ٹرمپ اکثر شکایت کرتے تھے کہ انھیں جاپانی کاروباری افراد کے بڑے گروپوں کے ساتھ معاہدے کرنے میں مشکلات پیش آتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں دوسرے ممالک کو امریکہ کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے دیکھ کر تھک گیا تھا۔‘
ڈونلڈ اور ایوانا ٹرمپ 1988 میں نیویارک میں ٹرمپ پرنسس یاٹ سے اتر رہے ہیںجب 90 کی دہائی میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مالی حالات خراب ہوئے اور انھیں فوراً پیسے کی ضرورت تھی تو انھوں نے اپنی 282 فٹ لمبی سپر یاٹ ’ٹرمپ پرنسس‘ کو ایشیا بھیجا تاکہ جاپان کے امیر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر سکیں۔
یہ پہلا موقع نہیں تھا جب ٹرمپ نے جاپانی خریداروں یا قرض دہندگان سے مدد مانگی تھی۔
80 کی دہائی میں ٹرمپ کو نیویارک میں اپنی ففتھ ایونیو کی عمارت سے ٹوکیو میں جاپانی لوگوں کو امریکی برانڈز اور جائیدادیں خریدتے ہوئے دیکھنے کا موقع ملا، جن میں مشہور راک فیلر سینٹر بھی شامل تھا۔
یہ وہ وقت تھا جب ان کا کاروبار اور امریکہ کے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کے متعلق ایک نظریہ قائم ہوا اور وہ ٹیرف (یعنی درآمدات پر ٹیکس) کے بارے میں سوچنے لگے۔
ٹرمپ آرگنائزیشن میں سابق ایگزیکٹو نائب صدر رہنے والی باربرا ریس کہتی ہیں کہ ’انھیں جاپان پر بہت غصہ تھا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ٹرمپ کو یہ دیکھ کر حسد محسوس ہوتا تھا کہ جاپانی کاروباری لوگوں کو ذہین سمجھا جا رہا تھا۔ انھیں لگتا تھا کہ امریکہ جاپان کی فوجی مدد کے بدلے کافی کچھ نہیں حاصل کر رہا۔
ٹرمپ اکثر شکایت کرتے تھے کہ انھیں جاپانی کاروباری افراد کے بڑے گروپوں کے ساتھ معاہدے کرنے میں مشکلات پیش آتی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں دوسرے ممالک کو امریکہ کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے دیکھ کر تھک گیا تھا۔‘
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ 2016 میں دیا گیا ٹرمپ کا بیان ہے لیکن درحقیقیت یہ بات انھوں نے 80 کی دہائی کے آخر میں کہی تھی جب وہ سی این این کے لری کنگ لائیو پر آئے تھے۔ اسی دوران انھوں نے پہلی بار اپنا نام ممکنہ صدارتی امیدوار کے طور پر پیش کیا تھا۔
1987 کی کتاب ’دی آرٹ آف دی ڈیل‘ میں اپنے کاروباری فلسفے کو شیئر کرنے کے بعد ٹرمپ نے قومی انٹرویوز میں امریکہ کی تجارتی پالیسیوں کے خلاف شدید تنقید شروع کی۔
اوپرا ونفری کے ساتھ لائیو سٹوڈیو آڈینس کے سامنے دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ وہ خارجہ پالیسی کو مختلف انداز میں چلائیں گے اور امریکہ کے اتحادیوں کو ’ان کا مناسب حصہ ادا کرنے‘ پر مجبور کریں گے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ جب جاپان امریکہ کی مارکیٹ میں مصنوعات ’ڈمپ‘ کر رہا تھا لیکن اپنے ملک میں کاروبار کرنا ’ناممکن‘ بناتا تھا تو یہ آزاد تجارت نہیں تھی۔
ڈونلڈ اور ایوانا ٹرمپ اپریل 1988 میں اوپرا ونفری شو میںجینیفر ملر جو ڈارٹماؤتھ کالج میں تاریخ کی پروفیسر ہیں، کہتی ہیں کہ اس وقت دوسرے لوگ بھی معیشت کے بارے میں ٹرمپ کی فکر سے اتفاق کرتے تھے۔
جاپان نے امریکی صنعتوں کے لیے مقابلہ کی فضا بنائی خاص طور پر الیکٹرانکس اور گاڑیوں کے شعبے میں۔ جس وقت امریکی کارخانے بند ہو رہے تھے اور جاپان کے نئے برانڈز مارکیٹ میں آ رہے تھے تو اس وقت ماہرین یہ بات کر رہے تھے کہ جاپان جلد ہی امریکہ کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔
پروفیسر ملر کہتی ہیں کہ ’ٹرمپ ایسے بہت سے لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں جو یہ سوال کر رہے تھے کہ کیا امریکہ کی قیادت واقعی دنیا کے مفاد میں ہے۔‘
اوپرا کے شو پر آنے سے پہلے ٹرمپ نے تین بڑے امریکی اخبارات میں اپنے ’اوپن لیٹر‘ کے لیے تقریباً ایک لاکھ ڈالر خرچ کیے تھے۔
اس کا عنوان تھا: ’امریکہ کی خارجہ دفاعی پالیسی میں ایسی کوئی غلطی نہیں ہے جسے تھوڑی سی ہمت سے دور نہ کیا جا سکے۔‘
انھوں نے کہا کہ جاپان اور دوسرے ممالک دہائیوں سے امریکہ کا فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جاپان نے امریکہ کی دفاعی مدد (کیونکہ امریکہ ان کے لیے یہ کام مفت میں کر رہا ہے) کا فائدہ اُٹھا کر ایک مضبوط معیشت بنا لی ہے جس سے وہ خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
ٹرمپ کا خیال تھا کہ اس کا حل ان امیر ممالک پر ’ٹیکس‘ لگانا ہوگا۔
انھوں نے لکھا: ’دنیا امریکہ کے سیاست دانوں پر ہنس رہی ہے کیونکہ ہم ایسی کشتیوں کی حفاظت کر رہے ہیں جو ہماری نہیں، یہ کشتیاں ایسی تیل کی کھیپیں لے کر جا رہی ہیں جن کی ہمیں ضرورت نہیں مگر یہ ہمارے اتحادیوں کے لیے ہیں جو ہماری مدد تک کرنا گوارا نہیں کرتے۔‘
پروفیسر ملر کے مطابق یہ اشتہار ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کا ایک بہترین تعارف تھا۔ اس پالیسی کے مطابق ٹرمپ کا خیال تھا کہ اتحادی صرف امریکہ کا فائدہ اُٹھاتے ہیں اور یہ عالمی سطح پر امریکہ کی یہ پالیسی کمزور اور بیوقوفانہ پالیسی ہے جو دوسری جنگ عظیم کے بعد سے غالب رہی ہے۔ ان کا حل یہ تھا کہ امریکہ کو زیادہ سخت اور تحفظ پسند تجارتی پالیسی اپنانی چاہیے۔
پروفیسر ملر کہتی ہیں ’مجھے لگتا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ وہ ٹیرف کو اتنا پسند کرتے ہیں کیونکہ یہ نہ صرف ان کے کاروباری خیالات سے مطابقت رکھتے ہیں بلکہ ان کا اپنے بارے میں جو ایک کامیاب ڈیل میکر کا تصور ہے، اس سے بھی مطابقت رکھتے ہیں۔‘
’اور یہ کہ ٹیرف کو دھمکی کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، انھیں دوسرے ممالک کے سر پر تلوار کی طرح لٹکایا جا سکتا ہے۔‘
کلیڈ پریسٹ وٹز نے ریگن انتظامیہ کے دوران جاپان کے ساتھ مذاکرات کیے تھے۔ وہ آزاد تجارت کی پالیسیوں کے سخت نقاد ہیں اور کہتے ہیں کہ اس وقت کوئی سنجیدہ شخص ٹرمپ یا ان کے سادہ نظریات کا حامی نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر نے جن مسائل کی نشاندہی کی ہے ان کا کوئی حقیقی حل پیش نہیں کیا۔
’ٹیرف ایک نمائشی چیز ہوتی ہیں جنھیں لاگو کرکے آپ کہہ سکتے ہیں کہ دیکھو میں نے کیا کارنامہ انجام دیا اور اس کے بعد لوگ آپ کو ایک سخت نظریات والا سیاست دان ماننے لگیں۔ مگر یہ چیز ابھی زیرِ بحث ہے کہ یہ واقعی مؤثر بھی ہیں یا نہیں۔‘
پریسٹ وٹز کا کہنا ہے کہ اس وقت اور آج کا اصل مسئلہ یہی ہے کہ امریکہ غیر منصفانہ تجارت کی شکایت تو کرتا رہتا ہے مگر اس کے پاس کوئی واضح مینوفیکچرنگ پالیسی نہیں ہے۔
ظاہر ہے ابتدا میں یہ خوف موجود تھا کہ جاپانی معیشیت امریکہ کو پیچھے چھوڑ دے گی اور یہ ایک بڑا ملک بن کر ابھرے گا مگر وقت کے ساتھ وہ امریکہ کا اتحادی بن گیا اور ایسے خدشات دم توڑ گئے۔
اب چین امریکہ کا سب سے بڑا تجارتی حریف ہے۔ اس ہفتے ٹرمپ نے جاپان کے وزیر اعظم کو پہلے غیر ملکی وفد میں سے ایک کے طور پر اوول آفس میں خوش آمدید کہا ہے۔
ٹرمپ اور وزیر اعظم شیگیرو ایشیبالیکن ڈونلڈ ٹرمپ کا حکومتی فلسفہ اب بھی ویسا ہی ہے جیسا اس وقت تھا جب وہ ایک نوجوان رئیل اسٹیٹ ڈویلپر تھے۔ وہ اب بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ٹیرف دوسرے ممالک پر دباؤ ڈالنے کا ایک طریقہ ہیں تاکہ وہ اپنی منڈیاں تو امریکہ کو رسائی دیں اور تجارتی خسارے کو کم کریں۔
معیشیت دان مائیکل سٹرین کہتے ہیں کہ ’چاہے کوئی سننا چاہے یا نہیں وہ ہمیشہ سے یہ بات کہتے آئے ہیں اور 40 سالوں سے یہی سچ ہے۔ اور یہ کہ بین الاقوامی تجارت کو دیکھنے کا یہ ایک قدرتی طریقہ ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اکثر طلبا ٹرمپ کی سوچ کو سمجھتے ہیں اور پروفیسروں کا چیلنج یہ ہے کہ وہ انھیں سمجھائیں کہ ان کا نقطہ نظر غلط ہے۔
سٹرین کہتے ہیں کہ اگرچہ ٹرمپ نے اپنی پالیسیوں سے ریپبلکن پارٹی کے آزادانہ تجارت کے اصولوں کو تبدیل کیا ہے، تاہم انھیں لگتا کہ ٹرمپ نے قانون سازوں، کاروباری رہنماؤں اور معیشت دانوں کو بھی قائل کر لیا ہے۔
چیلنج یہ ہے کہ ٹرمپ کے خیالات جیسے کہ غیر ملکی درآمدات نقصان دہ ہیں یا تجارتی خسارے کا سائز کامیابی کی نشانی ہے یا یہ کہ امریکہ صرف وہ چیزیں درآمد کرے جو یہاں نہیں بن سکتیں، یہ سب مسائل برقرار ہیں اور سب قابلِ بحث ہیں۔
سٹرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کے اتحادیوں پر ٹیرف بڑھانے کی دھمکیاں کاروباری سرمایہ کاری کو کم کر سکتی ہیں اور عالمی اتحادوں کو کمزور کر سکتی ہیں۔
اب چین امریکہ کا سب سے بڑا تجارتی حریف ہےجو جوزف لاورگنا جو ٹرمپ کی پہلی مدت میں نیشنل اکنامک کونسل کے چیف اقتصادی ماہر تھے، ان کا کہنا ہے کہ ٹیرف پر بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے مگر ٹرمپ کے بڑے مقاصد کو سمجھنے کی کوشش کم کی گئی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ صدر کا مقصد امریکہ کی مقامی صنعت خاص طور پر ہائی ٹیک مینوفیکچرنگ، کو فروغ دینا ہے۔
انھوں نے وضاحت کی کہ ٹرمپ انتظامیہ کا خیال ہے کہ ٹیرف کے ذریعے مزید کمپنیوں کو امریکہ لایا جا سکتا ہے اور یہ ڈیریگولیشن، سستی توانائی اور کم کارپوریٹ ٹیکسز جیسے اقدامات اور کانگریس کی منظوری کے ساتھ ہی ممکن ہو سکتا ہے۔
’مجھے لگتا ہے کہ صدر ٹرمپ ایک کاروباری شخص اور لین دین کے ماہر کے طور پر ایک اہم بات سمجھتے ہیں اور وہ یہ کہ آزاد تجارت کا نظریہ بہت اچھا ہے لیکن حقیقت میں آپ کو منصفانہ تجارت کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ضروری ہے کہ سب کو برابر کے موقع ملیں۔‘
وہ سمجھتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا نقطہ نظر صحیح ہے۔ کم ہی ریپبلکن افراد نے عوامی طور پر صدر کی مخالفت کی ہے کیونکہ وہ اپنے ایجنڈے سے وفاداری کا مطالبہ کرتے ہیں۔
لیکن کچھ جو خاموش رہے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے حلقوں پر بڑھتی ہوئی قیمتوں کا اثر پڑ سکتا ہے اور انھیں امید ہے کہ وہ ٹرمپ کو اپنی پسندیدہ ٹیرف پالیسی پر عمل نہ کرنے کے لیے قائل کر سکیں گے۔