لیکن ’جب خون دیکھا تو سمجھ آئی کہ یہ مذاق نہیں۔‘

اس بچی کے مطابق اس کے ذہن میں یہ بات آئی کہ ’میں مرنا نہیں چاہتی، مجھے یہاں سے باہر نکلنا ہے۔‘

ایک اور بچی جو اس حملے میں زخمی ہوئی کے مطابق اس کے ذہن میں ایکسل کی یاد کسی ’عفریت جیسی‘ ہے۔ بعد میں عدالت میں اس بچی نے حملہ آور سے مخاطب ہو کر کہا کہ ’مجھے تمھاری آنکھیں یاد ہیں۔ تم انسان نہیں لگ رہے تھے۔‘

ڈانس کلاس کی منتظم، لین لوکاس، نے ایکسل کو اس وقت سب سے پہلے دیکھا تھا جب وہ کھڑکیاں کھول رہی تھیں تاکہ تازہ ہوا اندر آ سکے۔ لیکن جب تک وہ دروازہ کھول کر اندر نہیں گھسا، لین نے اس پر توجہ نہیں دی۔

اس حملے کی سنجیدگی کا احساس ان کو اس وقت ہوا جب ان کی پیٹھ پر بھی حملہ ہوا۔

ہیڈی لڈل، جو کلاس کی سپروائزر تھیں، زمین پر بیٹھی بچوں کی مدد کر رہی تھیں۔ جب تک انھیں احساس ہوا کہ وہاں کیا ہو رہا تھا، حملہ آور ناقابل بیان نقصان کر چکا تھا۔ لیکن ہیڈی نے بچیوں کو باہر نکالنے کی کوشش شروع کر دی۔

ایک بچی ٹائلٹ کی جانب بھاگی تو ہیڈی نے اس کا پیچھا کیا اور ٹائلٹ کے اندر گھس کر دروازہ بند کر لیا۔ انھوں نے بچی سے کہا کہ وہ خاموش رہے۔

کچھ ہی دیر بعد دروازہ بجنا شروع ہو گیا۔ ایکسل ابھی تک اپنے شکار تلاش کر رہا تھا۔ باہر ہیڈی کو ایسی بچیوں کی چیخیں سنائی دے رہی تھیں جو فرار ہو نہیں پائی تھیں۔

ایکسل کی کوشش تھی کہ زیادہ سے زیادہ بچیوں کو قتل کرے۔ 15 منٹ کے اندر دو بچیاں ہلاک ہو چکی تھیں اور تیسری جان کی بازی ہار رہی تھی۔ آٹھ دیگر بچے اور دو بڑی عمر کے افراد بھی زخمی ہو چکے تھے جن میں سے چند کی حالت تشویش ناک تھی۔

لیکن ہلاکتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی تھی۔ ایک بچی نے بتایا کہ کیسے ہر چیز انتہائی سست رفتار لگنے لگی تھی جب حملہ آور ان کے دوستوں کی جانب بڑھا لیکن انھوں نے اپنی سہیلیوں کو دھکے دے کر باہر نکالا۔

جب ان کا سامنا حملہ آور سے عدالت میں ہوا تو انھوں نے کہا کہ ’تمھاری آنکھوں سے مجھے علم ہو گیا تھا کہ تم ہم سب کو مارنا چاہتے ہو۔‘

برطانیہ
EPA

عدالت میں جب ایکسل کو سزا سنائی گئی تو جج نے ریمارکس دیے کہ اگر ممکن ہوتا تو وہ ہر بچی کو قتل کر دیتا۔

اس دن زندہ بچ جانے والی ایک بچی کو 30 بار چھری گھونپی گئی تھی۔ ہسپتال میں چھ گھنٹے تک ان کا آپریشن ہوا اور ڈاکٹروں نے ان کے بازو، انگلیاں اور ہاتھ بچانے کی کوشش کی۔ اس بچی کے والدین نے تفتیش کاروں کو بعد میں بتایا کہ اس نے دو بچیوں کو مرتے ہوئے دیکھا تھا۔

اس بچی نے صحتیاب ہونے کے دوران والدین سے کہا تھا کہ ’میں نہیں جانتی کہ میں اب کون ہوں۔‘ ان کی والدہ کے مطابق حملہ آور نے اس کے خوبصورت دل کو مکمل طور پر تباہ کرنے کی کوشش کی۔

لیکن چھ ماہ بعد وہ صحتیاب ہو رہی ہیں اور ان کی والدہ فخر سے یہ بات بتاتی ہیں۔ دیگر بچیاں بھی رفتہ رفتہ زندگی کی طرف لوٹ رہی ہیں۔

ایک بچی کے مطابق ’اگر میں وہاں نہ ہوتی تو شاید کسی اور کو چھری گھونپ دی جاتی اور وہ مر سکتے تھے تو میں خوش ہوں کہ شاید میں نے کسی اور کو زخمی ہونے سے بچا لیا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.