پاکستان نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ملنے والے سات ارب ڈالر کے قرض پروگرام کی شرائط کے تحت زرعی آمدن پر ٹیکس کا نفاذ کر دیا ہے۔ زرعی آمدن پر کس شرح سے ٹیکس اور ’سُپر ٹیکس‘ عائد کیا گیا ہے اور اس پر تنقید کیوں کی جا رہی ہے؟
پاکستان کو عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ملنے والے سات ارب ڈالر کے قرض پروگرام کا پہلا ریویو مارچ 2025 میں متوقع ہے جس سے قبل وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیوں کی طرف سے زرعی انکم ٹیکس کے لیے ہونے والی قانون سازی کو خوش آئند قرار دیا ہے۔
پیر کو وزارت خزانہ سے جاری کردہ بیان کے مطابق محمد اورنگزیب نے زرعی ٹیکس کے نفاذ پر خیبر پختونخوا، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیوں سے ’انفرادی طور اظہار تشکر کیا‘ اور کہا کہ اس سے ’ملک میں ٹیکس جمع کرنے کی صلاحیت کو وسعت دینے میں مدد ملے گی۔‘
خیال رہے کہ سات ارب ڈالر کی ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلٹی کے تحت اسلام آباد کو آئی ایم ایف کی جن شرائط پر عملدرآمد کرنا ہے اُن میں زراعت کے شعبے پر ٹیکس لگانا بھی شامل ہے۔ پاکستان کے آئین کے مطابق ہر طرح کی آمدن پر ٹیکس عائد کرنا قومی اسمبلی کا اختیار ہے تاہم زرعی آمدن پر ٹیکس کے نفاذ کو آئین میں صوبائی معاملہ قرار دیا گیا ہے۔
حال ہی میں چاروں صوبوں میں زرعی شعبے کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے تیزی سے پیشرفت دیکھی گئی ہے۔ سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیوں نے گذشتہ دنوں جبکہ خیبر پختونخوا اسمبلی نے لگ بھگ 10 روز قبل زرعی آمدن پر ٹیکس کے قانون کی منظوری دی تھی۔ آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب نے گذشتہ سال نومبر میں ہی زرعی ٹیکس کی منظوری دے دی تھی۔
پیر کو جب سندھ اسمبلی نے زرعی آمدنی پر انکم ٹیکس اور سُپر ٹیکس لگانے کی منظوری دی تو اپنے خطاب میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ ’ہم یہ عجلت میں نہیں کر رہے۔۔۔ اب انھوں (وفاق) نے سیدھا سیدھا کہا ہے کہ اگر آپ نے اگلے دو، چار دنوں میں (زرعی ٹیکس) منظور نہ کیا تو آئی ایم ایف کی ٹیم (قرض پروگرام پر نظرثانی کے لیے پاکستان) نہیں آئے گی اور ہم ڈیفالٹ میں چلے جائیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ عجلت میں کیا گیا ہے، تو قانون میں ترامیم تو کسی بھی وقت آ سکتی ہیں۔‘
مراد علی شاہ کا دعویٰ تھا کہ ’وفاقی حکومت نے ہمیں بند گلی میں ڈال دیا تھا۔۔۔ ایف بی آر (فیڈرل بورڈ آف ریونیو) نے اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے کہا کہ یہ ایک شعبہ (زراعت) ٹیکس نہیں دیتا۔‘
پاکستان میں زرعی آمدن پر کتنا ٹیکس اور ’سُپر ٹیکس‘ لگایا گیا ہے؟
پاکستان کے چاروں صوبوں نے زرعی آمدن پر ٹیکس عائد کرنے کے قانون منظور کر لیے ہیں اور اس کا اطلاق رواں سال سے شروع ہو جائے گا۔ مگر یہ وہ معاملہ ہے جو بڑی حد تک زرعی آمدن پر انحصار کرنے والے ملک پاکستان میں طویل عرصے سے زیرِ بحث رہا ہے۔
ایف بی آر نے زرعی آمدن کی تعریف کچھ اس طرح کی ہے کہ یہ وہ آمدن ہے جو بلواسطہ یا بلاواسطہ پاکستان میں زرعی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی زمین سے حاصل ہو۔ اس میں زرعی پیداوار یعنی پھل سبزیوں کی کھیتی باڑی یا ٹھیکے پر دی گئی زرعی زمین کی آمدن وغیرہ بھی شامل ہیں۔
ٹیکس امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ تقسیم ہند سے قبل برطانوی راج نے اس خطے میں زرعی ٹیکس لگانے کی منظوری دی تھی، تاہم ’زمیندار طبقے کی انگریز حکومت سے قربت کی وجہ سے‘ اس کا نفاذ نہیں ہوسکا تھا۔
ان کے مطابق ’جب 1944 میں بنگال میں صوبائی حکومت کے انتخابات میں کمیونسٹ پارٹی جیتی تو اس کی جانب سے پہلی بار بر صغیر میں (زرعی) ٹیکس کا نفاذ کیا گیا تھا۔‘
خییر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیوں سے منظور شدہ بلوں کے مطابق چھ لاکھ سالانہ تک زرعی آمدن پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہو گا تاہم 12 لاکھ تک زرعی آمدن پر 15 فیصد ٹیکس نافذ ہو گا۔ 12 لاکھ سے 16 لاکھ روپے تک کی آمدن پر 90 ہزار فکسڈ ٹیکس اور 12 لاکھ سے اوپر کی مجموعی آمدن پر 20 فیصد ٹیکس نافذ ہو گا۔
اسی طرح 16 لاکھ سے 32 لاکھ آمدن پر ایک لاکھ 70 ہزار فکسڈ ٹیکس جبکہ 16 لاکھ سے اوپر آمدن پر 30 فیصد زرعی ٹیکس لگایا گیا ہے۔ 32 لاکھ روپے سے 56 لاکھ تک آمدن پر چھ لاکھ 50 ہزار روپے ٹیکس جبکہ 32 لاکھ سے اوپر آمدن پر 40 فیصد زرعی ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔
56 لاکھ روپے تک آمدن پر 16 لاکھ 10 ہزار روپے ٹیکس ہوگا اور 56 لاکھ سے زیادہ زرعی آمدن پر 45 فیصد ’سُپر ٹیکس‘ ادا کرنا ہو گا۔
دوسری طرف پنجاب اسمبلی سے منظور شدہ بل میں زرعی ٹیکس کی تفصیلات نہیں دی گئی ہیں اور بتایا گیا ہے کہ اس کا تعین پنجاب کی کابینہ کرے گی۔ تاہم اس میں زرعی ٹیکس نہ دینے پر جرمانے کی رقم کی تفصیلات موجود ہیں جس میں ٹیکس نہ دینے والوں کو 10 ہزار روپے سے 50 ہزار روپے تک جرمانہ عائد ہو گا۔
تفصیلات کے مطابق 12 لاکھ روپے سے کم آمدن کا ٹیکس ادا نہ کرنے پر 10 ہزار روپے جرمانہ ہو گا۔ چار کروڑ روپے تک کی زرعی آمدن پر ٹیکس نہ دینے والوں کو 20 ہزار روپے جرمانہ ہو گا، 40 ملین روپے سے زائد آمدن والے ٹیکس نادہندگان کو 50 ہزار روپے جرمانہ ہو گا۔
ڈاکٹر اکرام الحق نے اس سلسلے میں بتایا کہ دیگر صوبوں اور پنجاب میں یہ فرق ہے کہ پنجاب میں ہر سال صوبائی حکومت فیصلہ کرے گی اور ٹیکس ریٹ کا تعین کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ تینوں صوبوں میں لائیو سٹاک سے ہونے والی آمدن پر ٹیکس پر فرق نظر آیا ہے۔ ’پنجاب نے اس شعبے سے ہونے والی آمدنی کو بھی زرعی شعبے کی آمدنی میں شمار کیا ہے اور اس پر ٹیکس کا نفاذ ہو گا تاہم خیبرپختونخوا اور سندھ میں لائیو سٹاک شعبے کی آمدنی کو زرعی ٹیکس کے تحت نہیں لایا گیا۔‘
ڈاکٹر اکرام کا کہنا ہے کہ ’اگر زرعی ٹیکس کو دیکھا جائے تو صوبوں کی جانب سے زرعی ٹیکس کے سلسلے میں وہی طریقہ کار اپنایا گیا ہے جو وفاقی حکومت نے پرسنل انکم ٹیکس یا کارپوریٹ ٹیکس میں اپنایا ہے۔ پرسنل انکم ٹیکس میں چھ لاکھ تک سالانہ آمدنی پر ٹیکس چھوٹ ہے تو زرعی ٹیکس میں بھی یہ چھوٹ دی گئی ہے۔‘
اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’اسی طرح کارپوریٹ ٹیکس میں زیادہ انکم پر سُپر ٹیکس لگتا ہے تو اسے یہاں پر بھی لاگو کیا گیا ہے۔ اسی طرح کارپوریٹ سیکٹر کی چھوٹی اور بڑی کمپنیوں کے لیے جو ٹیکس ریٹ لگائے گئے ہیں وہ زرعی شعبے میں کارپوریٹ فارمنگ کی کمپنیوں پر بھی نافذ کیے گئے ہیں۔‘
زرعی ٹیکس کا نفاذ کیوں ضروری ہو گیا ہے؟
ماہرین کے مطابق ملک میں صوبائی حکومتوں کی جانب سے تیزی سے زرعی ٹیکس کی منظوری کے پس پردہ آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے جس نے زرعی شعبے پر بھی ٹیکس لگانے کا کہا ہے۔
پاکستان میں زراعت کا شعبہ جی ڈی پی میں 20 فیصد تک حصہ ڈالتا ہے تاہم اس کا ٹیکس میں حصہ ایک فیصد سے بھی ہے کم ہے۔
ڈاکٹر اکرام نے بتایا کہ ’زرعی شعبے کا جی ڈی پی میں جو حصہ ہے اس کے مقابلے میں اس کا ٹیکس میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے اور اس بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ انڈسٹری اور تنخواہ دار طبقہ تو ٹیکس دے رہا ہے لیکن زرعی شعبے پر ٹیکس کا نفاذ نہیں ہے۔‘
جب ان سے اس ٹیکس کے جمع کرنے کی مشکلات کے بارے میں پوچھا گیا تو ڈاکٹر اکرام نے کہا کہ ’یہ کوئی بڑا ایشو نہیں ہے کیونکہ جب زرعی اجناس مارکیٹ کمیٹیوں کو بیچی جاتی ہیں تو اس پر ڈیٹا وہاں سے بھی لیا جا سکتا ہے اور اس کے علاوہ جب اجناس سرکاری ادارے پاسکو کو بیچی جاتی ہیں تو اس سے بھی ریکارڈ مل سکتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس کے علاوہپٹواری کے پاس بھی کسی علاقے میں کاشت ہونے والی فصل کی معلومات ہوتی ہے۔‘
زرعی ٹیکس کا اطلاق کن پر ہو گا؟
پاکستان کی تین صوبائی حکومتوں کی جانب سے زرعی ٹیکس کی منظوری کی تفصیلات کے مطابق زرعی شعبے سے ہونے والی آمدنی پر ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ ان قوانین کے مطابق یہ ٹیکس خود کاشت کرنے والے افراد کے ساتھ ان افراد سے بھی وصول کیا جائے گا جو اپنی زمینیں ٹھیکے پر دیتے ہیں۔
سندھ آباد گار بورڈ کے صدر محمود نواز شاہ نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’زرعی ٹیکس کا اطلاق چھوٹے اور بڑے تمام زمینداروں پر ہوگا کیونکہ چھ لاکھ کی جو چھوٹ دی گئی ہے اس میں مشکل سے کوئی آئے، کیونکہ اگر دیکھا جائے تو چھ لاکھ کی سالانہ بنیادوں پر آمدنی سے چار سے پانچ افراد پر مشتمل گھرانے کی گزر اوقات نہیں ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ چند ایکٹر سے لے کر زیادہ زمین کے مالک افراد اس ٹیکس کی زد میں آئیں گے۔‘
ڈاکٹر اکرام نے کہا کہ ’یہ بات صحیح ہے کہ چند ایکٹر زمین کے مالک افراد سے لے کر وہ افراد جو ٹھیکے پرزمین دیتے ہیں انھیں ٹیکس دینا پڑے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جو افراد ٹھیکے پر زمین دے کر آمدن حاصل کرتے ہیں وہ پہلے اسے زرعی آمدن قرار دے کر ٹیکس کی چھوٹ لے لیتے تھے کیونکہ وفاقی حکومت کو اسے جمع کرنے کا اختیار نہیں تھا۔‘
ٹیکس لگنے سے کیا زرعی شعبہ متاثر ہو گا؟
پاکستان میں زراعت کے شعبے سے وابستہ افراد کے مطابق یہ ٹیکس زرعی شعبے پر اس وقت بوجھ ڈالے گا جب یہ شعبہ پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہے اور ملک میں کپاس، گنے اور گندم کی فصلوں کی پیداوار میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
سندھ آباد گار بورڈ کے صدر محمود نواز شاہ نے بتایا کہ ’اس ٹیکس کے نفاذ سے زرعی شعبے میں سرمایہ کاری متاثر ہو گی کیونکہ ایک جانب کھاد، بجلی اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے تو دوسری جانب اس سے آمدنی پر ٹیکس دینے سے لوگوں کی اس شعبے میں سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہو گی۔‘
کاٹن جنرز فورم کے چیئرمین احسان الحق نے زرعی ٹیکس کی ٹائمنگ کو غلط قرار دیا۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’اس وقت یہ شعبہ بے پناہ مسائل کا شکار ہے اور اسپر ٹیکس کا نفاذ اس کی پیداوار پر منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے۔‘
کسان اتحاد کے چیئرمین خالد حسین باٹھ نے کہا کہ ’پنجاب حکومت نے پہلے ہی آبیانہ (وہ رقم جو محکمۂ آبپاشی کھیتوں کو پانی دینے کے عوض کاشت کاروں سے وصول کرتا ہے) 300 روپے فی ایکٹر سے 2500 روپے فی ایکڑ کر دیا ہے اور اب زرعی ٹیکس سے کسان طبقے کی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’بڑا زمیندار جو زمین ٹھیکے پر دیتا ہے وہ بھی کاشتکار کو زیادہ پیسوں پر ٹھیکا دے گا کیونکہ اسے زرعی ٹیکس بھی ادا کرنا ہے جس کی وجہ سے چھوٹے کسان کو اضافی پیسے دینے پڑیں گے جو پہلے ہی مہنگی کھاد، بجلی اور ڈیزل کی وجہ سے مسائل کا شکار ہے اور پریشان بھی۔‘
ڈاکٹر اکرام الحق نے بھی زرعی ٹیکس کی شرح کو بہت زیادہ قرار دیا ہے جو دنیا کے ان ملکوں کے برابر ہے جو بہت زیادہ ترقی یافتہ ہیں جن میں سویڈن، ناروے وغیرہ شامل ہیں اور وہاں آمدنی بہت زیادہ ہے۔