دورِ جدید میں ہم سائنس کی ان گنت ایجادات سے مستفید ہو رہے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر یہ سب نہ ہوں تو شاید ہماری زندگی ایک دم سے مشکل لگنے لگے گی۔ لیکن یہ آسانیاں پیدا کرنے والے جہاں ایک طرف تعریف سو ستائش کے حق دار ٹھہرے وہیں ان میں سے کچھ کسی حد تک کامیاب تو ہوئے لیکن ان کی کوششیں تشنہ رہ گئیں۔
دورِ جدید میں ہم سائنس کی ان گنت ایجادات سے مستفید ہو رہے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اگر یہ سب نہ ہوتیں تو شاید ہماری زندگی ایک دم سے مشکل لگنے لگتی۔
یہ آسانیاں پیدا کرنے والے جہاں ایک طرف تعریف کے حق دار ٹھہرے وہیں ان میں سے کچھ کسی حد تک کامیاب تو ہوئے لیکن ان کی کوششیں نامکمل رہ گئیں۔
تاہم کچھ مؤجد اپنی تخلیقات کے لیے مشہور ہوئے اور اتنے مشہور ہوئے کہ ان کے نام ان کی ایجادات سے جڑ کر تاریخ میں امر ہو گئے۔
اب سیموئل مورس کے مورس کوڈ اور لوئس پاسچر کے پاسچرائزیشن سے لے کر کینڈیڈو جاکوزی کے جاکوزی اور ارنو روبک کے روبکس کیوب کو ہی لے لیں۔
اسی طرح میخائل کلاشنکوف کی اے کے-47 رائفل جیسی خوفناک چیزوں کے علاوہ ایڈولف ساکس کے سازوفون جیسی سریلی چیز اور فورتھ ایرل سینڈوچ کے ذائقے دار سینڈوچ وغیرہ بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ بہرحال یہ فہرست طویل ہے۔
تاہم ایسے جدت طراز بھی ہیں جن کی ایک لمبی فہرست ہے لیکن ان کے نام بہت کم لوگوں کو یاد ہیں حالانکہ ہم ان کی ایجادات کا روزمرہ کی زندگی میں خوب استعمال کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر رابرٹ یٹس، جن کا ہم کین اوپنر استمعال کرتے ہیں، مارگریٹ نائٹ جنھوں نے فلیٹ باٹمڈ پیپر بیگ بنایا تھا، یا سینیئر افریقی نژاد امریکی گیریٹ آگسٹس مورگن جنھوں نے ٹریفک لائٹ ایجاد کی تھی۔
اور پھر ایسے لوگ بھی ہیں جن کی موت کا ان کی اپنی تخلیقات سے گہرا تعلق رہا۔
یہاں ہم ان میں سے پانچ کا ذکر کر رہے ہیں جن کی ایجادات ہی ان کی موت کا وجہ بنیں۔
آسمان سے گرنا
آسمان سے گرنا اور پرندوں کی طرح اڑنے کی صلاحیت حاصل کرنا ایک قدیم خواب رہا ہے۔
یونانی اساطیر میں اس کی مثال ملتی ہے کہ ڈیڈالس نے اپنی ہی تیار کردہ بھول بھلیوں سے بچنے کے لیے پروں اور موم کے پنکھ بنائے اور اسے اپنی اور اپنے بیٹے آئیکارس کی پیٹھ سے باندھ کرراہ فرار اختیار کی۔
لیکن آئیکارس کی طرح تاریخ میں دوسرے بہت سے لوگ اس طرح کی کوشش میں بلندیوں سے گرے ہیں اگرچہ وہ انکی طرح سورج کے بہت قریب پرواز نہیں کر رہے تھے۔
یہاں تک کہ جب اڑان بھرنے کے قابل ایجادات ہوئیں تب بھی کشش ثقل کی طاقت لوگوں کا شکار کرتی رہی۔
ایسے ہی لوگوں میں سے ایک برطانوی واٹر کلرسٹ رابرٹ کوکنگ تھے جنھیں ان کے فن پاروں کی وجہ سے نہیں بلکہ تاریخ کے پہلے پیراشوٹ کے حادثے میں مرنے کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔
سنہ 1785 میں مشہور فرانسیسی موجد ژاں پیئر بلانچرڈ نے زمانۂ جدید میں پہلی بار پیراشوٹ سے چھلانگ لگائی تھی۔
نصف صدی اور کئی پیراشوٹ بنانے کی کوششوں کے بعد کوکنگ نے سوچا کہ وہ ان آلات کے ڈیزائن کو بہتر بنا سکتے ہیں اور اس کو تیار کرنے میں برسوں صرف کرنے کے بعد اب اسے کر دکھانے کا وقت آ چکا تھا۔
24 جولائی سنہ 1834 کو انھوں نے اپنی تخلیق کردہ ایجاد پر اڑان بھری اور مشہور رائل ناساو غبارے سے لٹکتے ہوئے لندن کے آسمان پر بلند ہوئے۔
جب تک وہ گرین وچ کے لینڈنگ زون میں پہنچتے وہ تقریباً 1500 میٹر کی بلندی تک پہنچ چکے تھے اور سورج پہلے ہی غروب ہو چکا تھا۔
انھوں نے غبارے سے چھلانگ لگا دی کیونکہ معاملہ ’اگر ابھی نہیں کیا تو پھر کبھی نہیں ہو گا‘ تک پہنچ چکا تھا۔
ایک لمحے کے لیے سب کچھ ٹھیک لگ رہا تھا اور وہ بہت تیزی سے نیچے جا رہے تھے۔
اور پھر اچانک پیراشوٹ کا کپڑا کھلا لیکن وہ پھٹنے لگا اور پھر ٹوکری سے مکمل طور پر الگ ہو گیا۔
کوکنگ اس حادثے میں ہلاک ہو گئے۔ وہ اپنے حساب کتاب میں پیرا شوٹ کے وزن کو مدنظر رکھنا بھول گئے تھے۔
تقریباً 80 سال بعد ایک فرانسیسی درزی کا بھی یہی حشر ہوا۔
فرانز ریخلٹ کا گرنا بھی اتنا ہی دیدنی تھا، سوائے اس کے کہ ان کے معاملے میں نہ صرف کارٹونسٹ بلکہ فوٹوگرافروں اور فلمنگ کی پوری ٹیم کوریج کے لیے موجود تھی۔
یہ درزی پائلٹوں کے لیے ایک سوٹ ڈیزائن کرنا چاہتے تھے جو ہوائی جہاز سے باہر نکلنے کی مجبوری کی صورت میں پیراشوٹ کی شکل میں پھیل جائے گا۔
ان کے ابتدائی ڈیزائنز نے جن میں ریشم سے بنے فولڈنگ ونگ شامل تھے، پیرس کی عمارت سے مجسموں کو باندھ کر گرائے جانے کی صورت میں امیدپیدا کر دی تھی۔
لیکن وہ آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں پہنچائے جا سکتے تھے لہٰذا انھوں نے ڈیزائن میں ترمیم کی اور جب یہ تیار ہو گیا تو انھوں نے ایک بلند و بالا جگہ کی تلاش کی جہاں سے وہ اپنے پیراشوٹ کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے اور گرنے کی رفتار کو سست کر سکیں۔
ایفل ٹاور کی پہلی منزل، جو زمین سے 57 میٹر اونچی تھی ان کے تجربے کے لیے مثالی تھی۔ انھوں نے ٹیسٹ کی اجازت حاصل کی اور 4 فروری 1912 کو پریس کانفرنس بلائی۔
اس دن انھوں نے حیرت انگیز اعلان کیا کہ وہ ڈمی کے بجائے خود چھلانگ لگائیں گے۔
پولیس نے خبردار بھی کیا کہ ان کے پاس براہ راست چھلانگ لگانے کا اجازت نامہ نہیں ہے اور ان کے دوست انھیں روکنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اسی دورانٹاور پر چڑھ گئے اور اپنے سوٹ کو جزوی طور پر نصب کرکے چھلانگ لگا دی۔
پیراشوٹ مکمل طور پر نہیں کھلا اور ریخلٹ تماشائیوں کے ہجوم کے سامنے گر کر مر گئے۔
سمندری جہازوں کے لیے مشعل راہ
ایک آرام دہ نظر آنے والی کرسی جس میں جب کوئی بیٹھتا تھا تو یہ کرسی اس کے ارد گرد اپنے بازو بند کر دیتی تھی۔ اسی طرح مٹھائیوں سے بھری ایک چائے کی ٹرالی جو چھت سے جادوئی طور پر تیرتی ہوئی سامنے آتی تھی۔
یہ ان بہت سے پرکشش چیزوں میں سے دو ہیں جو ہینری اور جین ونسٹنلے کی رہائش گاہ پر آنے والوں کو حیران کر دیتی تھیں۔ ان کے گھر کو انگلینڈ کے ونڈر ہاؤس آف ایسکس کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یہ چیزیں مصور اور نقاش ونسٹنلی کی ایجادات تھیں اور وہ میکانی اور ہائیڈرولک طور پر چلنے والے آلات میں دلچسپی رکھتے تھے۔
سنہ 1690 کی دہائی میں انھوں نے لندن میں ایک ریاضیاتی واٹر تھیٹر کھولا جو ان کے اپنے ڈیزائن کے غیر معمولی اور انوکھی پرکشش چیزوں سے بھرا ہوا تھا۔
ان کی مقبولیت نے انھیں جہازوں میں سرمایہ کاری کرنےکے قابل بنایا۔
جب انجہازوں میں سے دو انگلینڈ کے جنوب مغربی ساحل پر ایڈی سٹون چٹانوں سے ٹکرا کر تباہ ہو گئے تو ہنری ونسٹنلے کو پتہ چلا کہ یہ علاقہ بحری جہازوں کے تباہ ہونے اور صدیوں سے بہت سے ملاحوں کی زندگیوں کو نقصان پہنچانے کے لیے بدنام ہے۔
انھوں نے ٹھان لی کہ 'مجھے کچھ کرنا تھا۔'
انھوں نے چٹانوں پر ایک لائٹ ہاؤس تعمیر کرنے کا خاکہ بنایا اور یہ منصوبہ وہ حکومت کے پاس لے گئے لیکنانھیں حکام کو قائل کرنے میں مشکل پیش آئی۔
اس سے قبل اونچے سمندروں پر کبھی بھی لائٹ ہاؤس تعمیر نہیں کیا گیا تھا چہ جائے کہ اونچی لہروں کے درمیان پانی سے ڈھکی چٹانوں پر کوئی لائٹ ہاؤس تعمیر کیا جاتا۔
انھوں نے سنہ 1696 میں اس پر کام شروع کر دیا لیکن اسی دوران ونسٹینلی کو فرانسیسی قزاقوں نے اغوا کر لیا۔ رہا ہوتے ہی وہ اپنے کام پر واپس آ گئے اور 1698 میں انھوں نے 27 میٹر بلند ٹاور پر 60 مشعلیں روشن کیں۔
جب انھوں نے دیکھا کہ تیز ہواؤں میں یہ ٹوٹ رہا ہے اور جب لہریں بہت بڑی ہوتی ہیں تو یہ دکھائی نہیں دیتا تو انھوں نے اس کے ڈھانچے کو دوبارہ ڈیزائن کیا، اس کی دیواروں کو مضبوط کیا اور اس کی اونچائی 40 میٹر تک بڑھا دی۔
اپنی تاریخی ایجاد یعنی پہلے آف شور لائٹ ہاؤس کی سیفٹی سے خوش ہو کر ونسٹینلی نے اعلان کیا کہ وہ ’اب تک کے سب سے بڑے طوفان‘ کے دوران وہاں ایک رات گزاریں گے۔
سنہ 1703 میں برطانوی جزائر میں آنے والے سب سے خوفناک طوفان نے 120 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چلائیں جس کے نتیجے میں سمندر اور زمین پر ایک اندازے کے مطابق 15 ہزار افراد ہلاک ہو گئے۔
ونسٹینلی کو وہاں جاکر اور یہ دیکھنے کے موقعے کا بے صبری سے انتظار تھا کہ آیا ان کا لائٹ ہاؤس اس طرح کے امتحان پر پورا اترتا ہے لیکن 27 نومبر کو ہواؤں نےانھیں یہ نہیں کرنے دیا۔
اسے کھڑا دیکھ کر خوش ہو کر انھوں اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ وہاں رات گزاریں گے اور وہ صبح ان کے پاس واپس آئیں گے۔
لیکن ان کے دوستوں نے انھیں دوبارہ کبھی نہیں دیکھا۔ اس رات، ہوائیں اور بھی تیز ہو گئیں، جس سے لائٹ ہاؤس اور اس کے خالق کے تمام نشانات مٹ گئے۔
جیسا کہ وزارتِ تاریخ کا کہنا ہے کہ ان کا کام رائیگاں نہیں گیا تھا۔ پانچ سالوں کے دوران اس علاقے میں کسی بحری جہاز کے ٹکرانے اور تباہ ہونے کا ریکارڈ نہیں ملتا ہے اور یہایک خطرناک جگہ پر ایک غیر معمولی کارنامہ تھا۔
یہی وجہ ہے کہ آج تک ایڈی سٹون راکس پر ایک لائٹ ہاؤس موجود ہے۔
آسمانی بجلی کی پیمائش کا تجربہ
سنہ 1740 کی دہائی میں برقی مظاہر نے بہت سے سائنسدانوں کی دلچسپی حاصل کی، خاص طور پر 1745 میں لیڈن جار کی حادثاتی ایجاد کے بعد۔
بالٹک جرمنی میں پیدا ہونے والے روسی ماہر علم طبیعیات جارج ولہیلم رچمین نے بجلی پر نمایاں کام کیا تھا۔ وہ برقی مظاہر میں دلچسپی رکھنے والوں میں سے ایک تھے۔
جب 1752 میں بینجمن فرینکلن نے دعوی کیا کہ آسمانی بجلی ایک برقی مظہر ہے اور ایک تجربے سے اسے ثابت کیا جا سکتا ہے تو رچمین نے اس کا تجربہ کرنے کی ٹھان لی تاکہ وہ اپنے ایجاد کردہ الیکٹرو میٹر سے فضائی بجلی کی طاقت کی پیمائش کرسکیں۔
لنڈا ہال لائبریری کے ایک مضمون میں بتایا گیا ہے کہ انھوں نے اپنے گھر میں ایک لوہے کی چھڑی نصب کی تھی جو چھت میں ایک تار سے جڑی ہوئی تھی، جس میں ان کا الیکٹرو میٹر راڈ پر نصب تھا۔
چھ اگست1753 کو ایک طوفان آیا اور رچمین رشیئین اکیڈمی آف سائنسز سے نکل کر جلدی گھر پہنچ گئے، اپنے ساتھ اکیڈمی کا اینگریورلے گئے تاکہ جو کچھ ہو اس کا مشاہدہ کیا جاسکے۔
رچمین کی نظریں اپنے الیکٹرو میٹر پر جمی ہوئی تھیں کہ ریکارڈر نے دیکھا کہ بجلی کا ایک چھوٹا سال گولہ چھڑی سے رچمین کے ماتھے کی طرف لپکااور انھیں زمین پرگرا دیا۔ پھر ایک دھماکہ ہوا اور شعلے پھیلنے لگے۔
رچمین برقی تحقیق کا پہلا مہلک شکار تھے۔
برطانوی سائنسدان جوزف پریسٹلے نے 1767 میں لکھا تھا کہ ’ہر الیکٹریشن اتنی شان و شوکت سے نہیں مر سکتا جس طرح رچمین مرے۔‘
پریس کو تیز رفتاری دینے والے
انیسویں صدی میں وسیع اشاعتی کمپنیوں کے دور کا آغاز ہوا اور طلب کو پورا کرنے کے لیے موجودہ برقی روٹری پریس میں تیزی لانے کی ضرورت محسوس کی جانے لگی۔
سنہ 1860 کی دہائی میں امریکی ولیم بلاک نے پرنٹنگ کی صنعت میں انقلاب لانے میں مدد کی۔
انھوں نے ویب فیڈ روٹری پرنٹنگ پریس ایجاد کیا جس نے بہت سے اہم تکنیکی مسائل کو حل کر دیا۔
ان کے پریس نے تسلسل سے چلنے والے کاغذ کے بڑے رولز کو رولرز کے ذریعے خود بخود کھلنے کے قابل بنا کر ماضی کے پریسوں کے محنت طلب دستی نظام کو ختم کردیا۔
اس کے علاوہ ان کے ایجادہ کردہ پریس میں کاغذ کو از خود ایڈجسٹ کرنے، دونوں اطراف سے پرنٹ کرنے، کاغذ کو موڑنے اور شیٹس کو درست اور تیزی سے کاٹ نے کا کام بھی خود کار ہو گيا۔
لیکن اپریل 1867 میں جب وہ فلاڈیلفیا پبلک لیجر اخبار کے لیے لگائے جانے والے اپنے ایک نئے پریس میں ایڈجسٹمنٹ کر رہے تھے تو ان کی پُلی سے ایک ڈرائیو بیلٹ نکل گئی۔
پریس بند کرنے کے بجائے ولیم بلاک نے مشین کو آگے بڑھانے کے لیے لاٹھی مارنے کی دیرینہ روایت پر عمل کر دیا۔
ان کی ٹانگ میکانزم میں پھنس گئی، اگرچہ ان کا علاج کیا گیا لیکن اس میں گینگرین پیدا ہونے کی وجہ سے ان کی ٹانگ کاٹنے کی نوبت آ گئی اور سرجری کے دوران ان کی موت ہوگئی۔
سنہ 1964 میں ان کے کارنامے کو ایک پلیک سے سراہا گيا جس پر لکھا تھا ’روٹری پریس (1863) کی ایجاد نے جدید اخبار کو ممکن بنایا۔‘