کریم آغا خان کی وفات: 68 برس تک اسماعیلی برادری کا روحانی پیشوا رہنے والا مخیر ’شہزادہ‘

شہزادہ کریم آغا خان کو نہ صرف اسماعیلی برادری بلکہ پوری دنیا بہت عقیدت اور عزت کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔ وہ خاص طور پر اپنے فلاحی کاموں اور مفادِ عامہ کے لیے قائم کیے گئے اداروں کی وجہ سے دنیا بھر میں جانے جاتے تھے۔
آغا خان
Getty Images

اسماعیلی برادری کے روحانی پیشوا اور دنیا بھر میں فلاحی کاموں کے لیے جانے جانے والے ارب پتی شہزادہ کریم آغا خان 88 برس کی عمر میں پرتگال کے دارالحکومت لزبن میں وفات پا گئے ہیں۔

اُن کی فلاحی تنظیم ’آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک‘ نے اُن کی موت کی تصدیق کی ہے اور سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ اپنے اہلخانہ کی موجودگی میں ’پرسکون طریقے سے چل بسے۔‘

کریم آغا خان کو نہ صرف اسماعیلی برادری بلکہ پوری دنیا بہت عقیدت اور عزت کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔ وہ خاص طور پر اپنے فلاحی کاموں اور مفادِ عامہ کے لیے قائم کیے گئے اداروں کی وجہ سے دنیا بھر میں جانے جاتے تھے۔

شہزادہ کریم آغا خان کے برطانوی شاہی خاندان سمیت دنیا بھر کے شاہی خاندانوں کے ساتھ ذاتی تعلقات تھے۔ ان کی وفات پر برطانیہ کے بادشاہ کنگ چارلس سوم نے گہرے دکھ و رنج کا اظہار کیا ہے۔

کریم آغا خان کی وفات پر ان کی فلاحی تنظیم آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک نے اپنے بیان میں بھی ’شہزادہ کریم کے اہلخانہ اور دنیا بھر میں اسماعیلی برادری سے‘ تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم دنیا بھر میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ مذہبی وابستگی اور نسل سے بالاتر ہو کر مستحق افراد اور کمیونٹیز کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کام جاری رکھے ہوئے ہیں، جیسا کہ شہزادہ کریم چاہتے تھے۔‘

شہزادہ کریم آغا خان کون تھے؟

شہزادہ کریم آغا خان 13 دسمبر1936 کو سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں پیدا ہوئے تھے۔ کسی مخصوص قطعہ زمین پر تسلط نہ رکھنے کے باوجود وہ ایک ایسے حکمران ثابت ہوئے جو اپنے پیروکاروں کے دلوں پر راج کرتے ہیں اور ان کی ہدایات حرف آخر سمجھی جاتی ہے۔

انھیں برطانیہ اور فرانس سمیت متعدد ممالک نے اپنی شہریت دی تھی تاہم انھوں نے اپنی زندگی کا زیادہ وقت فرانس میں گزارا۔

شہزادہ کریم کی جوانی کے دنوں کی چند چھلکیاں
Getty Images
شہزادہ کریم کی جوانی کے دنوں کی چند تصاویر

کریم آغا خان کو ان کے دادا سر سلطان محمد آغا خان سوم نے روایات کے برعکس وصیت میں اپنے بیٹے شہزادہ علی خان کی جگہ اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔

سنہ 1957 میں آغا خان سوم کی وفات کے بعد کریم آغا خان نے 20 سال کی عمر میں اسماعیلی برادری کے روحانی سربراہ کی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں۔ وہ آغا خانی یا اسماعیلی مسلمانوں کے 49ویں امام تھے اور آغا خان چہارم کے لقب سے پہچانے گئے۔

اس موقع پر پاکستان سمیت دنیا بھر میں اُن کی تخت نشینی کی رسومات ادا کی گئی تھیں۔ کراچی میں ان کی رسم تخت نشینی 23 جنوری 1958 کو ادا کی گئی تھی جس میں اس وقت کے صدر اسکندر مرزا اور وزیراعظم فیروز خان نون کے علاوہ کریم آغا خان کے تقریباً ڈیڑھ لاکھ پیروکار بھی موجود تھے۔

اسماعیلی برادری جو کہ ایک مسلم فرقہ ہے کی دنیا بھر میں آبادی تقریباً ڈیڑھ کروڑہے، جس میں پاکستان میں پانچ لاکھ سے زائد افراد شامل ہیں۔ جبکہ انڈیا، افغانستان اور افریقہ میں بھی اس فرقے کی بڑی آبادی موجود ہے۔

اس برادری کا ماننا ہے کہ اُن کے امام کا شجرۂ نسب براہ راست پیغمبرِ اسلام سے ملتا ہے تاہم اسماعیلی مسلمانوں کی امامت کا سلسلہ امام جعفر صادق (چھٹے امام) کے بعد شیعہ اثنا عشری مسلمانوں سے مختلف ہو جاتا ہے۔

شیعہ اثنا عشری جعفر صادق کے بعد اُن کے فرزند موسیٰ کاظم اور ان کی اولاد کی امامت کے قائل ہیں جبکہ اسماعیلی مسلمان جعفر صادق کے بڑے فرزند اسماعیل بن جعفر (جن کی وفات امام جعفر صادق ؑکی زندگی میں ہی ہو گئی تھی) کو اپنے ساتویں امام کا درجہ دیتے ہیں اور ان کی اولاد کو سلسلہ وار اپنا امام مانتے ہیں۔

کریم آغا خان اور بیگم سلیمہ کی شادی کی تصویر
Getty Images
کریم آغا خان اور بیگم سلیمہ کی شادی کی تصویر

انھوں نے ایک شاہانہ طرز زندگی گزاری، وہ بہاماس میں ایک نجی جزیرے، ایک لگژری کشتی اور ایک نجی طیارے کے مالک بھی تھے۔

فوربز میگزین کے مطابق سنہ 2008 میں شہزادے کی دولت کا تخمینہ ایک ارب ڈالر لگایا گیا تھا۔ انھوں نے وراثت میں ملی دولت کو یورپ میں گھوڑوں کی افزائش نسل سمیت مختلف کاروبار میں سرمایہ کاری کر کے بڑھایا تھا۔

سنہ 1969 میں پرنس کریم آغا خان نے ایک انگریز خاتون سے شادی کی جن کا اسلامی نام سلیمہ رکھا گیا۔

سلیمہ سے شہزادہ کریم آغا خان کے تین بچے زہرہ آغا خان، رحیم آغا خان اور حسین آغا خان پیدا ہوئے۔ شادی کے 26 سال بعد سنہ 1995 میں دونوں کے درمیان طلاق ہو گئی۔

سنہ 1998 میں کریم آغا خان نے دوسری شادی انارا نامی خاتون سے کی جن سے ایک بیٹا علی محمد آغا خان پیدا ہوا، مگر چند سال بعد سنہ 2011 میں اُن کی انارا سے بھی طلاق ہو گئی تھی۔

شہزادہ کریم آغا خان اور گھوڑے پالنے کا شوق

شہزادہ کریم آغا خان کو گھوڑے پالنے اور گھوڑوں کی دوڑ کا بہت شوق تھا۔ وہ برطانیہ، فرانس اور آئرلینڈ میں ریس کے گھوڑوں کے ایک سرکردہ مالک اور بریڈر تھے۔

ان کے پسندیدہ گھوڑوں میں ’شیرگر‘ نامی گھوڑا سرفہرست تھا، جو کبھی دنیا کا سب سے مشہور اور قیمتی گھوڑا تھا۔

ان کے گھوڑے ’شیرگر‘ نے سنہ 1981 میں ایپسم ڈربی میں اپنے حریف ریڈ اییپولیٹس نامی گھوڑے کو دس فرلانگ سے شکست دی تھی مگر اس گھوڑے کو دو سال بعد آئرلینڈ سے اغوا کر لیا گیا اور وہ دوبارہ کبھی نہیں ملا۔

سنہ 2011 میں ان کی پسندیدہ گھوڑے کی شاندار فتح کے 30 سال پورے ہونے کے موقع پر انھوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ان کے پسندیدہ گھوڑے کے کھو جانے کے باوجود انھوں نے کبھی آئرش نسل کے گھوڑوں کی افزائش نسل ترک کرنے کا نہیں سوچا۔

شیرگر کی فتح کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک ایسی یاد ہے جو کبھی بھولی نہیں جا سکتی۔‘

کریم آغا خان اور فلاحی خدمات

آغا خان فاؤنڈیشن
Getty Images

پرنس کریم آغا خان دنیا بھر کے لوگوں کے مالی، علمی اور صحت کے امور میں مدد کرنے کے لیے ہر وقت کمربستہ رہتے تھے۔ انھوں نے منصب امامت سنبھالنے کے بعد آغا خان ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا اور رفاحی کاموں کے ایک طویل سلسلے کا آغاز کیا جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔

یہ ادارہ دنیا کے تقریباً 35 ممالک میں غربت اور انسانی زندگی کا معیار بہتر بنانے میں مصروف عمل ہے۔ آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے ذیلی اداروں میں آغا خان فاؤنڈیشن، آغا خان ہیلتھ سروسز، آغا خان پلاننگ اینڈ بلڈنگ سروسز، آغا خان اکنامک سروسز اور آغا خان ایجنسی فار مائیکرو فنانس شامل ہیں جن کی نگرانی شہزادہ کریم آغا خان خود کرتے تھے۔

انھوں نے فن تعمیر کے فروغ کے لیے آغا خان آرکیٹیکچر ایوارڈ کا سلسلہ بھی شروع کیا جس سے دنیا بھر میں اسلامی فن تعمیر کو بڑا فروغ ملا۔ ان کے قائم کردہ ادارے آغا خان فاؤنڈیشن نے کراچی میں ایک بڑا ہسپتال اور میڈیکل یونیورسٹی قائم کی جو ملک میں اپنی طرز کی منفرد درسگاہ ہے۔ اس ہسپتال اور یونیورسٹی کا ڈیزائن امریکہ کی آرکیٹکچرل فرم ’پیٹی انٹرنیشنل‘ نے تیار کیا تھا۔

اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی میں آغا خان پروگرام برائے اسلامک آرکیٹیکچر کی بنیاد رکھی جبکہ میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سمیت متعدد اداروں میں نئے تعلیمی پروگرام شروع کروائے۔

ان کا ادارہ آغا خان ٹرسٹ فار کلچر دہلی میں ہمایوں کے مقبرے کی بحالی کا کام کرنے میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔جبکہ انھوں نے نیشن میڈیا گروپ کی بنیاد بھی رکھی، جو مشرقی اور وسطی افریقہ میں سب سے بڑی آزاد میڈیا تنظیم بن گئی۔

ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم اور کریم آغا خان
Getty Images
ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم اور کریم آغا خان

آغا خان فاؤنڈیشن نے پاکستان کے شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان کی ترقی میں بھی بڑا اہم کردار ادا کیا۔ سنہ 1980 میں آغا خان فاؤنڈیشن نے اس خطے میں آغا خان رورل سپورٹ پروگرام، آغا خان ہیلتھ سروسز اور دیگر فلاحی اداروں کی بنیاد رکھی جو آج بھی اس علاقے کی ترقی اور خوش حالی میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔

آغا خان چہارم کو مختلف ممالک نے متعدد اعزازات اور خطابات سے بھی سرفراز کیا: انھیں 20 ممالک نے اپنے قومی اعزازات سے نوازا اور دنیا کی 19 بہترین یونیورسٹیوں نے انھیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔

انھیں جو اعزازات عطا ہوئے ہیں ان میں حکومت برطانیہ کی جانب سے ’ہز ہائی نس‘ کا خطاب اور ’نائٹ کمانڈر آف دی برٹش امپائر‘ کا اعزاز، کینیڈا کی اعزازی شہریت، امریکی اکیڈمی برائے آرٹ اینڈ سائنسز کی فیلو شپ اور حکومت پاکستان کی جانب سے نشان امتیاز کا اعزاز شامل ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.