صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے ایک ہفتے کے اندر ہی ڈونلڈ ٹرمپ ایک تنازع میں الجھ بیٹھے ہیں اور ان کا ہدف چین، میکسیکو یا کینیڈا نہیں تھے۔ بلکہ ان کے غصے کا نشانہ بننے والا ملک امریکہ کا قریبی اتحادی ہے۔
صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے ایک ہفتے کے اندر ہی ڈونلڈ ٹرمپ ایک مختصر تنازع میں الجھ بیٹھے ہیں۔ اور ان کا ہدف چین، میکسیکو یا کینیڈا نہیں تھے۔ بلکہ ان کے غصے کا نشانہ بننے والا ملک کولمبیا تھا جو لاطینی امریکہ میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا سب سے قریبی اتحادی ہے۔
کولمبیا کا جرم یہ تھا کہ اس نے غیر قانونی تارکین وطن افراد سے بھری دو امریکی پروازوں کو اترنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا کیوں کہ یہ عسکری جہاز تھے۔ لیکن ٹرمپ کے لیے دھمکی کا اجرا کرنے کے لیے اتنا کافی تھا۔
ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’ہم کولمبیا کی حکومت کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ امریکہ پر تھوپ دیے جانے والے مجرموں کی واپسی سے متعلق اپنی قانونی ذمہ داریوں سے روگردانی کرے۔‘
ٹرمپ نے دھمکی دی کہ کولمبیا کو 25 فیصد ٹیرف کے ساتھ ساتھ سفری پابندی اور سرکاری حکام کے ویزا کی منسوخی کا سامنا ہو گا۔ بعد میں وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا کہ کولمبیا نے غیر قانونی تارکین وطن کی عسکری طیاروں میں واپسی کی حامی بھر لی ہے اس لیے ان اقدامات پر عمل نہیں کیا جائے گا۔
اپنے پہلے ہفتے کے دوران ایسا لگ رہا ہے کہ امریکی صدر تجارتی معاملات کے مقابلے میں امیگریشن پر زیادہ توجہ دیے ہوئے ہیں اور ایسی قوموں کو سزا دینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں جو امریکہ کی نئی سخت گیر امیگریشن پالیسی کی حمایت نہیں کر رہیں۔
ٹرمپ امریکی اتحادیوں اور مخالفین کو ایک جیسی تنبیہ دے رہے ہیں کہ اگر امریکہ کے ساتھ تعاون نہ کیا گیا تو نتائج سنگین ہوں گے۔
کولمبیا نے ٹیرف کی جنگ میں الجھنے سے گریز کیا ہے تاہم یہ نئی حکمت عملی ٹرمپ انتظامیہ کا بھی امتحان لے گی۔
اگر مستقبل میں ایسی دھمکیوں پر عمل کیا گیا اور امریکی شہریوں کو اس کی قیمت افراط زر کی شکل میں ادا کرنا پڑی تو کیا لوگ احتجاج کریں گے؟ کیا وہ معاشی تکلیف اس لیے برداشت کرنے پر آمادہ ہو جائیں گے کہ ٹرمپ اپنی امیگریشن کی ترجیحات پر عمل پیرا ہو سکیں؟
امریکہ محکمہ زراعت کے مطابق امریکہ 27 فیصد کافی کولمبیا سے درآمد کرتا ہے۔ اس کے علاوہ کیلے، پھول اور دیگر مصنوعات بھی درآمد کی جاتی ہیں۔ صرف کافی کی درآمد کا حجم دو ارب ڈالر تک ہے۔
کولمبیا کے صدر گسٹاوو پیٹرو نے ابتدا میں کہا تھا کہ ان کا ملک تارکین وطن کی واپسی عام جہازوں میں قبول کرے گا لیکن ان کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک نہیں کیا جائے گا۔
یہ کوئی راز نہیں کہ پیٹرو ٹرمپ کو پسند نہیں کرتے ہیں کیوں کہ وہ امیگریشن سمیت موسمیاتی تبدیلی پر ٹرمپ کی پالیسیوں پر تنقید کرتے رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر انھوں نے لکھا کہ ٹرمپ ’لالچ کی وجہ سے انسانیت کو مٹا دیں گے‘ اور انھوں نے الزام عائد کیا کہ امریکی صدر کولمبیا کے شہریوں کو ’کم تر نسل‘ سمجھتے ہیں۔
پیٹرو نے مذید کہا کہ ٹرمپ ’معاشی طاقت اور گھمنڈ کی مدد سے تختہ الٹنے کی کوشش کر سکتے ہیں‘ لیکن وہ لڑیں گے۔ اہم بات یہ ہے کہ پیٹرو نے کہا کہ ’آج سے کولمبیا پوری دنیا کے لیے کے لیے کھلا ہے، کھلی بانہوں کے ساتھ۔‘
اور یہ بات کسی بھی امریکی صدر کے لیے پریشان کن ہونی چاہیے، خصوصی طور پر ایسے صدر کے لیے جو امیگریشن کے مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ اس کام کے لیے میکسیکو سے آگے تک دیکھنا ہو گا۔
کرسٹوفر لانڈو، جنھیں ٹرمپ نائب امریکی سیکرٹری خارجہ کے عہدے کے لیے چن چکے ہیں، طویل عرصے سے یہ کہتے چلے آئے ہیں کہ دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنا امریکی خارجہ پالیسی کا اہم جزو ہونا چاہیے۔ لیکن اتوار کے دن ہونے والی جھڑپ کے بعد یہ کام مشکل ہو گا۔
واضح رہے کہ سالانہ دنیا بھر سے لاکھوں تارکین وطن، انڈیا اور چین سمیت مختلف ممالک سے، شمال کا رخ کرتے ہیں اور لاطینی امریکہ میں پہنچنے کے بعد کولمبیا کے راستے سفر کرتے ہیں۔ یہ ایک خطرناک سفر ہوتا ہے جس میں مجرم گروہ مدد کرتے ہیں۔
ٹرمپ کے جواب میں کولمبیا کے صدر نے کہا کہ اگر امیگریشن پر مزاکرات معطل ہوئے تو غیر قانونی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا۔ یہ بیان ایک ڈھکی چھپی دھمکی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد کم ہونے کے بجائے بڑھ سکتی ہے۔
تاہم یہ واضح ہے کہ ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی کا معاملہ امریکی مطالبات نہ ماننے والے دوسرے ممالک کے کیے درد سر بن سکتا ہے اور جیسا کہ ہم نے دیکھا یہ ٹرمپ کی سب سے پہلی حکمت عملی ہو گی۔