’سٹوڈیو میں سیکس‘ اور ’ہٹ مین جیسی دھمکیاں‘: ہپ ہاپ میوزک کے بادشاہ کی سلطنت کیسے بکھری؟

کومبز کا مزاج اکثر ’چڑچڑا‘ اور سخت رہتا۔۔۔ ایونس کا کہنا ہے کہ طاقت ان کی شخصیت کو مکمل طور پر بدل رہی تھی۔ صرف چند دن قبل ہی ہپ ہاپ کے اس بڑے نام کو ان کے میوزک لیبل کی کامیابی کے عوض چھ ملین ڈالر (تقریباً 4.8 ملین پاؤنڈ) ملے تھے اور ان کے میوزیک لیبل میں پلاٹینم سیل کرنے والے فنکار ’دی نوٹریئس بی آئی جی‘ بھی شامل تھے۔
کومبز 1993 میں ’بیڈ بوائے ریکارڈز‘ کے باعث راتوں رات کروڑ پتی بن گئے
Getty Images
کومبز 1993 میں ’بیڈ بوائے ریکارڈز‘ کے باعث راتوں رات کروڑ پتی بن گئے

’میرے پاس اب اتنا پیسہ ہے کہ میں آپ کو مارنے کے لیے بندہ بھی رکھ سکتا ہوں اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہو گی۔ کسی کو آپ کی کمی محسوس نہیں ہو گی۔ کسی کو کچھ پتا نہیں چلے گا۔‘

ماضی کے میوزک ایگزیکٹیو ڈینیئل ایونس کہتے ہیں کہ وہ آج تک اپنے سابق باس شان ’ڈڈی‘ کومبز (جو اس وقت پف ڈڈی کے نام سے مشہور تھے) کی ایک ساتھی کو دی جانے والی دھمکی کو نہیں بھولے۔ ان کے مطابق یہ واقعہ 1997 کا ہے جب وہ کومبز کی گرامی ایوارڈ جیتنے والی میوزک لیبل ’بیڈ بوائے ریکارڈز‘ کے نیو یارک دفتر میں تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ایسا ہی تھا جیسے پیسہ آپ کی شخصیت بدل ڈالے۔‘

کومبز کا مزاج اکثر ’چڑچڑا‘ اور سخت رہتا۔۔۔ ایونس کا کہنا ہے کہ طاقت ان کی شخصیت کو مکمل طور پر بدل رہی تھی۔ صرف چند دن قبل ہی ہپ ہاپ کے اس بڑے نام کو ان کے میوزک لیبل کی کامیابی کے عوض چھ ملین ڈالر (تقریباً 4.8 ملین پاؤنڈ) ملے تھے اور ان کے میوزیک لیبل میں پلاٹینم سیل کرنے والے فنکار ’دی نوٹریئس بی آئی جی‘ بھی شامل تھے۔

یہ سال کومبز کے میوزک کیریئر کا عروج کا سال تھا اور ان کے کاروبار فیشن سے شراب تک پھیل گئے حتیٰ کہ وہ اپنے ٹی وی نیٹ ورک کے مالک بن چکے تھے۔

لیکن تقریباً تین دہائیوں بعد ان کا ورثہ اب تباہی کے دہانے پر ہے اور وہ جیل میں قید ہیں جہاں انھیں سیکس ٹریفیکنگ اور غنڈہ گردی یا منظم جرائم جیسے الزامات کا سامنا ہے۔

اس کے ساتھ ہی درجنوں مقدمات بھی چل رہے ہیں جن میں ان پر الزام ہے کہ انھوں نے عیش و عشرت کی پارٹیوں، مہنگے ہوٹلوں اور اپنے ریکارڈنگ سٹوڈیوز میں نشہ آور اشیا دے کر جنسی زیادتی کی۔ ڈڈی تمام الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔

اب بی بی سی نے 20 سے زیادہ ایسے افراد سے بات کی ہے جو کومبز کے ساتھ ’بیڈ بوائے ریکارڈز‘ میں کام کرتے تھے۔۔ ان میں سابقہ ایگزیکٹوز، اسسٹنٹس اور پروڈیوسرز شامل ہیں۔ انھوں نے پہلی بار ان پریشان کن واقعات کے بارے میں بتایا جو انھوں نے 1990 کی دہائی میں کمپنی کی کامیابی کے دوران اپنی آنکھوں سے دیکھے۔

کچھ ایگزیکٹوز کا کہنا ہے کہ انھیں اس وقت تشویش شروع ہوئی جب انھوں نے کومبز کو سٹوڈیو میں خواتین کے ساتھ جنسی تعلقات بناتے دیکھا۔۔۔ اس میں وہ واقعہ بھی شامل ہے جب ایک ملازم کے مطابق جب وہ کمرے میں اندر داخل ہوا تو ایک نوجوان خاتون نے کوئی ردعمل نہیں دیا۔ ایک اور سٹاف ممبر نے شکایت کی کہ کومبز نے ان سے کنڈوم لانے کو کہا۔

بی بی سی کو یہ بھی معلوم ہوا کہ آرٹسٹوں اور دیگر ملازمین کی خواہش پر امریکہ بھر سے خواتین کو جنسی تعلقات کے لیے جہازوں میں لایا جاتا تھا اور اس کام کے لیے کمپنی کے فنڈز کا استعمال کیا گیا۔

ایک سٹاف ممبر نے شکایت کی کہ ڈڈی نے ان سے کنڈوم لانے کو کہا
Getty Images/BBC
ایک سٹاف ممبر نے شکایت کی کہ ڈڈی نے ان سے کنڈوم لانے کو کہا

ٹونی بوزبی ایک امریکی وکیل ہیں جو درجنوں مبینہ متاثرین کی نمائندگی کر رہے ہیں، وہ کہتے ہیں ’ان کا رویہ وقت کے ساتھ زیادہ سنگین ہوتا گیا اور اس رویے کی کڑیاں 90 کی دہائی تک جاتی ہیں۔‘

ٹونی جن افراد کی نمائندگی کر رہے ہیں ان میں ایک ایسی خاتون بھی شامل ہے جن کا کہنا ہے کہ کومبز نے انھیں بھی ویسی ہی دھمکی دی تھی جیسی ایونس نے سنی تھی۔

ان کی موکلہ کا کہنا ہے کہ کومبز نے 1995 میں ’دی نوٹریئس بی آئی جی‘ کے لیے منعقد ہونے والی پروموشنل پارٹی کے دوران باتھ روم کے فرش پر ان کا ریپ کیا۔ انھوں نے اپنی درخواست میں لکھا ہے کہ اس کے بعد کومبز نے انھیں دھمکی دی کہ کسی کو نہ بتانا ورنہ ’تم غائب ہو جاؤ گی۔‘

ایک بیان میں کومبز کی قانونی ٹیم نے بوزبی پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ’حقیقت سے زیادہ میڈیا کی توجہ میں دلچسپی رکھتے ہیں‘ اور یہ کہ ہپ ہاپ سٹار نے ’کبھی کسی کے ساتھ جنسی زیادتی یا سمگلنگ نہیں کی۔‘

55 سالہ کومبز کے وکلا کا کہنا ہے کہ انھیں بی بی سی کے الزامات اور دعوؤں کے بارے میں ایسی خاطر خواہ تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں کہ وہ ان خیالی الزامات کو رد کرنے کے لیے حقائق پیش کر سکیں۔

انھوں نے مزید کہا ’جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ کومبز ہر پبلسٹی کے شوقین شخص کے الزامات یا بے بنیاد دعوؤں کا جواب نہیں دے سکتے۔ انھیں عدالتی عمل پر مکمل اعتماد ہے جہاں سچائی غالب آئے گی۔ یہ الزامات افسانوی طور پر گھڑے گئے ہیں اور مکمل جھوٹ ہیں۔‘

شان کومبز ایک نڈر اور خود اعتمادی سے بھرپور شخص تھے جنھوں نے 1993 میں بہترین فنکاروں کے ساتھ بیڈ بوائے ریکارڈز کی بنیاد رکھی اور چند ہی دنوں میں کروڑ پتی بن گئے۔

یہ ان کا پہلا کاروباری قدم تھا تاہم اس سے پہلے وہ محض 19 سال کی عمر میں اپ ٹاؤن ریکارڈز میں بطور ٹیلنٹ ڈائریکٹر اپنی پہچان بنا چکے تھے۔

شان کومبز کی میوزک سے محبت اور کام کی لگن کے بارے میں ان کے سابقہ ساتھی جمی مینز بتاتے ہیں ’اس نے کہا تھا کہ وہ دنیا کا سب سے بڑا آرٹسٹ بننا چاہتا ہے اور اسے فرق نہیں پڑتا تھا کہ میں ان کی بات پر یقین کروں یا نہ کروں۔‘

مینز یاد کرتے ہیں کہ اکثر ایسا ہوتا کہ کومبز جلد غصے میں آ جاتے تھے۔۔۔ بعض اوقات میز پر ہاتھ مار کر چیخنے لگتے جیسے کوئی ضدی بچہ جس کی بات نہ مانی جا رہی ہو۔

بالآخر انھیں اپ ٹاؤن ریکارڈز سے نکال دیا گیا اور صرف 23 سال کی عمر میں انھوں نے بیڈ بوائے ریکارڈز کی بنیاد رکھی۔

ڈینیئل ایوانز جو 1994 سے 1997 تک بیڈ بوائے کے مالی معاملات اور فنکاروں کے معاہدے دیکھتے رہے، وہ کہتے ہیں: ’میں نے آج تک اتنا محنتی شخص نہیں دیکھا۔ اور وہ ہمیشہ چاہتے تھے کہ دوسرے بھی ان جیسا جذبہ دکھائیں۔‘

کومبز نے خود کو ’گریٹ گیٹس بی‘ کہا اور جلد ہی نیویارک کے نائٹ کلبوں، میکسیکو کے ساحلوں اور ہیمپٹنز میں اپنی مشہور ’وائٹ پارٹیز‘ (جن کے شرکا کے لیے سفید لباس پہننا لازم ہوتا تھا) کے لیے شہرت حاصل کر لی۔

ایوانز کے مطابق 90 کی دہائی میں ان کی تقریبات میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی شامل ہوتے تھے۔ ایک بار کومبز کی 30ویں سالگرہ پر ایوانز نے ٹرمپ کو سونے کے تخت پر بیٹھے یہ کہتے سنا: ’نیویارک کا اصل بادشاہ میں ہوں۔‘

ڈینیئل ایوانز جو 1994 سے 1997 تک بیڈ بوائے کے مالی معاملات اور فنکاروں کے معاہدے دیکھتے رہے، وہ کہتے ہیں: ’میں نے آج تک اتنا محنتی شخص نہیں دیکھا‘
BBC
ڈینیئل ایوانز جو 1994 سے 1997 تک بیڈ بوائے کے مالی معاملات اور فنکاروں کے معاہدے دیکھتے رہے، وہ کہتے ہیں: ’میں نے آج تک اتنا محنتی شخص نہیں دیکھا‘

ایوانز بیڈ بوائے ریکارڈز کے ابتدائی ملازمین میں شامل تھے، وہ یاد کرتے ہیں ’ہم سب بہت کم عمر تھے۔ میں صرف 24 سال کا تھا۔‘

’ہر کوئی صرف مزے کرنا، پارٹی کرنا، تعلقات اور اچھی یادیں بنانا چاہتا تھا۔‘

لیکن ماضی پر نظر ڈالیں تو ایوانز اعتراف کرتے ہیں کہ اپنے باس کے رویے اور کمپنی کے ماحول کے کچھ پہلو انھیں پریشان کرتے ہیں۔

وہ سنہ 1995 کا ایک ناخوشگوار لمحہ یاد کرتے ہیں جب وہ نیویارک کے ’ڈڈی ہاؤس‘ ریکارڈنگ سٹوڈیو (جو ٹائمز سکوائر کے قریب تھا) میں داخل ہوئے اور انھوں نے شان کومبز کو ایک نوجوان خاتون کے ساتھ سیکس کرتے دیکھا۔

ایوانز کہتے ہیں ’میں رات کو کام کے اختتام پر گھر جانے کے لیے اپنی جیکٹ ڈھونڈ رہا تھا۔ دروازہ کھولا تو دیکھا کہ وہ اس لڑکی کے ساتھ تھا‘ ایوانز کو لگا تھا کہ سٹوڈیو خالی ہے کیونکہ وہاں مکمل خاموشی تھی۔

کومبز نے غصے میں انھیں گالیاں دیں اور فوراً باہر جانے کو کہا۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ ’مجھے لگا کہ میں نوکری سے نکال دیا جاؤں گا۔‘

ایوانز کے مطابق وہ نوجوان خاتون غالباً سٹوڈیو کے ٹور کے لیے وہاں آئی تھی اور کومبز کے ایک پارٹی پروموٹر دوست انھیں وہاں لائے تھے۔۔ کومبز خود بالکل ہوش میں لگ رہے تھے مگر وہ لڑکی خاموش تھی اور زیادہ بات نہیں کر رہی تھی۔ اب ایوانز سوچتے ہیں کہ شاید وہ نشے میں تھی یا شاید شرمیلی تھی۔

اس وقت یہ سب کچھ عام سی بات لگتی تھی لیکن جب وہ اس لمحے کو آج کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو انھیں وہ منظر پریشان کر دیتا ہے۔

’اب جو کچھ میں جانتا ہوں اسے سوچ کر کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔۔۔ عام طور پر ایسے لمحات میں دونوں فریقین واضح ردِعمل دیتے ہیں۔‘

اے لسٹرز کومبز کی شاندار ’وائٹ پارٹیز‘ میں شریک ہوتے تھے جن کا ڈریس کوڈ ایک رنگ کا ہوتا تھا ۔۔۔ لیکن ڈڈی کے خلاف مقدمات میں الزام لگایا گیا ہے کہ ان تقریبات کا ایک تاریک پہلو بھی تھا۔
Getty Images
اے لسٹرز کومبز کی شاندار ’وائٹ پارٹیز‘ میں شریک ہوتے تھے جن کا ڈریس کوڈ ایک رنگ کا ہوتا تھا ۔۔۔ لیکن ڈڈی کے خلاف مقدمات میں الزام لگایا گیا ہے کہ ان تقریبات کا ایک تاریک پہلو بھی تھا۔

فیلیشیا نیوسم 1994 سے 2000 کے درمیان ڈڈی ہاؤس ریکارڈنگ سٹوڈیو کی مینیجر تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس دور میں مجموعی طور پر موسیقی کی صنعت میں نامناسب رویہ عام تھا۔

وہ کہتی ہیں ’اگر کوئی اس کی شکایت کرتا تو وہ غیر معمولی بات ہوتی لیکن اس کا ہونا غیر معمولی نہیں تھا۔‘

نیوسم کا کہنا ہے کہ ایک بار ایک ملازم نے انھیں آدھی رات کو سٹوڈیو بلایا کیونکہ صرف انڈر ویئر پہنے کومبز ایک ماڈل اور ایک اور عورت کے ساتھ سیکس کرنے والا تھا۔ نیوسم کو یاد ہے کہ وہ عملے کے رکن سے کنڈوم لانے کا مطالبہ کر رہا تھا۔

نیوسم اس وقت وہاں پہنچیں جب وہ سب دوبارہ کپڑے پہن رہے تھے۔

وہ کہتی ہیں ’میں نے پفی سے کہا یہاں کسی سے دوبارہ کنڈوم لانے کا نہ کہنا‘۔ وہ کہتی ہیں ’اس نے جواب دیا: مجھے ایسی کسی چیز کی ضرورت نہیں تھی ماں۔‘ اور اس کے بعد دوبارہ کبھی ایسا نہیں ہوا۔

نیوسم اس وقت 30 کی دہائی میں تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں کومبز معقول شخص لگے اور جب انھوں نے اسے چیلنج کیا تو اس نے اپنا رویہ بدل لیا۔

وہ کہتی ہیں جب 1995 میں پہلی بار سٹوڈیو کھلا تو کومبز کاؤنٹرٹاپس کی شکل سے ناخوش تھے اور انھوں نے عملے کے سامنے انھیں گالی دی۔

نیوسم کہتی ہیں کہ انھوں نے سب کے سامنے معافی کا مطالبہ کیا اور عارضی طور پر سٹوڈیو بند کر دیا اور کومبز سے پوچھا: ’اگر میں اس جگہ پر خواتین لا رہی ہوں جو 24 گھنٹے کھلی رہتی ہے تو آپ یہاں آنے والوں کے ساتھکیسے پیش آنا چاہتے ہیں۔‘

نیوسم کے مطابق کومبز نے جواب دیا کہ وہ اسے ایک اچھی جگہ بنانا چاہتے ہیں جہاں محفوظ ماحول ہو۔

لیکن وہ کہتی ہیں کہ جہاں انھوں نے سٹوڈیو کو سختی سے چلایا وہیں دیگر عملہ کومبز کے آگے زیادہ پراعتمادی کا مظاہرہ نہیں کرتا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’بیڈ بوائے ریکارڈز ایک پاگل خانہ تھا جہاں بہت سے نوجوان بادشاہ بننے کے خواب دیکھتے تھے۔‘

سابق ملازمین کا کہنا ہے کہ بیڈ بوائز کو بیس بیس سال کی عمر کے ایگزیکٹوز اور انٹرنز چلا رہے تھے جن میں سے کچھ سکول کی عمر کے بھی تھے۔ ان کے مطابق اکثر ملازمین اور انٹرنز کے درمیان جنسی تعلقات قائم ہوتے تھے۔

ایوانز کو اپنی ٹیم میں ایک 14 سالہ لڑکی کے ساتھ ایک ناخوشگوار لمحہ یاد ہے جس نے ان سے کہا تھا ’آپ بہت محنت کرتے ہیں۔ اگر آپ کبھی ریلیکس کرنا چاہیں تو ہم ساتھ وقت گزار سکتے ہیں۔۔۔ لیکن آج رات نہیں کیونکہ آج کرفیو ہے۔‘

ایک مقدمے کے مطابق یہ تصویر کومبز کے سٹوڈیو میں لی گئی ہے جس میں ایک 17 سالہ لڑکی ان کے ساتھ ہے جس نے ان پر ریپ کا الزام لگایا ہے
Handout
ایک مقدمے کے مطابق یہ تصویر کومبز کے سٹوڈیو میں لی گئی ہے جس میں ایک 17 سالہ لڑکی ان کے ساتھ ہے جس نے ان پر ریپ کا الزام لگایا ہے

ایوانز کہتے ہیں کہ انھوں نے اسے گھر بھیج دیا اور اگلے دن فون کرکے کہا کہ وہ دوبارہ کام پر نہ آئیں۔ انھوں نے اس کی شکایت نہیں کی لیکن دو ہفتے بعد وہ دوبارہ میل روم میں کام کر رہی تھیں۔

ایک سابق ایگزیکٹو کا کہنا ہے کامبز کے ریکارڈ لیبل میں فنکار اور دیگر ملازمین بعض اوقات ایسی خواتین کو سٹوڈیو میں لانے کی درخواست کرتے جن کے ساتھ وہ جنسی تعلقات قائم کر سکیں۔

ایوانز کہتے ہیں ’اگر خاتون میں سیکس کے حوالے سے کوئی خاص مہارت ہوتی تو انھیں بلوایا جاتا تھا۔‘ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس لیے اس بارے میں جانتے ہیں کیونکہ ان کے پاس بجٹ کا نظام تھا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ان خواتین کی فلائٹس اور دیگر اخراجات کے لیے رقم مختص کی جاتی تھی اور اسے سفر کے اخراجات کے طور پر درج کیا جاتا تھا۔

ایوانز کہتے ہیں کہ ’شاید یہ رقم ہزاروں ڈالرز میں ہوتی تھی۔۔ مجھے نہیں یاد کہ بہت زیادہ مرتبہ ایسا ہوا تھا لیکن یقینی طور پر اسے ریکارڈنگ کے خرچ میں درج کیا جاتا۔‘

ایوانز کا کہنا ہے کہ کامبز کی پرسنل درخواستیں ان کے پرسنل اسسٹنٹس کے ذریعے پوری کی جاتی تھیں۔ ان میں سے ایک نے بی بی سی کو بتایا کہ کامبز اکثر انھیں ایسی خواتین کے فلائٹ ٹکٹس خریدنے کے لیے کہتے تھے جن کے ساتھ وہ فلرٹ کر رہے ہوتے تھے۔ وہ انھیں ہوٹلوں میں ٹھہراتے تھے تاہم اسسٹنٹ کے مطابق وہ سیکس ورکر نہیں تھیں۔

2000 کی دہائی میں ڈڈی ہاؤس ریکارڈنگ سٹوڈیو مزید تبدیل ہو گیا۔۔ دو سابق ملازمین کا کہنا ہے کہ وہاں ’سیکس، منشیات اور راک اینڈ رول‘ کی ثقافت قائم ہو گئی۔

ان کے مطابق کامبز باقاعدگی سے وہاں باہر سے پارٹی کے لیے خواتین کو لاتے تھے۔ وہ درجنوں افراد کے قافلے میںتین سفید جیپوں میں آتے جن کے سفید رم اور سفید لیدر کی سیٹیں ہوتی تھیں۔

دیگر فنکار ووڈکا کی بوتلوں سے بھرے سوٹ کیس منگواتے اور ایک تو سیشن میں بندر بھی لے آیا۔

یہ وہی سٹوڈیو ہے جہاں بعد میں کئی خواتین نے کامبز پر انھیں نشہ دے کر ریپ کرنے کا الزام لگایا۔ ماڈل کرسٹل مک کینی کا الزام ہے کہ 2003 میں کامبز نے انھیں شراب اور بھنگ پلائی اور پھر ان کا ریپ کیا۔ اسی سال ایک اور خاتون نے دعویٰ کیا کہ جس وقت وہ محض 17 برس کی تھیں، کامبز اور ان کے دو ساتھیوں نے سٹوڈیو میں ان کا اجتماعی ریپ کیا۔

کامبز کے وکلا کا کہنا ہے کہ مک کینی کے الزامات ’بے بنیاد‘ ہیں اور وہ ’اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا انتظار کر رہے ہیں۔

سیکس ٹریفیکنگ کی تحقیقیات کے لیے گذشتہ برس میامی میں اس گھر سمیت کامبز کے دیگر گھروں پر چھاپہ مارا گیا تھا
Getty Images
سیکس ٹریفیکنگ کی تحقیقیات کے لیے گذشتہ برس میامی میں اس گھر سمیت کامبز کے دیگر گھروں پر چھاپہ مارا گیا تھا

بہت سے سابق ملازمین کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی ان الزامات کو اس شخص کے ساتھ جوڑنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔

جیفری واکر جو کامبز کے قریبی دوست اور بیڈ بوائے کی اصل پروڈکشن ٹیم کے رکن رہے ہیں، وہ کہتے ہیں ’ہمارے سرکل کے بہت سے دیگر لوگوں کی طرح میرے لیے بھی یہ الزامات حیرت کا باعث ہیں۔ میں وائٹ پارٹیز میں جا چکا ہوں اور سٹوڈیو سیشنز میں بھی۔۔۔ اور ان پر جو الزام لگایا گیا ہے میرے سامنے ویسا کچھ بھی نہیں ہوا۔‘

ایوانز بھی کچھ الزامات پر شکوک و شبہات رکھتے تھے جب تک انھوں نے 2016 میں لاس اینجلس کے ایک ہوٹل میں کامبز کی سابقہ پارٹنر اور سابقہ بیڈ بوائے آرٹسٹ کاسینڈرا وینٹیورا کو بری طرح پیٹنے کی فوٹیج نہیں دیکھی۔

وینٹیورا وہ پہلی شخصیت تھیں جنھوں نے نومبر 2023 میں کامبز کے خلاف مقدمہ دائر کیا۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ دونوں کے تعلقات کے دوران ڈڈی نے انھیں بدسلوکی، تشدد اور سیکس ٹریفیکنگ کے چکر میں پھنسا دیا تھا۔

اگلے ہی دن رقم (جس کے متعلق ہمیں معلومات نہیں ہیں) کے عوض دونوں نے تصفیہ کر لیا۔

سنہ 1997 میں ایک ملازم کو جان سے مارنے کی دھمکی کے بارے میں سوچتے ہوئے ایوانز کہتے ہیں کہ یہ پہلا موقع نہیں تھا جب میں نے ڈڈی کا غصہ دیکھا ہو۔۔۔ مگر کاسینڈرا والی فوٹیج کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ اسے دیکھنا مشکل ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ویڈیو میں جو شخص کیسی کے ساتھ ہے وہ بالکل ویسا ہی لگتا ہے جیسا وہ شخص تھا جس نے ملازم کو دھمکی دی تھی۔ اسے دیکھ کر آپ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کیا کچھ بدلا ہے؟‘

پف ڈڈی سے پی ڈڈی اور حالیہ برسوں میں ’لَو‘ تک۔۔۔ شان کامبز نے بارہا اپنا روپ بدلا۔

انھوں نے سنہ 2015 میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’اگر میں پاگلوں جیسا برتاؤ کر رہا ہوں تو وہ شخص ڈڈی ہے۔ اگر میں کسی لڑکی کے ساتھ بہت مزے سے رقص کر رہا ہوں تو وہ شخص پف ڈڈی ہے۔ اور اگر میں گھبرایا یا ڈرا ہوا یا شرمندہ ہوں تو وہ شان ہے۔‘

مئی میں جب وہ ٹرائل کا سامنا کریں گے تو مزید تفصیلات سامنے آ سکتی ہیں اور ایسے بہت سے لوگ جو ریپر کے قریب تھے وہ اس الجھن میں ہیں کہ کیا وہ اصلی شان کامبز کو جانتے تھے؟

جمی مینیس جو کامبز کے ساتھ نیو یارک کے ماؤنٹ ورنن میں پلے بڑھے، ان کا کہنا ہے کہ ’کوئی شخص یہ سوچ سکتا ہے کہ وہ برے انسان ہیں لیکن پف کے بارے میری یادداشت میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے۔‘

لیکن تھوڑی توقف کے بعد وہ کہتے ہیں ’شاید پیسہ لوگوں کو اپنی اصلیت دکھانے کی آزادی دیتا ہے ۔۔۔ اور وہ تمام وقت وہی شخص تھے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.