لیبیا، یونان، اٹلی جیسے ملکوں کے پاس سمندروں میں کسی کشتی کے ڈوبنے کی خبر آتی ہے تو مجھے وہ ہزارہ بھائی یاد آتا ہے۔ پھر دل کو دھڑکا سا رہتا ہے کہ اسی کشتی میں ہمارے پاکستانی بھائی اور غالباً پنجاب سے تعلق رکھنے والے نوجوان شامل ہوں گے۔
![تصویر](https://ichef.bbci.co.uk/news/raw/cpsprodpb/3c3d/live/69896e00-e9c8-11ef-9848-45d20a4a95ca.jpg)
چند سال پہلے انڈونیشیا کے قصبے بوگور میں کوئٹہ سے جان بچا کر بھاگنے والے ایک ہزارہ بھائی کے ساتھ شام گزاری۔
وہ کوئٹہ سے اپنی ساری زندگی کی کمائی خرچ کر کے اس لیے بھاگا تھا کہ وہاں موت یقینی تھی۔ اس کے سارے دوست ہزارہ برادری پر ہونے والے حملوں میں ہلاک ہو چکے تھے۔ خاندان والوں میں جو بچ گئے تھے انھوں نے اسے اس لیے بھیجا تھا تاکہ خاندان کا نام چلتا رہے اور اگر قسمت اچھی ہوئی تو ہو سکتا ہے کہ کہیں سیاسی پناہ لے کر کچھ مزید رشتے داروں کو بھی بُلا سکے۔
ہمارا ہزارہ بھائی بوگور میں اُس جہاز کے انتظار میں تھا جو اسے غیر قانونی طور پر آسٹریلیا لے کر جائے گا اور وہ نئی زندگی شروع کرے گا۔ سمندر طوفانی تھا، اس میں شارک مچھلیاں بھی تھیں، اس کے کئی دوست رستے میں مارے بھی جا چکے تھے لیکن وہ مُصر تھا کہ اسی جہاز پر ضرور سفر کرے گا کیونکہ اس کو یقین تھا کہ اگر واپس کوئٹہ گیا تو کسی دھماکے میں، کسی فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ میں مارا جائے گا۔
’کوئٹہ میں کتے کی موت مارے جانے سے بہتر ہے میں سمندر میں مچھلیوں کی خوراک بن جاؤں‘، اُس نے مجھے کہا۔
لیبیا، یونان، اٹلی جیسے ملکوں کے پاس سمندروں میں کسی کشتی کے ڈوبنے کی خبر آتی ہے تو مجھے وہ ہزارہ بھائی یاد آتا ہے۔ پھر دل کو دھڑکا سا رہتا ہے کہ اسی کشتی میں ہمارے پاکستانی بھائی اور غالباً پنجاب سے تعلق رکھنے والے نوجوان شامل ہوں گے۔ پنجاب میں بھی اُن ضلعوں کے جو نسبتاً خوشحال ہیں، پرامن ہیں، جہاں گلی میں سنوکر کلب میں دھماکے میں درجنوں لوگ نہیں مارے جاتے۔
گجرات، جہلم، سرائے عالمگیر، چکوال جیسے علاقے جہاں زرعی زمین اب بھی سونا اُگلتی ہے، جہاں گاؤں میں بھی انگریزی میڈیم سکول موجود ہے، جہاں موٹرسائیکلوں پر نوجوان بڑی آزادی کے ساتھ ٹک ٹاک ویڈیو بناتے ہیں۔ چاہیں تو چند گھنٹے کے فاصلے پر لاہور، اسلام آباد جیسے جدید شہروں کے مزے بھی لے سکتے ہیں۔
کچھ پڑھ لکھ جائیں تو ہر طرح کی تعلیم کے لیے یونیورسٹیاں بھی موجود ہیں یعنی موت سے جان بچانے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالنا تو سمجھ میں آتا ہے، بہتر رزق، تھوڑی زیادہ آزادی کے لیے رسک لینا بھی انسانی فطرت ہے لیکن یورپ جانے کی خواہش میں مہینوں تک انسانی سمگلروں کا یرغمال بننے اور پھر انجان سمندروں میں ڈوب جانے والے ہمارے نوجوانوں کو نہ تو سیاسی یا ملکی دشمنوں کے ہاتھوں موت کا خدشہ ہے، نہ ہی وہ بھوکے مر رہے ہیں۔
یہ سفر شروع کرنے سے پہلے ہی آپ کے پاس پندرہ، بیس لاکھ روپیہ ہونا ضروری ہے چاہے وہ ایک بیگھہ زمین بیچ کر لائیں، یا ماں کا زیور بیچ کر۔ اگر آپ اتنے پیسے کا بندوبست کر سکتے ہیں تو یقیناً آپ آئندہ کچھ سال تک کم از کم اپنی روٹی اور موبائل ڈیٹا کا خرچہ اٹھا سکتے ہیں۔
![کشتی کا سفر](https://ichef.bbci.co.uk/news/raw/cpsprodpb/cd06/live/4f9ffb60-e943-11ef-a819-277e390a7a08.png)
میں اس طرح کے پاکستانی نوجوانوں کے کشتیوں میں ڈوبنے کے واقعات کم از کم پچیس سال سے دیکھ رہا ہوں۔ ایک دو سانحوں کو یونان اور اٹلی میں جا کر رپورٹ بھی کیا ہے۔ بچ جانے والے نوجوان ان خوفناک حادثوں سے گزر کر زاروقطار روتے بھی تھے لیکن ساتھ یہ بھی بتا دیتے تھے کہ ایک بار تو چانس اور لیں گے۔ پہلے میں سمجھتا رہا کہ جان خطرے میں ڈالنا دنیا کے ہر نوجوان کا خاصہ ہے، گاؤں سے بھاگنے کا خواب بہت قدیم ہے۔
ماؤنٹ ایورسٹ پر لوگ کیوں چڑھتے ہیں، بپھرے سمندروں میں کشتیاں کیوں چلاتے ہیں، فجر کے وقت اٹھ کر کھیتوں میں نیزہ پھینکنے کی مشق کیوں کرتے ہیں۔ شاید گجرات، جہلم کے دیہاتوں سے یورپ جانے والے یہ جوان صرف یورو کمانے نہ جا رہے ہوں، روم، ایتھنز اور پیرس دیکھنے جا رہے ہوں جنھیں انھوں نے صرف اپنے موبائل فون کی سکرین پر دیکھ رکھا ہے لیکن اب ہر چند ہفتے بعد کشتی ڈوبتی ہے، ہر مہینے مچھلیوں کی خوراک بن جانے والوں کے ناموں کی فہرست چھپتی ہے۔ بچ جانے والوں کے انٹرویو دکھائے جاتے ہیں لیکن اس سفر پر نکلنے والوں کے جذبے میں کوئی کمی نہیں آتی۔
شاید یہ نہ کوئی ایڈوینچر ہے، نہ کسی بہتر مستقبل کی تلاش ہے۔ نوجوان جمع پونجی کا حساب کرتے ہیں، پھر اپنے آگے انتظار کرتی طویل عمر کی مایوسی اور بوریت دیکھتے ہیں اور یہ جوا کھیلنے کا فیصلہ کرتے ہیں کہ انجان سمندروں کے سفر پر نکلا جائے، اگر کسی منزل پر پہنچ گئے تو ٹھیک ورنہ ایسی زندگی سے تو سمندری مچھلیوں کی خوراک بن جانا بہتر ہے۔