مریم نواز کی تصاویر سے بھرے اخبارات کی اشاعت پر تنقید: ’خبر کے نام پر تشہیر بددیانتی ہے‘

مختلف اخبارات کے صفحہ اول پر لیڈ سٹوری ہو یا سپر لیڈ، سرخی اور شہہ سرخی اوپر سے نیچے تک وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے صوبے میں اعلان کردہ حکومتی اقدامات اور منصوبوں کے متعلق تفصیلات تقریباً ایک ہی انداز میں شائع کی گئیں تھیں جس نے قارئین کو چونکنے پر مجبور کیا۔

25 جنوری کی صبح سویرے پاکستان کے تقریبا تمام اہم اور بڑے اردو اخبارات کے صفحہ اول پر شائع ہونے والی ’خبریں‘ قارئین کی توجہ کا محور بن گئیں جب بنا زبر، زیر اور پیش کے فرق سے ایک ہی انداز میں پنجاب حکومت کی ایک سالہ ’کارکردگی‘ اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے اعلان کردہ صوبائی منصوبوں کے متعلق انھیں خبریں پڑھنے کو ملیں۔

مختلف اخبارات کے صفحہ اول پر لیڈ سٹوری ہو یا سپر لیڈ، سرخی اور شہہ سرخی اوپر سے نیچے تک وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے صوبے میں اعلان کردہ حکومتی اقدامات اور منصوبوں کے متعلق تفصیلات تقریباً ایک ہی انداز میں شائع کی گئیں تھیں جس نے قارئین کو چونکنے پر مجبور کیا۔

اور پھر عقدہ کھلا کہیہ اخبارات کا آپس میں اتحاد یا بھائی چارے کی کوئی مثال نہیں بلکہ یہ پنجاب حکومت کی ’کارکردگی‘ سے متعلق تشہری مہم ہے جس میں اخبارات کے صفحہ اول پر مکمل صفحے کے اشتہار کو ایسے پیش کیا گیا تھا جس پر بیشتر اخبار بینوں کو صفحہ اول کی خبروں کا گمان ہوا۔

اور یوں یہ اشتہار دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر صارفین کا موضوع بحث بن گیا اور کئی قارئین یہ سوال کرتے دکھائی دیے کہ خبر کی صورت میں اشہار پیش کرنے کے ’گمراہ کن‘ انداز پر صحافتی اخلاقیات کیا کہتی ہیں۔

ویسے تو جرنلزم یا صحافت کا اصول ہے کہ خبر کو سادہ لکھا جائے جو ایک عام شخص کو بآسانی سمجھ میں آ سکے اور یہ بھی کہ ایک عام شخص بھی خبر اور پیڈ کانٹینٹ یا اشتہار میں فرق کو سمجھ جائے۔

تاہم سوشل میڈیا پر بحث میں سامنے آنے والے سوالات کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ہم نے صحافتی تنظیموں اور اداروں سے بات کی اور پنجاب حکومت کا موقف بھی جانا کہ آخر عوام کی جانب سے قرار دیے جانے والے’مس لیڈنگ‘ اشتہار کے پیچھے ان کا مقصد کیا تھا۔

سینسر شپ کا دور اور خالی صفحات شائع ہونا

پی ایف یو جے اور آر آئی یو جے کی سابق عہدیدار فوزیہ شاہد سے جب بی بی سی نے اس اشتہار سے متعلق سوال کیا تو انھوں نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اسے صحافتی اقدار کے منافی قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کی تشہری مہم پر صحافتی تنظیموں کو سخت موقف اپنانا چاہیے۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک وقت وہ تھا کہ جب 80 کی دہائی میں حکومتی سرپرستی میں سینسر شپ ہوئی تو اخبارات نے مزاحمت کرتےہوئے خبریں نکال کر ’خالی صفحات‘ شائع کیے یعنی وائٹ صفحات رہنے دیے ۔ وہ بھی جرنلزم تھا اس کو کمائی کا ذریعہ نہیں سمجھا جاتا تھا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ آج جب کہ میڈیا ایک صنعت کا شعبہ بن گیا ہے اور یہ قابل مذمت ہے کہ آپ قاری کو ورغلا رہے ہیں اور اسے گمراہ کر رہے ہیں۔

انھوں نے دعوی کیا کہ ’سب سے زیادہ فیک نیوز ہی سرکار کی طرف سے آتی ہیں جس میں سب اچھا ہے کہا جا رہا ہوتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اشتہار معلومات نہیں بلکہ ایک فریق کا دعویٰ ہوتا ہے اور یہ جو ٹرینڈ آیا ہے جس میں آپ خبر کے نام پرقاری کو ورغلا رہے ہیں اس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے اور صحافتی تنظیموں کو اس پر سٹینڈ لینا چاہیے۔ کیونکہ میں اس کو بددیانتی سمجھتی ہوں۔‘

جب ان سے سوال کیا گیا کہ اس حوالے سے صحافتی ضابطہ اخلاق کیا کہتا ہے تو فوزیہ شاہد نے کہا کہ دنیا میں یہ اصول ہے کہ فرنٹ پیج پر اشتہارات کم سے کم ہوں تاکہ زیادہ سے زیادہ خبریت پہنچائی جا سکے۔ اس میں اشتہارکا کانٹینٹ نہیں ہونا چاہیے۔

’ضابطہ اخلاق کے تحت یہ طے ہے کہ کسی بھی اخبار میں کوارٹر پیج سے زیادہ اشتہار نہ ہو ماسوائے 14 اگست، بانی پاکستان محمد علی جناح کی سالگرہ یا کوئی بڑا ایونٹ ہو تو اشتہار بڑا دیا جاتا تھا۔‘

ان کے مطابق ’خبروں کی صورت میں مکمل فرنٹ پیج پر اشتہار کی مثال ماضی میں دیکھنے میں نہیں آئی گو کہ اشتہارات اس سے پہلے بھی آئے مگر اس کا فارمیٹ خبر کا نہیں ہوتا تھا۔‘

’جُلی حروف میں کہیں اشتہار لکھتے تو مناسب ہوتا‘

اشتہارات
Getty Images

یاد رہے کہ اخبارات میں سرکاری یا نجی کمپنیوں کے حق میں خبریں لگوانا یا تجزیے لکھوانا کوئی نئی بات نہیں۔ کمرشل اشتہاروں کی صورت میں تو ایسی مثالیں بارہا دکھائی دیں اور حکومت کی جانب سے اپنی کارکردگی کا اشتہار اور شہہ سرخیاں لگوانے کی مثالیں بھی ماضی میں موجود ہیں تاہم صفحہ اول پر خبروں کی صورت میں اشتہار لگنے کو صارفین گمراہ کن قرا دے رہے ہیں۔

خبر کی شکل میں کم و بیش تمام بڑے اردو اخبارات میں چھپنے والے پنجاب حکومت کے اس اشتہار کی بابت آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی کے سیکریٹری جنرل سرمد علی نے بی بی سی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسے اشتہارات کو ایڈورٹوریل کہا جاتا ہے۔

ساتھ ہی انھوں نے دعویٰ کیا کہ خبروں کے انداز میں اشتہار اس سے قبل بھی آتے رہے ہیں اور 2013/2014 میں بھی ایسا ہو چکا ہے۔

یاد رہے کہ ایڈورٹوریل(advertorial) ایسے اشتہارات کو کہا جاتا ہے جس میں خبر کے انداز میں کسی پروڈکٹ یا چیز کی مارکیٹنگ کی جائے۔

ایڈورٹوریل کی تعریف کے مطابق یہ ایک پیڈ یعنی بامعاوضہ اشتہار ہوتا ہے جو کہ خبر، مضمون یا بلاگ کی صورت میں ادارتی مواد کے طور پر ظاہر ہوتا ہے اور اس کا مقصد کسی برانڈ، پروڈکٹ یا سروس کی تشہیر کرنا ہوتا ہے ۔

سرمد علی نے کہا کہ ہر اشتہار کے اوپر اس کا ایک کوڈ اور نمبر لازمی لکھا ہوتا ہے جو انٹرنیشل پریکٹس ہے اور یہی منگل کے روز چھپنے والے اشتہار میں بھی لکھا گیا ہے۔ اس کوڈ کے بغیر کوئی سرکاری اشتہار نہ ہی ریلیز ہوتا نہ شائع۔

بغور دیکھنے پر اشتہار میں نیچے کونے پر یہ کوڈ اور نمبر موجود نظر آتے ہیں۔

مگر اس کوڈ کو عام قاری سمجھ نہیں سکتا اور وہ پہلی نظر میں کیسے اس میں فرق کرے کہ خبر کے انداز میں مکمل صفحے پر چھپی یہ خبر نہیں بلکہ سرکاری اشتہار ہے؟

بی بی سی کے اس سوال کے جواب میں سرمد علی نے تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ’بلاشبہ اگر اس میں کہیں جلی حروف میں لکھا ہوتا کہ یہ اشتہار ہے تو مناسب ہوتا اور اس طرح پڑھنے والے الجھن سے بچے رہتے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان اشتہارات کی تین قسمیں ہوتی ہیں جن میں ایک قسم ایڈورٹوریل ہے جس کے تحت مذکورہ اشتہار چھپا جبکہدیگر دو قسموں کے نام ریڈر ایڈورٹائزمنٹ اور نیوزسٹائل ایڈورٹازمنٹ ہیں اور روز مرہ کے اشتہارات ان دو پیٹرنز پر ہی زیادہ تر شائع کیے جاتے ہیں۔

خبروں کے انداز میں اشتہار
Getty Images
سرمد علی کے مطابق خبروں کے انداز میں اشتہار اس سے قبل بھی آتے رہے ہیں اور ماضی میں بھی ایسا ہو چکا ہے

’میں نے اپنی چیف منسٹر کی کارکرگی پیش کی جو آن گراؤنڈ ہے‘

اس حوالے سے جب پنجاب حکومت کی وزیر اطلاعات اعظمی بخاری سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ یہ الزامات غلط ہیں۔

اعظمی بخاری نے ’صوبائی حکومت کی کارکردگی کے اشتہارات کو خبر کی صورت میں پیش کرنے اور اس پرعوامی حلقوں کی جانب سے ہونے والی تنقید سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اس اشتہار کو ’قارئین تنقید کا نشانہ نہیں بنا رہے بلکہ ایک سیاسی جماعت جس نے کارکردگی کے بغیر یہ سب کیا تھا، وہ تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔‘

اعظمیٰ بخاری نے اس اشتہار کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’جو منصوبے آن گراؤنڈ موجود ہیں اور لوگوں کو سہولیات مہیا کر رہے ہیں اور ان کی ایک طویل فہرست ہے تو اس پر بات کرنا اور معلومات فراہم کرنا مقصد ہے اور انفارمیشن دینا میرا کام ہے مجھے ان کی تنقید سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’جھوٹی خبریں شائع کروانا اور جو منصوبے گراؤنڈ پر موجود نہیں بلکہ صرف کتابوں میں ہوں اس پر بات کی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ گمراہ کن ہیں لیکن یہاں ایسا نہیں ہے۔‘

انھوں نے اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مخالف پارٹی کے لوگ جن میں سے اکثریت سمندر پار بیٹھی ہے ان کو اس پر اعتراض ہے اور وہ تنقید برائے تنقید کر رہے ہیں۔‘

صوبائی وزیر اطلاعات نے دعویٰ کیا کہ ان (پی ٹی آئی) کے اپنے دور میں سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی جو کارکردگی تھی اور جس کو عمران خان سمیت ان کی جماعت اور پورا پاکستان کہتا رہا کہ اچھی کارکردگی نہیں تھی اس کے اوپر یہ بغیر کسی کارکردگی کے اشتہاری مہم چلاتے رہے۔

’مریم نواز نے تو جو منصوبے شروع کیے اس میں سے بہت سے منصوبے مکمل ہو گئے ہیں تو انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کا کام ہی یہ ہے کہ لوگوں تک ان کی کارگردگی کو پہنچائیں۔‘

اعظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ ’میں نے اپنی چیف منسٹر کی پرفارمنس پیش کی باقی صوبائی حکومتیں بھی اپنے چیف منسٹرز کی کارکردگی سامنے رکھیں۔‘

’جب قانون بنانے والے ہی اسے توڑیں گے تو قانون پر عمل کون کرے گا‘

پنجاب حکومت کی ایک سال کی کاردگی پر شائع اس خبر نما اشتہار پر منگل کے روز سے شروع ہونے والی تنقید کا سلسلہ تاحال تھما نہیں بلکہ اس پر بحث کا سلسلہ آج دوسرے روز بھی جاری ہے جب متعدد اردو اور انگریزی اخبارات نے 60 صفحات کے خصوصی ضمیمے شائع کیے گئے اور پنجاب حکومت کی یہ اشتہاری مہم قارئین کی جیب پربھی’بھاری‘ پڑی ہے۔

حسن ظہیر نامی سوشل میڈیا صارف نے اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’آج اخبارات نے 30 روپے کا اخبار 50 روپے میں فروخت کیا ہے اور اس میں مریم نواز کی تشہری مہم کا ضمیمہ بھی شامل ہے، جب حکومت سے ان اخبارات کو اضافی رقم مل رہی ہے تو یہ عام صارف کی جیب پر کیوں بوجھ ڈال رہے ہیں؟‘

صحافی زاہد گشکوری نے اس اشتہاری مہم پر سوال اٹھاتے ہوئے لکھا کہ ’یہ پیکا قانون 2025 کے تحت ایک فٹ کیس کی طرح لگتا ہے۔ یہ مجرمانہ غفلت، نااہلی، بڑے پیمانے پرعوام کو گمراہ کرنے، حقائق کے خلاف، غلط اور گمراہ کن اشتہارات ہیں جو میڈیا اخلاقیات کی خلاف ورزی کا سنگین معاملہ ظاہر کر رہے ہیں۔ جب قانون بنانے والے اسے توڑیں گے تو قانون کی پیروی کون کرے گا؟

نجم ولی خان نامی ایک اور صارف نے طنزاً لکھا کہ ’دلچسپ آئیڈیا ہے کہ آج پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کے حامی بھی ملک بھر میں جو بھی اخبار اٹھائیں گے، وزیر اعلیٰ مریم نواز کے ہی کارنامے پڑھیں گے مگر اس سے بھی زیادہ تو کل 26 فروری کو کچھ خاص ہونے والا ہے کہ آپ پڑھتے پڑھتے تھک جائیں گے مگر۔۔۔‘

جی یقینا نجم ولی خان کا اشارہ بدھ کے روز چھپنے والے ضمیموں کی جانب ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.