میں، سلمان رشدی اور آیت اللہ خمینی کا فتویٰ: ویلنٹائن کا وہ دن جس سے موت کی بُو آ رہی تھی

میں شاید پہلا شخص تھا جس نے تہران میں برطانوی مصنف سلمان رشدی کو قتل کرنے کے حوالے سے جاری ہونے والے فتوے کی اطلاع انھیں لندن میں اُن کے ادبی ایجنٹ کے ذریعے دی تھی۔ یہ سنہ 1989 تھا، ویلنٹائن ڈے، محبت کرنے والوں کا دن۔
کسرا ناجی سٹوڈیو میں
BBC

میں شاید پہلا شخص تھا جس نے تہران میں برطانوی مصنف سلمان رشدی کو قتل کرنے کے حوالے سے جاری ہونے والے فتوے کی اطلاع انھیں لندن میں اُن کے ادبی ایجنٹ کے ذریعے دی تھی۔ یہ سنہ 1989 تھا، ویلنٹائن ڈے، محبت کرنے والوں کا دن۔

اُس وقت میں بی بی سی فارسی ریڈیو میں بطور پروڈیوسر کام کر رہا تھا۔ ہمارا دفتر وسطی لندن میں 'بش ہاؤس' میں تھا اور میرے روزمرہ کے کاموں میں سے ایک کام ریڈیو ایران پر دو بجے کی خبریں سُننا تھا، جو وہاں موجود کمرے میں ایک چھوٹے سے سپیکر کے ذریعے نشر کی جاتی تھیں۔

اُس روز میں یہ سوچ تھا کہ آج میرا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ میں نے ویلنٹائن ڈے پر اپنی گرل فرینڈ کے لیے پھولوں کا آرڈر نہیں دیا تھا، اور اب جبکہ لندن میں صبح 10:30 بجے کا وقت ہو چکا تھا تو تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔لیکن اچانک ریڈیو اناؤنسر کی سخت آواز نے میری اس سوچ کو لگام دی۔

اناؤنسر نے خوفزدہ لہجے میں آیت اللہ خمینی کا فتویٰ سُنایا جس کا آغاز 'انا للہ و انا الیہ راجعون' سے ہوا تھا۔ اس فتوے میں کہا گیا کہ 'سٹینک ورسز' یعنی شیطانی آیات نامی کتاب کے مصنف اور اُس کے ناشرین کو موت کی سزا۔

فتوے میں کہا گیا کہ 'میں غیرت مند مسلمانوں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ (مصنف اور ناشرین) جہاں کہیں بھی پائے جائیں انھیں فوری طور پر مار دیا جائے تاکہ آئندہ کوئی اور مسلمانوں کے مقدسات کی توہین کرنے کی جرات نہ کر سکے۔۔۔'

اس فتوے کے ذریعے آیت اللہ خمینی نے ایرانی سرحد سے کئی ہزار کلومیٹر دور کسی دوسرے ملک کے ایک مصنف اور اس کے ناشر کو موت کی سزا سنائی تھی۔

میں نے فوری طور پر بی بی سی ورلڈ سروس کے نیوز روم کو اطلاع دی اور سلمان رشدی کے ایجنٹ سے بات کرنے کے لیے فوراً فون اٹھایا۔

میں 'سٹینک ورسز' کے مصنف کو تلاش کرنا چاہتا تھا اور اُن سے پوچھنا چاہتا تھا کہ وہ اس خبر پر کیا ردعمل ظاہر کریں گے، جس نے اچانک اُن کی زندگی کو ایک ڈراؤنے خواب میں بدل دیا تھا۔

اس وقت تک اس کتاب کو شائع ہوئے چند ماہ گزر چکے تھے اور اس دوران انڈیا، پاکستان اور برطانیہ کے بعض شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے تھے۔ بہت سے مسلمانوں نے اس کتاب کو توہین آمیز اور اسلام کے مقدسات کی توہین قرار دیا تھا۔

لیکن فتوی آنے کے دنتک ایران میں اس کتاب کے خلاف کسی احتجاج یا اس کی مخالفت کی خبر نہیں آئی تھی۔

برطانوی مصنف سلمان رشدی
Getty Images
برطانوی مصنف سلمان رشدی

ایرانی حکومت نے اس سے پہلے انقلابی رجحانات کی مخالفت کرنے پر ادیبوں اور دانشوروں سمیت ہزاروں افراد کو سزائے موت دی تھی۔ لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ خود آیت اللہ خمینی نے ذاتی طور پر کسی مصنف کو موت کی سزا سنائی اور وہ بھی ایک ایسے مصنف کو جو ایران کی سرحدوں سے باہر کہیں بیٹھا ہو۔

سلمان رشدی نے مجھے اس فتوے کے بارے میں ردِ عمل دینے کے لیے کبھی فون نہیں کیا۔ فتوے کی خبر سُن کر وہ فوراً روپوش ہو گئے اور بعد میں اپنی خفیہ زندگی کے بارے میں ایک کتاب لکھی۔

اُن کی کتاب کے ایک جاپانی مترجم ہیتوشی ایگاراشی کو سنہ 1991 میں چاقو کے وار کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔ اس کتاب کے اطالوی مترجم، ایٹور کیپریولو، کو بھی اُسی سال ایک حملہ آور کے چاقو کے متعدد وار کر کے شدید زخمی کیا تھا، لیکن وہ بچ گئے۔

فتوے کے اجرا کے بعد کے برسوں میں ایرانی سفارتکاروں نے اس فتوے کی اہمیت یہ کہتے ہوئے کم کرنے کی کوشش کی کہ یہ کسی کو سلمان رشدی کو قتل کرنے کا پابند نہیں کرتا لیکن دوسری جانب ایران کے کسی بھی سینیئر مذہبی رہنما نے اس فتوے کی مخالفت نہیں کی۔

ایران کے موجودہ رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے اُس وقت کہا تھا کہ آیت اللہ خمینی نے اس فتوے کے ذریعے وہ تیر چھوڑا ہے جو جلد یا بدیر اپنے نشانے پر لگے گا۔

سلمان رشدی پر ہوئے حالیہ حملے کا ٹرائل اِس وقت نیویارک میں جاری ہے اور اب تک اس کیس میں دو سماعتیں ہو چکی ہیں۔ ملزم ہادی ماطر نے سنہ 2022 میں سلمان رشدی پر چاقو سے حملہ کیا تھا۔

یہ حملہ 1989 کو ویلنٹائن ڈے کے دن آیت اللہ خمینی کی جانب سے چلائے گئے تیر کی تازہ مثال تھا۔

مقدمے کی سماعت کا احوال: ’مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں خون کے تالاب میں پڑا ہوں‘

ہادی ماطر خود پر لگائے گئے الزامات سے انکاری ہیں
Reuters
ملزم ہادی ماطر نے خود پر لگائے گئے الزامات سے انکار کرتے ہیں

سنہ 2022 میں سلمان رشدی پر ہوئے حملے کے مقدمے کی سماعت نیویارک میں جاری ہے اور گذشتہ روز اس مقدمے کی سماعت کے دوران سلمان رشدی نے عدالت کو بتایا تھا کہ دو سال قبل جب اُن پر چاقو سے حملہ کیا گیا تو انھیں لگا کہ وہ مرنے والے ہیں۔

سلمان رشدی پر یہ حالیہ حملہ اگست 2022 میں امریکی ریاست نیویارک کے ایک تعلیمی ادارے میں اُس وقت ہوا تھا جب وہ سٹیج پر موجود تھے اور سامعین کو ایک لیکچر دینے کی تیاری کر رہے تھے۔ اس حملے میں سلمان رشدی کا ایک ہاتھ مفلوج ہوا، اُن کے جگر کو نقصان پہنچا اور وہ ایک آنکھ کی بینائی سے محروم ہو گئے تھے۔

ملزم ہادی ماطر استغاثہ کی جانب سے خود پر لگائے گئے الزامات سے انکار کرتے ہیں۔

اس مقدمے کی سماعت نیو یارک کی جس عدالت میں جاری ہے وہ اُس مقام سے کچھ ہی میل دور واقع ہے جہاں سلمان رشدی پر حملہ ہوا تھا۔

رواں ہفتے منگل کے روز استغاثہ کی جانب سے سلمان رشدی کو پہلے گواہ کے طور پر کٹہرے میں بلایا گیا اور انھیں حملے سے قبل اور اس کے فوراً بعد کے لمحات کو یاد کرنے کا کہا گیا۔

77 سالہ مصنف نے جیوری کو بتایا تھا کہ حملے کے روز وہ شاٹوکوا انسٹیٹیوٹ میں ایک لیکچر دینے آئے تھے اور سٹیج پر بیٹھے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ جب سامعین سے اُن کا تعارف کروایا گیا تو اسی لمحے انھوں نے دیکھا کہ اُن کے دائیں جانب سے ایک شخص اُن کی طرف دوڑتا ہوا آ رہا ہے۔

اُن کے مطابق حملہ آور نے گہرے رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا اور چہرے پر ماسک لگایا ہوا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ جب انھوں نے حملہ آور کی آنکھوں میں دیکھا تو انھیں جھٹکا لگا۔ سلمان رشدی کا کہنا ہے کہ اُس شخص کی آنکھوں میں گہرائی اور غصہ تھا۔

سلمان رشدی نے بتایا کہ پہلا وار انھیں اپنے دائیں جبڑے اور گردن پر محسوس ہوا۔ اُن کا کہنا ہے کہ پہلے پہل انھیں لگا کہ شاید انھیں مکا مارا گیا ہے مگر پھر انھیں اپنے کپڑوں پر خون گِرتا دکھائی دیا۔

’اُس وقت وہ مجھ پر لگاتار وار کر رہا تھا، (چاقو) گھونپ رہا تھا اور کاٹ رہا تھا۔‘ اُن کا کہنا ہے کہ یہ سب محض چند سیکنڈز میں ہوا۔

برطانوی مصنف نے عدالت کو مزید بتایا کہ اُن پر کُل 15 وار کیے گئے جن سے ان کی آنکھ، گال، گردن، سینے، جسم کے اُوپری اور ران پر زخم آئے۔

انھوں نے بتایا کہ آنکھ پر لگنے والا چاقو کا وار سب سے تکلیف دہ تھا۔

ایک موقع پر انھوں نے اپنا چشمہ اُتارا، جس کے ایک رنگین شیشے سے اُن کی زخمی آنکھ چھپی ہوئی تھی، تاکہ لوگوں کو زخم کی نوعیت کا اندازہ ہو سکے۔

انھوں نے جیوری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں، بس یہی بچا ہے۔‘ انھوں نے بتایا کہ اس زخمی آنکھ سے انھیں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔

سلمان رشدی جب اپنا بیان قلمبند کروا رہے تھے تو اس دوران ملزم ہادی ماطر کا سر بیشتر ٹائم نیچے جھکا رہا اور دونوں نے ایک دوسرے سے آنکھیں نہیں ملائیں۔

سلمان رشدی جب خود پر ہونے والے حملے کی تفصیلات بتا رہے تھے تو دوسری صف میں بیٹھیں ان کی اہلیہ روتی نظر آئیں۔

سلمان رشدی نے سنہ 1981 میں اپنے ناول ’مڈ نائٹ چلڈرن‘ سے شہرت حاصل کی۔ اس ناول کی صرف برطانیہ میں دس لاکھ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوئی تھیں۔

تاہم اپنی چوتھی کتاب ’دی سٹینک ورسز‘ (شیطانی آیات) کی اشاعت کے بعد سے سلمان رشدی اپنی حفاظت کو لے کر کافی فکر مند ہیں۔

اس کتاب میں مذہب اسلام پر شدید تنقید کی گئی تھی اور اس میں درج تفصیلات کو گستاخانہ تصور کرتے ہوئے پاکستان سمیت بہت سے مسلم اکثریتی ممالک میں اس پر پابندی لگا دی تھی۔

ایران کے اُس وقت کے رہنما آیت اللہ روح اللہ خمینی نے ان کے قتل کا فتویٰ جاری کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے سر پر 30 لاکھ ڈالر کا انعام مقرر کیا تھا۔ یہ فتویٰ کبھی منسوخ نہیں ہوا۔ سلمان رشدی کی اس متنازع کتاب کے باعث مسلم دنیا میں فسادات پھوٹ پڑے تھے۔

نتیجتاِ ابتدا میں تقریباً ایک دہائی تک سلمان رشدی کو روپوش رہنا پڑا اور جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے کے باعث وہ مسلح محافظ کے پہرے میں رہتے رہے۔

سلمان رشدی کی کتاب ’دی سٹینک ورسز‘ (شیطانی آیات) میں مذہب اسلام پر شدید تنقید کی گئی تھی اور اس میں درج تفصیلات کو گستاخانہ تصور کرتے ہوئے پاکستان سمیت بہت سے مسلم اکثریتی ممالک میں اس پر پابندی لگا دی گئی تھی
Getty Images
سلمان رشدی کی کتاب 'دی سٹینک ورسز' (شیطانی آیات) میں مذہب اسلام پر شدید تنقید کی گئی تھی اور اس میں درج تفصیلات کو گستاخانہ تصور کرتے ہوئے پاکستان سمیت بہت سے مسلم اکثریتی ممالک میں اس پر پابندی لگا دی گئی تھی

حالیہ حملے سے محض دو ہفتے قبل سلمان رشدی نے ایک جرمن جریدے کو بتایا تھا کہ اب وہ نسبتاً نارمل زندگی گزارنے لگے ہیں کیونکہ ان کو لاحق خطرات اب کافی کم ہو چکے ہیں۔

لیکن 2022 میں نیو یارک میں ہونے والے اس حملے نے ان کے اس تاثر کو بالکل ختم کر دیا۔

انھوں نے عدالت کو بتایا کہ اس حملے کے فوراً بعد ’مجھے صاف محسوس ہوا کہ جیسے میں مر رہا ہوں۔‘

سلمان رشدی نے اُن لمحات کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں لگا جیسے وہ ’خون کے تالاب‘ میں پڑے ہوں۔

انھوں نے بتایا کہ آس پاس موجود لوگوں نے حملہ آور پر قابو پا لیا تھا۔ ’صرف اسی وجہ سے میں بچ گیا۔‘

انھوں نے عدالت کو بتایا کہ حملے کے بعد انھیں ایئر ایمبولنس میں ایک ٹراما سینٹر منتقل کیا گیا جہاں وہ اگلے 17 دنوں تک زیرِ علاج رہے۔

ملزم ماطر کو جائے وقوعہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔

دوران سماعت ملزم کے وکیل لن شیفر نے سلمان رشدی پر جرح کرتے ہوئے پوچھا کہ اُن پر ہونے والے حملے کی نوعیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کیا وہ اپنی یادداشت پر بھروسہ کر سکتے ہیں کہ اس روز کیا ہوا تھا۔

سلمان رشدی نے کہا کہ ایسے حادثات سے لوگوں کی یادداشت پر اثر ضرور پڑتا ہے لیکن انھیں اس بات کا یقین ہے کہ انھیں 15 زخم آئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ کسی کو انھیں بتانے کی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ وہ اپنے زخم دیکھ سکتے تھے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا حملے سے قبل کبھی ان کی ملزم سے ملاقات ہوئی تھی، تو سلمان رشدی کا کہنا تھا کہ وہ پہلے کبھی اس سے نہیں ملے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حملہ آور نے ان سے کچھ کہا بھی نہیں۔

آنے والے دنوں میں مزید گواہ عدالت کے سامنے پیش ہوں گے جن میں موقع پر پہنچنے والے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے علاوہ وہ سرجن بھی شامل ہیں جنھوں نے سلمان رشدی کا علاج کیا تھا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.