بسنت: اندرون لاہور میں گونجتی ’بو کاٹا‘ کی آوازیں جو کیمیکل ڈور کی نذر ہو گئیں

بسنت رُت کے بدلنے کی نوید ہے۔ کھیتوں میں سرسوں جب پھولتی ہے اور ہریالی کے پس منظر میں پیلے پھولوں کی بہار دکھاتی ہے تو اس کھلتے موسم کو خوش آمدید کہنے کا نام 'بسنت' ہے۔ موسم سرما سے موسم بہار میں داخل ہوتے خوشگوار موسم کا سواگت کرنے کے لیے پنجابی کیلینڈر کے مہینے ماگھ کی پانچ تاریخ کو ایک جشن کا اہتمام کیا جاتا جو کہ ’بسنت پنچمی‘ کہلاتا ہے۔
تصویر
Getty Images

’آج جب میں چھت پر جاتا ہوں تو صرف دھوئیں اور گرد سے اٹا بے رنگ آسمان ہی دکھائی دیتا ہے۔ ایک بے جان، ماں کی خالی کوکھ جیسا آسمان، مگر کبھی یہ ایسا نہیں تھا۔ یہاں کبھی فروری کے مہینے میں ہر چھت پر رونق ہوا کرتی تھی، ہر چوبارے سے رنگ برنگی پتنگیں اڑتی تھیں، ساؤنڈ سسٹم پر اونچی آواز میں بجتے گانوں، ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے نوجوانوں کی بو کاٹا کی صداؤں اور فیملیز کے خوشی سے مارے جانے والی للکاروں میں کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ شاید اس سب کو ہماری ہی نظر لگ گئی۔‘

اندرونِ لاہور کے علاقے موچی گیٹ کے پرویز احمد (جو باؤ پرویز کے عرفی نام سے معروف ہیں) اُس وقت کو یاد کرتے ہوئے کچھ افسردہ ہو گئے جب لاہور میں بسنت کا تہوار بھرپور طریقے سے منایا جاتا تھا۔

’میری چھت پر آخری بار پتنگ سنہ 2005 میں اڑی تھی، اُس کے بعد سے یہ چھت ویران ہے۔ نہ میں گڈی لے کر چڑھا، نہ ہی کسی نے مجھ سے چھت مانگی۔ بسنت ہمارے لیے صرف ایک تہوار یا پتنگ بازی کرنے کا دن نہیں تھا بلکہ اس نے ہمیں مالی آسودگی بھی دی تھی۔‘

’سنہ 1991-1992 میں جب لاہور کی بسنت اندرون سے نکل کر نہر کے اس پار پہنچی تو ’جینٹری‘ گڈی اڑانے یہاں آنے لگی، شروع میں تو ہم جان پہچان کے لوگوں کو ویسے ہی دعوت دے دیتے تھے مگر پھر یہاں چوبارے بکنے لگے اور اُس وقت ایک، ایک چوبارہ 15 سے 40 ہزار میں کرائے پر دیا جانے لگا۔‘

باؤ پرویز بتاتے ہیں کہ ’لوہاری، بھاٹی، موچی گیٹ، رنگ محل، گوالمنڈی، بلال گنج، موہنی روڈ، ٹیکسالی گیٹ اور اندرون کے دیگر علاقوں میں چھتیں اور چوبارے کرائے پر دینے میں وقت کے ساتھ ساتھ تیزی آتی گئی، اُن کا ریٹ چوباروں کی اونچائی اور کُھلی چھت کے مطابق طے ہوتا جو 50 ہزار سے لے کر 20 لاکھ تک بھی گیا۔ میں نے بھی تینلاکھ میں اپنی چھت کرائے پر دی تھی۔‘

باؤ پرویز نہ صرف خود ایک ماہر پتنگ باز ہیں بلکہ وہ بسنت کے لیے اپنے آبائی گھر کی چھت کو بسنت کے موقع پر لوگوں کو کرائے پر بھی دیتے تھے۔

مگر آج صورتحال مختلف ہے اور کبھی عالمی سطح پر جانے جانا والا لاہور میں بسنت کا تہوار گہنا گیا ہے۔ آسمان پر اڑتی رنگی برنگی مختلف اشکال کی پتنگیں ماضی کا حصہ ہو گئی ہیں۔

مگر رنگوں کے اس تہوار کے زوال کی وجوہات پر بات کرنے سے قبل ہم یہ جانتے ہیں کہ بسنت کے تہوار کی تاریخ کیا ہے اور اس تہوار کا پتنگ بازی سے تعلق کیسے جڑا۔

برصغیر میں بسنت کی تاریخ

بسنت
Getty Images

بسنت رُت کے بدلنے کی نوید ہے۔ کھیتوں میں سرسوں جب پھولتی ہے اور ہریالی کے پس منظر میں پیلے پھولوں کی بہار دکھاتی ہے تو اس کھلتے موسم کو خوش آمدید کہنے کا نام ’بسنت‘ ہے۔ موسم سرما سے موسم بہار میں داخل ہوتے خوشگوار موسم کا سواگت کرنے کے لیے پنجابی کیلینڈر کے مہینے ماگھ کی پانچ تاریخ کو ایک جشن کا اہتمام کیا جاتا جو کہ ’بسنت پنچمی‘ کہلاتا ہے۔

بسنت برصغیر پاک و ہند کے علاقے پنجاب کا ایک موسمی اور ثقافتی تہوار رہا ہے۔ برصغیر میں بسنت کا تہوار یوں تو صدیوں سے منایا جاتا رہا لیکن اسے مقبولیت انیسویں صدی میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں ملی جب اسے پوری شان و شوکت سے منایا گیا۔

امرتسر، قصور اور لاہور میں بسنت زور و شور سے منائی جاتی تھی، خوب پتنگ بازی ہوتی، مہاراجہ خود پتنگ بازی کرتے اور عوامی میلوں کو اپنی شمولیت سے خوشی بخشتے تھے۔ سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور گورداسپور میں بڑے میلے لگتے تھے جن میں لوگ جوش و خروش سے شامل ہوتے۔

برصغیر میں پنجاب کی حکومت جب انگریزوں نے سکھوں سے چھین لی تو بہت سی تمدنی و ثقافتی روایات دم توڑ گئیں یا مدھم پڑ گئیں، تاہم بسنت چونکہ موسمی تہوار تھا اور خاص و عام میں مقبول تھا اس لیے زندہ رہا۔

قیامِ پاکستان کے بعد بھی بسنت نے علاقائی رنگ جمائے رکھا اور پنجاب میں پیلی سرسوں کے پھوٹتے ہی آسمان پر رنگی برنگی پتنگیں چھا جاتی تھیں۔

’آج رنگ ہے ری ماں رنگ ہے‘

مختلف روایات میں اس تہوار کا ایک صوفی حوالہ بھی ملتا ہے۔

روایت ہے کہ صوفی بزرگ نظام الدین اولیا کسی وجہ سے ملول اور دُکھی تھے۔ امیر خسرو ان کو خوش کرنے کی سبیل ڈھونڈھ رہے تھے۔ اس دوران ان کو کچھ کسان نظر آئے جو بسنت کا تہوار منانے جا رہے تھے۔

امیر خسرو نے بھی ان کی دیکھا دیکھی پگڑی میں سرسوں کے پیلے پھول اڑسے اور گاتے ہوئے ان کے آستانے کا رُخ کیا۔ اس وقت جو گیت انھوں نے گایا وہ ’رنگ‘ کہلاتا ہے۔

’آج رنگ ہے ری ماں رنگ ہے ری

میرے محبوب کے گھر رنگ ہے ری‘

بسنت جو اندرونِ لاہور سے نکل کر عالمی سطح کا تہوار بن گئی

بسنت
Getty Images
نوے کی دہائی میں لاہور بسنت کے تہوار کا گڑھ بن چکا تھا۔ شہر میں موسم بہار کی آمد سے قبل ہی فضا 'بو کاٹا، بو کاٹا' سے گونجتی رہتیں

پتنگ بازی کا آغاز تو جاپان اور چین سے ہوا لیکن ایسے لگتا ہے کہ یہ تہوار خاص لاہوریوں کے لیے ہی بنا تھا۔ لاہور میں بسنت کا تہوار تمام تہواروں کا بادشاہ تھا۔

نوے کی دہائی میں لاہور بسنت کے تہوار کا گڑھ بن چکا تھا۔ شہر میں موسم بہار کی آمد سے قبل ہی فضا ’بو کاٹا، بو کاٹا‘ سے گونجتی رہتی۔ اس کی آمد سے کئی ہفتے پہلے ہی اس کی تیاریاں شروع کر دی جاتیں۔ دکانیں سج جاتیں اور ہر طرف رنگ برنگی پتنگیں لٹکی نظر آتیں۔

پتنگوں کی تیاری کا آغاز کئی مہینے پہلے ہی سے ہو جاتا تھا۔ لاہور کے علاوہ قصور، گجرانوالہ، شاہدرہ، شرقپور، فیصل آباد، سیالکوٹ سمیت وسطی پنجاب کے متعدد شہروں سے پتنگیں تیار ہو کر لاہور پہنچائی جاتیں۔ مگر پھر بھی تہوار کے دنوں میں مال کم پڑ جاتا۔ پتنگوں کی طرح لاہوری ڈور بنانے میں بھی ماہر تھے۔

موچی گیٹ، رنگ محل، بھاٹی گیٹ، ٹیکسالی گیٹ سمیت منٹو پارک موجودہ (اقبال پارک) بادشاہی مسجد اورلاہور کے قلعے کے ساتھ ساتھ جا بجا لوگ ڈور پر مانجھا لگاتے دکھائی دیتے۔

بسنت کی صبح اذانوں سے پہلے ہی بچے اور بڑے گھروں کی چھتوں پر پہنچ جاتے تھے اور پتنگیں اندھیرے ہی میں آسمان پر چڑھا دی جاتی تھیں۔ شوروغل، ہوہاؤ، بگل باجوں کی آوازوں اور بوکاٹا کے نعروں کے ساتھ ہی بسنت کا آغاز ہوتا جو رات گئے تک اسی شور شرابے کے درمیان جاری رہتا تھا۔

بچے، بوڑھے، لڑکیاں، لڑکے بسنت کی مناسبت سے لباس تیار کرواتے تھے۔ گھروں میں چَٹ پٹے پکوان تیار کیے جاتے تھے۔ عزیز و اقارب کو ایک دوسرے کے ہاں مدعو کیا جاتا اور گھروں کی چھتیں لوگوں سے بھری رہتی تھیں۔

بسنت
Getty Images
شوروغل، ہوہاؤ، بگل باجوں کی آوازوں اور بوکاٹا کے نعروں کے ساتھ ہی بسنت کا آغاز ہوتا جو رات گئے تک اسی شور شرابے کے درمیان جاری رہتا تھا

لاہور کی معروف سماجی شخصیت میاں یوسف صلاح الدین (میاں صلی) نے بھی بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ماضی کے دریچوں سے بسنت کی یاد کو کچھ یوں بیان کیا کہ ’بسنت لاہور کے اندرون شہر میں ہمیشہ سے منائی جاتی تھی۔ ہم اندرون شہر کے باسیوں کے لیے یہ ایک بڑا متحرک تہوار ہوا کرتا تھا اور 1980 کی دہائی کے وسط تک مقبول ہونے سے قبل گلبرگ، ماڈل ٹاؤن یا لاہور شہر کے نواحی علاقوں میں رہنے والوں کو شاید اس کا زیادہ علم بھی نہیں تھا کیونکہ اس کی کوئی خبر نہیں شائع ہوتی تھی۔‘

’بس اُس دور کے اخباروں خصوصاً نوائے وقت میں بسنت کے اگلے دن اس حوالے سے ایک آدھی خبر شائع ہو جاتی کہ پتنگ لوٹتے وقت کچھ لوگ زخمی ہو گئے ہیں۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ پہلے پہل بسنت صرف دن کا تہوار تھا، یہ کبھی بھی رات کا تہوار نہیں تھا بس اس سے ایک رات قبل لوگ چھتوں پر چڑھ کر رنگین قندیلیں اڑاتے تھے جس کا مطلب ہوتا تھا کہ کل بسنت ہے۔

بسنت کا اندرون سے نکل کر ملک اور عالمی سطح کا تہوار بننے کی داستان میاں یوسف صلاح الدین نے کچھ یوں سنائی کہ ’یہ 80 کی دہائی کے وسط کی بات ہے جب ہم نے اندرون میں اپنی آبائی حویلی میں رہنا چھوڑ بھی دیا تھا تب بھی ہم اپنے اہلخانہ اور کچھ قریبی دوستوں کے ساتھ بسنت منانے وہاں جاتے تھے۔‘

’ایک مرتبہ مجھے عمران خان کا فون آیا کہ وہ اس سال انگلینڈ سے اپنے کچھ دوستوں کو بسنت کے موقع پر اپنے ساتھ میری حویلی لانا چاہتے ہیں۔ عمران خان خود بھی پتنگ اڑانے کے شوقین تھے اور میری دعوت پر وہ ڈیوک اینڈ ڈچز آف سمرسیٹ جو ان کے ساتھ آکسفورڈ میں پڑھا کرتے تھے انھیں لے آئے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’جب ڈیوک اینڈ ڈچز آف سمرسیٹ نے چھت پر چڑھ کر نظارہ دیکھا تو وہ حیران رہ گئے کہ یہ کس طرح کا تہوار ہے کہ پورا شہر چھت پر موجود ہے اور آسمان رنگ رنگ کی پتنگوں سے بھرا پڑا ہے۔ انھوں نے مجھے کہا کہ دنیا میں ایسا کوئی تہوار نہیں کہ پورا شہر چھت پر چڑھا ہو۔‘

انھوں نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ کی حکومت نے اس تہوار کو فروغ دینے کے لیے کیا کیا ہے؟ دنیا کو تو پتا ہی نہیں کہ پاکستان میں ایسا کوئی تہوار منایا جاتا ہے۔ بس ان کی وہ بات میرے ذہن میں رہ گئی اور میں نے سوچنا شروع کر دیا کہ ہم اس کو کیسے دنیا کو بتا سکتے ہیں۔'

میاں یوسف بتاتے ہیں کہ اس کے بعد انھوں نے کچھ ہم خیال دوستوں سے اس بارے میں مشاورت کی اور اس دور میں ایک اچھی چیز یہ ہوئی کہ جنگ اخبار کا اجرا لاہور سے ہونا شروع ہوا اور جنگ میڈیا گروپ کے سربراہ میر شکیل لاہور آ گئے۔

’اگلے برس جب بسنت آئی تو ان دنوں میں سیاست میں بھی سرگرم تھا، میں نے میر شکیل سے کہا کہ ہم اس اندرون کے تہوار کو ایک بین الاقوامی تہوار بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ نے بس اس کی کچھ تصاویر اور خبر اپنے اخبار میں شائع کرنی ہے۔‘

’اس برس میں نے بسنت پر سفارتکاروں، بیوروکریٹس، فنکاروں، ادیبوں حتی کہ انڈین فلم انڈسٹری کے فنکاروں سمیت تقریباً تین سو لوگوں کو اپنی حویلی مدعو کر لیا۔ میر شکیل نے میرا ساتھ دیا اور بسنت کے اگلے دن جنگ اخبار میں کم از کم 35 تصاویر شائع کیں۔‘

’اس دن لاہوریوں کو ایسا لگا کہ یہ کیا چیز ہے۔ اس کے بعد میں نے اگلے دو تین سال بھی ایسا ہی کیا اور اس دوران اس وقت پنجاب کے محکمہ ہارٹیکلچر کے ڈی جی کامران لاشاری کی لاہور میں تعیناتی ہوئی۔ وہ ایک بہت ہی مثبت سوچ کے مالک بیورو کریٹ تھے۔‘

’انھوں نے اس تہوار کی اہمیت اور اس سے جڑی معاشی سرگرمی کو بھانپ لیا اور اسے اگلے چند برسوں کے دوران کارپوریٹ کر دیا۔‘

بسنت
Getty Images
لاہور میں بسنت کا تہوار تمام تہواروں کا بادشاہ تھا

نوے کی دہائی کے وسط تک بسنت ایک ایسا تہوار بن چکا تھا جس کے رنگ میں نہ صرف لاہور بلکہ پورا پاکستان ہی رنگ جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ تہوار اندرون سے نکل پر پورے لاہور بلکہ پنجاب کے دیگر شہروں تک پھیل گیا۔

یہ ایک ایسا تہوار تھا جس سے انسانی خوشیوں کے ساتھ ساتھ معاش و معیشت کا ایک نظام بھی بندھا ہوا تھا۔

بسنت کی آمد سے قبل لاہور کی مختلف شاہراہوں، چوراہوں، پیٹرول پپموں، دکانوں پر پتنگوں کے کٹ آؤٹ آویزاں کیے جاتے۔ نجی ملٹی نیشنل کمپنیاں بسنت کے موقع پر اپنے خصوصی اشتہار جاری کرتیں۔ پنجاب کے اہم شہروں میں بڑے ہوٹل بسنت میلے کی مناسبت سے تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں۔

لوگ بسنتی پہناوے پہنتے، خواتین بالخصوص ایسے لباس کا چناؤ کرتی ہیں جو بسنت کے تہوار سے پوری طرح میل کھاتا ہے۔

اس دور میں کیسٹ اور ریکارڈ کمپنیاں خصوصی بسنت والیمز ریلیز کرتی جو بسنت کے دن چھتوں پر بجائے جاتے اور بو کاٹا کی صداؤں کے ساتھ ساتھ ’کنے کنے جاناں بلو دے گھر‘، ’بسنت باز سجنا، بلو نی تیرا لال گگرااور نچا گے ساری رات سہونیوں‘ گونجتے تو سب کو یاد ہوں گے۔

ایک وقت وہ بھی تھا جب لاہور کے لیے خصوصی ٹرینیں چلتی تھیں، بیرون ممالک سے خصوصی پروازوں کا اہتمام کیا جاتا۔ شہر کی سڑکوں کے کناروں پر ڈور ساز اڈّے لگائے ڈوریں تیار کرتے دکھائی دیتے تھے۔ گلی محلے کی دکانیں بھی بسنتی سیزن کو کیش کروانے کے لیے پتنگیں بھی بیچا کرتی تھیں۔ کیٹرنگ والوں کے پاس گاہکوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔

اندرونِ لاہور کی چھتوں کی ایڈوانس بکنگ مہینوں پہلے سے ہی شروع ہو جایا کرتی تھیں۔ لوگ گاڑی کی ڈگیاں بھرے اور موٹر سائیکل سوّار گڈّے اور پریاں تھامے سڑکوں پر جاتے دکھائی دیتے تھے۔

عید کی چاند رات کی طرح بسنت کی چاند رات بھی جوشیلے لاہوریوں کے لیے ایک خاص اہمیت رکھتی تھی۔ ہفتے کی شام کو شروع ہونے والی نائٹ بسنت اتوار کو بعد از مغرب ختم ہوتی تھی۔ ہنسی مذاق، گڈی اور ڈور کے معیار کی جانچ پڑتال اور کھانے میں کشمیری چائے، بار بی کیو، گاجر کا حلوہ، چائے اور میوہ جات اس رات کا خاصا ہوا کرتے تھے۔ غروب آفتاب کے وقت بسنت کے تہوار کو بھنگڑے اور آتش بازی سے رخصت کیا جاتا تھا۔

میاں یوسف صلاح الدین بسنت کے تہوار کی عالمی سطح پر مقبولیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’ایک وقت میں سٹی بینک کے عالمی سربراہ جون ریڈ نے بسنت سے متعلق ایک ڈاکیومنٹری دیکھی اور یہاں بینک کے عملے سے پاکستان آنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اسی طرح چینی فوج کے وائس چیف آف آرمی سٹاف نے بھی بسنت کا تہوار دیکھنے کے لیے پاکستان آنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔‘

بسنت
Getty Images
نوے کی دہائی کے وسط تک بسنت ایک ایسا تہوار بن چکا تھا جس کے رنگ میں نہ صرف لاہور بلکہ پورا پاکستان ہی رنگ جاتا تھا

کامران لاشاری بسنت کے تہوار کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’لاہور میں بسنت کے دن سے دو ہفتے پہلے ہی لوگ پتنگیں اڑانا شروع کر دیتے تھے۔ اس تہوار میں ایک پکنگ کا ماحول ہوتا تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’جب ہم نے اس تہوار کی ہائپ بنانا شروع کی تو غیر ملکی سفارت کار، سیاستدان اور دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں کے مالک اور عہدیدار بسنت منانے کے لیے لاہور آنے لگے۔ لاہور میں مغلیہ دور کی عمارتوں میں بڑی بڑی بسنت پارٹیاں منعقد ہوتیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں پرانے لاہور میں حویلیاں کرائے پر لیتی ہیں جہاں بسنت بڑے سٹائل سے منائی جاتی تھیں۔ لاہور ایسا ہوتا تھا جہاں دس لاکھ لوگ ایک ہی وقت میں چھتوں پر آ جاتے تھے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ اس دور میں حکومت نے اس تہوار کی سرکاری سطح پر سرپرستی کی۔ اس تہوار کا حسن یہ تھا کہ یہ ایک عام آدمی کا تہوار تھا، ایک ریڑھی والے سے لے کر ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے ملازمین تک سب اس میں شامل ہوتے۔ یہ تہوار آرگیننک تھا جو عام آدمی سے امرا تک پہنچا۔‘

ڈور انڈیا کی، کاغذ جرمنی کا اور پیچ لاہور میں

بسنت
Getty Images

لاہور میں پتنگیں تتلیوں کی طرح اڑتی نظر آتی تھیں جن کے الگ الگ نام ہوتے گڈی، گڈا، تاوا، ڈیڑھ تاوا، پتنگ، طوکل، کپس وغیرہ۔

اندرون لاہور میں پتنگ بنانے کے ماہر موجود تھے جن میں جاوید بھٹی عرف استاد جاوید، صدیق احمد عرف ’پاپا گڈی فروش‘ اور شمیم اختر عرف استاد چھما بہت مشہور تھے۔

لوہاری گیٹ کے رہائشی اور معروف پتنگ ساز استاد جاوید نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بسنت نہ صرف ایک ثقافتی تہوار تھا بلکہ ایک بہت بڑی معاشی سرگرمی بھی تھی۔

استاد جاوید نے سنہ 1984 میں پتنگ سازی کا کام شروع کیا اور سنہ 2006 تک پتنگ تیار کرتے رہے۔ تاہم بعدازاں حکومت کی جانب سے پابندی کے بعد انھوں نے یہ کام چھوڑ دیا۔

وہ کہتے ہیں کہ بسنت کی زیادہ دھوم، لاہور، قصور، فیصل آباد، گوجرانوالہ اور راولپنڈی میں مچتی تھی۔ اصل گڑھ لاہور تھا، جہاں بانس کی نازک کانپوں پر، باریک رنگین کاغذ چڑھا کر پتنگیں بنائی جاتی تھیں۔ وسطی پنجاب تقریباً تمام شہروں میں پتنگوں کا کام ہوتا تھا۔ لاکھوں افراد خصوصاً گھریلوں خواتین رنگی برنگی پتنگوں کی تیاری کا کام کرتیں۔

بسنت
Getty Images
لاہور میں پتنگیں تتلیوں کی طرح اڑتی نظر آتی تھیں جن کے الگ الگ نام ہوتے گڈی، گڈا، تاوا، ڈیڑھ تاوا، پتنگ، طوکل، کپس وغیرہ

انھوں نے بتایا کہ بسنت کے عروج پر بہتر سے بہتر پتنگ بنانے کے لیے کاغذ کو بیرون ملک سے درآمد کیا جاتا تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ اگرچہ پاکستان میں بھی بہت اچھا کاغذ تیار کیا جاتا تھا لیکن سب سے اچھی پتنگ جرمنی سے برآمد کیے گئے کاغذ سے بنتی تھی۔ پتنگوں کے لیے تائیوان اور بنگلہ دیش سے بانس منگوایا جاتا تھا۔ اسی طرح ڈور کے لیے دھاگہ انڈیا اور برطانیہ سے منگوایا جاتا تھا۔

پاکستان خصوصاً لاہور، قصور میں بھی بہت سی کمپنیاں بہترین دھاگہ تیار کرتی تھیں۔

ڈور مختلف طرح کے دھاگوں کی بنی ہوتی تھی۔ ایک ڈور میسرز کوٹس انگلینڈ کی بنی ہوتی تھی، انڈیا سے ’دو پانڈا اور چھ پانڈا‘ نامی دھاگہ منگوایا جاتا جسے یہاں خاص مہارت سے چاولوں اور آٹے کی لیوی اور کانچ پاؤڈر سے تیار کردہ مانجھے سے تیار کیا جاتا تھا۔

استاد جاوید کے مطابق ’وقت تو وہ تھا جب انڈین دھاگے کی ڈور اور جرمنی کے گڈی کاغذ سے بنیں پتنگوں کے پیچ لاہور میں ہوا کرتے تھے۔‘

بسنت کا پیلا تہوار سرخ لہو میں کیوں رنگ گیا؟

بسنت
Getty Images

مگر پھر وقت بدلا اور بسنت کی رعنائیاں سرخ لہو میں رنگنے لگیں۔

کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ منافع کے لالچ، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش اور پتنگ بازی کے کھیل کی جگہ شعبدہ بازی نے لی تو کبھی چھتوں سے ہونے والی ہوائی فائرنگ اور کبھی سڑکوں پر ڈور پھڑنے سے لوگوں کی جانیں جانے لگیں۔ اور یوں یہ ڈور گڈی کا تہوار ایک خونی کھیل قرار دیا جانا لگا۔

حکومت وقت نے بسنت کا تہوار منانے کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے پتنگ بازی پر سختی سے پابندی عائد کر دی۔

پنجاب میں سنہ 2006 میں اس وقت کی صوبائی حکومت نے پہلی مرتبہ پتنگ بازی اور بسنت منانے پر پابندی عائد کی اور اسے بعد ازیں 2007 میں قانونی شکل دی گئی۔

اور اب حال ہی میں حکومت پنجاب نے پتنگ بازی کے قوانین میں مزید سختی کرتے ہوئے پتنگ بازی اور پتنگ سازی کو قانوناً جرم قرار دے دیا ہے۔

اس حوالے سے پنجاب اسمبلی سے پتنگ بازی کی ممانعت کا ترمیمی بل 2024 منظور ہونے سے صوبے میں پتنگ بازی پر مکمل پابندی عائد ہو گئی ہے۔

نئے قانون کے مطابق پنجاب میں پتنگ بازی کو ناقابل ضمانت جرم قرار دیا گیا ہے۔ پتنگ اڑانے والے کو تین سے پانچ سال قید یا 20 لاکھ جرمانہ یا دونوں کی سزا ہو گی۔ اسی طرح پتنگ بازی، تیاری، فروخت، نقل و حمل پر 5 لاکھ سے 50 لاکھ تک جرمانہ ہو گا۔ پابندی کا اطلاق پتنگوں ، دھاتی تاروں، نائلون کی ڈوری، تندی، پتنگ بازی کے لیے تیز دھار مانجھے کیساتھ تمام دھاگوں پر ہو گا۔ پتنگ ساز اور ٹرانسپورٹر کو پانچ سے سات سال قید یا 50 لاکھ جرمانہ یا دونوں ہوں گے۔

قانون کے مطابق پتنگ بازی میں ملوث بچے کو پہلی بار 50 ہزار، دوسری بار ایک لاکھ جرمانہ ہو گا۔

پنجاب پولیس کی جانب سے جاری ایک پریس ریلیز کے مطابق رواں برس گذشتہ ماہ کے دوران لاہور سمیت صوبہ بھر میں انسداد پتنگ بازی ایکٹ کی خلاف ورزی پر 770 ملزمان گرفتار اور747 مقدمات درج کئے گئے۔48 ہزار سے زائد پتنگیں اور 1764 ڈور چرخیاں برآمد کی گئیں جبکہ 500 سے زائد کیسز کے چالان جمع کروائے گئے۔

بسنت
Getty Images

صرف لاہور شہر میں 240 سے زائد ملزمانکو گرفتار کیا گیا اور 246 مقدمات درج کرتے ہوئے تین ہزار سے زائد پتنگیں اور 329 ڈور کی چرخیاں برآمد کی گئیں۔

گذشتہ سال لاہور سمیت صوبہ بھر میں 12525 ملزمان گرفتار اور 11866 مقدمات درج کیے گئے۔

گڈی ڈور کے تہوار سے جڑے افراد کا کہنا ہے کہ اس کی زوال کی وجہ بھی ہم خود ہی ہیں۔

پتنگ ساز استاد جاوید کہتے ہیں کہ پتنگ اور پیچ کا کھیل جو تفریح فراہم کرتا تھا وہ وقت کے ساتھ ساتھ شعبدہ بازی اور انا کا مسئلہ بن گیا۔

’جب جوشیلے نوجوانوں کا کوئی گروہ اپنے حریفوں کی پتنگ کاٹتا تو جشن میں ہوائی فائرنگ کی جاتی۔ پہلے پہل لوگ ہوائی فائرنگ سے زخمی اور ہلاک ہونا شروع ہوئے پھر ان پیچوں پر لڑائیاں شروع ہوئیں اور اس کے نتیجے میں بھی فائرنگ سے ہلاکتیں ہوتیں۔‘

اسی طرح لوگوں نے بڑی اور وزنی پتنگیں اڑانے اور بنانی شروع کر دیں تاکہ ان کے وزن سے چھوٹی پتنگ کو کاٹنے میں آسانی ہو۔ اس کے لیے موٹی ڈور کا استعمال شروع ہوا جو بڑھتے بڑھتے کبھی تندی، کبھی نائیلون کی ڈور اور کبھی کسی دھاتی ڈور کے استعمال تک پہنچ گیا۔

سوتی دھاگے سے کیمیکل ڈور تک کا سفر

بسنت
Getty Images
پاکستان میں دو نمبر، سات نمبر اور نو نمبر کا دھاگہ استعمال کیا جاتا تھا۔ جس پر چاول اور آٹے کی لیوی میں ٹیوب لائٹ اور عام شیشہ بوتلوں کو توڑ کر پاؤڈر اور رنگ ملا 380 میش کا مانجھا بنایا جاتا اور ڈور تیار کی جاتی تھی

پاکستان سیف کائٹ فلائنگ کے سینیئر رُکن شکیل شیخ نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ عناصر نے اس تہوار اور کھیل میں بگاڑ پیدا کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ جیسے جیسے پتنگوں کا سائز بڑا ہواویسے ویسے ڈور کی موٹائی بھی بڑھتی گئی۔

انھوں نے بتایا کہ اکثر جو کہا جاتا ہے کہ دھاتی ڈور کا استعمال کیا جاتا ہے، دراصل دھاتی ڈور کا کوئی وجود نہیں، کیونکہ کسی بھی قسم کی دھاتی ڈور سے پتنگ اڑانا ممکن نہیں ہے۔ درحقیقت بھاری پتنگوں کے لیے موٹے ڈور اور ان پر لگائے جانے والے مانجھے کو تیز کیا گیا تھا۔

شکیل شیخ نے بتایا کہ پہلے پاکستان میں دو نمبر، سات نمبر اور نو نمبر کا دھاگہ استعمال کیا جاتا تھا۔ جس پر چاول اور آٹے کی لیوی میں ٹیوب لائٹ اور عام شیشہ بوتلوں کو توڑ کر پاؤڈر اور رنگ ملا 380 میش کا مانجھا بنایا جاتا اور ڈور تیار کی جاتی تھی۔

مگر پھر پتنگ نہ کٹنے کے جنون نے تیز مانجھے اور موٹی دوڑ کا استعمال شروع کر دیا۔ اس دوڑ میں پہلے مچھلی پکڑنے والی نائیلون کی ڈور آئی جس میں لچک تھی اور وہ ہاتھ سے ٹوٹتی نہیں تھی۔ نائیلون کی وجہ سے اس ڈور پر روائتی مانجھا نہیں لگتا تھا اس کے لیے آٹے کے لیوی کی بجائے سیلیکون اور گلو ملا کر مانجھا تیار کیا گیا۔

اور اس میں کاٹ پیدا کرنے کے لیے عام بوتلوں کے شیشے کی جگہ پائرکس کے شیشے اور بعدازاں اس میں لیبارٹری میں استعمال ہونے والی فلاسک کا شیشہ استعمال کیا جانے لگا۔ان مانجھوں میں 150 میش کا شیشہ استعمال کیا جاتا ہے جو موٹا اور زیادہ نوکیلا ہوتا تھا۔ اس طرح روایتی مانجھے کی جگہ کیمیکلز نے لے لی۔

اُن کا کہنا ہے کہ اسی ڈور کے پھرنے سے کئی موٹر سائیکل سواروں کے گلے کٹے۔ بعدازاں اس ڈوری کے ساتھ ساتھ سوتی دھاگہ بھی موٹا ہوتا گیا۔

پتنگ بازی میں استعمال ہونے والی ڈور کئی اقسام کی ہوتی ہے۔ پہلے کائٹ فلائنگ کے لیے تین پلائی، سات پلائی اور زیادہ سے زیادہ نو پلائی دھاگہ آتا تھا مگر آج تیار ہونے والے دھاگے سو پلائی سے 150 پلائی تک موٹائی کے ہیں۔ اور ان پر جو مانجھا لگایا جاتا ہے وہ اس کو کیمیکل ڈور بناتا ہے۔

مگر پابندی کے باوجود یہ دھاگہ کہاں سے آتا ہے کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جب بسنت منائی جاتی تھی تب تو لاہور، قصور، فیصل آباد اور گوجرانوالہ میں دھاگہ بنانے کے کئی کارخانے تھے مگر اب پابندی کے بعد پنجاب میں چھ، سات کارخانے ہیں جو پتنگ بازی میں استعمال ہونے والا دھاگہ تیار کر رہے ہیں۔ مگر یہ دھاگے 100 سے 150 پلائی کے ہیں۔ کیونکہ پابندی کے بعد یہ دھاگہ بیرون ملک بھیجا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ خیبرپختونخوا اور سندھ میں متعدد ایسے کارخانے ہیں جو نہ صرف دھاگہ بناتے ہیں بلکہ مشینوں کے ذریعے ان پر تیز دھار مانجھا لگا کر ڈور بھی تیار کر رہے ہیں۔

بسنت پر پابندی سے کتنے افراد متاثر ہوئے؟ اس سوال کا جواب دیتےہوئے وہ کہتے ہیں کہ پنجاب حکومت نے سال 2006 سے بسنت اور پتنگ بازی سے متعلق سرگرمیوں پر پابندی لگا رکھی ہے۔ پابندی کے اس دور میں پتنگ سازی اور اس کی تجارت سے پنجاب بھر میں تقریباً 15 سے 20 لاکھ افراد جو اس پیشے منسلک تھے متاثر ہوئے ہیں۔

ملک میں ہلاکتوں کا سبب بننے والی کیمیکل یا موٹی ڈور کو کیوں تیار کیا جا رہا ہے اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہم نے پتنگ بازی کے لیے دھاگہ تیار کرنے والے ایک کارخانے کے مالک سے بات کی۔

انھوں نے پولیس کی جانب سے ممکنہ طور پر ہراساں کیے جانے کے باعث نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جب تک بسنت ہوتی تھی تب ملک میں زیادہ سے زیادہ 18 نمبر کی ڈور تیار کی جاتی تھی، جس پر روایتی مانجھا لگایا جاتا تھا۔ مگر پابندی کے بعد کیا ہم اپنا کاروبار بند کر دیتے۔ اس لیے ہم نے یہ دھاگہ بیرون ممالک برآمد کرنا شروع کیا۔

مگر امریکہ، کینیڈا ، چین اور دیگر ایشائی ممالک میں بڑی بڑی پتنگیں اڑائی جاتی ہیں جو بعض اوقات پلاسٹک کی بنی ہوتی ہیں۔ ان کو اڑانے کے لیے وہاں موٹی ڈور کی مانگ ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ وہاں دھاگے یا ڈور پر کسی قسم کا مانجھا نہیں لگایا جاتا لہذا اس مانگ کے پیش نظر ہم نے 100 سے 150 پلائی کی ڈور تیار کرنا شروع کی جو بیرون ملک برآمد کی جاتی ہے۔

تاہم وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہکی پی اور دیگر صوبوں میں تیار ہونے والا دھاگہ مقامی مارکیٹ میں فروخت ہوتا ہے اور اس پر لگنے والا تیز دھار مانجھا ہی ہلاکتوں کی اصل وجہ ہے۔

بسنت کے تہوار کو بچانے کی کوشش

بسنت
Getty Images

ہر کھیل کے کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں تو کیا پتنگ بازی کے لیے بھی حکومت کی جانب سے کچھ اصول وضع کیے گئے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اس حوالے سے کوئی اصول و ضوابط نہیں ہیں۔

بسنت کے تہوار سے منسلک افراد کہتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے اگر اس کھیل پر پابندی لگانے کے بجائے اس کے اصول و ضوابط وضع کر دیے جاتے تو بسنت جیسا تہوار کبھی ختم نہیں ہوتا۔

شیخ شکیل کا کہنا ہےکہ آپ پتنگ کے سائز اور ڈور کی پلائی کا تعین کر سکتے ہیں کہ ڈیڑھ تاوے سے بڑی پتنگ نہ بنے گی نہ اڑے گی، اسی طرح ڈور کا معیار مقرر کیا جانا چاہیے۔ پتنگ بازی کے لیے مخصوص جگہیں مختص کی جانی چاہئیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر صرف ڈور لپیٹنے والی چرخی کی تیاری پر ملک بھر میں پابندی لگا دی جائے تو کیمیکل یا موٹی ڈور کا استعمال ملک میں بند ہو جائے گا۔ کیونکہ نائیلون کی ڈور یا موٹی ڈور چرخی کے علاوہ نہیں لپیٹی جا سکتی۔

اگر پرانے والے ڈور کے پنے آ جائیں تو سات نمبر ڈور سے زیادہ کوئی دھاگہ استعمال نہیں ہو گا۔

کامران لاشاری کہتے ہیں کہ بسنت کا تہوار بند ہونے میں صرف حادثات ہی وجوہات نہیں ہیں۔ اگر حکومت چاہتی تو ان حادثات کی روک تھام کر سکتی تھی۔ مگر کیونکہ بسنت کے تہوار کے ساتھ کچھ مذہبی عنصر بھی جڑے ہوئے تھے اور مذہبی جماعتوں کا دباؤ بھی رہتا تھا اس لیے ہر حکومت نے اس دباؤ میں اصل محرکات وجوہات کا سدباب کرنے کے بجائے اس کو بند کرنے میں عافیت سمجھی۔

بسنت
Getty Images

وہ بسنت کے تہوار کے اس انجام کو پہنچنے میں عدلیہ کے کردار اور عدلیہ کی جانب سے انتظامی معاملات میں از خود نوٹس لینے کے رجحان کو بھی ایک بڑی وجہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ کاش عدلیہ لوگوں کو خوش ہونے کا بنیادی حق چھیننے پر حکومت کے خلاف از خود نوٹس لیتی۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ انتظامی معاملہ تھا اور اگر پولیس اور ضلعی انتظامی ادارے آغاز میں ہی درست اقدامات اٹھاتے تو یہ تہوار کبھی ختم نہ ہوتا۔

میاں یوسف صلاح الدین کہتے ہیں کہ اگر کرکٹ میچ کے لیے حکومت شہر بند کر سکتی ہے تو ہم کئی مرتبہ یہ مطالبہ کر چکے ہیں کہ ایک دن کے لیے موٹر سائیکل پر پابندی عائد کر دی جائے۔

’تفریح کے نام پر لوگوں کے گلے کٹیں یہ قبول نہیں‘

بسنت
Getty Images

پنجاب کی وزیر اطلاعات و نشریات اور وزیر برائے ثقافتی امور اعظمی بخاری سے جب پتنگ بازی سے متعلق حالیہ قانون اور بسنت کے تہوار پر پابندی کے حوالے سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ برس جب مریم نواز نے وزیر اعلیٰ پنجاب کا حلف اٹھایا تو اس وقت بھی ڈور سے ہلاکتوں کے کچھ واقعات سامنے آئے تھے۔ جب کہ گذشتہ ادوار میں بھی پنجاب میں ڈور سے گلے کٹنے سے درجنوں ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔‘

شہباز شریف کے دور میں کائٹ فلائینگ ایسوسی سی ایشن سمیت متعدد سٹیک ہولڈرز سے متعدد بار نشست میں اس بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا مگر کبھی بھی یہ نشتیں کامیاب نہیں رہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بطور ایک سیاسی حکومت کے ہمیں ’تفریح کے نام پر لوگوں کے گلے کٹیں یہ قبول نہیں ہے۔‘

صوبائی وزیر اطلاعات اعظمیٰ بخاری نے حالیہ قانون سازی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ رواں برس ابھی بسنت سیزن کا آغاز بھی نہیں ہوا اور صوبے میں دو تین ایسے واقعات ہوئے جن میں شہری ڈور پھرنے سے زخمی ہوئے ہیں۔

اس قسم کے حادثات سے بچنے کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب نے پتنگ بازی پر پابندی کے قانون میں ترمیم کرتے ہوئے سخت سزائیں رکھی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت خوشی سے کسی تہوار پر پابندی نہیں لگاتی۔ بسنت جس سے کروڑوں کی معاشی سرگرمی ہوتی تھی اس کا فائدہ بھی تو حکومت کو ہی جاتا تھا۔ مگر ہم انسانی جان کی قیمت پر پتنگ بازی کی اجازت نہیں دے سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ حالیہ قانون سازی میں ڈور اور پتنگ کی نقل و حمل پر سزا دینے کا اسی لیے کہا گیا ہے تاکہ دیگر صوبوں سے ڈور بن کر صوبے میں نہ آ سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کے ادوار میں بھی ہم نے تمام سٹیک ہولڈرزسے بات چیت کی کہ کسی طرح کوئی حل نکل آئے مگر سب کے باوجود ہلاکتیں نہیں رکی تھیں جس کے بعد حکومت نے پابندی لگائی ہے۔

اعظمی بخاری کا مزید کہنا تھا کہ اگر کائٹ فلائنگ سے منسلک سٹیک ہولڈرز ضمانت دیں کہ بسنت کے تہوار کے دوران کوئی ڈور پھرنے سے کوئی ہلاکت نہیں ہو گی تو شاید ذاتی حیثیت میں میں اس تہوار کو بحال کرنے کی سب سے بڑی حامی ہوں گی مگر حکومت شہریوں کو یہ ضمانت نہیں دے سکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ بسنت کا حامی کون نہیں ہے، یہ واحد تہوار تھا جس کی خوشی عید کی طرح ہوتی تھی لیکن ہم اسے انسانی جان کی قیمت پر بحال کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے اجازت دے دی اور کسی کی جان چلی گئی تو وہ میڈیا جو اس وقت بسنت کی بحالی کی بات کر رہا ہے وہ ہی سب سے پہلے حکومت پر انگلیاں اٹھائے گا۔

اعظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ حکومت بالکل اسے رنگوں بھرے تہوار کو بحال کرنے کی خواہش رکھتی ہے مگر تمام سٹیک ہولڈرز حکومت کو قابل عمل تجاویز دیں تو اس پر مشاورت کی جا سکتی ہے۔

بسنت کا دن اگرچہ اب بھی پہلے ہی کی طرح آتا ہے لیکن اُس رونق سے محروم رہتا ہے جو اس دن کا خاصہ تھی۔

اب موسم تو بدلتا ہے، مگر بسنت نہیں آتی۔ پتنگ بازی کا قدیمی تہوار اسی کے کھلاڑیوں کے ہاتھوں ختم ہوا ہے۔ سب کی پتنگیں کٹ گئیں اور اب ویران آسمان کو دیکھیں تو کسی کی بھی ’گڈی چڑھی‘ نظر نہیں آتی۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.