وٹکوف برسوں سے رپبلکن پارٹی کو فنڈز مہیا کر رہے ہیں اور صدر ٹرمپ کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ صدر ٹرمپ بھی فلوریڈا اور نیو یارک میں رئیل سٹیٹ کے منافع بخش کاروبار سے منسلک رہے ہیں۔
سٹیو وٹکوف صدر ٹرمپ کے ذاتی دوست ہیںجب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات شروع کرنے کا فیصلہ کیا تو انھوں نے روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ملاقات کے لیے اپنے وزیر خارجہ کو نہیں بھیجا۔
صدر ٹرمپ نے اس بڑے بحران کو حل کرنے کے لیے جس شخص کو کریملن بھیجا دراصل وہ کوئی سفارتی پسِ منظر ہی نہیں رکھتے۔
یہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ سٹیو وٹکوف ہیں جو کہ صدر ٹرمپ کے ذاتی دوست ہیں، ان کے ساتھ گالف کھیلتے ہیں اور رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے منسلک ارب پتی بزنس ٹائیکون ہیں۔
صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس آمف کے بعد وٹکوف کو ایلچی برائے مشرقِ وسطیٰ مقرر کیا تھا۔ لیکن برونکس کاؤنٹی میں پیدا ہونے والی کاروباری شخصیت کو اب مشرقی یورپ میں تنازع ختم کرنے کے لیے ہونے والے مذاکرات میں اہم کردار دیا گیا ہے۔
وٹکوف دراصل ماسکو کے امریکہ اور روس کے درمیان ایک معاہدے پر کام کرنے گئے تھے جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ ہوا، اسی سبب یہ امید بھی پیدا ہوئی کے شاید امریکہ اور روس کے درمیان تعلقات میں بہتری آ سکتی ہے۔
صرف یہی نہیں وٹکوف نے اسرائیل اور حماس کے درمیان ہونے والے جنگ بندی کے مذاکرات میں بھی حصہ لیا تھا۔ اس جنگ بندی کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن دونوں ہی کریٹ لیتے ہیں۔
اس وقت تک وٹکوف کو باقاعدہ ایلچی برائے مشرقِ وسطیٰ نامزد نہیں کیا تھا لیکن پھر بھی وہ اکتوبر میں جنگ بندی کے معاہدے سے قبل وزیرِ اعظم بنیامین نتن یاہو سے ملاقات کے لیے اسرائیل گئے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے سابق صدر بائیڈن کے ایلچی برائے مشرقِ وسطیٰ بریٹ مکگرک کے ساتھ دوحہ میں بھی وقت گزارا تھا۔
سٹیو وٹکوف سعودی عرب میں یوکرین اور روس کے درمیان تنازع کے خاتمے کی غرض سے ہونے والے مذاکرات کا حصہ ہیںواشنگٹن پوسٹ کے مطابق مکگرک نے وٹکوف کے تعاون کرنے پر ان کی تعریف بھی کی تھی اور اس تعلق کو 'قریبی شراکت داری یا دوستی' سے مشابہت دی تھی۔
اب وٹکوف کی مشرقِ وسطیٰ واپسی ہوئی ہے اور وہ سعودی عرب میں یوکرین اور روس کے درمیان تنازع کے خاتمے کی غرض سے ہونے والے مذاکرات کا حصہ ہیں۔ امریکی سیکریٹری خارجہ مارک روبیو اور قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز بھی ان مذاکرات کا حصہ ہیں۔
تاہم صدر ٹرمپ کی ٹیم کے اقدامات پر امریکہ کے مغربی اتحادیوں کو تحفظات ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ سعودی عرب میں جاری ان مذاکرات میں مرکزی فریقین کو مدعو نہیں کیا گیا، جن میں یوکرین اور دیگر یورپی ممالک شامل ہیں۔
یہاں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ سٹیو وٹکوف ہیں کون جنھیں ایسے بین الاقوامی مذاکرات کا حصہ بنایاگیا ہے جن کا اثر پوری دنیا پر پڑ سکتا ہے۔
جب گذشتہ برس ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسری مرتبہ امریکہ میں الیکشن جیتا تو وٹکوف ان افراد میں سے تھے جنھیں نئے امریکی صدر نے اپنی ٹیم میں شامل کرنے کا اعلان کیا۔
اس وقت صدر ٹرمپ نے کہا تھا: 'سٹیو (وٹکوف) امن کے لیے ایک غیرمتزلزل آواز ثابت ہوں گے اور ہم سب کو فخر محسوس کروائیں گے۔'
وائٹ ہاؤس کے ایک عہدیدار نے ایکزیوس کو بتایا تھا کہ 'صدر ٹرمپ سٹیو وٹکوف کو دنیا کے ایک عظیم مذاکرات کی طرح دیکھتے ہیں۔'
وائٹ ہاؤس کے ایک اور عہدیدار کا کہنا ہے کہ وٹکوف مذاکرات کے لیے نرم رویے اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، تاہم ضرورت پڑنے پر وہ فریقین پر دباؤ بڑھانا بھی جانتے ہیں۔
67 سالہ وٹکوف کی پرورش لانگ آئی لینڈ میں ہوئی تھی اور وہ ریئل اسٹیٹ کے شعبے کے ایک ماہر سمجھے جاتے ہیں۔
وٹکوف برسوں سے رپبلکن پارٹی کو فنڈز مہیا کر رہے ہیں اور صدر ٹرمپ کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ صدر ٹرمپ بھی فلوریڈا اور نیو یارک میں رئیل اسٹیٹ کے منافع بخش کاروبار سے منسلک رہے ہیں۔
گذشتہ برس رپبلکن نیشنل کنوینشن کے سے خطاب کرتے ہوئے وٹکوف نے کہا تھا کہ ٹرمپ ان کے 'حقیقی طور پر اچھے اور برے وقتوں کے عزیز دوست ہیں۔'
امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم نے این بی سی نیوز کو بتایا تھا کہ ٹرمپ اور وٹکوف برسوں سے ساتھ گالف کھیل رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ: 'سٹیو اور میں دو لوگ تھے جو ٹرمپ اور دیگر افراد کے ساتھ کھیلا کرتے تھے اور شکست کھا جاتے تھے۔'
اکتوبر میں غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے سے قبل وزیرِ اعظم بنیامین نتن یاہو سے ملاقات کے لیے اسرائیل گئے تھےگذشتہ برس ستمبر میں گالف کھیلنے کے دوران ہی سیکرٹ سروس نے ٹرمپ پر ہونے والا ایک حملہ ناکام بنایا تھا۔ اس وقت صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ سیکرٹ سروس کے ایجنٹس اس وقت انھیں اور وٹکوف کو گالف کے سامان والی گاڑیوں میں بٹھا کر لے گئے تھے۔
سینیٹر گراہم کہتے ہیں کہ سب سے پہلے ایک بار دوپہر کے کھانے دوران ہونے والی گفتگو کے دوران وٹکوف نے ٹرمپ کے سامنے ایلچی برائے مشرقِ وسطیٰ بننے میں دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔
سینیٹر گراہم کہتے ہیں کہ: 'میں اس بات پر حیران تھا کیونکہ مجھے کبھی یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ وٹکوف کو مشرقِ وسطیٰ میں بھی دلچسپی ہے۔'
اطلاعات کے مطابق وٹکوف کو ایران کے ساتھ سفارتکاری شروع کرنے کا ٹاسک بھی سونپا گیا ہے۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق نئی امریکی انتظامیہ نے تہران کے ساتھ جوہری مذاکرات شروع کرنے اور اس کے ذریعے خطے میں 'جنگوں کو روکنے' کی ذمہ داری بھی وٹکوف کو دی ہے۔
گذشتہ برس صدر مہم کے دوران وٹکوف کی بطور مذاکرات صلاحیتیں اس وقت دیکھنے میں آئی تھیں جب انھوں نے ٹرمپ اور فلوریڈا کے گورنر رون ڈی سانٹس کے درمیان کامیابی سے تناؤ کو ختم کیا تھا۔
اس وقت وٹکوف یونیورسٹی آف میامی کے رئیل اسٹیٹ سکول کے ایڈوائزری بورڈ کے چیئرمین ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ صدارت میں انھیں جان ایف کینیڈی سینٹر فور دا پرفارمنگ آرٹس کے بورڈ آف ٹرسٹیز میں شامل کیا تھا۔