اسلام آباد: سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے وکیل لطیف کھوسہ سے مکالمے میں کہا کہ سپریم کورٹ انڈر ٹرائل نہیں۔ آپ پارلیمنٹ میں کچھ اور یہاں کچھ اور بات کرتے ہیں۔
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت ہوئی۔ اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آج عذیر بھنڈاری نے دلائل دینے تھے۔ اور عذیر بھنڈاری نے بات کر لی آج میں دلائل دوں گا۔
اعتزاز احسن نے سلمان اکرم راجہ کے گزشتہ روز کے دلائل پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ سلمان اکرم راجہ بھی میرے وکیل ہیں۔ اور سلمان اکرم راجہ نے جسٹس منیب اختر کے فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔ لیکن میں نے سلمان اکرم راجہ کو ایسی کوئی ہدایت نہیں دی تھی۔ میں جسٹس منیب اختر کے فیصلے سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ اعتراض شاید آرٹیکل 63 اے والے فیصلے کے حوالے پر ہے۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے مؤقف اختیار کیا کہ جسٹس منیب اختر کے فیصلے کے صرف ایک پیراگراف سے اختلاف کیا تھا۔ اور میڈیا میں تاثر دیا گیا جیسے پتہ نہیں میں نے کیا بول دیا ہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جو پوچھا تو وہ سب کے سامنے ہے۔ اور آپ سوشل میڈیا نہ دیکھا کریں وہ ہم بھی نہیں دیکھتے۔ سوشل میڈیا کا اثر لینا ہے نہ اس سے متاثر ہو کر فیصلے کرنے ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ میرے خلاف بہت خبریں لگتی ہیں اور دل کرتا ہے جواب دوں۔ لیکن میرا منصب اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ جواب دوں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میڈیا کو بھی رپورٹنگ میں احتیاط کرنی چاہیے۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ بغیر کسی معذرت کے اپنے دلائل پر قائم ہوں۔
جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیئے کہ سوال تو ہم صرف مختلف زاویے سمجھنے کے لیے کرتے ہیں۔ اور ہو سکتا ہے ہم آپ کے دلائل سے متفق ہوں۔
بیرسٹر اعتزاز احسن نے اپنی درخواست کا نمبر تبدیل ہونے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ میری درخواست پہلے دائر ہوئی تھی۔ لیکن جواد ایس خواجہ کی بعد میں دائر درخواست کو میرا کیس نمبر الاٹ کر دیا گیا۔ وہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ہیں۔
جسٹس امین الدین نے کہا کہ ایسا نہ کریں۔ ایسی باتوں سے کہیں اور پہنچ جائیں گے۔ سپریم کورٹ انڈر ٹرائل نہیں ہے۔ جبکہ عدالت نے آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔ سیکشن ٹو ڈی کو 9 اور 10 مئی کے ساتھ مکس نہ کریں۔ سیکشن ٹو ڈی کا 9 مئی اور 10 مئی پر اطلاق ہوتا ہے یا نہیں؟۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پہلے سیکشن ٹو ڈی کی قانونی حیثیت پر دلائل دیں۔ عدلیہ کی آزادی خلفائے راشدین کے دور میں بھی تھی۔ اور کیا آئین میں قانون سازی پر کوئی ممانعت ہے؟۔
یہ بھی پڑھیں: قرضوں میں ڈوبی قومیں ترقی نہیں کرسکتیں، علی امین گنڈاپور
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ پوری قوم کی نظریں اس کیس پر ہیں۔ ملٹری کورٹس کے لیے انہیں 21 ویں ترمیم کرنا پڑی۔ جبکہ سویلینز کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل نہیں ہو سکتا۔
عدالت نے کہا کہ خواجہ حارث نے بتایا کہ شفاف ٹرائل کا طریقہ کار ہے۔ اور طریقہ کار اگر فالو نہیں ہوتا تو وہ الگ معاملہ ہے۔
لطیف کھوسہ کو متوجہ کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ آپ وفاقی وزیر، رکن اسمبلی، گورنر اور اٹارنی جنرل رہ چکے ہیں۔ تو آپ نے ان عہدوں پر رہتے ہوئے ٹو ڈی سیکشن کو ختم کرنے کا کیا قدم اٹھایا۔ ہماری طرف سے بے شک آج پارلیمنٹ اس سیکشن کو ختم کر دے۔ پارلیمنٹ میں آپ کچھ اور بات یہاں کچھ اور بات کرتے ہیں۔ فوجی عدالتیں تو بعد میں بنیں جبکہ سقوط ڈھاکہ کی وجوہات کچھ اور تھیں۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ کے سامنے ہے کہ 26ویں ترمیم کیسے پاس ہوئی۔ اور آپ اس میں فیصلہ دیں ہم فیصلہ پر عملدرآمد کروائیں گے۔ سویلین کا ٹرائل ختم کرنے پر عوام آپ کے شیدائی ہو جائیں گے۔ 26ویں ترمیم کیسے پاس ہوئی زبردستی ووٹ ڈلوائے گئے۔
جسٹس مسرت ہلال نے استفسار کیا کہ 26ویں ترمیم پر کس رکن نے استعفی دیا؟ جس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ اختر منگل نے رکن اسمبلی سے استعفیٰ دیا۔
اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ نے اپنے دلائل مکمل کر لیے جبکہ بانی پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔
آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پر سماعت کل تک کے لیے ملتوی کر دی۔