بارکھان میں لیویز فورس کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ جب کوئٹہ سے آنے والی نجی کمپنی کی ایک مسافر بس رات ساڑھے دس بجے کے قریب رڑکن کے علاقے میں پہنچی تو مسلح افراد نے اسے روک لیا۔
’میں اور میرا بھائی بس میں پنجاب میں بورے والا جا رہے تھے۔ میرے بھائی عدنان کو میری آنکھوں کے سامنے دیگر سات افراد کے ہمراہ بس سے اتارا گیا اور گولیاں مارکر ہلاک کیا گیا۔‘
یہ الفاظ عدنان مصطفیٰ کے بھائی ذیشان مصطفیٰ کے ہیں۔ عدنان ان سات افراد میں شامل ہیں، جنھیں بلوچستان کے ضلع بارکھان میں نامعلوم مسلح افراد نے منگل اور بدھ کی درمیانی شب رڑکن کے علاقے میں مسافر بس سے اتار کر ہلاک کر دیا گیا۔
ذیشان مصطفیٰ نے بلوچستان کے ضلع بارکھان کے علاقے رکھنی میں میڈیا نمائندوں کو بتایا کہ بس سے اتارنے سے پہلے ان افراد کے شناختی کارڈ دیکھ کر ان کو شناخت کیا گیا۔
ذیشان کے مطابق ’انھوں نے سب کا شناختی کارڈ مانگا۔ میرا شناختی کارڈ انگلش میں تھا تو انھوں نے مجھے واپس کر دیا اور بھائی کا شناختی کارڈ مانگا تو اس نے کہا میرے پاس نہیں۔ اس کو اتار کر نیچے لے گئے اور پھر فائرنگ کی آواز آئی۔ بندے نکال نکال کر انھوں نے گولیاں مارنا شروع کر دیں۔‘
ان کے مطابق ’ان دہشت گردوں نے کلاشنکوف اٹھا رکھی تھیں، ٹوپیاں اور جیکٹیں پہنی ہوئی تھیں اور وہ تعداد میں 10 سے 12 تھے۔‘
ڈپٹی کمشنر بارکھان وقار خورشید نے بی بی سی بتایا کہ جس بس سے بارکھان میں مسافروں کو اتارکر ہلاک کیا گیا وہ کوئٹہ سے پنجاب جا رہی تھی۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے اس واقعے کے مذمت کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ’نہتے لوگوں کو دہشت گردی کا نشانے بنانے والوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔‘
رواں سال ڈیرہ غازی خان کے راستے بلوچستان اور پنجاب کے درمیان اہم قومی شاہراہ پر یہ اپنی نوعیت کا پہلا بڑا سنگین واقعہ ہے جس کی ذمہ داری تاحال کسی نے قبول نہیں کی۔
’شناخت کے بعد دھکے دے کر بس سے اتارا گیا‘
اسی بس میں سفر کرنے والی ایک خاتون کے بھائی بھی اس حملے میں نشانہ بن کر جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ اس خاتون نے مقامی میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ وہ کوئٹہ سے بس میں اپنے گھر فیصل آباد جا رہے تھے۔
انھوں نے کہا کہ وہ اپنی بھابی کی وفات کے بعد اپنے بڑے بھائی کے پاس کوئٹہ گئی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مسلح افراد بس میں داخل ہوئے اور لوگوں کے شناختی کارڈز دیکھنا شروع کیے۔ میرے بڑے بھائی سمیت جن لوگوں کو شناخت کیا گیا ان کو دھکے دے کر بس سے باہر اتارا گیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’مسلح افراد نے بھائی اور دیگر افراد کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا۔‘
دوسری جانب ذیشان مصطفیٰ کا دعویٰ ہے کہ ’باقی مسافروں کو انھوں نے کچھ نہیں کہا بلکہ ساتوں کے ساتوں جو پنجابی تھے ان کو اتارنے کے بعد گولیاں ماریں۔‘
’صرف ایک بس کو روکا گیا‘
ان مسافروں کی ہلاکت کا واقعہ بلوچستان اور پنجاب کے درمیان اہم قومی شاہراہ پر ضلع بارکھان کے علاقے رڑکن میں پیش آیا۔
بارکھان میں لیویز فورس کے ایک اہلکار نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ جب کوئٹہ سے آنے والی نجی کمپنی کی ایک مسافر بس رات ساڑھے دس بجے کے قریب رڑکن کے علاقے میں پہنچی تو مسلح افراد نے اسے روک لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں صرف ایک ہی بس کو روکا گیا۔
ڈپٹی کمشنر بارکھان وقار خورشید نے فون پر بتایا کہ اس علاقے میں پہلے نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے کوئٹہ سے لاہور جانے والی مسافر بس کو روکا۔
ان کا کہنا تھا کہ بس کے رکنے کے بعد مسلح افراد نے شناخت کے بعد سات افراد کو اتارا اور پھر ان کو گولیاں مارکر ہلاک کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلح افراد لگ بھگ 15منٹ تک جائے وقوعہ پر رہے اور سات مسافروں کو ہلاک کرنے کے بعد پہاڑوں کی جانب فرار ہوگئے ۔
لیویز فورس کے اہلکار نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد پنجاب اور بلوچستان کے درمیان اس شاہراہ پر دونوں اطراف سے ٹریفک کو روک دیا گیا تاہم صبح تمام گاڑیوں کو جانے دیا گیا۔
رواں سال میں بسوں سے اتار کر ہلاک کرنے کا پہلا بڑا واقعہ
بلوچستان میں مسلح افراد کی جانب سے مسافروں کو بسوں سے اتار کر گولیاں مارنے کے واقعات پہلے بھی پیش آتے رہے ہیں لیکن رواں سال یہ اپنی نوعیت کا پہلا بڑا واقعہ ہے۔
اس سے قبل بلوچستان کے ضلع قلات میں31 جنوری اور یکم فروری کی درمیانی شب مسلح افراد کی جانب سے کوئٹہ کراچی شاہراہ پر پنجگور سے آنے والی ایک مسافر کوچ پر فائرنگ سے 17سکیورٹی اہلکار مارے گئے تھے۔
گزشتہ سال اگست کے مہینے میں بارکھان سے متصل ضلع موسیٰ خیل میں ڈیرہ غازی خان کے راستے بلوچستان اور پنجاب کے درمیان شاہراہ پر مختلف گاڑیوں سے 22 مسافروں کو اتار کر انھیں گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔ ان میں سے دو کا تعلق بلوچستان جبکہ باقی تمام لوگوں کا تعلق پنجاب کے مختلف علاقوں سے تھا۔
جبکہ گزشتہ سال اپریل میں نوشکی میں کوئٹہ اور تفتان کے درمیان شاہراہ پر ایک بس سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے 9 مسافر وں کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا تھا۔
(فائل فوٹو)بارکھان کہاں واقع ہے؟
ضلع بارکھان بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے جنوب مشرق میں اندازاً ساڑھے چار سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
اس ضلع کی جنوب اور جنوب مشرق میں سرحدیں بلوچستان کے شورش سے متاثرہ دو اضلاع کوہلو اور ڈیرہ بگٹی سے لگتی ہیں۔ شمال مشرق میں بارکھان کی سرحد پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان سے متصل ہے۔
اس ضلع کے بیشتر علاقے دشوارگزار پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس ضلع کی آبادی کی غالب اکثریت کھیتران قبائل پر مشتمل ہے جبکہ اس کے سرحدی علاقوں میں مری اور بگٹی قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد بھی آباد ہیں۔
بلوچستان میں حالات کی خرابی کے بعد سے بارکھان کے بعض علاقوں میں بھی سنگین بد امنی کے واقعات پیش آتے رہے ہیں تاہم سرکاری حکام کے مطابق سکیورٹی کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کی وجہ سے ماضی کے مقابلے میں اب حالات وہاں بہتر ہیں۔