غزہ اور امیتابھ بچن کی فلم: ’پاس کر ورنہ برداشت کر‘

کسی بھی بلڈر کو کسی سرسبز وادی میں سیر کے لیے لے جائیں۔ اس کے ذہن میں پہلا سوال یہ ابھرے گا کہ اس کا مالک کون ہے؟ کیا اس کو خریدنا یا قبضہ ممکن ہے؟ یہاں کتنے کمرشل اور رہائشی پلاٹ کٹ سکتے ہیں۔
تصویر
Getty Images

جس کے ہاتھ میں ہتھوڑا ہو اسے ہر مسئلہ کیل نظر آتا ہے۔ قصائیہر جانور کو وزن، ران، کمر، گردن، گردے، کلیجی کی شکل میں دیکھتا ہے، قصائی کے منھ سے کس کس نے سُنا کہ کتنا خوبصورت جانور ہے، میں اسے پالنا چاہتا ہوں، اِس کا خیال رکھنا چاہتا ہوں۔

کسی بھی بلڈر کو کسی سرسبز وادی میں سیر کے لیے لے جائیں، اُس کے ذہن میں پہلا سوال یہ اُبھرے گا کہ اس کا مالک کون ہے؟ کیا اس کو خریدنا یا قبضہ ممکن ہے؟ یہاں کتنے کمرشل اور رہائشی پلاٹ کٹ سکتے ہیں؟

وہ شاید ہی اس وادی میں اُگنے والے پھولوں، پودوں، پیڑوں، پرندوں اور دوڑتے کھیلتے بچوں پر دھیان دیتے ہوئے سوچے گا کہ اس وادی کو تو ایسے ہی رہنا چاہیے تاکہ انسان کچھ دیر تو فطرت کے ساتھ رہے۔

جو لوگ غزہ کے انسانوں کو ملبے سمیت صاف کرنے کے ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر ششدر ہیں یا طیش میں دو، دو فٹ اُچھل رہے ہیں کیا انھوں نے کبھی 1970 یا 1980 کی دہائی کی کوئی ہندی فلم نہیں دیکھی؟

فلم میں بلڈر یا لینڈ ڈویلپر (ولن) کسی جھونپڑ پٹی کو خالی کروا کے وہاں کمرشل پلازہ یا اپارٹمنٹ بلڈنگ کھڑی کرنا چاہتا ہے۔ جھونپڑ پٹی کے کچھ بااثر لوگوں کو بلڈر خرید لیتا ہے، جو زیادہ اچھل رہے ہوتے ہیں انھیں کسی بھی مقدمے میں پھنسا کے جیل بجھوا دیتا ہے اور جو کسی قیمت پر نہیں مانتے انھیں کسی کرائے کے قاتل سے مروا دیتا ہے یا پھر جھونپڑ پٹی کو اچانک آدھی رات کو آگ لگ جاتی ہے اور مکین جان بچانےکے لیے بھاگ نکلتے ہیں۔ واپس آتے ہیں تو وہاں مسلح جتھہ پاتے ہیں۔

یہ بے سہارا لوگ صبر شکر کر کے کسی اور خالی زمین پر شفٹ ہو جاتے ہیں یا پھر کورٹ کچہری سے انصاف کی طلب میں وکیلوں کے ہاتھوں لٹتے رہتے تھے۔ اگر وہ خوش قسمت ہیں تو انھی میں سے ایک چھ فٹ کا ’اینگری ینگ مین‘ امتیابھ بچن نمودار ہوتا ہے اور بازی پلٹنے لگتی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کو ستر کی دہائی میں ان کے کروڑ پتی بلڈر باپ فریڈ نے زمین کا کاروبار کرنے کے لیے لگ بھگ ایک ملین (10 لاکھ) ڈالر دیے تھے۔ اس ابتدائی رقم سے انھوں نے نیویارک میں موقع کی کئی جگہیں لوکل گورنمنٹ کے تعاون سے خریدیں اور انھیں سکائی سکریپرز میں بدل دیا۔

سب سے روشن مثال 1980 کی دہائی میں نیویارک کی مہنگی سڑک ’ففتھ ایونیو‘ پر بننے والا 58 منزلہ ٹرمپ ٹاور ہے۔ اس میں ایک اپارٹمنٹ کی قیمت ڈھائی سے تین ملین ڈالر کے درمیان بتائی جاتی ہے۔

اب ذرا بحیرہ روم کے نیلے ساحل پر غزہ کی 41 کلومیٹر طویل اور چھ تا بارہ کلومیٹر چوڑی پٹی کو ’ڈونلڈ ٹرمپ دی بلڈر اینڈ ڈویلپر‘ کی آنکھ سے دیکھیے۔ اگر یہاں ٹھنسے ہوئے لگ بھگ 23 لاکھ اللہ مارے دے دلا کے یا دھونس دھمکی یا مار کاٹ سمیت کسی بھی طریقے سے رخصت کر دیے جائیں تو سوچیے دنیا کا سب سے بڑا بحریہ ٹاؤن وجود میں آ سکتا ہے۔

غزہ
Getty Images

اس شاندار سکیم میں پیسہ لگانے والے آج کے کروڑ پتی کل کے ارب پتی ہو سکتے ہیں۔ یہاں ایک اور سلیکون ویلی بن سکتی ہے۔ ایلون مسک کے راکٹ یہاں کے ساحل سے خلا میں بھیجے جا سکتے ہیں۔ یہاں کے سمندر میں سے تیل اور گیس کھینچے جا سکتے ہیں۔ سفید ریت پر اوندھے لیٹے سیاح، فائیو سٹار ہوٹلوں کی قطار، نیلے پانی کے کنارے چمکتے ولاز اور لگژری یاٹس کے لیے خوبصورت جیٹیاں۔۔۔ غرض کیا نہیں ہو سکتا۔

کسی نے ڈونلڈ ٹرمپ اور صحافی ٹونی شوارٹز کی مشترکہ کتاب ’دی آرٹ آف دی ڈیل‘ پڑھی ہے؟ پڑھیے تو پتہ چلے کہ من پسند سودا جیتنے کے لیے کیا کیا پینترے درکار ہوتے ہیں۔ پڑھیے تاکہ سمجھ میں آئے کہ ٹرمپ صاحب ڈنمارک سے مسلسل کیوں پوچھ رہے ہیں کہ دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ گرین لینڈ کیا بھاؤ بیچو گے؟‘

ابے او پانامہ تو اپنی کینال کتنے میں مجھے واپس کرے گا یا پھر دادا لوگ بھیجوں تجھے سیدھا کرنے کے لیے۔

’دی آرٹ آف دی ڈیل‘ کا اگر ایک لائن میں خلاصہ بیان کروں تو وہ ہے ’سامنے والے کو موت دِکھا کے بخار کیسے قبول کروایا جا سکتا ہے۔‘

اس تناظر میں آپ کو مشترکہ دیوار سے لگے ہمسائے کینیڈا اور میکسیکو کی ’سمسیا‘ شاید سمجھ میں آ جائے۔

ٹرمپ پہلے امریکی صدر نہیں جنھیں ہر اہم یا پُرکشش جگہ ’موقع کا پلاٹ‘ نظر آتی ہے۔ 1803 میں صدر تھامس جیفرسن نے فرانس سے لوزیانا کا دو ملین مربع کلومیٹر علاقہ ڈیڑھ کروڑ ڈالر میں پکڑ لیا تھا۔ یوں ریاستہائے متحدہ کا رقبہ ایک ہی دن میں دگنا ہو گیا۔ لوزیانا سے آٹھ نئی ریاستیں پیدا ہوئیں۔

سنہ 1819 میں امریکہ نے سپین سے فلوریڈا پچاس لاکھ ڈالر میں خریدا۔ سنہ 1867 میں پندرہ لاکھ مربع کلومیٹر پر مشتمل پورا الاسکا امریکہ نے زارِ روس سے 72 لاکھ ڈالر میں لے لیا۔

سنہ 1853 میں جنوبی سرحدوں کی توسیع کے لیے امریکہ نے مکیسیکو سے دس ملین ڈالر کے عوض ایک لاکھ بیس ہزار مربع کیلومیٹر رقبہ اینٹھ لیا۔ اس میں سے نیو میکسکو اور ایریزونا کی ریاستیں وجود میں آئیں۔

سنہ 1893 میں امریکہ نے بحرالکاہل کے جزائر ہوائی کی ملکہ کو پیشکش کی کہ اپنی سلطنت کتنے میں بیچو گی؟ ملکہ نے حقارت سے پیشکش ٹھکرا دی۔ امریکہ نے پانچ برس بعد جبراً قبضہ کر لیا۔ ملکہِ عالیہ کا کیا ہوا؟ خدا معلوم۔

سنہ 1898 ہی میں امریکہ نے سپین سے اس کی نوآبادی فلپینز دو کروڑ ڈالر میں خرید لی۔ جب مقامیوں کو احساس ہوا کہ انھیں آزاد کرنے کے بجائے ایک خرکار نے دوسرےکے ہاتھ بیچ دیا ہے تو مزاحمت شروع ہو گئی۔ 1934 میں واشنگٹن نے وعدہ کر لیا کہ ہم آپ کو چند برس میں خودمختاری دے دیں گے۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد 1946 میں فلپینز آزاد ہو گیا۔( یہ پہلا اور شاید آخری موقع تھا کہ امریکہ نے خریدا ہوا علاقہ چھوڑ دیا)۔

سنہ 1917 میں امریکہ نے پہلی عالمی جنگ کے آخری دنوں میں بحیرہ کیربین میں ڈنمارک کا مقبوضہ جزیرہ ورجن آئی لینڈ 25 ملین ڈالر دے کر خرید لیا۔ (اسی لیے ٹرمپ کو حیرت ہے کہ اب ڈنمارک گرین لینڈ مانگنے پر کیوں اتنے بھاؤ دکھا رہا ہے)۔

غزہ کی رئیل سٹیٹ ڈویلپمنٹ ٹرمپ کا اوریجنل آئیڈیا نہیں بلکہ اُن کے داماد جاریڈ کشنر نے گذشتہ برس کہا تھا کہ زرا سوچیے غزہ کی پٹی میں ترقی کے کتنے زبردست امکانات ہیں۔ ٹرمپ کے ایلچی برائے مشرقِ وسطی سٹیو وٹکوف بھی رئیل سٹیٹ کاروباری ہیں۔

Gaza
Getty Images

تو کیا یہ ممکن ہے کہ غزہ خالی ہو جائے اور وہ دنیا کی مہنگی ترین پراپرٹیوں میں شامل کر لیا جائے۔ یا پھر اسے دیوانے کا خواب سمجھا جائے؟

جب نومبر 1917 میں برطانوی وزیرِ خارجہ سر آرتھر بالفور نے صیہونی رہنما سر والٹر روتھ چائلڈز کو سرکارِ انگلشیہ کی جانب سے تحریراً یقین دلایا کہ برطانیہ فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن کے قیام کی مکمل حمایت کرتا ہے، تب بھی آج کی طرح بہت سے عقل پرست اپنے ناخن دانتوں سے کاٹ رہے تھے۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ایک خطہ جو ابھی تک سلطنتِ عثمانیہ کا صوبہ ہے اسے کیسے ایک غیر قابض طاقت (برطانیہ) ایک اقلیتی گروہ کو دان کرنے کا وعدہ کر سکتی ہے۔

بھلا 90 فیصد مقامی عرب کیسے دس فیصد سے بھی کم یہودی آبادکاروں کو ایک الگ مملکت کاڑھنے دیں گے۔ مگر سب نے دیکھا کہ تمام تر ہائے واویلا کے باوجود اقوامِ متحدہ کی چھایا تلے نومبر 1947 میں فلسطین دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔

53 فیصد رقبہ 32 فیصد آبادی کو اور 47 فیصد رقبہ 67 فیصد عربوں کو الاٹ ہوا۔ زمین خالی کروائی گئی اور ماتمیوں کے سامنے خالی کروائی گئی۔

تب کیا قیامت آ گئی جو اب آ جائے گی۔ اقوامِ متحدہ، عالمی عدالت انصاف، عرب لیگ، اسلامی کانفرنس، انسانی حقوق کے ادارے اور ہمسائے کل بھی شور کر رہے تھے۔ آج بھی کر رہے ہیں۔ سو کرتے رہیں۔ مرغیوں کا واویلا چھری کو کند کر دیتا ہے کیا؟

بہت ہو گئی سالمیت و خودمختاری، پرامن بقاِ باہمی، عالمی کنونشنز، بین الاقوامی قانون کی ٹیں ٹیں۔ جس کی لاٹھی کے فطری اصول پر قائم ہو رہے نیو ورلڈ آرڈر کا سامنا کیجیے۔ بات سمجھ میں نہیں آ رہی تو ٹرک کے پیچھے لکھا پڑھ لیں ’پاس کر ورنہ برداشت کر۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.