ٹرمپ پوتن سے سعودی عرب میں کیوں ملنا چاہتے ہیں؟

یہ بات تو سب لوگ جانتے ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یوکرین جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے وہ اپنے روسی ہم منصب سے سعودی عرب میں ملنا چاہیں گے، یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا۔
ٹرمپ سعودی عرب کے شہزادہ ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ
BBC
ٹرمپ سعودی عرب کے شہزادہ ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ

یہ بات تو سب لوگ جانتے ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یوکرین جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے وہ اپنے روسی ہم منصب سے سعودی عرب میں ملنا چاہیں گے، یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا۔

انھوں نے روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کے خاتمے کے لیے اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوتن سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم شاید پہلی بار سعودی عرب میں ملاقات کریں گے۔'

اگرچہ ٹرمپ نے تاریخ یا سعودی عرب میں وہ کہاں ملاقات کریں گے، کی وضاحت نہیں کی لیکن انھوں نے کہا کہ ایسا مستقبل قریب میں ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان بھی اس ملاقات میں شرکت کریں گے۔

ٹرمپ کا یہ بیان روسی صدر پوتن اور یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ الگ الگ فون کالز کے چند گھنٹے بعد سامنے آیا جس میں انھوں نے دونوں صدور سے امن کے امکانات پر بات کی تھی۔

اس اعلان کے چند گھنٹوں بعد روس کی سرکاری نیوز ایجنسی تاس نے کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف کے حوالے سے کہا کہ روس اور امریکہ کے سربراہی اجلاس کی تیاریوں میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں، لیکن دونوں فریقوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ سعودی دارالحکومت ریاض ملاقات کے لیے 'مناسب جگہ' ہو سکتی ہے۔

ٹرمپ-پوتن کے درمیان فون پر ہونے والی بات چیت اور سعودی عرب میں ان کے درمیان سربراہی اجلاس کے ممکنہ انعقاد کے اعلان کا سعودی وزارت خارجہ نے خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ روس اور یوکرین کے درمیان پائیدار امن کے حصول کے لیے ان کی مسلسل کوششوں کا نتیجہ ہے۔

وزارت خارجہ نے مجوزہ ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس سے قبل ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے روس-یوکرین بحران کے سیاسی حل تک پہنچنے کے لیے اپنی کوششوں اور مملکت کی تیاری کا اظہار کیا تھا۔

امریکی صدر ٹرمپ یوکرین کی جنگ کا جلد از جلد خاتمہ چاہتے ہیں
BBC
امریکی صدر ٹرمپ یوکرین کی جنگ کا جلد از جلد خاتمہ چاہتے ہیں

سعودی عرب ہی کیوں؟

ٹرمپ اور پوتن اس سے قبل جی 20 سربراہی اجلاس کے موقع پر فن لینڈ کے دارالحکومت ہیلسنکی اور جاپان کے شہر اوساکا میں روبرو ہو چکے ہیں۔ اس سے قبل چین اور متحدہ عرب امارات سمیت دوسرے کئی ممالک نے خود کو ٹرمپ اور پوتن کے درمیان مذاکرات کے ممکنہ مقامات کے طور پر پیش کیا ہے۔

واشنگٹن میں مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے نائب صدر پال سیلم کا کہنا ہے کہ 'ٹرمپ-پوتن ملاقات کے لیے سعودی عرب کا انتخاب اس کا غیر جانبدار ہونا ہے۔'

سیلم نے بی بی سی عربی کو انٹرویو دیتے ہوئے مزید کہا کہ یہ معاملہ مغربی یورپ میں ممکن نہیں کیونکہ ان کا یوکرین کے حق میں سخت موقف رہا ہے۔

دوسری جانب پروفیسر ڈاکٹر خطر ابو دیاب بتاتے ہیں کہ اس قسم کی ملاقاتوں کے لیے عموماً جنیوا یا دیگر غیر جانبدار یورپی شہروں کا انتخاب کیا جاتا تھا لیکن سوئٹزرلینڈ کے ساتھ ماسکو کے تعلقات کی خرابی اور بعض یورپی ممالک کے بدلتے ہوئے موقف نے سعودی عرب کے انتخاب کو زیادہ ممکن بنایا ہے۔'

انھوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب پوتن کے ساتھ اعتماد کا رشتہ بنانے میں کامیاب ہوا ہے اور اس کے علاوہ وہ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ (آئی سی سی) کا رکن بھی نہیں ہے۔

سنہ 2023 میں بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے یوکرین میں جنگ کے سلسلے میں پوتن کے لیے گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا تھا اور انھیں جنگی جرائم کا ملزم ٹھہرایا تھا۔

روسی صدر پوتن نے جب سعودی عرب کا دورہ کیا تھا تو شہزادہ سلمان نے انھیں 'مہمان خصوصی اور سعودی حکومت اور عوام کے لیے بہت پیارے' شخص کے طور پر بیان کیا
BBC
روسی صدر پوتن نے جب سعودی عرب کا دورہ کیا تھا تو شہزادہ سلمان نے انھیں 'مہمان خصوصی اور سعودی حکومت اور عوام کے لیے بہت پیارے' شخص کے طور پر بیان کیا

ثالث کا کردار

مبصرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب گذشتہ برسوں میں عالمی سفارت کاری میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر اپنی پوزیشن ثابت کرنے میں کامیاب رہا ہے اور حال ہی میں روس اور یوکرین کے درمیان قیدیوں کے تبادلے میں ثالثی کرنے میں بھی کامیاب رہا ہے جس سے اسے دونوں فریقوں کا اعتماد حاصل ہوا ہے۔

سعودی عرب کی کوششوں کے نتیجے میں روس نے تین سال سے زائد عرصے تک قید رہنے کے بعد امریکی استاد مارک فوگل کو رہا کرانے میں کامیابی حاصل کی اور مشرق وسطیٰ کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی سٹیو وٹ کوف کے مطابق سعودی ولی عہد نے ان کی رہائی میں فعال کردار ادا کیا۔

سعودی عرب نے کئی مواقع پر زیلنسکی اور پوتن دونوں کی میزبانی بھی کی اور دیر پا قیام امن کے حل تک پہنچنے کی کوشش میں اس نے جدہ شہر میں متعدد ممالک کے نمائندوں کے لیے ایک اجلاس کی میزبانی کی۔

دسمبر 2023 میں پوتن کے ریاض کے دورے کے دوران محمد بن سلمان نے انھیں 'مہمان خصوصی اور سعودی حکومت اور عوام کے لیے بہت پیارے' شخص کے طور پر بیان کیا۔

خلیجی ممالک اور مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر عبداللہ باعبود کا کہنا ہے کہ سلطنت عمان، قطر اور امارات کی طرح اب سعودی عرب بھی ثالث کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ انھوں نے بی بی سی نیوز عربی کو بتایا کہ وہ ایک اہم علاقائی ریاست کے طور پر اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنا چاہتا ہے۔

باعبود کی رائے میں ٹرمپ اور پوتن کی ملاقات کی میزبانی سے سعودی عرب کو سفارتی فائدہ ہو سکتا اور بدلے میں سعودی عرب امریکہ کے سٹریٹجک مفادات میں زیادہ تعاون کرے گا جیسے چار عرب ممالک اور اسرائیل کے تعلقات معمول پر لانے کے لیے ابراہم معاہدوں پر دستخط وغیرہ۔

واشنگٹن میں مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے نائب صدر پال سیلم کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اقتصادی اور سٹریٹیجک وجوہات کی بنا پر سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں اور وہ ایک دن امریکہ-سعودی-اسرائیل معاہدہ چاہتے ہیں۔

سٹریٹجک امور کے ماہر بریگیڈیئر جنرل حسن الشہری کا خیال ہے کہ ٹرمپ اور پوتن نے اپنی ملاقات کے لیے ریاض کا انتخاب اس لیے کیا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ تمام ممالک کے ساتھ متوازن تعلقات برقرار رکھنے کے لیے موزوں ترین جگہ ہے اور یہ کہ یہ ملک بہت سے علاقائی اور بین الاقوامی چیلنجز کے درمیان ایک 'مضبوط اور ایماندار سفارتی ثالث' کے طور پر ابھرا ہے۔

الشہری نے مزید کہا کہ سعودی عرب کو اس بات کا احساس ہے کہ سربراہی اجلاس کی کامیابی سے مسئلہ فلسطین سمیت دنیا بھر میں کشیدگی کے کئی محاذوں پر اثر پڑے گا کیونکہ یہ خطہ دو طاقتوں یعنی امریکہ اور روس کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔

دوسری جانب سٹریٹجک کمیونیکیشن اینڈ گورنمنٹ ریلیشنز کے پروفیسر ڈاکٹر نضال شقیر کا ماننا ہے کہ سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں ٹرمپ کی پالیسیوں کے لیے ایک اہم ملک ہے خاص طور پر جب مسئلہ فلسطین اور 'صدی کی ڈیل' کی بات کی جائے۔ وہ یہ ڈیل پاس کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کے آگے بڑھنے کی صورت میں عرب اور اسلامی دنیا پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

اس تناظر میں شقیر نے سعودی عرب پر حال ہی میں ڈالے گئے امریکی دباؤ غزہ کے لوگوں کو فلسطینی ریاست کے قیام کی صورت میں مملکت منتقل کرنے کے بارے میں اسرائیلی وزیر اعظم کے بیان اور اس کو مسترد کرنے والے سرکاری سعودی بیانات کی طرف اشارہ کیا۔

انھوں نے حالیہ امریکی دباؤ کی جانب اشارہ کیا خاص طور پر اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے غزہ کے باشندوں کو سعودی عرب منتقل کرنے کے بیان کے بعد، جسے ریاض نے سختی سے مسترد کر دیا ہے۔

تیل
Getty Images
امریکہ تیل کے معاملے میں سعودی عرب اور روس سے آگے ہے

سعودی عرب اور تیل

امریکہ دنیا کا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک ہے، اس کے بعد سعودی عرب اور روس آتے ہیں۔

عالمی توانائی کی منڈیوں پر روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے اثرات کے پیش نظر ماہرین نے نشاندہی کی کہ سعودی عرب نے تیل کی منڈیوں کے استحکام اور توازن کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔

عبداللہ باعبود کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور روس تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک کے طور پر ایک دوسرے کے مفادات کا پاس رکھتے ہیں، اور ان کے تعلقات نے اوپیک پلس اتحاد کے اندر کئی معاہدوں کو انجام دینے میں مدد کی ہے۔ وہ توقع کرتے ہیں کہ ٹرمپ-پوتن سربراہی ملاقات میں نہ صرف یوکرین جنگ کے خاتمے بلکہ تیل کی عالمی قیمتوں اور اقتصادی تعاون پر بھی توجہ مرکوز ہو گی۔

انھوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ امریکی توانائی کمپنیوں کے لیے تیل کی ترجیحی قیمتوں کو محفوظ بنانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اس سے پہلے وہ کم قیمتوں کا مطالبہ کر چکے ہیں۔

باعبود کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی پالیسی صاف قابل تجدید توانائی کی قیمت پر تیل نکالنے پر مرکوز ہے جو انھیں سب سے بڑے تیل پیدا کرنے والے ممالک میں سے ایک کے طور پر سعودی عرب کے قریب لاتی ہے۔

پوتن اور ٹرمپ
Reuters

سٹریٹیجک مفادات

عبداللہ باعبود بتاتے ہیں کہ ٹرمپ کا اپنی پہلی مدت کے دوران سنہ 2017 میں پہلا غیر ملکی دورہ سعودی عرب کا تھا، جس نے دیگر علاقائی ممالک کے ساتھ مقابلے کی روشنی میں مملکت کو اپنے عزائم کے مطابق سفارتی حیثیت دی۔

ٹرمپ پہلے ہی اشارہ دے چکے ہیں کہ ان کے دوسرے دور حکومت میں ان کا پہلا غیر ملکی دورہ دوبارہ سعودی عرب کا ہو سکتا ہے لیکن اس کے لیے انھوں نے ایک شرط رکھی ہے۔

انھوں نے جنوری میں وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'اگر سعودی عرب 450 یا 500 ارب ڈالر (کی ہماری مصنوعات) خریدنا چاہتا ہے تو میں وہاں جاؤں گا۔'

اس کے بعد سعودی ولی عہد نے انھیں فون کیا، مملکت کی طرف سے اگلے چار سالوں میں امریکہ کے ساتھ اپنی سرمایہ کاری اور تجارتی تعلقات کو 600 بلین ڈالر تک بڑھانے کی خواہش کی تصدیق کی گئی جبکہ اس میں اضافہ بھی متوقع ہے۔

لیکن ٹرمپ نے ڈاووس میں ورلڈ اکنامک فورم کے دوران کہا: 'میں ولی عہد شہزادہ سے کہوں گا، جو ایک شاندار شخص ہیں، کہ اس رقم کو تقریباً ایک کھرب ڈالر تک بڑھا دیں۔'

انھوں نے مزید کہا: 'مجھے لگتا ہے کہ وہ ایسا کریں گے کیونکہ ہمارے تعلقات ان کے ساتھ بہت اچھے رہے ہیں۔'

اس موضوع پر پروفیسر ندال شقیر کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے سرمایہ کاری کے ذریعے سعودی عرب کو سیاسی اور معاشی طور پر اپنا اہم سٹریٹجک پارٹنر منتخب کیا۔

وہ 'ٹرمپ کے دوسرے ورژن' کے حوالے سے سعودی احتیاط کے متعلق کہتے ہیں کہ مملکت خاص طور پر چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو ختم نہیں کرے گی لیکن ٹرمپ انتظامیہ سعودی عرب اور پورے خطے میں امریکہ کے اثر و رسوخ کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر خطار ابو دیاب بھی چین کے ساتھ مسابقت کے معاملے میں سعودی عرب پر صدر ٹرمپ کا دباؤ دیکھتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کو انسانی حقوق کے حوالے سے تنقید کا سامنا ہے اور یہ چیز مملکت کے لیے ایک چیلنج رہی ہے۔

دونوں ماہرین ماننا ہے کہ مملکت میں حالیہ اصلاحات جیسے مورال پولیس کا خاتمہ اور خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے سے سعودی عرب کا عالمی امیج بہتر ہوا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ جب بڑی طاقتوں کے مفادات کی بات آتی ہے تو انسانی حقوق سیاسی ہتھیار بن جاتے ہیں، یعنی جب سیاسی تعاون ہو تو یہ سیاسی ہتھیار ختم ہو جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں دباؤ بھی موجود نہیں رہتا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.