’قاتل نامعلوم، مقتول نامعلوم‘: شیخوپورہ میں ملنے والی سر کٹی لاش کا معمہ کیسے حل ہوا؟

پنجاب کے ضلع شیخوپورہ کے تھانہ فیکٹری ایریا میں 12 دسمبر سنہ 2024 کو یہ ایف آئی آر درج کرنے والے اے ایس آئی محمد افضل اور اس مقدمہ کے مدعی رحمت علی، دونوں ہی اس بات سے ناواقف تھے کہ جس شخص کے قتل کی ایف آئی آر کاٹی گئی ہے، وہ کون تھا؟
لاش
Getty Images
(فائل فوٹو)

انتباہ: اس تحریر کے کچھ حصے قارئین کے لیے پریشان کُن ہو سکتے ہیں۔

قاتل نامعلوم، مقتول نامعلوم۔۔۔ یہ ایک غیر معمولی ایف آئی آر تھی جس میں قاتلوں کا تو علم تھا ہی نہیں، مقتول کی شناخت کا بھی پولیس کو علم نہیں تھا اور نہ ایف آئی آر کٹوانے والے مدعی کو۔

پنجاب کے ضلع شیخوپورہ کے تھانہ فیکٹری ایریا میں 12 دسمبر سنہ 2024 کو یہ ایف آئی آر درج کرنے والے اے ایس آئی محمد افضل اور اس مقدمہ کے مدعی رحمت علی، دونوں ہی اس بات سے ناواقف تھے کہ جس شخص کے قتل کی ایف آئی آر کاٹی گئی، وہ کون تھا؟

اس معمے اور ایف آئی آر کا آغاز سردیوں کی اس صبح تقریبا سات بجے کے قریب اسی تھانے سے قریب 10 کلومیٹر دور خانپور سے ہوا تھا جب رحمت علی کو بازار میں اچانک ایک لاش نظر آئی جسے دیکھ کر وہ اور ان کے ساتھ موجود اسماعیل اور غلام عباس چونک گئے۔

یہ رونگٹے کھڑے کر دینے والا منظر تھا کیونکہ اس لاش کی گردن نہیں تھی۔ سر کٹی لاش کے جسم پر نیلگوں نشان موجود تھے۔

امانت کے طور پر تدفین اور پہلی کڑی

مقدمہ کے مدعی رحمت علی کے مطابق گاؤں کے دیگر افراد بھی اکھٹے ہونے لگے اور سب نے کوشش کی کہ مقتول کی شناخت اس کے دھڑ، ٹانگوں، بازووں یا کسی اور طریقے سے کی جا سکے۔ مسجد میں اعلان بھی کروایا گیا تاہم یہ پتہ نہ چل سکا کہ یہ بے جان دھڑ کس کا ہے۔

یہ کوشش ناکام ہونے پر علاقہ مکینوں نے پولیس کو اطلاع دی کہ کسی نامعلوم شخص کو نامعلوم افراد نے قتل کر کے گردن پھینک دی اور ایک سر کٹی لاش موجود ہے۔

یہ اطلاع موصول ہونے پر فیکٹری ایریا تھانے کے اے ایس آئی اعجاز حسین تین اہلکاروں کے ہمراہ خانپور پہنچے، تصاویر کھینچی گئیں، لوگوں سے پوچھ گچھ ہوئی اور پھر لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے سول ہسپتال شیخوپورہ منتقل کر دیا گیا۔

چونکہ اس لاش کی شناخت ہی نہ ہوئی تھی، تو پولیس نے رحمت علی کی ہی مدعیت میں یہ غیرمعمولی پرچہ کاٹا اور تفتیش شروع کر دی۔

اس ہولناک واقعے کی خبر پھیل جانے کے باوجود اگلے 11 دن تک پولیس یا مقامی افراد کو یہ پتہ نہیں چل سکا کہ مقتول کون تھا۔

پولیس کے لیے اس سے بھی عجیب بات یہ تھی کہ 11 دن بعد بھی کسی نے اس علاقے سے اپنے کسی جاننے والے کی گمشدگی یا مقتول کو جاننے کا دعوی نہیں کیا۔ اس دوران مقتول کی لاش کو گاؤں والوں نے امانت کے طور پر دفنا دیا۔

مبینہ ملزمان اور مقتول کا ایک ہی گھر

کیس پراسرار ہوتا جا رہا تھا اور تفتیشی ٹیم کے لیے اس قتل کا سراغ لگانا ناممکن ہوتا جا رہا تھا۔ پھر پولیس کو ایک ایسی پہلی کڑی ملی جس کی مدد سے وہ پہلے مقتول کی شناخت کرنے میں کامیاب ہوئے اورمبینہ ملزمان کے گھر تک بھی پہنچ گئے۔ دونوں کے گھر کا پتہ ایک ہی تھا۔

پولیس نے اس اندھے قتل کی واردات میں جس مرکزی ملزم کو گرفتار کیا، وہ مقتول کا سگا بھائی تھا۔ پولیس نے مقتول کے ایک اور بھائی اور بہن کو بھی حراست میں لے لیا۔

تین دن قبل، یعنی 18 فروری کو، جب پولیس نے ایک طویل تفتیش کا عمل مکمل کرنے کے بعدتینوں ملزمان کو عدالت میں پیش کیا تو ایڈیشنل سیشن جج سیف اللہ سوہل کے سامنے وکیل صفائی رائے اشفاق کھرل نے دعویٰ کیا کہ تین میں سے دو ملزمان بے قصور ہیں اور انھیں ناجائز طور پر اس کیس میں ملوث کیا گیا۔

تاہم عدالت نے ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر ڈسٹرکٹ جیل شیخوپورہ بھجوانے کے احکامات جاری کر دیے۔

کیس کے تفتیشی آفیسر سب انسپکٹر ارشد گوندل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مرکزی ملزم نے تفتیش کے دوران اقبال جرم کیا جسے زیردفعہ 161 تعزیرات پاکستان کے تحت مثل مقدمہ کا حصہ بنا لیا گیا اور تفتیش مکمل ہونے کے بعد ابتدائی چالان بھی عدالت میں پیش کر دیا گیا۔‘

رائے اشفاق کھرل ایڈووکیٹ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ تین میں سے دو ملزمان کی ہی عدالت میں نمائندگی کر رہے تھے جن کے بارے میں ان کا دعوی ہے کہ وہ ’بے گناہ‘ ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’مرکزی ملزم کا اپنے بھائی کے ساتھ جائیداد کی تقسیم پر سول کورٹ میں کیس چل رہا تھا۔‘

رائے اشفاق کے مطابق ’پولیس کی طرف سے عدالت میں چالان پیش کرنے کے بعد کیس کا باقاعدہ ٹرائل شروع ہوگا جس میں عدالت تمام سرکاری اور دیگر گواہان کو طلب کرے گی، شہادتیں قلمبند کی جائیں گی اور فرد جرم عائد ہو گی جس کی نقول ملزمان میں تقسیم کی جائیں گی اور ٹرائل مکمل ہونے کے بعد کیس کا فیصلہ ہوگا۔‘

دوسری جانب ڈی پی او بلال ظفر شیخ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’مقتول بے اولاد تھا اور اگر مدعی مقدمہ کیس واپس لے تو پولیس کے پاس اس کیس میں خود فریق بننے کا قانونی اختیار بھی موجود ہے۔‘

لیکن پولیس کے پاس موجود شواہد ہیں کیا؟ اس سے قبل اس پہلی کڑی کے بارے میں جانتے ہیں جس کی مدد سے پولیس کے مطابق اس کیس کی تفتیش آگے بڑھی۔

مسخ شدہ سر اور نامعلوم مقتول کی شناخت

23 دسمبر کو، یعنی سر کٹی لاش ملنے کے ٹھیک 11 دن بعد، اسی گاؤں میں ایک بار پھر شور مچ گیا۔ اس بار بھی ایک رونگٹے کھڑے کر دینے والا منظر دیکھنے کو ملا جب گاؤں کے باہر سے گزرنے والے ایک نالے سے ایک مسخ شدہ سر ملا۔ یہ منظر اس وجہ سے اور بھی بھیانک تھا کہ اسے جانور نوچ رہے تھے۔

تھانہ فیکٹری ایریا کے ایس ایچ او سجاد اکبر نے بی بی سی کو بتایا کہ جب انھیں یہ اطلاع ملی کہ نالے کے قریب ایک انسانی سر موجود ہے تو وہ فوری طور پر اپنی ٹیم کے ہمراہ موقع پر پہنچے اور اس انسانی سر کو تحویل میں لے لیا۔

ایس ایچ او کے مطابق انھوں نے علاقے کے لوگوں کو بھی بلایا جس کے بعد یہ معمہ حل ہوا کہ اس نالے سے ملنے والا سر 11 دن قبل ملنے والی لاش کا ہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ایک اور پہلی بھی حل ہوئی اور مقتول کی شناخت ہو گئی۔

تھانہ فیکٹری ایریا کے ایس ایچ او سجاد اکبر کے مطابق مقامی لوگوں نے پولیس کو بتایا کہ یہ سر تو ان کے گاؤں ہی کے ایک شخص کا ہے جو ’ماسٹر برکت‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

سجاد اکبر فورا برکت علی کے گھر پہنچے تو ان کے مطابق انھیں مقامی افراد نے بتایا کہ کچھ ہی دیر قبل برکت علی کے دو بھائی اور ایک بہن وہاں سے روانہ ہوئے تھے۔

لیکن گھر میں ایک خاتون موجود تھیں جن سے ابتدائی پوچھ گچھ کے بعد سجاد اکبر کے مطابق انھیں تھانے لے جا کر خواتین اہلکاروں کی موجودگی میں تفتیش ہوئی تو انھوں نے چند اہم انکشافات کیے۔

یہ انکشافات کیا تھے، اس سے قبل یہ جانتے ہیں کہ مقتول ماسٹر برکت علی کون تھے؟

’برکت علی خوشحال تھا‘

برکت علی
BBC

گاؤں کے رہائشی زمیندار اور یونین کونسل خانپور کے سابق چئیرمین ملک عمران نے بی بی سی کو بتایا کہ برکت علی پھول نگر کی ایک فیکٹری میں بطور کیشئیر کام کرتے تھے اور شام کو گھر میں گاؤں کے بچوں کو ٹیوشن بھی پڑھاتے تھے، اسی لیے انھیں ’ماسٹر برکت‘ کہا جاتا تھا۔

ملک عمران نے بی بی سی کو بتایا کہ ’برکت علی سمیت چار بھائی اور چار ہی بہنیں تھیں جن کے والد کی وفات ہو چکی تھی۔‘

ملک عمران نے بتایا کہ ’برکت کے باقی بھائی وراثت میں ملنے والی زرعی زمین بیچ چکے تھے لیکن خود برکت علی ملازمت کرنے اور بچوں کو ٹیوشن پڑھانے کے ساتھ ساتھ زمینداری یعنی کاشت کاری بھی کیا کرتے تھے۔‘

ان کے مطابق مقتول ’برکت علی بہن بھائیوں میں نسبتا خوشخال تھا اور یہی بات شاید اس کی موت کی وجہ بن گئی۔‘

شیخوپورہ پولیس کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ مقتول برکت علی کے کیس کی تفتیش میں یہ علم بھی ہوا کہ انھوں نے دو شادیاں کی تھیں، لیکن ’دونوں ہی طلاق پر ختم ہوئیں اور وہ بے اولاد تھے۔‘

پولیس کا کیا کہنا ہے؟

ایس ایچ او سجاد اکبر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پولیس نے آلہ قتل کلہاڑا، آری اور رسی برآمد کی جن کا فرانزک کروایا گیا تو ثابت ہوا کہ ’اسی کلہاڑے اور آری سے برکت علی کو قتل کیا گیا تھا۔‘

ان کے مطابق ’برآمد ہونے والے کلہاڑے سے برکت علی کے سر پر وار کیا گیا تھا جس کے بعد آری سے گردن کاٹی گئی اور رسی کی مدد سے لاش کو باندھا گیا تھا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’تینوں اشیا مثل مقدمہ کا حصہ بنا دی گئی ہیں۔‘

پولیس نے عدالت میں جو عبوری چالان پیش کیا اس میں چند سائنسی شہادتیں بھی پیش کی گئیں جن میں فرانزک سائنس لیبارٹری کی رپورٹس، آلہ قتل پر فنگرز پرنٹس، خون آلود کپڑے اور کپڑوں پر مقتول کے خون کے نمونے کی رپورٹ شامل ہیں۔

اس کے علاوہ پولیس کے مطابق تفتیش کے دوران ’ملزمان اور مقتول کے موبائل فون کی جیو لوکیشن بھی چیک کی گئی جو ایک ہی مقام کی تھی۔‘

پولیس کا دعویٰ ہے کہ مقتول کو قتل کرنے کے بعد ’ایک رات لاش کو گھر کے غسل خانے میں رکھا گیا اور بعد میں آری کی مدد سے گردن کاٹی گئی اور جسم کو صبح چار بجے بازار میں ایک دکان کے باہر رکھ کر گردن ایک سیم نالہ میں پھینک دی تاہم پانی کی کمی کے باعث لاش کا سر جھاڑیوں میں پھنس گیا۔‘

لیکن اس قتل کا محرک کیا تھا؟ پولیس کے مطابق اس قتل کی بنیادی وجہ لالچ تھا۔

ڈی پی او بلال ظفر شیخ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعوی کیا کہ ملزمان اپنے حصے کی جائیداد بیچ چکے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ’برکت علی بے اولاد تھا، اس لیے اسے قتل کر کے جائیداد حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔‘

لیکن اس کیس سے ایک اور سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اگر برکت علی کا سر نہ ملتا تو کیا لاش کی شناخت نہ ہوتی؟

اس سوال کے جواب میں شیخوپورہ کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر بلال ظفر شیخ نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’جب کوئی لاوارث مسخ شدہ لاش ملتی ہے تو اس کی شناخت کے لیے پنجاب فرانزک سائنس لیبارٹری کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں تاہم اس عمل میں وقت لگتا ہے۔‘

مسخ شدہ لاشوں کی شناخت کیسے ہوتی ہے؟

شیخوپورہ کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر بلال ظفر شیخ کے مطابق ’پنجاب فرانزک سائنس لیبارٹری کی ٹیم موقع پر پہنچ کر شواہد اکٹھے کرتی ہے اور لاش کے دونوں انگوٹھوں کے پور کاٹ کر انھیں محفوظ کر لیتے ہیں۔‘

ان کے مطابق اس عمل کو مکمل کرنے کے بعد انھیں ’نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کو ارسال کیا جاتا ہے جو انگوٹھے کی پور سے اس کا ریکارڈ تلاش کرتے ہیں۔‘

بلال ظفر شیخ نے بتایا کہ ’اگر مقتول کا شناختی کارڈ بنا ہوا ہو تو بائیومیٹرک کے بعد لاش کی فوری شناخت ہو جاتی ہے لیکن اگر مقتول کا شناختی کارڈ نہ بنا ہوا ہو تو مساجد کے ذریعے اعلانات کروائے جاتے ہیں اور مقامی کیبل کے ذریعے تشہیر بھی کی جاتی ہے۔‘

’اس کے علاوہ لاش کی تصاویر تھانے اور دیگر عوامی مقامات پر آویزاں کی جاتی ہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.