آرمی چیف نے عمران خان کے ’خطوط نہ پڑھ کر‘ سابق وزیراعظم اور ان کی جماعت کو کیا پیغام دیا؟

پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے وضاحت کی ہے کہ انھیں اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے کوئی خط نہیں ملا ہے۔

پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے صحافیوں سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ انھیں اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے لکھے گئے خطوط میں سے کوئی خط نہیں ملا ہے۔

یاد رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے ’ایکس‘ اکاؤنٹ پر اب تک آرمی چیف کے نام لکھے گئے تین ’کُھلے خط‘ شائع کیے جا چکے ہیں جن میں اسٹیبلشمنٹ سے اپنی پالیسی تبدیل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ موجودہ پالیسی کے باعث ’عوام میں فوج کے خلاف نفرت بہت بڑھ گئی ہے۔‘

پاکستان کی بری فوج کے سربراہ کے نام جیل میں لکھے گئے ان طویل کُھلے خطوط میں مبینہ انتخابی دھاندلی، جیل میں عمران خان سے روا رکھے گئے رویے اور انسانی حقوق کی صورتحال سمیت بہت سے امور پر بات کی گئی ہے۔

جمعرات کو اسلام آباد میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے اعزاز میں دیے گئے ظہرانے میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران جنرل عاصم منیر سے اس حوالے سے سوال کیا گیا تھا۔

اس ظہرانے میں شریک مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈر اور سینیٹر عرفان صدیقی اور صحافی عاصمہ شیرازی کے مطابق اس سوال کے جواب میں آرمی چیف جنرل نے کہا کہ ’مجھے کسی کا کوئی خط نہیں ملا اور اگر کوئی خط ملا بھی تو وزیراعظم کو بھجوا دوں گا۔‘

آرمی چیف کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان آگے بڑھ رہا ہے، پاکستان میں ترقی ہو رہی ہے اور پاکستان کو مزید آگے بڑھنا ہے۔‘

خیال رہے کہ عمران خان کے وکلا اور تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کے مطابق آرمی چیف کے نام تین فروری، آٹھ فروری اور 13 فروری کو عمران خان کی جانب سے تین ’کھلے‘ خطوط تحریر کیے گئے ہیں۔

سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی اِن خطوط کی تفصیلات کے مطابق عمران خان نے دعویٰ کیا کہ ’مجھے موت کی چکی میں رکھا گیا ہے‘ اور یہ کہ ’میرے سارے کیسز کے فیصلے دباؤ کے ذریعے دلوائے جا رہے ہیں۔‘

دوسری طرف حکومتی رہنماؤں نے بارہا عمران خان کے اِن الزامات کی تردید کی ہے۔

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کیا کہا؟

اس ظہرانے میں موجود صحافی عاصمہ شیرازی نے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے آرمی چیف سے یہ سوال پوچھا کہ آج کل آپ کو بہت خطوط آ رہے ہیں، ان پر آپ کا کیا جواب ہے؟‘

اُن کے مطابق اِس پر آرمی چیف نے انھیں جواب دیا کہ ’جو خطوط آ رہے ہیں، وہ مجھے تو نہیں مل رہے۔ وہ خط اگر ملے بھی تو میں ان کو پڑھوں گا نہیں۔ یہ خط میڈیا آپٹکس ہیں، ان کا کوئی مقصد نہیں ہوتا۔ یہ صرف توجہ حاصل کرنے کے لیے لکھے جاتے ہیں۔ اگر کوئی خط لکھے گئے ہیں تو میں ان خطوط کو نہیں پڑھتا۔‘

عاصمہ شیرازی کے مطابق وہاں موجود ایک دوسرے صحافی کے سوال پر آرمی چیف نے کہا کہ اگر انھیں خط ’ملا تو میں اسے نہیں پڑھوں گا بلکہ وزیرِ اعظم کو بغیر پڑھے ارسال کر دوں گا۔‘

اس ظہرانے پر ن لیگ کے سینیٹر عرفان صدیقی بھی موجود تھے اور ان کے مطابق جب آرمی چیف کی صحافیوں سے یہ گفتگو ہو رہی تھی تو وہ وہاں موجود تھے۔

سینیٹر عرفان صدیقی نے پارلیمنٹ کے باہر صحافیوں کو بتایا کہ اس موقع پر کھانے کے وقت آرمی چیف اور کچھ سینیئر صحافی وہاں موجود تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’چیف صاحب سے یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا آپ کو خطوط آئے ہیں۔ انھوں نے کہا مجھے کوئی خط نہیں ملا۔ یہ گفتگو میرے سامنے ہوئی۔ پھر سوال ہوا کہ اگر کوئی خط ملا تو کیا کریں گے۔‘

’اس پر انھوں نے کہا مجھے کوئی خط ملے گا تو وزیر اعظم کو بھیج دوں گا۔‘

کُھلا خط کیا ہوتا ہے اور آرمی چیف کے جواب کا پی ٹی آئی کے لیے کیا مطلب ہے؟

کیمبرج ڈکشنری کے مطابق ایک اوپن لیٹر سے مراد یہی ہوتا ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ لوگ پڑھیں، نہ صرف وہ شخص جسے مخاطب کیا گیا ہو۔ شاید اسی لیے آرمی چیف کی یہ گفتگو میڈیا پر سامنے آنے کے بعد تحریک انصاف نے ایکس اکاؤنٹ پر ایک پیغام میں طنز کیا کہ ’یہ ایک ’اوپن لیٹر‘ ہے یعنی ڈاکیے کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں!‘

پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما بیرسٹر علی ظفر نے عمران خان کے خطوط کے حوالے سے پارلیمان کے باہر رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اوپن لیٹرز میں ’آپ نشاندہی کرتے ہیں اور نصیحت کر دیتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ اس پر عمل ہو گا، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کوئی جواب چاہتے ہیں۔ (عمران خان نے آرمی چیف کو) تیسرا (خط) لکھ دیا ہے، ہو سکتا ہے چوتھا بھی لکھ دیں۔‘

بی بی سی اُردو سے گفتگو کرتے ہوئے صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ عمران خان کے خطوط پر آرمی چیف کا جواب کسی عام پاکستانی کے لیے ’ناقابل یقین‘ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ظاہر ہے عمران خان نے یہ خطوط کسی پوسٹ آفس کے ذریعے نہیں بھیجے بلکہ سوشل میڈیا پر شیئر کیے ہیں تو جنرل عاصم منیر کی یہ بات مانی جا سکتی ہے کہ انھیں یہ خطوط موصول نہیں ہوئے۔

مگر حامد میر کی رائے میں آرمی چیف کا یہ کہنا کہ انھوں نے خط نہیں پڑھے، یہ ماننا مشکل ہے۔

صحافی عاصمہ شیرازی نے اس معاملے پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف نے اپنے بیان کے ذریعے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ ’کسی سیاسی رہنما کے ساتھ ایسی بات چیت نہیں کریں گے جو ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہو۔‘

وہ کہتی ہیں کہ آرمی چیف نے ’گیمیکس‘ اور ’میڈیا آپٹکس‘ کی بات کی یعنی بظاہر وہ سمجھتے ہیں کہ ’عمران خان جو بات چیت کر رہے ہیں وہ کس بنیاد پر ہے اور اس کے پیچھے کیا معاملات ہیں۔‘

خیال رہے کہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق 12 فروری کو طلبا سے ایک ملاقات کے دوران جنرل عاصم منیر نے کہا تھا کہ ’ملک دشمن عناصر کی فوج اور عوام میں خلیج ڈالنے کی کوشش ہمیشہ ناکام رہے گی۔‘

سینیٹر عرفان صدیقی نے پارلیمنٹ کے باہر صحافیوں کو بتایا کہ ’مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان جنھیں خط لکھ رہے ہیں، وہ نہ پڑھنا چاہتے ہیں اور نہ ان کا جواب دینا چاہتے ہیں۔‘

’یہ ایک بے کار کی مشق ہے۔‘

دوسری جانب پارلیمان میں اس بارے میں رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے جے یو آئی (ف) کے رہنما سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ’اصولاً تو میں آرمی چیف کو خط لکھنے کے خلاف ہوں۔ ایک طرف آپ کہہ رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آپ کی جدوجہد ہے اور دوسری طرف آپ انھیں خط لکھ رہے ہیں۔ خط لکھنا میرے نزدیک غیر مناسب ہے ان کا کام نہیں ہے، آپ نے خط لکھنا ہے تو آپ شہباز شریف صاحب کو لکھیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.