غزہ کی تقسیم اور فلسطینی ریاست: مصر اور عرب دنیا کا منصوبہ جس کا دارومدار حماس کے مستقبل پر ہو گا

مصر سمیت متعدد عرب ممالک تباہ حال غزہ کی تعمیر نو کے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں جن کا مقصد فلسطینیوں کو بے گھر کیے بغیر خطے میں ان کے قیام کو یقینی بنانا اور غزہ کی پٹی میں ایسا حکومتی نظام قائم کرنا ہے جس میں حماس کا کوئی کردار نہ ہو۔
غزہ
Reuters

مصر سمیت متعدد عرب ممالک تباہ حال غزہ کی تعمیرنو کے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں جن کا مقصد فلسطینیوں کو بے گھر کیے بغیر خطے میں ان کے قیام کو یقینی بنانا اور غزہ کی پٹی میں ایسا حکومتی نظام قائم کرنا ہے جس میں حماس کا کوئی کردار نہ ہو۔

ان منصوبوں پر کام کا آغاز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اس تجویز کے بعد ہوا جس کے تحت غزہ سے فلسطینیوں کو مصر، اردن یا کسی اور ملک میں منتقل کر کے غزہ کا مکمل کنٹرول حاصل کیا جانا مقصود تھا تاکہ ان کے الفاظ میں اس علاقے کو مشرق وسطی کا ’مثالی علاقہ‘ بنایا جا سکے۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اب تک چار مجوزہ منصوبے بن چکے ہیں تاہم مصر کا منصوبہ عرب دنیا کی جانب سے ٹرمپ کے منصوبے کے متبادل کے طور پر سرفہرست ہے۔ بی بی سی ذرائع کے مطابق قاہرہ میں اس منصوبے کی تکنیکی تفصیلات کو حتمی شکل دی جا رہی ہے جس کے تحت پہلے ملبے کو ہٹایا جائے گا اور پھر غزہ کی تعمیر نو ہو گی۔

ساتھ ہی ساتھ ان نکات پر بھی غور ہو رہا ہے کہ اس عرصہ میں غزہ کے باسی کہاں رہائش پذیر ہوں گے اور جنگ کے بعد حکومتی نظام کیا ہو گا۔ تاہم غزہ کے مسلح گروہوں، بشمول حماس اور اسلامی جہاد، کا مستقبل اب تک زیر غور ہے۔

مصر کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ امریکی انتظامیہ کی معاونت سے تیار کیا جائے گا۔ مصری ذرائع نے بی بی سی کو یہ بھی بتایا ہے کہ اقوام متحدہ اور یورپی یونین بھی اس منصوبے میں اہم کردار ادا کریں گے۔

مصر چند عرب ممالک سے بھی مشاورت کر رہا ہے جن میں اردن اور سعودی عرب شامل ہیں تاکہ 21 فروری کو ریاض میں ممکنہ اجلاس سے قبل اسے حتمی شکل دی جا سکے جس میں فلسطینی اتھارٹی کا بھی عمل دخل ہو سکتا ہے۔ اس اجلاس کے بعد قاہرہ میں ہنگامی عرب اجلاس منعقد ہو گا جو پہلے 27 فرروی کو ہونا تھا تاہم متعدد وجوہات کی بنا پر تاخیر کا شکار ہو چکا ہے۔

فلسطینیوں کی نقل مکانی کے بغیر یہ منصوبہ کیسے پورا ہو گا؟

مصری ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ یورپ کی شمولیت کی مدد سے غزہ کی تعمیر نو پر اجلاس کی تیاری کے لیے عرب مشاورت کا آغاز ہو چکا ہے۔ ان کے مطابق مصری منصوبے میں مرکزی توجہ غزہ کو تین حصوں میں بانٹ کر اس کی تعمیر نو کرنا ہے اور ہر حصے میں غزہ کے باسیوں کے لیے 20 بڑے کیمپ ہوں گے جہاں پانی اور بجلی جیسی بنیادی ضروریات مہیّا کی جائیں گی۔

اس منصوبے کے تحت لاکھوں موبائل گھر اور خیمے چھ ماہ تک کی رہائش گاہ کے طور پر متعارف کروائے جائیں گے جبکہ اس دوران تباہ شدہ ملبہ ہٹایا جائے گا۔

فی الحال جنگ بندی کے ابتدائی دور میں یہ کام اسرائیلی پابندی کے باعث ممکن نہیں ہے۔ اس منصوبے کے تحت ایندھن اور تعمیر نو کے لیے درکار سامان اور اشیا کی غزہ میں فراہمی کی ضرروت کو بھی اجاگر کیا جائے گا۔

مصر
Getty Images
مصری منصوبے میں مرکزی توجہ غزہ کو تین حصوں میں بانٹ کر اس کی تعمیر نو کرنا ہے

مصری منصوبے کے تحت تعمیر نو کے لیے عرب ممالک اور بین الاقوامی ادارے مالی امداد فراہم کریں گے جس کے تحت 50 ملٹی نیشنل کمپنیاں 18 ماہ کے عرصے میں غزہ کے تینوں مجوزہ حصوں میں محفوظ رہائش کا انتظام کریں گی۔

مالی امداد کے حوالے سے عرب اور بین الاقوامی نمائندوں کی ایک کمیٹی بنائی جائے گی جو اس معاملے کی دیکھ بھال کرے گی۔

اس منصوبے کے تحت ایک بفر زون بھی تعمیر کیا جائے گا جبکہ غزہ اور مصر کی سرحد پر سرنگیں کھودنے کے عمل کو روکنے کے لیے رکاوٹیں بھی تجویز کی گئی ہیں۔

مصری انجینیئرز سنڈیکیٹ کے صدر ڈاکٹر طارق نے بی بی سی کو بتایا کہ لاگت اور مختلف پارٹیوں کی شمولیت کی وجہ سے یہ منصوبہ مکمل ہونے میں تین سے پانچ سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔

تاہم ہفتے کے دن اسرائیلی وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ وہ تعمیر کے لیے درکار سامان اور موبائل مکان غزہ میں جانے کی اجازت نہیں دیں گے اگرچہ کہ یہ جنگ بندی معاہدے کا حصہ ہیں۔

انھوں نے سکیورٹی خدشات کو اس کی وجہ قرار دیا۔

حماس کا مستقبل

مصری ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ سب سے اہم مسئلہ حماس اور دیگر مسلح گروہوں کے مستقبل کا ہے جو غزہ کی پٹی میں فعال ہیں۔

ذرائع کے مطابق مصری منصوبے میں یہ تجویز شامل ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے اعلان کے بعد ان گروہوں کو غیر مسلح کیا جائے۔ اس ریاست کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو گا اور ایک بفر زون بھی بنایا جائے گا تاکہ اسرائیل کو یہ یقین دہانی کروائی جا سکے کہ غزہ سے مستقبل میں کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔

اس دوران تجویز کیا گیا ہے کہ حماس کے بغیر غزہ کی پٹی کا انتظام چلانے کے لیے ایک فلسطینی کمیٹی قائم کی جائے جس کی معاونت بین الاقوامی طاقتیں اور عرب ممالک کریں گے۔

حماس ماضی میں یہ بیان دے چکی ہے کہ وہ ایک قومی سطح کی کمیٹی کے سامنے غزہ کا انتظام چھوڑنے کو تیار ہے تاہم حماس اس کمیٹی کے اراکین کے انتخاب میں کردار چاہتی ہے اور یہ بھی کہ اس کی مرضی کے خلاف زمینی فوج کی تعیناتی نہ ہو۔

غزہ کی پٹی
EPA
ہفتے کے دن اسرائیلی وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ وہ تعمیر کے لیے درکار سامان اور موبائل مکان غزہ میں جانے کی اجازت نہیں دیں گے

ٹرمپ کے منصوبے کا کیا ہو گا؟

امریکی صدر نے بارہا فلسطینیوں کو غزہ سے کہیں دوسری جگہ منتقل کرنے کے ارادے کو ظاہر کیا ہے تاکہ اس علاقے کو سیاحتی سرمایہ کاری کے خطے کے طور پر فروغ دیا جا سکے اور فلسطینیوں کو تعمیر نو کے دوران کھنڈرات میں نہ رہنا پڑے۔ ٹرمپ نے مصر اور اردن کو یہ دھمکی بھی دی کہ اگر انھوں نے فلسطینیوں کو قبول نہ کیا تو ان کی امداد بند کر دی جائے گی۔

قاہرہ میں ایسوسی ایٹد پریس کے سابق مدیر برائے مشرق وسطی ڈان پیری نے اسرائیلی یروشلم پوسٹ کے لیے ایک تحریر لکھی ہے جس میں انھوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ ٹرمپ کا یہ منصوبہ حقیقت میں عرب ممالک اور فسلطینیوں پر دباؤ ڈالنے کی چال ہے تاکہ حماس کو اقتدار سے ہٹایا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ ٹرمپ یہ بھی چاہتے ہیں کہ عرب ممالک، خصوصا قطر، حماس کی مالی امداد بند کر دیں۔

واشنگٹن میں ٹرمپ اور اردن کے شاہ عبداللہ دوم کے درمیان ہونے والی حالیہ ملاقات کے بعد امریکی صدر کی ترجمان کیرولینا لویٹ نے کہا تھا کہ شاہ عبداللہ نے واضح کیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ تعمیر نو کے دوران فلسطینی غزہ کی پٹی میں ہی رہائش پذیر رہیں۔ سرکاری طور پر ٹرمپ کی ترجیح اب تک یہی ہے کہ فلسطینی غزہ سے منتقل ہو جائیں۔

ڈان پیری کا ماننا ہے کہ ٹرمپ فلسطینیوں کے قیام پر رضامند ہو سکتے ہیں اگر بدلے میں غزہ کی تعمیر نو کے لیے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا جائے اور حماس کو نکال دیا جائے۔ ڈان پیری کا یہ بھی ماننا ہے کہ غزہ میں ٹیکنوکریٹس کی حکومت بنائی جائے گی جو غرب اردن میں برسراقتدار فلسطینی اتھارٹی سے منسلک ہو گی اور مصر اور دیگر مشرق وسطی ممالک سے تعاون کرے گی۔

عرب دنیا اور ٹرمپ

سعودی عرب
Reuters
ڈاکٹر حسن کہتے ہیں کہ اگر ٹرمپ نے اردن اور مصر کی عسکری اور مالی امداد روک دی تو یہ ممالک جواب دے سکتے ہیں، مثال کے طور پر ریاض امریکہ میں سرمایہ کاری روک کر چین، روس، یورپی یونین، افریقہ اور جنوبی افریقہ سے معاشی تعاون بڑھا سکتا ہے

سعودی تجزیہ کار ڈاکٹر مبارک کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت خطے میں اپنے مفادات کو دیکھے گی خصوصا سعودی عرب اور مصر میں۔ وہ کہتے ہیں کہ مصر، امریکہ اور سعودی عرب کے حکمرانوں کے ذاتی تعلقات انھیں مشترکہ حکمت عملی پر اتفاق کرنے میں مدد دیں گے جبکہ ٹرمپ سعودی عرب کا دورہ کرنے والے ہیں جہاں امریکہ اور عرب تعلقات کی نئی سمت طے ہو گی۔

واشنگٹن سے سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر حسن کہتے ہیں کہ اگر ٹرمپ نے اردن اور مصر کی عسکری اور مالی امداد روک دی تو یہ ممالک جواب دے سکتے ہیں، مثال کے طور پر ریاض امریکہ میں سرمایہ کاری روک کر چین، روس، یورپی یونین، افریقہ اور جنوبی افریقہ سے معاشی تعاون بڑھا سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ریاض نے اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کی پیشکش کو استعمال کرتے ہوئے فلسطینی ریاست کے قیام پر زور دیا ہے اور یہ ایک حکمت عملی ہے۔

مصری ذرائع کا کہنا ہے کہ قاہرہ نے حال ہی میں اسرائیل سے امن معاہدے کو منسوخ کرنے کا عندیہ دیا جو اس صورت میں امریکہ کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے اگر ٹرمپ عرب منصوبے کو مسترد کرتے ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.