انسداد دہشتگردی عدالت نے کراچی سے لاپتہ اور قتل ہونے والے نوجوان مصطفیٰ عامر کے کیس میں مرکزی ملزم ارمغان قریشی کو چار روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا ہے۔

انسداد دہشتگردی عدالت نے کراچی سے لاپتہ اور قتل ہونے والے نوجوان مصطفیٰ عامر کے کیس میں مرکزی ملزم ارمغان قریشی کو چار روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا ہے۔
پولیس نے ملزم کے جسمانی ریمانڈ کے لیے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ اس سے قبل انتظامی جج نے پولیس کی درخواست مسترد کر کے ملزم کو جوڈیشل کسٹڈی میں جیل بھیج دیا تھا۔
تاہم سندھ ہائی کورٹ نے ملزم ارمغان کے پولیس ریمانڈ کی درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ملزم کو ریمانڈ کے لیے اسی روز انسداد دہشتگردی کی عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد اے ٹی سی نے ملزم کو ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا۔
دورانِ سماعت سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس ظفر راجپوت نے ریمارکس دیے کہ ریمانڈ آرڈر پر ہاتھ سے وائٹو لگا کر ’جیل کسٹدی‘ کیا گیا جبکہ پولیس ابھی تک لکھا ہوا ہے۔
صوبہ سندھ کے شہر کراچی کی پولیس کا کہنا ہے کہکراچی میں مصطفی عامر کے اغوا اور قتل کے الزام میں زیر حراست ملزم ارمغان کے گھر سے مصطفیٰ کے ساتھ ایک خاتون کا ڈی این اے بھی ملا ہے۔
بی بی سی کے پاس موجود ڈی این اے رپورٹ کے مطابق قالین سے ملنے والے ایک ڈی این اے کی میچنگ عامر مصطفیٰ کی والدہ وجیہہ عامر کے ڈی این اے سے کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ڈی این اے وجیہہ عامر کے بیٹے مصطفیٰ عامر کا ہے۔
قالین کے دو حصوں سے ملنے والے خون کے دہلوں سے ایک خاتون کا ڈی این اے بھی ملا۔ اس کیس کے تفتیشی افسر ایس ایس پی انیل حیدر نے بی بی سی کو تصدیق کی کہ ’ایک نامعلوم خاتون کا ڈی این اے ملا ہے، جس کی تلاش کی جارہی ہے۔‘
یاد رہے اس سے قبل پولیس نے بتایا تھا کہ جنوری میں لاپتہ ہونے والے 23 سالہ نوجوان مصطفیٰ عامر کی لاش بلوچستان سے ملی، جنھیں مبینہ طور پر اغوا کے بعد قتل کیا گیا تھا۔
گذشتہ ہفتے جمعے کے روز سی آئی اے کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) مقدس حیدر نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مصطفیٰ عامر کو ’تشدد کے بعد گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر بلوچستان کے علاقے حب منتقل کیا گیا۔ انھیں گاڑی سمیت آگ لگا کر قتل کیا گیا۔‘
ادھر فلاحی ادارے ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی کا کہنا تھا کہ 12 جنوری کو بلوچستان کے علاقے دہریجی سے ایک لاش ملی تھی جو پولیس کے بقول مصطفیٰ عامر کی تھی۔ فیصل ایدھی کہتے ہیں کہ 16 جنوری کو اس لاش کی تدفین کر دی گئی کیونکہ اس کی حالت ایسی نہیں تھی کہ اسے زیادہ دیر تک رکھا جاتا۔
انھوں نے بتایا کہ لاش مکمل جل چکی تھی۔ ’صرف دھڑ بچا تھا، باقی ہاتھ پاؤں بازو نہیں تھے۔‘ ان کا خیال ہے کہ لاش کی یہ حالت اس لیے ہوئی کیونکہ گاڑی کے پچھلے حصے میں فیول ٹینک اور پچھلے ٹائر دیر تک جلتے رہے ہوں گے۔
دوسری طرف مصطفیٰ عامر کی والدہ وجیہہ عامر نے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے انتظامی جج کے پاس قبر کشائی کے لیے درخواست دائر کی ہے۔ منتظم جج نے درخواست گزار کو متعلقہ مجسٹریٹ سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
جبکہ پولیس نے گرفتار ملزم شیراز کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ریمانڈ کے لیے پیش کیا۔ عدالت نے ملزم کو 21 فروری تک جمسانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا ہے۔
یاد رہے کہ مصطفیٰ عامر کیس کے مرکزی ملزم ارمغان اس وقت جیل میں ہیں۔ انسداد دہشت گردی کے انتظامی جج نے ان کا ریمانڈ نہیں دیا تھا۔ پولیس نے سنیچر کے روز سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور عدالت سے درخواست کی ہے کہ ان کو ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا جائے تاکہ تفتیش کی جا سکے۔

مصطفیٰ عامر رواں برس کے آغاز پر چھ جنوری کو کراچی کے علاقے ڈیفنس سے لاپتہ ہوئے تھے اور پولیس نے ان کی تلاش میں ان کے ایک دوست اور واقعے میں ملوث ملزم کے گھر پر چھاپہ مارا تھا۔
مصطفیٰ کی گمشدگی کا مقدمہ ان کی والدہ وجیہہ عامر کی مدعیت میں کراچی کے درخشاں تھانے میں درج کیا گیا تھا۔ اس مقدمے میں وجیہہ عامر نے موقف اختیار کیا تھا کہ ان کا بیٹا چھ جنوری شام ساڑھے سات بجے اپنی کار لے کر گھر سے نکلا تھا جو واپس نہیں آیا۔
وجیہہ عامر نے واقعے کی ایف آئی آر میں کہا تھا کہ انھوں نے اپنے طور پربیٹے کی تلاش اور معلومات حاصل کی لیکن کوئی پتہ نہیں چل سکا۔
ڈی آئی جی سی آئی اے مقدس حیدر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 25 جنوری کو مصطفیٰ عامر کی والدہ کو تاوان کی کال ایک امریکی نمبر والی سم سے موصول ہوئی جس کے بعد یہ مقدمہ اغوا برائے تاوان میں منتقل ہوا اور تحقیقات سی آئی اے کے پاس آئی۔
ڈی آئی جی سی آئی اے مقدس حیدر کا کہنا تھا کہ مصطفیٰ کے مبینہ قتل میں ملوث ملزم جسے گرفتار کیا گیا ہے وہ ان کا دوست ارمغان ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ 'ملزم نے ساتھی کے ساتھ مل کر گاڑی کو آگ لگائی تھی۔'
پولیس ملزمان تک کیسے پہنچی؟
ڈی آئی جی سی آئے اے مقدس حیدر نے بتایا کہ سی آئی اے پولیس نے آٹھ فروری کو کراچی کے علاقے ڈیفنس میں مصطفیٰ عامر کے دوست اور واقعے کے ملزم ارمغان کے گھر پر شک کی بنیاد پر چھاپا مارا۔ اس دوران پولیس پارٹی پر فائرنگ کی گئی اور اس کارروائی کے دوران ایک ڈی ایس پی سمیت دو اہلکار زخمی ہوئے تھے۔ تاہمپولیس ارمغان کو حراست میں لینے میں کامیاب ہو گئی تھی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں ملزم ارمغان کے گھر کے بکھرے ہوئے سامان سے مصطفیٰ عامر کا موبائل ملا جو مقدمے کی تفتیش میں اہم کڑی ثابت ہوا۔
ڈی آئی جی مقدس حیدر کے مطابق ’بدقسمتی یا خوش قسمتی سے یہ موبائل شاید ان کے درمیان مبینہ ہاتھا پائی کے دوران گر گیا تھا۔‘
پولیس کے مطابق ارمغان کے گھر کے قالین پر موجود خون کے دھبے سے ڈی این اے لیے گئے تھے جو سندھ فارنزک اینڈ سیرلوجی لیبارٹی کو بھیجے گئے۔
پولیس نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ کراچی میں مصطفی عامر کے اغوا اور مبینہ قتل کے الزام میں زیر حراست ملزم ارمغان کے گھر سے مصطفیٰ کے ساتھ ایک خاتون کا ڈی این اے بھی ملا ہے۔
بی بی سی کے پاس موجود ڈی این اے رپورٹ کے مطابق قالین سے ملنے والے ایک ڈی این اے کی میچنگ عامر مصطفیٰ کی والدہ وجیہہ عامر کے ڈی این اے سے کی گئی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ یہ ڈی این اے وجیہہ کے حقیقی بیٹے کا نہیں ہے۔
قالین کے دو حصوں سے ملنے والے خون کے دہلوں سے ایک خاتون کا ڈی این اے بھی ملا ہے۔ اس کیس کے تفتیشی افسر ایس ایس پی انیل حیدر نے بی بی سی کو تصدیق کی کہ ’ایک نامعلوم خاتون کا ڈی این اے ملا ہے، جس کی تلاش کی جارہی ہے۔‘
ایس ایس پی انیل حیدر نے یہ بھی بتایا کہ واقعے کے بعد ارمغان اور شیراز کراچی چھوڑ گئے تھے اور چند روز قبل ہی واپس لوٹے تھے۔
ڈی آئی جی مقدس حیدر کا کہنا تھا کہ ’مصطفی چھ جنوری کی شب ارمغان کے گھر آئے جہاں دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور بات لڑائی جھگڑے تک پہنچ گئی اور ملزم ارمغان نے طیش میں آ کر مصطفیٰ پر شدید تشدد کیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس مقدمے میں دوران تفتیش میں اب تک جو شواہد ملے ہیں ان کے مطابق مصطفیٰ پر شدید تشدد کے بعد انھیں اسی کی گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر بلوچستان کے علاقے حب میں دریجی تھانے کے قریب لے جایا گیا جہاں گاڑی سمیت اسے آگ لگا دی گئی۔'
مقدس حیدر کے مطابق اس واقعے میں گرفتار ملزم شیراز کے بیان کی تصدیق ارمغان کے دو ملازمین کے بیانات سے بھی ہوتی ہے جو اس وقت پولیس حراست میں ہیں۔
اس کے علاوہ سی آئی اے پولیس نے گاڑی کو حب لے جانے کے راستے کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کی جس میں گاڑی کی شناخت ہوئی۔ اس کے علاوہ دریجی تھانے میں ایک نامعلوم گاڑی جلنے کی ایف آئی آر پہلے سے درج تھی۔ بلوچستان پولیس نے لاش کو ایدھی کے حوالے کیا تھا جنھوں نے اس کو لاوارث سمجھ کر دفنا دیا تھا۔
ڈی آئی جی سی آئی اے مقدس حیدر نے بتایا کہ اس واقعے کی مزید تفتیش کے لیے قبر کشائی کرکے لاش کا ڈی این اے تجزیہ کیا جائے گا جس سے مزید تصدیق ممکن ہو سکے گی۔
فائل فوٹو ’مجھے پہلے ہی ارمغان پر شک تھا‘
مصطفیٰ عامر کی والدہ وجیہہ عامر کا کہنا ہے کہ انھیں ابتدا سے ہی ملزم ارمغان پر شک تھا۔
چند روز قبل پاکستان کے مقامی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام 'آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ' میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ چھ جنوری سے 22 جنوری تک کبھی کراچی کے علاقے درخشاں تھانے تو کبھی گذری تھانے کے چکر لگاتی رہیں کہ مصطفیٰ کے موبائل فون کا کال ڈیٹا نکلوائیں، اس کے پاس ایک انٹرنیٹ ڈیوائس اور ایک نوکیا فون ہے جو اس کی گاڑی میں رکھا جاتا ہے تاکہ اگر اس کے پاس انٹرنیٹ نہ بھی ہوں تو وہ رابطے میں رہے۔
انھوں نے پروگرام میں بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ پولیس انھیں کہتی تھی کہ 'مصطفیٰ خود کہیں چلا گیا ہے کیونکہ اس کی گاڑی بھی موجود نہیں اور اس کا فون بھی نان پی ٹی اے ہے۔ وہ ایسی باتیں کرکے مجھے چپ کرواتے رہے۔'
وجیہہ عامر کا کہنا تھا کہ وہ مصطفیٰ کے دوستوں سے رابطے کرتی تھیں تو انھیں کئی بار مصطفیٰ اور ارمغان کے درمیان تنازع کی اطلاعات ملتی رہیں۔ ان کے مطابق مصطفیٰ کے دوستوں نے بتایا کہ ارمغان ان کا دوست نہیں بلکہ دوستوں کے گروپ میں اٹھتا بیٹھتا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ 'مصطفیٰ کے لاپتا ہونے کے بعد اس کے باقی دوست آکر وضاحت دے چکے تھے مگر ارمغان کو میں جب کہتی تھی کہ آپ آؤ تو وہ کہتا میں نہیں آ سکتا۔ میں نے کہا کہ جب تک آپ مجھ سے آ کر ملو گے نہیں آپ میری نظروں میں مشکوک رہو گے جس پر وہ بہت غصہ ہو گیا اور اس نے مجھ سے بدتمیزی بھی کی۔
وجیہہ عامر کہتی ہیں کہ تاوان کے لیے امریکی نمبر والی سم سے آنے والی کال ان کے لیے نعمت ثابت ہوئی کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ یہاں کے مجرم کب سے اتنے ہائی ٹیک ہوگئے کہ غیر ملکی سم سے کالز کریں۔ اس کال کے بعد یہ کیس اینٹی وائلینٹ کرائم سیل کے پاس منتقل ہو گیا۔
مصطفیٰ کا قتل تاحال ایک معمہ
پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم ارمغان اور شیراز بچپن کے دوست ہیں اور پہلی جماعت سے لے کر ساتویں جماعت تک ایک ساتھ پڑھے ہیں۔ جبکہ مصطفیٰ عامر سے ان کی دوستی بعد میں ہوئی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اب تک حاصل کردہ معلومات اور تفتیش کے مطابق مصطفیٰ عامر کو قتل کرنے کی وجہ یا محرکات کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا ہے۔
ڈی آئی جی مقدس حیدر کا کہنا ہے کہ مصطفیٰ کے قتل کی وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکی ہے بس یہ پتا چلا ہے کہ 'یہ سب نیو ایئر نائٹ پر ایک ساتھ تھے وہاں پر ان کی تھوڑی بہت بات چیت ہوئی تھی۔ چھ جنوری کی رات کو ارمغان نے مصطفیٰ عامر کو فون کرکے بلایا تھا۔'
'ملاقات کے دوران کچھ دیر باتیں ہوئیں پھر وہاں ان لوگوں کی آپس میں لڑائی ہو گئی اور انھوں نے مصطفیٰ پر شدید تشدد کیا اور انھیں اسی کی گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر حب کی طرف لے گئے جہاں انھوں نے گاڑی سمیت مصطفیٰ کو آگ لگا دی۔‘