جب سمندر کے اندر ایک دیو ہیکل وہیل نے ادریان سیمانکاس کو نگلا تو جو پہلی چیز انھوں نے محسوس کی وہ تھوک (لعاب) کا ملغوبہ تھا۔ 23 سالہ ادریان سیمانکاس نے اپنی زندگی کے ناقابل فراموش لمحات بی بی سی کو بتائے ہیں
جب سمندر کے اندر ایک دیو ہیکل وہیل نے ادریان سیمانکاس کو نگلا تو جو پہلی چیز انھوں نے محسوس کی وہ تھوک (لعاب) کا ملغوبہ تھا۔
23 سالہ ادریان سیمانکاس نے اپنی زندگی کے ناقابل فراموش لمحات سے متعلق بی بی سی کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’مجھے یہ سمجھنے میں ایک سیکنڈ لگا کہ میں کسی ایسی چیز کے منھ میں ہوں جو کوئی قاتل وہیل یا اسی سے ملتا جلتا سمندری عفریت ہو سکتا ہےاور شاید اسی نے مجھے نگل لیا ہے۔‘
ادریان نے سوچنا شروع کر دیا تھا کہ وہ کس طرح وہیل کے اندر زندہ رہ سکتے ہیں لیکن پھر اسی وقت وہیل نے انھیں باہر تھوک دیا۔
وینزویلا سے تعلق رکھنے والے ادریان اپنے والد کے ساتھ چلی کے پیٹاگونین ساحل کے قریب آبنائے میجیلن میں چپو والی کشتی چلا رہے تھے کہ اچانک انھیں محسوس ہوا کہ انھیں زوردار دھکا لگا ہے۔
’کسی چیز نے مجھے پیچھے سے مارا اور سمیٹ کر اپنے اندر کھینچ لیا۔ میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور جب دوبارہ کھولیں تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ میں وہیل کے منھ کے اندر ہوں۔‘
انھوں نے بتایا کہ وہ صرف گہری نیلی اور سفید سی جھلملاہٹ دیکھ رہے تھے ’مجھے اپنے چہرے پر بے تحاشا تھوک کی چیچپاہٹ محسوس ہوئی۔‘
’مجھے سوچنا پڑا کہ اگر اس نے مجھے مکمل طور پر نگل لیا تو میں کیا کر سکتا ہوں کیونکہ اب میں اس کے خلاف لڑ نہیں سکتا تھا۔ اب مجھے اگلے قدم کے بارے میں سوچنا تھا۔‘
تاہم چند ہی لمحوں میں ادریان نے محسوس کیا کہ وہ اوپری سطح کی طرف جا رہے ہیں۔
ادریان کے والد ڈل اپنے بیٹے سے محض چند میٹر کے فاصلے پر تھے۔ ڈل نے ان مختصر مگر خوفناک لمحات کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لیا۔
چند ہی لمحوں میں مجھ پر خوف طاری ہو گیا کہ آیا میں اپنی سانس روک پاؤں گا یا نہیں کیونکہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ میں پانی میں کتنی گہرائی میں ہوں اور مجھے لگا جیسے سطح پر آنے میں مجھے کافی وقت لگے گا۔
’میں دو سیکنڈ کے لیے اوپر گیا اور آخرکار جب میں سطح پر پہنچا تو مجھے احساس ہوا کہ اس نے مجھے نگلا نہیں تھا۔‘
قریب ہی ایک اور کشتی میں ادریان کے والد ڈل سیمانکاس اس منظر کو دیکھتے ہوئے بے یقینی کے عالم میں تھے۔
یہ دونوں چلی کے جنوبی ترین شہر پنٹا آریناس کے ساحل سے پرے واقع ایگل بے عبور کر چکے تھے جب ڈل نے اپنے پیچھے ایک زوردار آواز سنی۔
’جب میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ادریان نظر نہیں آیا۔‘
49 سالہ ڈل نے اپنے تاثرات بتاتے ہوئے کہا کہ ’میں ایک لمحے کے لیے پریشان ہو گیا یہاں تک کہ میں نے اسے سمندر سے باہر آتے نہ دیکھ لیا۔‘
پھر میں نے ایک چیز دیکھی اور بہت بڑا جسم جسے دیکھتے ہی میں فوراً سمجھ گیا کہ وہ وہیل ہے کیونکہ وہ بہت بڑا تھا۔‘
ڈل نے اپنی کشتی کے پچھلے حصے پر ابھرتی ہوئی لہروں کو ریکارڈ کرنے کے لیے ایک کیمرہ نصب کر رکھا تھا اور اسی کیمرے نے اس کے بیٹے کے ان ناقابل فراموش لمحات کو محفوظ کر لیا۔
جب ادریان نے اس ویڈیو کو دوبارہ دیکھا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہیل حقیقت میں کتنی بڑی تھی۔
ادریان سات سال قبل اپنے والد کے ساتھ وینزویلا سے چلی منتقل ہوئے تھے تاکہ بہتر زندگی گزار سکیں۔
’میں نے وہ لمحہ نہیں دیکھا تھا جب اس کی پشت اور پنکھ نمودار ہوئے تھے۔ میں نے صرف اس کی آواز سنی تھی۔ وہ آواز سن کر میں گھبرا گیا تھا۔‘
’لیکن بعد میں جب میں نے ویڈیو دیکھی تو مجھے احساس ہوا کہ وہ میرے سامنے اس قدر بڑی شکل میں ظاہر ہوئی تھی کہ شاید اگر میں نے اسے دیکھ لیا ہوتا تو میں اور بھی زیادہ خوفزدہ ہو جاتا۔‘
’سالم جسم نگلنا ناممکن ہے‘
ادریان کے لیے یہ تجربہ محض بقا کی جدوجہد نہیں تھا بلکہ ان کے مطابق جب وہیل نے انھیں باہر اُگل دیا تو وہ ان کے لیے گویا جینے کا دوسرا موقع تھا۔
انھوں نے بتایا کہ ’ یہ دنیا کے منفرد تجربات میں سے ایک ہے جس نے مجھے اس بات پر غور کرنے پر مجبور کیا کہ میں کیا بہتر کر سکتا تھائ اب اس تجربے سے کس طرح فائدہ اٹھا سکتا ہوں اور اس کی قدر کر سکتا ہوں۔‘
تاہم برازیل سی تعلق رکھنے والے ایک ماحولیاتی ماہر روچڈ جیکبسن سیبا کے مطابق ادریان کے وہیل کے منھ سے بچنے کی ایک سادہ سی وجہ تھی۔
روچڈ جیکبسن نے بی بی سی کو بتایا کہ ہمپ بیک وہیلز کے گلے بہت تنگ ہوتے ہیں، تقریباً گھریلواستعمال میں آنے والے ایک پائپ جتنےاور ان سے بآسانی صرف چھوٹی مچھلیاں اور جھینگے نگلے جا سکتے ہیں۔
’یہ بڑے اجسام جیسے کشتی، ٹائر یا یہاں تک کہ ٹونا جیسی بڑی مچھلیاں نگل ہی نہیں سکتیں۔ اس لیے بالآخر وہیل نے انھیں اُگل دیا کیونکہ انھیں سالم نگلنا وہیل کے لیے ممکن نہیں تھا۔‘
روچڈ جیکبسن کا کہنا ہے کہ غالباً وہیل نے غلطی سے ادریان کو اپنے منھ میں لے لیا تھا۔
’ممکنہ طور پر وہیل ایک مچھلیوں کے جھنڈ کو کھا رہی تھی جب اس نے غیر ارادی طور پر ادریان کو بھی اپنے شکار کے ساتھ نگلنے کی کوشش کی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’جب وہیل کھانے کے دوران بہت تیزی سے سطح پر آتی ہیں تو وہ غلطی سے اپنے راستے میں آنے والی چیزوں سے ٹکرا سکتی ہیں یا انھیں نگل سکتی ہیں۔‘
انھوں نے خبردار کیا کہ یہ واقعہ ’ایک اہم یاد دہانی‘ ہے کہ ان علاقوں میں جہاں وہیلز عام طور پر تیرتی ہیں، پیڈل بورڈز، سرف بورڈز یا دیگر بے آواز کشتیاں استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
انھوں نے مزید کہا کہ وہیل دیکھنے اور تحقیق کے لیے استعمال ہونے والی کشتیوں کے انجن ہمیشہ چلتے رہنے چاہییں کیونکہ ان کی آواز وہیلز کو اپنی موجودگی کا احساس دلانے میں مدد دیتی ہے۔-