ایک ماہ کے اندر بلوچستان میں اس نوعیت کے دوسرے واقعے کے بعد یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا بلوچستان میں عسکریت پسند تنظیموں کی طاقت اور اثرورسوخ میں اضافہ ہو رہا ہے؟
’منگیچر میں 31 جنوری اور یکم فروری کی درمیانی شب بڑے پیمانے پر فائرنگ ہوتی رہی۔ فائرنگ کا سلسلہ تھمنے تک بچوں اور خواتین سمیت سب گھر میں سہمے بیٹھے رہے۔‘
بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے منگیچر کے رہائشی راز محمد، جن کا فرضی نام استعمال کیا جا رہا ہے، نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’وہ ایک خوفناک ماحول تھا کیونکہ فائرنگ کے ساتھ ساتھ دھماکوں کی آوازیں مسلسل آ رہی تھیں۔‘
واضح رہے کہ اسی رات مسلح افراد کی بڑی تعداد کوئٹہ اور کراچی کے درمیان ہائی وے پر واقع منگیچر کے مرکزی بازار میں نظر آئے جہاں انھوں نے ایک نجی بینک کو نذرِ آتش بھی کیا۔
اسی رات کوئٹہ کراچی شاہراہ کی ناکہ بندی کرنے والے مسلح افراد سے جھڑپوں میں آئی ایس پی آر کے مطابق 18 سکیورٹی اہلکار ہلاک جبکہ 12 عسکریت پسندوں کی ہلاکت کا دعوی بھی کیا گیا۔
اس حملے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان آزاد بلوچ نے اپنے دھڑے کی جانب سے قبول کی تھی جو کہ تنظیم کی جانب سے اس علاقے میں اپنی نوعیت کی پہلی بڑی کارروائی تھی۔
ایک ماہ کے اندر اس نوعیت کے دوسرے واقعے کے بعد یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا بلوچستان میں عسکریت پسند تنظیموں کی طاقت اور اثرورسوخ میں اضافہ ہو رہا ہے؟
اس سے قبل منگیچر سے اندازاً 90 کلومیٹر دور ضلع خضدار کی تحصیل زہری میں بھی حکام کے مطابق 70 سے زائد مسلح افراد آئے اور مقامی لوگوں کے مطابق زہری شہر پانچ گھنٹے تک ان کے کنٹرول میں رہا۔
بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عسکریت پسند گروہوں کے پاس کسی علاقے کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت 10 سے 15 منٹ سے زیادہ کی نہیں۔‘
تاہم سکیورٹی امور کے ماہرین کا ماننا ہے کہ ’ایسی کارروائیوں کا مقصد یہ دکھانا ہوتا ہے کہ یہ گروہ آبادیوں اور سڑکوں کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘
منگیچر اور اس کے نواحی علاقوں میں کیا ہوا؟
منگیچر کے رہائشی راز محمد نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس رات گھر میں کھانے اور سونے کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ آٹھ بجے کے بعد منگیچر بازار میں فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔
انھوں نے کہا کہ ’چھوٹے اسلحے کے ساتھ ساتھ بڑے اسلحے سے بھی فائرنگ کی آوازیں آ رہی تھیں جس سے اندازہ ہوا کہ معاملہ سنگین ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے چار پانچ سے زائد دھماکوں کی آوازیں سنیں جس کے باعث بچے اور خواتین سمیت گھر کے لوگ خوفزدہ ہوئے اور ’فائرنگ کا سلسلہ مکمل طور پر تھمنے تک ہم سہمے بیٹھے رہے کیونکہ ہمارا گھر بازار کے قریب واقع ہے۔‘
راز محمد نے بتایا کہ ’فائرنگ کا سلسلہ رات اندازاً ایک بجے تک جاری رہا تاہم کبھی کبھار اس میں بہت زیادہ شدت آتی تھی۔‘ ان کے مطابق فائرنگ کی زیادہ تر آوازیں اس مقام کی جانب سے آ رہی تھیں جہاں سرکاری دفاتر اور سکیورٹی اداروں کا کیمپ ہے۔
بلوچستان کے محکمہ داخلہ کے ایک سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ مسلح افراد نے علاقے میں موجود سکیورٹی فورسز کے کیمپ پر بھی حملہ کیا تھا تاہم سکیورٹی فورسز نے بھرپور جوابی کارروائی کی۔
منگیچر سے تعلق رکھنے والے ایک دکاندار نے بتایا کہ ’فائرنگ کا سلسلہ رات ایک بجے کے بعد تک بھی جاری رہا لیکن ساڑھے آٹھ بجے سے لے کر رات 12 بجے تک فائرنگ کی شدت زیادہ تھی۔ اس دوران متعدد دھماکوں کی بھی آوازیں سنائی دیں۔‘
انھوں نے کہا کہ منگیچر بازار یا علاقے میں کتنے مسلح افراد تھے اس بارے میں وہ کچھ نہیں بتا سکتے کیونکہ ’رات کو فائرنگ کی وجہ سے خوف کا جو ماحول تھا اس میں لوگوں کے لیے گھروں سے نکلنا مشکل تھا۔‘
دکاندار نے بتایا کہ ’کسی دکان کو نقصان نہیں پہنچایا گیا تھا تاہم بازار میں واقع واحد نجی بینک کو نذر آتش کیا گیا۔‘ ان کے مطابق منگیچر بازار میں دو ہی بینک ہیں۔
گاڑیوں پر گولیوں کے نشان
انھوں نے بتایا کہ صبح نو بجے جب وہ بازار پہنچے تو ’سب معمول کے مطابق تھا‘ تاہم انھوں نے شاہراہ پر ایک دو کنٹینروں سمیت تین چار گاڑیوں کو دیکھا جن کے ٹائروں پر گولیوں کے نشان تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی چند ایسے مسافروں سے بھی بات ہوئی جنھیں مسلح افراد کی ایک بڑی تعداد نے رات میں منگیچر بازار سے پہلے کوئٹہ کی جانب واقع پل پر گاڑیوں سمیت روک رکھا تھا اور ’وہ کسی کو بھی گاڑیوں سے اترنے نہیں دے رہے تھے۔‘
اسسٹنٹ کمشنر منگیچر ڈاکٹر علی گل عمرانی نے بی بی سی کو بتایا کہ وقوعہ کی شب ایک بینک کو نقصان پہنچنے کے علاوہ تین چار گاڑیوں کو فائرنگ سے نقصان پہنچا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ ’لیویز فورس کی ایک گاڑی کے ٹائروں کو فائرنگ کر کے نقصان پہنچانے کے علاوہ بعض مسافر بسوں پر بھی فائرنگ کی گئی تھی۔‘
اس حملے کے باعث کوئٹہ سے کراچی جانے والی بعض گاڑیوں کو بھی گولیاں لگیں تھیں جن میں دو مسافر معمولی زخمی ہوئے۔ زخمی ہونے والے ان مسافروں کو طبی امداد کے لیے سول ہسپتال کوئٹہ میں ٹراما سینٹر منتقل کیا گیا تھا۔
ان میں سے ایک زخمی مسافر صدیق اللہ نے بتایا کہ وہ ایک مسافر کوچ میں کوئٹہ سے کراچی جا رہے تھے کہ بس پر منگیچر کے قریب فائرنگ ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ فائرنگ کے وقت وہاں سے جتنی گاڑیاں گزر رہی تھیں ان میں وہ بس سب سے آخر میں تھی جس میں وہ سفر کر رہے تھے۔
اس بس میں وہ واحد مسافر تھے جو گولی لگنے سے زخمی ہوئے۔ ان کا ایک پیر زخمی ہوا جس کے بعد ان کو طبی امداد کی فراہمی کے لیے واپس کوئٹہ منتقل کیا گیا۔
سکیورٹی اہلکاروں کو کہاں نشانہ بنایا گیا؟
کوئٹہ میں محکمۂ داخلہ حکومت بلوچستان کے سینیئر اہلکار کے مطابق حملے کا نشانہ بننے والے بعض سکیورٹی اہلکار چھٹیوں پر ایک مسافر کوچ میں ایران سے متصل سرحدی ضلع پنجگور سے کوئٹہ کی جانب آ رہے تھے۔
اہلکار نے بتایا کہ ’جب کوچ کوئٹہ کراچی شاہراہ پر قلات شہر اور منگیچر کے درمیان خزینی کے علاقے میں پہنچی تو اس علاقے میں بڑی تعداد میں موجود حملہ آوروں نے اس پر حملہ کیا۔‘
واضح رہے کہ فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر کے مطابق 31 جنوری اور یکم فروری کی درمیانی شب ’قلات کے علاقے منگیچر میں دہشتگردوں نے سڑک بلاک کرنے کی کوشش کی، جس پر سکیورٹی فورسز نے فوری آپریشن شروع کیا۔‘
آئی ایس پی آر کے مطابق ’واقعے کی اطلاع ملنے پر سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فوری طور پر متحرک کیا گیا، جنھوں نے دہشت گردوں کے مذموم عزائم کو کامیابی کے ساتھ ناکام بنا دیا اور مقامی آبادی کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے 12 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔‘ آئی ایس پی آر کے مطابق آپریشن کے دوران سکیورٹی فورسز کے 18 اہلکار مارے گئے۔
مچھ، زہری اور منگیچر
گذشتہ ڈیڑھ سال بالخصوص 2024 سے بلوچستان میں ایسے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا جن میں مسلح عسکریت پسند چھوٹے شہروں یا شاہراہوں کو مختصر وقت کے لیے کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
گذشتہ سال جنوری کے آخر میں مچھ شہر کے مختلف علاقوں پر عسکریت پسندوں کا کنٹرول 48 گھنٹے سے زیادہ دیر تک رہا۔
اس کے بعد 25 اور 26 اگست کی درمیانی شب قلات، درہ بولان اور ضلع موسیٰ خیل کے علاوہ مکران کے بعض علاقوں میں بھی شاہراہوں پر کئی گھنٹوں تک ناکہ بندی رہی۔
منگیچر سے قبل اس سے اندازاً 90 کلومیٹر دور ضلع خضدار کی تحصیل زہری میں بھی حکام کے مطابق 70سے زائد مسلح افراد آئے جہاں مقامی لوگوں کے مطابق زہری شہر 5گھنٹے تک ان کے کنٹرول میں رہا۔
سکیورٹی کے امور کے ماہر اور پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا کا کہنا ہے کہ ’ایسی کارروائیوں کے ذریعے یہ دکھانا مقصود ہوتا ہے کہ ان کے پاس آبادیوں اور سڑکوں کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت آگئی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ طالبان کا ٹمپلیٹ ہے، وہ افغانستان میں آتے تھے، سڑکیں بند کرتے تھے اور سرکاری دفاتر میں بیٹھتے تھے، باقی دنیا میں بھی انسرجینسیز میں یہ ہوتا رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’لگتا ہے کہ بلوچستان میں صورتحال گھمبیر ہوگئی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس یہ صلاحیت آ گئی ہے کہ وہ سرکاری عمارتوں اور شہروں پر کچھ وقت کے لیے کنٹرول کر سکتے ہیں۔‘
اس سوال پر کہ کیا بلوچستان کے معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے میں کوئی سنجیدگی ہے، عامر رانا نے بتایا کہ ’مذاکرت کے حوالے سے زبانی جمع خرچ کی حد تک باتیں ہوتی ہیں لیکن ریاست کی جانب سے نہ اسٹیبلشمنٹ اور نہ سیاسی جماعتیں بات کرنا چاہتی ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ اگر مذاکرات نہیں ہوں گے تو طاقت کا استعمال مزید بڑھے گا جس کے نتیجے میں آپریشنز بڑھیں گے اور لاپتہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جامع بات چیت شروع ہونی چاہیے، موٹی موٹی باتیں سب کو پتہ ہیں لیکن ابھی تک ریاست کی پالیسی انسرجنسی کو کچلنے کے لیے طاقت استعمال کرنے کی ہے۔‘
’ان کی صلاحیت کسی جگہ کو 10-15 منٹ تک کنٹرول کرنے کی نہیں‘
وزیر اعلیٰ بلوچستان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وقت کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی حکمت عملی تبدیل کرنی پڑے گی کیونکہ ان شرپسندوں کا کوئی ایک پیٹرن نہیں ہے کہ حکومت ان کے خلاف ایک ہی حکمت عملی پر چل پڑے۔‘
’حکومت کو ہزاروں کلومیٹر شاہراہوں کی تحفظ کرنی ہوتی ہے جبکہ دہشت گردوں کو ایک انچ پر آکر حملہ کرنا ہوتا ہے۔ ہم ایک بہتر حکمت عملی کے ساتھ ان کی سازشوں کو ناکام بنائیں گے۔‘
تاہم وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ ’ان کی کسی جگہ کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت 10-15 منٹ سے زیادہ نہیں ہے۔ ان دس پندرہ منٹوں میں وہ کبھی عام شہریوں کا بڑا نقصان کرتے ہیں اور کبھی سکیورٹی فورسز کے ان اہلکاروں کو نشانہ بناتے ہیں جو چھٹیوں پر جا رہے ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے اتنے طویل راستے ہوتے ہیں اور وہ دس پندرہ منٹ میں ہماری اس کوشش کو جو ہم ہزاروں کلومیٹر طویل سڑکوں کے تحفظ پر لگاتے ہیں کو تھوڑا بہت سبوتاژ کرتے ہیں۔‘
وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے کہ ’ڈائیلاگ کے ذریعے مسائل کا پائیدار حل نکالا جا سکتا ہے، لیکن اگر کوئی بات چیت کے لیے تیار نہیں اور ریاستی قوانین کو چیلنج کر رہا ہے تو کسی بھی صورت تشدد کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ریاست کی رٹ ہر حال میں برقرار رکھی جائے گی اور کسی کو بھی بدامنی پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘
ادھر کمشنر قلات ڈویژن محمد نعیم بازئی کے مطابق کوئٹہ-کراچی شاہراہ کی اہمیت کے پیش نظر، ’سکیورٹی کی بہتری کے لیے مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں جن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی بڑھانے، پیٹرولنگ کو مؤثر بنانے، اور حساس مقامات پر مستقل چوکیاں قائم کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے علاوہ، انٹیلیجنس شیئرنگ اور مقامی سطح پر کوآرڈینیشن کو بھی بہتر بنایا جا رہا ہے تاکہ ایسے واقعات کو روکا جا سکے اور شاہراہوں پر عوام کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔‘