احتجاج، مذاکرات، خط اور اب گرینڈ الائنس؟ اجمل جامی کا کالم

image

عباسی صاحب بیرون ملک تھے، واپس آئے تو فوراً اسد قیصر صاحب کی دعوت پر اپوزیشن جماعتوں کے اعشائیے پر آن پہنچے، یہ ان کے بیرون ملک جانے سے پہلے ہوئی ملاقاتوں کا تسلسل تھا۔

لیکن اہم پیش رفت حضر ت مولانا کی موجودگی اور ان سے براہ راست مشاورت تھی۔ اعلامیہ خود عباسی صاحب نے حضرت مولانا، اسد قیصر اور دیگر زعما کی موجودگی میں پڑھا۔ اہم ترین مانگ نئے چناؤ تھے۔ گویا اپوزیشن جماعتیں ملکی مسائل کا حل نئے انتخابات میں ڈھونڈتی ہیں۔

یہ اکٹھ تو اپنی جگہ اہم  تھا ہی لیکن اس کے نتیجے میں جاری اعلامیہ اور اس اعلامیہ میں کی گئی مانگ سیاسی ٹھہراؤ میں اہم ترین حیثیت رکھتے ہیں۔ ہلکی پھلکی حیرت اس بابت ضرور رہی کہ اس قدر اہم مانگ کو میڈیائی کوریج البتہ قدرے ہلکی رہی۔ خدا جانے وجہ کیا تھی۔

یہاں دلچسپ مگر یہی ہے کہ کیا حضرت مولانا اپوزیشن الائنس کی اس ٹرین کا انجن بننا پسند فرماویں گے یا ہلکی آنچ پر محض اخلاقی و سیاسی حمایت جاری رکھنے پر ہی اکتفا کریں گے؟

اپوزیشن الائنس بلاشبہ اسی صورت تگڑا ہوگا جب مولانا کی سیاسی و مذہبی قوت اس کے سر پر سایہ بن کر کھڑی ہوگی۔ اس کارن تحفظات ادھر بھی ہیں اور ادھر بھی۔ مگر ان دنوں تحفظات زیادہ تر حضرت مولانا کے ہاں ہیں، نوعیت بھی خاصی جاندار ہے۔

بدلے میں کپتان کہہ چکے کہ مولانا بارے بیانات میں احتیاط برتی جائے۔ یہی نہیں بلکہ گنڈا پور سرکار سے تنظیمی ذمہ داریوں کا واپس لیا جانا بھی دیگر نامعلوم وجوہات کے ساتھ ساتھ باہمی اعتماد سازی کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ مولانا چند دنوں میں ایک اہم جرگے کا انعقاد کرنے جا رہے ہیں، اطلاع ہے کہ پی ٹی آئی کو اس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے اور بدلے میں تحریک تحفظ آئین پاکستان کے پلیٹ فارم پر دو روزہ کانفرنس میں پہلی بار مولانا کی جماعت بھی شریک ہوگی۔  

اس سب کے باوجود مسئلہ وہی ہے، اعتماد کی کمی اور تحفظات۔ گنڈا پور اور مولانا کے حلقے کی سیاست ہو یا روایتی طور پر تحریک انصاف اور جمیعت علمائے اسلام کے بیچ جاری پرانی چپقلش۔ سلسلہ خاصا پرانا ہے۔

اپوزیشن اتحاد میں پی ٹی آئی کے علاوہ محمود اچکزئی، شاہد خاقان عباسی اور دیگر رہنما شامل ہیں۔ فوٹو: سکرین گریب

اس بار البتہ حالات نے دونوں کو کافی قریب کیا۔ چھبیسویں آئینی ترمیم ہو یا اسمبلیوں کے اندر یا باہر جاری اپوزیشن جماعتوں کی جدوجہد، مولانا ہر دم ہم آواز اور توانائی کا باعث بنتے رہے۔ آئینی ترمیم کے ہنگام تحریک انصاف سرکار کے ساتھ ربط میں جانے کے بجائے مولانا سے ہی رجوع کرتی رہی۔ مولانا اب یہ پوچھتے ہیں کہ تب سرکار کے ساتھ براہ راست رابطہ حرام تھا تو اب ایسا کیا ہوا کہ اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت کیے بغیر تحریک انصاف حکومت کے ساتھ مذکرات میں بیٹھ گئی، تحریری مطالبات تک پیش کر دیے اور پھر اچانک سلسلہ ختم بھی کرڈالا۔

ایسا کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ آئندہ کی ضمانت کون دے گا؟  خط کیوں لکھا؟ مقصود کیا تھا؟ پس پردہ ہوئے معاملات کی آپشن دوبارہ آئی تو کیا اپوزیشن اتحاد کو یوں ہی رسوا چھوڑ کر چائے پی جائے گی؟ وغیرہ وغیرہ۔

 پی ٹی آئی والے بدلے میں پوچھتے ہیں کہ جو کچھ آئینی ترمیم کے نام پر اب تک ہو چکا اس پر حضرت جی کاہے کو نیم خاموش ہیں؟ عدالتی بندوبست سے لے کر اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوئے تقرر و تبادلوں تک، پیکا آرڈیننس سے لے کر یقین دہانیوں تک۔ ہوا کیا اور ہوگا کیا؟

الغرض یہ کہ فریقین اک دوجے کو کانی آنکھ کے ساتھ دیکھتے ہیں مگر مجبوریاں اور دکھ کچھ ایسے سانجھے ہیں کہ دونوں فطری طور پر ساتھ ملنے پر مجبور ہیں۔ یعنی بقول قتیل؛

حالات سے خوف کھا رہا ہوں

شیشے کے محل بنا رہا ہوں

اس بیچ اطلاع ہے کہ جیل بیٹھے کپتان تک کچھ سنجیدہ طبع سیاستدانوں نے غور و فکر کی سبیل بہر حال پیدا کی ہے۔ بیرون ملک بیٹھے عناصر کے ہاتھوں مسلسل زہر آلود سیاست کے بجائے، اپوزیشن اتحاد کے ساتھ احتجاج اور آئینی تحریک ایسے قابل عمل مشوروں پر بہر حال اب کان دھرے جا رہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے آئینی ترامیم اور دیگر معاملات پر اسمبلی میں بھرپور آواز اٹھائی۔ فوٹو: سکرین گریب

ثبوت کے طور پر گنڈا پور سرکار کی ذمہ داریوں میں کمی کی مثال پیش کی جاتی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ محض احتجاج یا بائیکاٹ سے پاکستانی سیاست میں بڑی تبدیلی لانا مشکل رہا ہے۔ الائنس یا اتحاد اور بھی گرینڈ اپوزیشن کا اتحاد، بہر حال معنی رکھتا ہے۔ مولانا کے ساتھ ساتھ جی ڈے اے کی شمولیت اور عباسی صاحب کی جماعت کا ہمنوا ہونا یقیناً ملکی سیاست میں طلاطلم کا باعث بنے گا۔

مشترکہ جدوجہد سرکار کے لیے پریشانی پیدا کرے گی، اور یہیں سے گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کا معنی خیز آغاز ہوسکتا ہے۔  ایک بزرگ سیاستدان کا البتہ یہ ماننا ہے کہ پی ٹی آئی کو چائے پانی پر پس پردہ ملاقاتوں کے ذریعے لارا دیا جاتا ہے تاکہ پی ٹی آئی اس بہانے کسی گرینڈ الائنس  یا مسلسل احتجاج کی ترکیب کو سنجیدہ نہ لے۔ لیکن واقفان حال بتلاتے ہیں کہ جیل بیٹھا کپتان اب اس لاڈ پیار میں آنے والا نہیں۔ وگرنہ گنڈا پور تو ایک سے زائد بار فارمولے تیار کر لائے تھے۔ ناں کس نے کی؟ گنڈا پور بہتر جانتے ہیں۔

اب جب کہ اپوزیشن الائنس کی بابت سنجیدگی دکھائی جا رہی ہے تو وقت ہے کہ عباسی صاحب، حضرت مولانا اور اچکزئی صاحب کے ہمراہ تحریک انصاف کی جانب سے اسد قیصر و دیگر کے علاوہ  بھی کچھ موثر سیاستدانوں کو شامل حال رکھا جائے۔ تحریک انصاف کی دستیاب قیادت کا سیاسی تجربہ ایسے باریک معاملات کی پرکھ کے لیے ناکافی ہے۔ کپتان اس امر کو خوب جانتے ہیں۔

 تحریک انصاف  کی جانب سے مولانا اور اچکزئی کے ساتھ روابط میں اگر اخونزادہ حسین جیسے نوجوان کمال دکھا رہے ہیں تو فواد چوہدری اور ہمنوا بھی  کپتان کو مشترکہ جدوجہد کی بابت دلائل سے قائل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ان دونوں حضرات میں مشترکہ خوبی، سیاسی ہونا اور سیاسی رابطہ کاری پر یقین رکھنا ہے۔ رابطہ کاری جاری رہی تو ہی گرینڈ ڈائیلاگ کا خواب حقیقت میں بدل سکتا ہے۔  بصورت دیگر سرکار بدلتے عالمی منظر نامے میں اب دورہ چین سے ’سانبھ لینا فیر‘ کے جواب میں اعتماد کے سنگنل پِک کرنے کی امید میں ہے۔

 


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.