کیا پیجر دھماکوں اور غزہ جنگ بندی کے بعد لبنان میں حزب اللہ ہتھیار ڈال سکتا ہے؟

حزب اللہ کی توجہ اور ترجیح اس کی اپنی بنیاد ہے۔ حزب اللہ نے اپنے لوگوں کو بتا رکھا ہے کہ جنگ میں ناکامی حقیقت میں اس کی فتح ہے لیکن لبنان میں اکثریت جانتی ہے کہ سچائی مختلف ہے۔
لبنان، حزب اللہ
Getty Images
26 جنوری کے دن ہزاروں بے گھر لبنانی شہریوں نے جنوبی لبنان میں واقع اپنے گھروں کو واپس لوٹنے کی کوشش کی

26 جنوری کے دن ہزاروں بے گھر لبنانی شہریوں نے جنوبی لبنان میں واقع اپنے گھروں کو واپس لوٹنے کی کوشش کی۔ انقلابی موسیقی سنتے، حزب اللہ کا پرچم فخر سے لہراتے، قافلوں میں سفر کرنے والے ان لوگوں کو ایک سال کی جنگ کے بعد واپسی پر پتہ چلا کہ ان کے گھر رہے ہی نہیں تھے۔

انھوں نے اپنے نقصان پر تاسف کا اظہار کیا اور تباہ شدہ عمارات میں حزب اللہ کے سابق سربراہ حسن نصر اللہ کی تصاویر آویزاں کر دیں۔

اس دن اسرائیلی فوجیوں کے انخلا مکمل ہونا تھا جو امریکہ اور فرانس کی ثالثی میں طے پانے والی جنگ بندی کی شرط تھی۔ اس شرط کے تحت حزب اللہ کو جنوبی علاقوں سے ہتھیار اور جنگجو بھی ہٹانا تھے جبکہ ہزاروں لبنانی فوجیوں کی جنوب میں تعیناتی ہونا تھی۔

تاہم اسرائیل کا کہنا ہے کہ لبنان نے معاہدے پر مکمل عملدرآمد نہیں کیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسرائیلی فوج کا انخلا بھی مکمل نہیں ہوا۔ لبنان نے بھی اسرائیل پر کچھ ایسے ہی الزامات لگائے ہیں۔

اور جیسا کہ متوقع تھا، حالات بگڑے۔ چند علاقوں میں اسرائیلی فوجیوں نے گولیاں چلا دیں اور ایک لبنانی فوجی سمیت 24 افراد ہلاک ہوئے۔ تاہم جنوبی لبنان میں دہائیوں سے سب سے بڑی طاقت حزب اللہ کو ایک بار پھر اپنی طاقت کے اظہار کا موقع مل گیا جسے اسرائیل سے جنگ میں بہت نقصان اٹھانا پڑا۔

لیکن بڑا سوال یہ ہے کیا حزب اللہ بطور گروہ لبنان اور مشرق وسطی میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں سے بچ کر زندہ رہ سکے گی؟

منجمند کرنے کی صلاحیت

گذشتہ دہائیوں میں حزب اللہ نے ایک عسکری، سیاسی اور معاشرتی تحریک کے طور پر لبنان کے سب سے طاقتور گروہ کی حیثیت اختیار کر لی تھی جس نے ایرانی حمایت اور مدد سے لبنانی فوج سے بھی زیادہ عسکری طاقت اور مہارت حاصل کر لی۔

تشدد کا استعمال ہمیشہ ایک راستہ ہوتا تھا۔ دوسری جانب پارلیمان میں موجودگی کی وجہ سے حزب اللہ کے بغیر کوئی اہم ملکی فیصلہ ممکن نہیں ہوتا تھا۔ مختصر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ حزب اللہ کسی بھی وقت ملک کو منجمند کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی تھی اور کئی بار اس نے کیا بھی۔

تازہ ترین تنازع اکتوبر 2023 میں اس وقت شروع ہوا جب حزب اللہ نے غزہ میں اسرائیلی جنگ کے جواب میں ایک دوسرا محاذ کھول دیا۔ گذشتہ ستمبر میں کشیدگی اس وقت بڑھی جب اسرائیل نے ناقابل یقین حد تک حزب اللہ کے اندر گھس کر پہلے پیجر دھماکوں میں گروہ کے اراکین کی ہلاکت کی منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنایا اور اس کے بعد والکی ٹاکیز بھی اسی طرح استعمال ہوئیں۔

دوسری جانب فضائی حملوں اور جنوبی لبنان پر زمینی حملے میں عام شہریوں سمیت چار ہزار افراد ہلاک ہوئے اور خصوصی طور پر حزب اللہ کی حمایت کرنے والے علاقوں میں بہت جانی اور مالی نقصان کے علاوہ حزب اللہ کو بھی بھاڑی چوٹ پہنچی۔

بہت سے رہنما قتل ہوئے، حسن نصر اللہ سمیت، جو تین دہائیوں سے حزب اللہ کا چہرہ تھے۔ ان کے جانشین نعیم قاسم، جو حسن نصر اللہ جتنے بااختیار نہیں، نے تسلیم کیا ہے کہ ان کو ’تکلیف دہ‘ نقصانات پہنچے ہیں۔

نومبر میں جنگ بندی کا اعلان ایک طرح سے حزب اللہ کی جانب سے ہتھیار پھینکنے کے برابر تھا جسے امریکہ، برطانیہ سمیت بہت سے ممالک میں دہشت گرد گروہ سمجھا جاتا ہے۔

لبنان، حزب اللہ
Getty Images
گذشتہ دہائیوں میں حزب اللہ نے ایک عسکری، سیاسی اور معاشرتی تحریک کے طور پر لبنان کے سب سے طاقتور گروہ کی حیثیت اختیار کر لی تھی

گذشتہ ماہ نئی حقیقت کا ادراک اس وقت ہوا جب لبنان کی پارلیمنٹ نے سابق آرمی چیف جوزف اون کو نیا صدر منتخب کر لیا جن کی حمایت امریکہ میں بھی پائی جاتی ہے۔ یہ انتخاب دو سال تک ایک بحران کے بعد ہوا جس کی وجہ حزب اللہ بتائی جاتی ہے۔ تاہم کمزور حزب اللہ اس بار اس عمل کو ماضی کی طرح روک نہیں سکی۔

ایسی ہی ایک اور پیش رفت نئے صدر کی جانب سے نواف سلام کی بطور وزیر اعظم تعیناتی تھی جو بین الاقوامی عدالت انصاف کے صدر کے طور پر کام کر رہے تھے۔ ان کو حزب اللہ کا حامی نہیں سمجھا جاتا۔

فی الحال حزب اللہ کی توجہ اور ترجیح اس کی اپنی بنیاد ہے۔ حزب اللہ نے اپنے لوگوں کو بتا رکھا ہے کہ جنگ میں ناکامی حقیقت میں اس کی فتح ہے لیکن لبنان میں اکثریت جانتی ہے کہ سچائی مختلف ہے۔ آبادیاں تباہ ہو چکی ہیں اور عالمی بینک کے مطابق عمارات کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ تین ارب ڈالر سے زیادہ کا لگایا گیا ہے۔

لبنان، حزب اللہ
Getty Images
عالمی بینک کے مطابق عمارات کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ تین ارب ڈالر سے زیادہ کا لگایا گیا

تباہ حال معیشت کے ساتھ لبنان میں کوئی نہیں جانتا کہ مدد کہاں سے آئے گی کیونکہ بین الاقوامی امداد کو حکومت کی جانب سے حزب اللہ کی طاقت کو لگام دینے کے اقدامات سے مشروط کر دیا گیا ہے۔

حزب اللہ نے 2006 کی جنگ کے بعد کی طرح بہت سے لوگوں کی مالی امداد کی ہے تاہم اشارے مل رہے ہیں کہ حزب اللہ سے لوگوں کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔

نکولس بلینڈفورڈ ’واریئرز آف گاڈ: انسائیڈ حزب اللہ سٹرگل اگینسٹ اسرائیل‘ کے مصنف ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’چھ ماہ بعد بھی لوگ خیموں یا اپنے مکانات کے کھنڈرات میں رہ رہے ہوئے تو شاید وہ جنگ کے لیے اسرائیل یا لبنانی حکومت کے بجائے حزب اللہ کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیں۔ ایسی صورت حال میں حزب اللہ کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔‘

ڈھکی چھپی دھمکی

تاہم حزب اللہ کے خلاف کارروائی خطرات سے بھرپور ہو گی۔

26 جنوری کے دن جنوب کی جانب لوٹنے کی کوشش کے چند گھنٹوں کے بعد موٹرسائیکل سوار نوجوان حزب اللہ کے پرچم لہراتے ہوئے اور ہارن بجاتے ہوئے ان علاقوں سے گزرے جہاں اہل تشیع آباد نہیں تو چند مقامی افراد سے ان کی مدبھیڑ ہوئی کیوں کہ ان قافلوں کو اشتعال انگیز حرکت کے طور پر دیکھا گیا۔

نکولس کہتے ہیں کہ ’حزب اللہ کی عسکری طاقت کی وجہ سے یہ گروہ تشدد کی ڈھکی چھپی دھمکی استعمال کرتا تھا کہ اگر انھیں دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی تو وہ بہت سخت جواب دیں گے۔‘

ایک مغربی سفارت کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مجھے بتایا کہ ’ہم لبنان کی اپوزیشن اور دیرگ ممالک میں لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ حزب اللہ کو دیوار سے لگانے کی کوشش کا الٹا اثر ہو سکتا ہے اور تشدد کا خطرہ ممکن ہے۔‘

لبنان، حزب اللہ
Getty Images
حسن نصر اللہ کے جانشین نے تسلیم کیا کہ ان کو ’تکلیف دہ‘ نقصانات پہنچے ہیں

تاہم لبنان میں ایک نیا باب لکھا جا رہا ہے جہاں کرپشن اور حکومتی مسائل سمیت تشدد کی نہ ختم ہونے والی لہر سے لوگ تھک چکے ہیں۔ یہ مسائل کا ایسا انبار ہے جس کی وجہ سے ریاست غیر فعال ہو چکی ہے۔

پارلیمنٹ سے اپنے پہلے خطاب میں نئے صدر نے اصلاحات لانے کا وعدہ کیا جن کے بغیر ملک کو بچانا مشکل ہو گا۔ انھوں نے حکومتی اداروں کی تعمیر نو، معیشت کی بحالی اور فوج کو ملک کی واحد مسلح طاقت بنانے کا وعدہ بھی کیا۔ انھوں نے حزب اللہ کا نام تو نہیں لیا لیکن ان کا اشارہ اسی کی جانب تھا۔ پارلیمان میں تالیوں کی گونج کے بیچ حزب اللہ کے اراکین خاموش بیٹھے رہے۔

خطے کا مسئلہ

لیکن حزب اللہ کی عسکری طاقت کے مستقبل کا فیصلہ شاید لبنان سے بہت دور ایران کے دارالحکومت میں ہوگا جہاں سے دہائیوں تک اسلحے اور پیسے کی مدد سے مزاحمت کے محور نامی علاقائی اتحاد کی پرورش کی گئی اور اسرائیل کا آتشیں گھیراو قائم کیا گیا۔

اس اتحاد کا ایک اہم کھلاڑی حزب اللہ ہے جس کے پاس ہزاروں تربیت یافتہ جنگجو اور میزائلوں کا انبار موجود ہے۔ اس گروہ نے ایرانی جوہری تنصیبات پر اسرائیل کے ممکنہ حملے کے خلاف ایک طاقت کے طور پر کام کیا ہے۔

لیکن وہ طاقت اب بکھر چکی ہے اور اگر ایران چاہے بھی تو اس طاقت کو بحال کرنا آسان نہ ہو گا۔

شام میں بشار الاسد کی حکومت کے گر جانے کے بعد، جس کی ایک وجہ حزب اللہ کو پہنچنے والی چوٹ بھی تھی، تہران کا وہ زمینی رابطہ منقطع ہو چکا ہے جس سے حزب اللہ تک اسلحہ اور پیسہ پہنچایا جاتا تھا۔

اسرائیل، جس نے حزب اللہ کے خلاف وسیع پیمانے پر خفیہ اطلاعات اکھٹی کی ہیں، کے مطابق وہ حزب اللہ کو نشانہ بناتا رہے گا تاکہ یہ دوبارہ پہلے جیسی طاقت حاصل نہ کر سکے۔

لبنان کے صدر
Getty Images
پارلیمنٹ سے اپنے پہلے خطاب میں نئے صدر نے فوج کو ملک کی واحد مسلح طاقت بنانے کا وعدہ بھی کیا

بلینفورڈ نے مجھے بتایا کہ ’حزب اللہ کے بارے میں بنیادی سوالوں کے جواب ایران ہی دے سکتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ایران یا حزب اللہ کچھ مختلف سوچیں، غیر مسلح ہونے کے بارے میں اور صرف ایک سیاسی اور سماجی تحریک کی شکل میں برقرار رہیں۔ لیکن یہ حزب اللہ کا نہیں، ایران کا فیصلہ ہو گا۔‘

حزب اللہ کے اندرونی معاملات سے واقفیت رکھنے والے ذرائع سے جب میں نے سوال کیا کہ کیا ایسا ممکن ہو سکتا ہے تو بتایا گیا کہ ’یہ ایک بڑے علاقائی حل کا حصہ ضرور ہو سکتا ہے۔‘ یہ بظاہر ایک اشارہ ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام پر مغرب سے معاہدہ کرنے کا خواہش مند ہے۔

ذرائع کے مطابق ’اسلحہ مکمل طور پر چھوڑنے اور ریاست کے اندر ضابطوں میں رہتے ہوئے ان کے استعمال میں فرق ہے اور ایسا بھی ممکن ہے۔‘

لبنان کے وزیراعظم اور صدر
Getty Images
بیرونی اتحادی مشرق وسطی میں طاقت کی نئی بساط کو ایک موقع کے طور پر دیکھ رہے ہیں جس میں ایران کو مذید کمزور کیا جا سکتا ہے

لبنان کے نئے رہنماؤں پر جلد از جلد کچھ کرنے کا دباؤ ہے۔ بیرونی اتحادی مشرق وسطی میں طاقت کی نئی بساط کو ایک موقع کے طور پر دیکھ رہے ہیں جس میں ایران کو مذید کمزور کیا جا سکتا ہے جبکہ لبنان میں استحکام کے لیے لوگ پریشان ہیں۔

لوگ اب اس بات کو پسند نہیں کرتے جب یہ کہا جاتا ہے کہ تباہی کے باوجود انھوں نے زندگی کو رواں دواں رکھا ہوا ہے۔ بیروت کے مسیحی علاقے میں ایک رہائشی نے گزشتہ سال مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم ایک عام سے ملک میں رہنا چاہتے ہیں۔‘

شاید اتنی مشکل دیکھنے کے بعد حزب اللہ کے حامی بھی اب یہ سوال اٹھائیں کہ اس گروہ کا مستقبل میں کیا کردار ہونا چاہیے۔ حزب اللہ شاید جنگ سے پہلے والی تنظیم کبھی نہ بن پائے۔ اسے غیر مسلح کرنا اب ماضی کی طرح ایک ایسا معاملہ نہیں جس کے بارے میں سوچنا بھی محال ہوا کرتا تھا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.