انٹرنیٹ ہسٹری کی پریشان کُن تفصیلات: والدہ، بہن اور بھائی کو قتل کرنے والا 18 سالہ نوجوان جو ویڈیو گیم کے کردار سے متاثر تھا

گذشتہ ستمبر میں جمعے کی ایک صبح جب لوٹن میں پولیس اہلکاروں نے 18 سالہ نکولس پروپسر کو روکا تب تک وہ اپنی والدہ، بھائی اور بہن کو قتل کر چکے تھے اور اپنے پُرانے پرائمری سکول پر فائرنگ کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔

انتباہ: خبر میں موجود تفصیلات قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں۔

گذشتہ ستمبر میں جمعہ کی ایک صبح جب پولیس اہلکاروں نے 18 سالہ نکولس کو روکا تو تب تک وہ اپنی والدہ، بھائی اور بہن کو قتل کر چکے تھے اور وہ اُس پرائمری سکول پر فائرنگ کرنے کا منصوبہ بنا چکے تھے جہاں وہ بچپن میں زیر تعلیم رہے تھے۔

نکولس اپنی والدہ جولیانا اور دو چھوٹے بہن بھائیوں، کائل اور جزیل، کے ساتھ لوٹن میں واقع ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔

13 ستمبر کی صبح انھوں نے اپنی والدہ، بہن اور بھائی کو سر میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

فائرنگ کی آواز سنائی دیے جانے کے بعد علاقے کے لوگوں نے پولیس کو اطلاع دی تھی جس کے بعد ہونے والی ناکہ بندی کے دوران نکولس کو گرفتار کیا گیا۔ پولیس اہلکاروں کو ایک شاٹ گن اور 30 گولیاں بھی ملیں جو نکولس نے اپنے پرائمری سکول پر حملے کے لیے تیار کیں تھیں۔

جب نکولس پہلی عدالتی سماعت پر حاضر ہوئے تو اُن کے والد نے انھیں دیکھ کر چیخ کر کہا ’میں تم سے اب بھی پیار کرتا ہوں، بیٹا۔ اس میں تمہاری کوئی غلطی نہیں ہے۔‘

یہ الفاظ ادا کرنے کے بعد والد کمرہ عدالت میں زار و قطار رو دیے۔

گذشتہ پیر کو نکولس نے اپنے خاندان کے تینوں افراد کو قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے، جس کے بعد پولیس نے تصدیق کی ہے کہ ملزم کا سینٹ جوزفس کیتھولک پرائمری سکول پر حملہ کرنے کا بھی ارادہ تھا۔

تفتیش کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ نکولس کے کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہونے کی بھی کوئی معلومات موجود نہیں ہیں۔

10 منٹ پر محیط گذشتہ عدالتی سماعت کے دوران نکولس کے حوالے سے کم ہی معلومات منظرِ عام پر آئی تھیں تاہم بی بی سی نے اُن کی انٹرنیٹ ہسٹری کا تجزیہ کیا ہے اور اس کے ذریعے جو تفصیلات سامنے آئی ہیں وہ کافی پریشان کُن ہیں۔

ایک ویب سائٹ جس کو وہ اکثر دیکھا کرتے تھے اس پر لوگوں کے مرنے سے پہلے اُن کی زندگی کے آخری لمحات کی ویڈیوز موجود تھیں۔

اُن کی دنیا بھر میں سکولوں پر ہونے والے حملوں میں بھی دلچسپی تھی۔

انھیں ایک ویب سائٹ نے بلاک بھی کیا ہوا تھا کیونکہ انھوں نے وہاں بچوں سے جنسی تعلق کے حوالے سے پریشان کُن تبصرے کیے تھے اور یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ انھوں نے بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کی ایک ویڈیو بھی دیکھ رکھی ہے۔

تاہم انٹرنیٹ پر اس نوعیت کا پریشان کُن مواد رکھنے پر اُن پر تاحال فردِ جُرم عائد نہیں کی گئی ہے۔

سب سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ نکولس ’دا واکنگ ڈیڈ‘ ویڈیو گیم میں موجود کردار ’کلیمنٹائن‘ سے بہت زیادہ اُنسیت رکھتے تھے۔

اپنی والدہ اور بہن، بھائی کا قتل کرنے کے بعد انھوں نے کیمرے میں دیکھ کر اپنی ایک ویڈیو ریکارڈ کی اور کہا کہ ’میں منتخب کردہ ہوں، مجھے کلیمنٹائن نے منتخب کیا ہے۔ مجھے بالکل اُسی طرح رہنمائی مل رہی ہے جیسے مسیحیوں کو (حضرت) عیسیٰ سے ملتی ہے۔‘

نکولس اور ان کے بھائی کائل دونوں ہی کارڈینل نیومین کیتھولک سکول جایا کرتے تھے۔ سکول نے کائل کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ سکول کے ایک ’محبت کرنے والے سابق طالب علم تھے، اپنی رحمدلی کے لیے جانے جاتے تھے اور ساتھی طالب علموں کے بہترین دوست کے طور پر مشہور تھے۔‘

نکولس کے سکول پر حملے کے ارادے کی تفصیلات منظرِ عام پر آنے کے بعد انتظامیہ کا کہنا تھا کہ ’ہم یہ یقین دہانی کروانا چاہتے ہیں کہ کیمونٹی کی حفاظت، دیکھ بھال اور سکول کے طلبا اور ملازمین کی خوشی ہماری ہمیشہ پہلی ترجیح ہو گی اور ہم اس پر کبھی سمجھوتا نہیں کریں گے۔‘

لوٹن
BBC
نکولس اپنے پُرانے پرائمری سکول پر فائرنگ کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے

’سکول کی سکیورٹی پر ہمیشہ نظرِ ثانی اور اس کی نگرانی کی جاتی ہے۔ اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جو اقدامات ہم نے کر رکھے ہیں وہ مؤثر ہیں۔‘

اب تک یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ نکولس کے رویے پر پہلے سوالات اُٹھائے گئے ہیں یا نہیں، یا پھر انھیں تعلیم یا صحت کے حوالے سے ماضی میں اضافی مدد دی جا رہی تھی یا نہیں۔

لوٹن کونسل میں لیبر رہنما ہیزل سمنس کا کہنا ہے کہ ’جب ہمیں علم ہوا کہ نکولس ان بےہیمانہ قتل کے بعد مزید نقصان کرنا چاہتے تھے تو یہاں ایک صدمے اور تشویش کی کیفیت تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ انھیں سکول کے بچوں کے کچھ والدین کی جانب سے تشویش بھرے پیغامات بھی ملے ہیں۔

ہیزل کے مطابق انھیں نہیں معلوم کہ لوٹن کونسل کو نکولس کے خاندان کو درپیش کسی مسئلے کا کوئی علم تھا یا نہیں۔

اس واقعے کے بعد لوٹن میں تمام سکولوں کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنی سکیورٹی پر نظرِ ثانی کریں۔

نکولس کو اگلے ہفتے سزا سُنائی جائے گی اور اس دوران ان کے حوالے سے مزید معلومات بھی منظرِ عام پر آئیں گی۔ تاہم جو بات واضح ہے وہ یہ کہ ان کے عمل نے ایک خاندان کو تباہ کر دیا ہے۔

بیڈفورڈ شائر کے چیف انسپیکٹر سیم کھنہ کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک المناک مقدمہ ہے جس میں ایک ہی خاندان کے تین معصوم افراد اپنے ہی بیٹے اور بھائی کے ہاتھوں قتل ہوئے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.